میر انیس اور ہندوستانی تہذیب:تنقیدی تجزیہ

0
1284

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: ابراہیم اعظمی

مرثیہ کی جائے پیدائش دکن کو شمار کیا جاتا ہے ۔دکن کے شعراء نے اس صنف میں خاص توجہ دی ۔ابتدائی ایام میں مرثیہ علاقہ دکن کے کچھ خاص علاقوں میں لکھا اور پڑھا جاتا تھا ۔سرزمین بیجاپور اور قطب شاہی سلطنت کے خطہ گولگنڈہ میں اس صنف کو سراہا گیا ۔لیکن اس صنف شاعری کو بالخصوص شمالی ہندوستان میں فروغ حاصل ہوا ہے ۔اب تک کی تحقیق کے مطابق اس میدان میں میرتقی میر اور مرزا محمد رفیع سودا نے مل کے اسے جلا بخشی ۔اور اسے اتنی تقویت حاصل ہوئی ،غزل اور قصیدے کو وہ مقام نہیں ملا ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ دکن نے اس صنف شاعری کی بنیاد ڈال کر چھوڑ دیا تو شمالی ہند میں لکھنؤ کا علاقہ اس کی آماجگاہ بنی ۔

رثائی ادب کے حوالے سے لکھنؤ کی جو شناخت ہے وہ ناقابل فراموش ہے ،ابتدائی مراحل میں شعراء کی مختصر تعداد ہونے کے باوجود اس صنف سخن کوبلند مقام عطا کیا ۔اردو دنیا میں ادبی شاعری کے حوالے سے اس کی ترقی و ترویج کی اگر بات کی جائے تو اردو مرثیہ نے بری اہم خدمات انجام دی ہیں ۔

مرثیہ نے اردو میں جو رنگ اختیار کیا اوہ اردو شاعری میں جدت قرار پائی ۔دیگر ہندوستانی زبانوں جیسے عربی اور فاری میں ایسی کوئی صنف موجود نہیں ہے ۔بعد کے زمانے میں دہلی اور لکھنو کے علاقوں میں اردو شاعری کو جو تقویت وہ ہندوستان کے کسی اور علاقہ میں نہیں ملی ۔ابتداء میں قصیدہ نے اپنا مسکن دہلی کو بنایا تو ،مرثیہ نے لکھنو اپنا گہوارہ بنالیا ۔چنانچہ اس سلسلے میں جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے میر تقی میر ؔ،مرزا محمد رفیع سودا،غالب ،چکبست ،میر ؔ ضمیر،میر خلیق،میر حسن ،میر انیس ، میر زاد بیر ،حسن ،اور متحسن وغیرہ نے اس صنف سخن کو ابتداء سے ارتقائی منزل تک پہونچایا۔

یہ بھی پڑھیں

میرتقی میرؔ کے فارسی کلام کی عصری معنویت

مرثیہ کے حوالے سے کم و بیس ہر عہدکی تہذیب وثقافت اور معاشرت کا مطالعہ بڑی آسانی سے کیا جا سکتا ہے ۔ہر عید کے مرثیوں میں ادبی ،معنوی ،فکری ،اور فنی نقوش واضح طور پرنمایاں نظر آتے ہیں ۔اردو مرثیے نے ہمیشہ زبان و ادب میں نئے نئے اسالیب اور انسانی زندگی کو تحرک و تجسس کا جذبہ عطا کیا ہے ۔شعرو ادب میں ایسے واقعات زیا دہ اہمیت کے حامل ہیں ۔جو انسان کی اجتماعی زندگی پر براہ راست اثر اندز ہوتے ہیں ۔واقعات کربلا جو محض تخیلی داستان نہیں بلکہ اس واقعہ میں اعلی

انسانی اقدار ملتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ تاریخی واقعات کی بہ نسبت واقعہ کربلا انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں ،

اس سلسلے کی ایک کڑی میر انیس ہیں ۔میر انیس میر خلیق کے بیٹے اور میر حسن کے پوتے تھے ۔مرثیہ نگاری ہی نہیں بلکہ اردوشاعری انھیں رواثت میں ملی تھی ۔انیس کی شاعری کاآغا ز غزل گوئی سے کیا۔لیکن خاندانی وراثت میںملی شاعری نے انیس کو بہت جلد مرثیے کی طرف رغب کردیا ۔چونکہ مرثیہ لکھنا اور پڑھناانیس کے خاندان کا ذاتی مشغلہ تھا ۔جو ا ٓگے چل کر میر انیس کے لئے اصل فن ٹھہرا ۔میر انیس مرثیہ لکھنے میں ماہر نہیں تھے بلکہ مرثیہ پڑھنے میںماہر تھے ۔لکھنو میں مرثیہ کے حوالے سے جن ہم مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ میر انیس نے اپنے مرثیوں میں بلند خیالی کے ساتھ ساتھ انداز بیان کی بلند پروازی کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہو گئے ۔

میر انیس کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی قادر الکلامی ہے ۔انکے مرثیوں میں مختلف قسم کے مضامین دیکھنے کو ملتے ہیں ۔جن سے نازک سے نازک کیفیات کی ترجمانی ہوتی ہے ۔اس جذبے اور کیفیت کو اتنے خوبصورت اسلوب میں ادا کرتے ہیں کہ اس سے بہتر تصور نہیں کیا جا سکتا ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج بھی ہمارے لبوں پر اردو مرثیے نا م آتے ہی ہماسے ذہن میں خدائے سخن میر انیس کا نام سر فہرست نظر آتا ہے ۔محسوس ہوتا ہے کہ مرثیہ اور میر انیس آپس میں لازم و ملزوم ہیں جنھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ایک بغیر دوسرے کو صحیح معنوں میں سمجھا جا سکتا ہے۔وہ اپنے مرثیوں میں وزن ،قافیہ ،ردیف کی قیدوں کو اس طرح قائم کرتے ہیں کہ شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔

میر انیس اپنی قادرالکلامی سے اسے اتنا آسان کردیتے ہیں جن میں فطری بے ساختگی اور حسن ترتیب ہے ۔ان کے کلام میں شاعری کے لوازمات اور متعلقات سے لے کر محاسن وکمالات کے مداح بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں ۔انیس کے مرثیوں میں کہانی ،بیانیہ ،پیکر تراشی ،منظر کشی اور فصاحت وبلاغت کے اوقاف و رموز کے ساتھ ساتھ آئینہ فطرت ،جمالیاتی حسن اور معنویت کے عناصر جا بجا نظر آتے ہیں ۔تشبیہات واستعارات میں ان کو مہارت حاصل ہے اس لئے کہ جتنی نازک اور لطیف تشبیہیں ان کے مرثیوں میں ملتی ہے کسی اور اردوشاعر کے کلام میں نہیں ملتی ہیں ۔مرکب تشبیہو ں کے استعمال کی وجہ سے ان کے مرثیے خصوصیت کے حامل ہیں ۔مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیں ۔ ؎

نمل ہوا جنگ کو اللہ کے پیارے نکلے
ائے فلک دیکھ زمین پر بھی ستارے نکلے

انیس نے مرثیوں میں موضوع اور نقطہ نظر کے سامنے رکھتے ہوئے حسب ضرورت ایسی فضا تیار کی ہے جس کو پڑھتے ہوئے فورا ذہن اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے ۔

یوں برچھیاں تھین چاروں طرف اس جناب کے جیسے کرن نکلتی تھی گرد آفتاب کے منظر نگاری شاعری کا وہ خاص حصہ ہے جو انسانی ذہن و دل پر سب سے پہلے اثر چھوڑتا ہے ۔جو قاری یا سامع کو بہت دیر تک اپنے حصار میں قید تررکھتا ہے ۔انیس نے اپنے مرثیوں میں صبح ،دوپہر ،شام ،سردی ،گرمی ،بہار ،آندھی ،طوفان ،صحرا ،گرودغبار وغیرہ جیسے مناظر کو بے حد لطیف انداز میں پیش کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر یہ بند دیکھیں ۔ ؎

وہ دشت وپ نسیم کے جھنوکے وہ سبز زار
پھولوں پہ جا بجا وہ گہر آئے آبدار
اٹھناوہ جھوم جھوم کے کے شاخوں کا بار بار
بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار
خواہاں تھے زیب گلشن زہرا جو آپ کے
شبنم نے بھر دئے تھے کٹورے گلاب کے

در حقیقت مرثیہ کا تعلق ایسے تاریخی واقعے سے تھا جس کی وجہ سے اس میں مختلف مضامین کی گنجائش نکل آئی ۔اس جن مضامین کو اس میں فروغ حاصل ہوا ،ان میں منظر نگاری ،واقعہ نگاری ،رزمیہ نگاری ،جذبات نگاری ،سیرت نگاری اور مذہب و اخلاق و غیرہ قابل ذکر ہیں۔

نایس کے مرثیوں میں ان مضامین کو بہت خصوصی اہمیت حاصل ہے جن میں انداز بیان ،فصاحت و بلاغت کا ایک بلند معیار ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے ۔لیکن ان کے فن کی عظمت اس کے معنوی پہلو سے ہوتی ہے بقول علامہ شبلی :۔۔

’’میر انیس کے کلام میں الفاظکی بلاغت اگر چہ کہ انتہائی درجہ کی ہے ۔لیکن ا ن کے کمال کا اصلی معیار نہیں ہے ،ان کے کمال اصلی جوہر تو معانی کی بلاغت میں کھلتا ہے ‘‘
( ،موازنہ انیس ودبیر ۔شبلی نعمانی ۔ص ۹۲)

میر انیس نے اپنے ،مرثیوں میں جو فطری منا ظر کی تصویر کھینچی ہے اس میں خاص جگہ کا خیال نہیں رکھا ہے ،بلکہ ان کا میلان مثالیت پسندی کی طرف ہے ۔چنانچہ ان کے مرثیوں میں کہیں کہیں مناظر فطرت کا کا خوبصورت منظر دیکھائی دیتا ہے ۔،مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیں : ؎

کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا ۔

مرثیہ کے حوالے سے پروفیسر عباس رضا نیر ایک جگہ پر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں :
’’کم و بیش ہر عہد کے تہذیب و تمدن اور معاشرت کا مطالعہ بڑی آسانی سے کیا جاجاسکتا ہے ۔صنف مرثیہ کو کسی خاص طبقہ سے منسوب یا مخصوص کرنا یا صرف مذہبی گرداننا قطعا انصاف کے منافی ہے ۔مرثیہ ہر زمانے میں اپنی ادبی معنوی فنی و فکری نقوش واضح طور پر چھوڑے ہیں ،اردو مرثیہ نے زبان و ادب میں نئے نئے اساکیب اور انسانی زندگی کو متحرک اور تجسس کا جذبہ عطا کیا ہے ‘‘
(کلام انیس میںہندوستانی تہذیب و ثقافت ۔مشمولہ مضمون ادبی نشیمن ،شمارہ جوں ۲۰۲۳)

ا س اقتباس کو پیش نظر اگر ہم مرثیہ کے خدو خال کی بات کرتے ہیں تو اس ضمن میں میر انیس نے دو قسم کے مرثیے لکھیں ۔ایک رزمیہ اور دوسرا بزمیہ واقعات پر مشتمل ہوتا ہے ۔رزمیہ مرثیہ میں اس علاقے کی تہذیبی عناصر کو بھی پیش کیا جاتا ہے جنگ کامیدان اور کربلا کے واقعات کے ساتھ ساتھ اس شہر اور علاقے کی جو زبان رائج تھی اس کے بنیادی عنصر بھی میر انیس اپنے کلام میں پیش کرتے ہیں ۔

اردو مرثیے میں تہذیب کے حوالے سے اگر ہم مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات کھ کر سامنے آتی ہے کہ مرثیہ کے ارتقاء میں داخل تہذیب و تمدن کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دکن،دہلی اور لکھنؤ یہ تین علاقے اپنی تہذب کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور و معروف ہیں ۔اردو ادب میں یہی وہ علاقے ہیں جن میں اپنی تہذیب و ثقافت سے لبریز ادبی ذخیرے چھوڑے ہیں ۔دکن کا علاقہ اس کا بڑا کینوس ہے گوکنڈہ ،بیجا پور ،اور بیدر اس کا پورا سلسلہ ولی دکنی اور سراج اورنگ آبادی تک ملتا ہے ۔اس کے بعد دہلی میں اردو جوان ہوتی ہے لیکن لکھنومیں اس کی نوک پلک سنواری جاتی ہے ۔اس تہذیب کا اگر عملی ثبوت ملتا ہے تو وہ لکھنو کا علاقہ ہے اور لکھنو کا لسانی معاشرہ اس کی نمائندگی کرتا ہے ۔

ہر زبان کا اپنا لسانی معاشرہ بھی ہوتا ہے ۔جو زبان جہاں کی ہے وہیں کے محاوروں کے ساتھ بولی جاتی ہے ۔ان کے ترکیبوںکے ساتھ بولی جائے گی ۔اور میرانیس وہی زبان کے لے فیض آباد سے لکھنوآئے تو لکھنؤ واکے چیں بہ جبیں ہوتے ہیں اوور کہتے ہیں اجازت دیں یہ لکھنو کی زبان نہیں ہے ،یہ میر انیس کے گھر کی زبان ہے ۔عباس رضا نیر ایک دوسری جگہ پر لکھتے ہیں :

’’لکھنو میں میر انیس اپنے بیٹھے میر نفیس سے کہتے ہیں : صاحب زادے اہل لکھنو ایسے نہیں بولا کرتے ،یہ جو تہذیب ہے یہ ماوں اور بہنوں سے بنتی ہے یہ کربلا کی جو تہذیب ہے جس کو پیش کرنے کا کام ماوں اوبہنوں کی تربیت کے ذریعہ اگلی نسلوں سےکیسے منتقل کرتی ہے ::
(کلام انیس میںہندوستانی تہذیب و ثقافت ۔مشمولہ مضمون ادبی نشیمن ،شمارہ جوں ۲۰۲۳)

جس تربیت کی ہم بات کررہے ہیں وہ مرد سے زیادہ خواتین کرداروں کے ذریعہ واقعات کربلا مین سامنے آتی ہے ،اور جو بیگماتی زبان اودھی زبان سے تشکیل پاتی ہے اور ہی زبان میر انیس کی زبان ہے جانب زینب کی جولفظیات ہیں اس پر میر انیس کے فکشن کو پوری طرح سے سجا سنوار کر پیش کیاہے ۔جو ہماری بیگماتی زبان کہلائی ،حضرت زینب حضرت علی اکبر کے لاشے پر کس طرح سے بین کرتی ہیں ؎ ائے ہے نہ تیرا بیاہ رچا ناہوا نصیب

ائے ہے دلہن نہ بیاہ کے لانا ہوا نصیب
پوتے کو گود میںنہ کھلانا ہوا نصیب
شادی کے بدلے خاک اڑانا ہوا نصیب
ندی لہو کی چاند سی چھاتی سے بہہ گئی
بہنوں کی نیگ لینے سے حسرت ہی رہ گئی

میر انیس نے ہندوستانی روایتو ں میں پوتے کو گود میں کھلانے کی بات اور بہنوں کو نیگ لینے کی بات کوکتنی خوبصورتی سے بیان کیا ہے

ہنس ہنس کے اب یہ مائیں دولہا کسے بنائیںگی
واری جواب دو اب دولہن کس کی آئے گی
اب سالی کس کے ہاتھ میں مہندی لگائے گی
ماں بیاہنے کو دھوم سے اب کس کو جائے گی
ستی میری اجڑ گی ویرانہ ہو گیا
یٹھوں کہاں پہ گھر تو عز خانہ ہو گیا

ہندوستانی تہذیب کے حوالے سے میر انیس نے اپنے مرثیوںمیں لفظی جزیات کا استعمال بڑے منفرد انداز میں کیا اس کا سب سے بڑ ثبوت یہ ہے کہ انہوںنے کربلا کا کے واقعات میں رونما ہوئے تما م چھوٹے بڑے حادثات کو اپنے الفاظ کا جامہ پہنایا ہے مثال کے طور پر یہ اشعار دیکھیں :

یوں بر چھیاں تھیں چاروں طرف اس جناب کے
کے جیسے کرن نکلتی ہو گرد آفتاب کے
تن تن کے کاندھیں پہ رکھے بچوں نے بھالے
ماں تکتی تھی ہاتھوںسے کلیجہ کو سنبھالے
لڑکوں جو بھاگی ہیں فوجیں منھ پھیر پھیر کے
ہاتھی بھی مار ڈالا ہے بچوں نے چیر کے

میر انیس کے مرثیوں میں واقعات تسلسل کے ساتھ ملتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انیس کے مرثیوںمیں داستان نگاری کی کیفیت نمایاں ہوتی ہے ۔داستانگاری کو صنف مثنوی کے لئے سب سے موزوں سمجھا گیا گیا ہے اور انیس نے اس صنف کو اپنے مرثیانہ انداز میں منظم طریقہ سے پیش کیا ہے ۔انہوں نے اکثر تاریخی واقعات کو روایتی واقعات سے جوڑ کر اپنا موضوع تیار کیا ہے ۔

منظرنگاری ،واقعہ نگاری ،اور رزمیہ نگاری کاتعلق مادی اشیا ء سے ہے اس میدان میں میر انیس نے جو بلا غت صرف کی اس سے کائنات اور انسانی زندگی کے خارضی پہلووں کا گہرا مطالعہ اور نقط شناسی پوری طرح ظاہر کرتا ہے ۔خارجی مظاہر کی جیتی جاگتی تصویر پیش کردینا آسان کام نہیں ہے لیکن زندگی کے داخلی پہلووں کی عکاسی اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے ۔اس کے لئے شاعر کو مشاہد مطالعہ کے ایک نئی دنیا یعنی جذبات و احساسات کی دنیا میں قدم رکھنا پرتا ہے ۔اورمیر انیس فطرت انسانی کے ایک بہت بڑے راز دار ہیں ۔وہ خون جانتے ہیں کہ کس موقع پر کس قسم کے جذبات کس درجہ تک آدمی کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ۔میر انیس نے عام طور پر اقتضائے حال ،حفظ مراتب اور جذبات کے درجات و تناسب اور ربط و تسلسل کا ایسا خیال رکھا ہے کہ جذبات نگاری میں ان مرثیوں کا پایا بہت بلندہو گیا۔

میر انیس نے اپنے مرثیوں میں استعارہ اور علامتیں اس قدر استعمال کی ہیںجس طر ح سے اردو غز ل میں تشبیہات و استعارات مستعمل ہیں ۔یہ وہ تشبیہات و استعارات ہیں اس قبل اردو مرثیہ میں کسی نے استعمال نہیں کیئے ہیں ۔میر انیس اردو زبان و ادب اور اردو مرثئی کی مناسبت سے وہ اہم نام ہے جو جسے ہندستانی تہذیب کا عظیم ستون تسلیم کیا گیا ہے ۔یہ اشعار دیکھیں : ؎

چلنا وہ باد صبح کے جھونکو کا دم بدم
مر غان باغ کی وہ خوش الحانیہ بہم
وہ آب و تاب نہروں کا وہ موج کا پیچ و خم
سر دی ہو امیں پر نہ زیادہ بہت نہ کم

میر انیس کے مرثیوںمیں کردار نگاری کا کمال بھی موجود ہے ،انہوں نے ممتاز شہسوار کربلا کے کرداروں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ۔کردار نگاری میں میر انیس نے شک و صورت اور وضع قطع کے بیان سے لے کر ان کے گفتگو کا طریقہ وغیر بہت مناسب اندزمیں بیان کیا ہے ۔ان کے مرثیوں میں اخلاق کا درس بھی موجود ہے ۔چونکہ میر انیس اپنے مرثیوں میں اخلاقی عظمت کو بہت کامیابی کے ساتھ سمونے کی کوشش کی ہے اس معاملے میں وہ ایک بہتر فنکار ابھر کر سامنے آتے ہیں ۔انہوں نے شہدائے کربلا کی کراداری جس اندازمیں کی ہے وہ ان کی حقیقی عظمت سے زیادہ قریب ہے ۔ان کے مرثیوں کا مطالعہ کرنے سے ہمارن اندر اسلامیات کا جذبہ ابھر کر سامنے آتا ہے ۔اسی محمد علی جو ہر نے کہا تھا کہ :: اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے کے بعد ‘‘
انیس کے مرثیوں کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مرثیہ کو ڈرامائی انداز میں لکھا ہے ۔جس طرح سے داستان ناول افسانہ میں ڈرامہ ہوتا ہے اسی طرح مرثیہ میں بھی ہوتا ہے ۔اس کے لئے کردار نگاری اور جذبات نگاری کا سہارا لینا پڑتا ہے اور میر انیس مرثیوں میں یہ عناصر کژت سے ملتے ہیں ۔انہوں نے واقعات اور انسانی افعال کا ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ اس میں ڈرامائی شان نظر آتی ہے ۔

انیس کا کلام زبان وبیان کے اعتبار سے جتنا فصیح ہے معنی کے اعتبار سے اتنا ہی بلیغ نظر آتا ہے ۔اور یہ کیفیت شاعری کے اصولوں کے بالکل قریب نظر آتی ہے بقول علامہ شبلی نعمانی :

’’ بلاغت کی پہلی شرط یہ ہے کہ کلام فصیح ہو ۔دونوں لازم و ملزوم ہیں ،جو کلام فصیح نہیں ہوگا وہ بلیغ بھی نہیں ہوگا ۔انیس کے کلام میں فصاحت و بلاغت کا ایک ناقابل تحلیل امتزاج ملتا ہے ‘‘
(موازنہ انیس و دبیر ۔شبلی نعمانی )

روئے ہیں فرقت شہ عالی جناب میں
نر گس کے پھول تیر رہے ہیں گلاب میں
چھ پ جائے جس سے دور کا ناطہ ہے صاحبو
دولہا دولہن کو لینے آتا ہے صاحبو
اولاد بھی پیاری ہے تو حضرت ہی کے دم تک
کہئے کہ بلائیں بھی نہ لوں سر سے قدم تک

میر انیس نے اپنے مرثیوں میں شاعری کے اسرار وموز کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن کو بیان کیا ہے ،اور کربلا کے واقعات کو استعارے طور پر استعمال کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ۔انسانی شعور میں آج بھی انیس کے مشاہدے کی باریک بینی غالب ہے۔یہ اردو شاعری کی خوش قسمتی ہے کہ انھیں میر انیس جیسا شاعر اس کے دامن میں موجود ہے جو زبان وا دب کے ہر محاذ پر ادب کی رہنمائی کرتا رہے گا ۔اس لئے کہ انہوںنے اپنی فنی کمالات کے جوجوہر دیکھائے ہیں وہ کسی اور مرثیہ نگار کے دامن میں نہیں ہیں ۔اگر چہ کہ بعد کے زمانے میں انھیں رجحان پسند کہا جانے لگا ۔لیکن جب بھی اردو مرثیہ کی بات آتی ہے تو اس میںسب سے پہلا نام میر انیس کا لیا جاتا ہے ۔

کتابیات ۔
۱۔ موازنہ انیس و دبیر۔علامہ شبلی نعمانی
۲۔ کلام انیس میںہندوستانی تہذیب و ثقافت ۔مشمولہ مضمون ادبی نشیمن ،شمارہ جوں ۲۰۲۳
۳۔ لکھنو کے شعرو ادب کا معاشرتی و ثقافتی پس منظر۔از ڈاکٹر سید عبد الباری
۴۔ غالب کے عہد میں لکھنوکے اشاعتی ادارے ۔از ڈاکٹر عمیر منظر
۵۔ رسالہ قومی زبان ۔انیس نمبر شمارہ ۲۰۱۸

mbile .9611954067

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here