سر و بہشت دکن، گوہر تاج سراج:حمایت علی شاعر

0
490

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


تخلیق: سیدہ تزئین فاطمہ

دبستان اورنگ آبادکو تخلیق کاروں کا شہرکہا جائے تو بے جا نہ ہوگاؤیہاں کی مٹی ادبی لحاظ سے بڑی زرخیز ثابت ہوئی ہے۔نظم ہو یا نثر دونوں اصناف میں اورنگ آباد سے کئی بے مثال صاحبان علم و کمال ابھر ے اوردنیائے ادب پر آفتاب بن کر چمکے،ان شخصیات کے لازوال ادبی کارنامے آج بھی اردو کے ماتھے کا بیش قیمتی جھومر ہے۔ایسے ہی باکمال افراد میں ایک شخص ایسا ہے جس کی شان میں راغب مراد آبادی بے ساختہ کہہ پڑتے ہیں۔

گُلِ باغِ اورنگ آباد میں
حمایت علی شاعرؔ خوش مزاج
مبارک’ کہ اے سرزمین دکن!
سزاوار عظمت ہیں مثل سراجؔ

حمایت علی شاعرؔ کامکمل نام میرحمایت علی اورتخلص شاعرہے۔حمایتعلی شاعرؔ۱۴ ؍جولائی ۱۹۲۶؁میں سرزمین اورنگ آبادکے مذہبی گھرانے میںپیدا ہوئے جوشاعری، ادب، سیاست سے کوسوں دورتھا۔ ابھی عمر محض ۳؍ برس تھی کہ والدہ لطف النسا بیگم کا انتقال ہوگیا ۔ آپ کے والدماجد نے آپ کی تربیت کی۔ دادی نے بصداصراروالدتراب علی صاحب کی شادی سیدنورالمقتدیٰ نقشبندی کی صاحبزادی حورالنساء سے کردی۔حمایت علی شاعر نے اپنی والدہ کی وفات اور دوسری والدہ کی شفقت کو اپنی منظوم خودنوشت’’ آئینہ در آئینہ‘‘ میں کچھ یوںبیان کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔۔۔

یہ بھی پڑھیں

چرب زبانی وبالِ مراسم

یہاں سے اس کوخدا نے بلالیاشاید
زمین سے اس کو فلک پراٹھالیاشاید
کبھی مجھے بھی بلالے تو پھر مزا آئے
یہاں پہ کون ہے جوماںکی طرح اپنائے

اور دوسری والدہ حوا النساء کے متعلق اپنے جذبات کی عکاسی یوں کرتے ہیں ۔۔۔

یہ دادی ماں کی فراست تھی یا مرامقسوم
ملی وہ ماں جوخود بھی ماں سے تھی محروم
سو مجھ کو میرے مقدر سے کچھ زیادہ ملا
جو مہربان ملا مجھ کو دل کشادہ ملا

حمایت علی شاعر نے ابتدائی تعلیم اورنگ آباد میں حاصل کی۔وہ نظام الدینؒ لائبریری سے کتابیںلاکرپڑھتے،کثرت مطالعہ، ادب نواز دوست اور بہترین استاتذہ سخن کی رہنمائی نے اُن کے ذوق شاعری کوجلا بخشی۔ حمایت علی نے محض ۱۴ سال کی عمر سے شعر کہنا شروع کردئیے تھے۔ حمایت علی شاعر نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۴۵ء؁ میں افسانہ نگاری سے کیا تب وہ دہم جماعت کے طالبعلم تھے۔ ان کا پہلا افسانہ’فلسفہ اورحقیقت ‘عنوان سے ماہنامہ ’نورس‘میں حمایت ترابی کے نام سے شائع ہوا تھا۔نظام الدینؒ لائبریری کے علاوہ حمایت علی شاعر نے پن چکی کی لائبریری ،عوامی لائبریری سے بھی استفادہ کیا۔برسوں سے بند بلدیہ لائبریری کو دوستوں کے ساتھ مل کر دوبارہ جاری کیا اور انجمن نوجوانان اورنگ آباد کا دفتر’ ادبستان‘ کے نام سے قائم کیا اوراس انجمن کے اراکین کے ساتھ مل کرکئی قلمی رسائل جاری کیے اور اسی انجمن کے تحت اورنگ آباد میں ’یوم اقبال‘منعقد کیا۔

یہ وہ دور تھا جب ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی،پچپن سے انقلابی و باغیانہ مزاج رکھنے والے حمایت علی شاعر کو اس تحریک نے کافی متاثر کیااور وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ اسی دوران اپنے دوست افتخار کی گرفتاری پر ’تاج کے زیر سایہ‘ جیسا انقلابی افسا نہ لکھا جس نے حمایت علی کے لیے نئی مشکلات کھڑی کردیں لیکن ان مشکلات نے حمایت علی کا حوصلہ پست کرنے کی بجائے مزید بلند کردیا۔۱۹۴۷ء؁میں ہندوستان آزاد ہوا۔ انگریز تو چلے گئے لیکن ان کی پالیسی’ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ نے مذہب کے نام پر ملک تقسیم کردیا۔ملک کے ابتر حالات حمایت علی کو بے چین رکھتے۔اسی دوران حمایت علی شاعراپنے ننھیالی رشتہ دار عبدالغفور صاحب کے پاس جالنہ گئے جہاںحمایت علی کی نظر ان کی بیٹی معراج نسیم پرپڑی۔پہلی نظر میں وہ شاعر کے دل میں گھر کرگئی اور چند سال بعد ۱۴؍فروری ۱۹۴۹ء؁ میں بالآخر شاعر نے اپنی محبت کو پالیا اور معراج نسیم دلہن بن کر ان کے آنگن میں اترآئی۔

حمایت علی نے اپنی محبت تو پالی لیکن وہ آسودگی نصیب نہ ہوئی جس کے وہ خواہاں تھے۔شاعر طالب علمی کے زمانے سے ہی ریڈیو(اورنگ آباد)سے وابستہ ہوگئے تھے پھر حیدرآباددکن ریڈیو سے منسلک ہوگئے اوراُن کی یہ ملازمت ۱۹۵۰ء؁ تک چلی۔ریڈیو کے علاوہ حمایت علی نے صحافت میں بھی اپنے جوہر دکھلائے۔،لیکن آخرکار وہ ۱۹۵۱ء میں پاکستان چلے گئے۔سابقہ تجربے کی بنیاد پرحمایت علی ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ ہوئے ۔اسی دوران حیدرآباد (سندھ) میں ریڈیواسٹیشن قائم ہواتو حمایت علی نے اپنا تبادلہ حیدرآباد (سندھ) میں کرالیا ، پاکستان آکر حمایت علی نے اپنی ادھوری تعلیم مکمل کی اور سندھ یونیورسٹی سے ایم اے(اردو) کی سند حاصل کی۔۷؍سال شاعر نے ریڈیو کو دئیے اور ۱۹۶۲ء میں ریڈیو کی ملازمت کو خیرآباد کہہ دیااور فلمی دنیا میں قدم رکھا۔بہ حیثیت ہدایت کار،مکالمہ نگار،نغمہ نگار،فلم ساز شہرت کی بلندیوں پر حکومت کی ۔فلمی دنیا میںکامیابیاں سمیٹنے کے بعد حمایت علی نے درس وتدریس کے پیشے کو اپنایا۔

حمایت علی شاعر نے کم عمری سے شاعری شروع کردی تھی،ریڈیو ملازمت سے پاکستان ہجرت اور قیام کے دوران ادبی حلقوں میں بحیثیت نوجوان شاعروہ اپنی پہچان بنا چکے تھے ۔۲۵ سال کی عمر میںحمایت علی کا پہلا مجموعہ کلام’’ آگ میں پھول‘‘شائع ہواجس نے بہت جلد ادبی حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔اس کے بعدکتابوں کا ایک سیل رواں نظرآتاہے۔شکست آرزو،مٹی کاقرض،تشنگی کا سفر،حرف حرف روشنی،ہارون کی آواز، چاند کی دھوپ ، تجھ کو معلوم نہیں (منتخب فلمی نغمات )،آئینہ در آئینہ(منظوم خودنوشت سوانح حیات) ، کلیات شاعروغیرہ آپ کے شعری مجموعے ہیں۔ شیخ ایاز( شخص اورشاعر)،شخص و عکس،کھلتے کنول سے لوگ (دکن کے اہل قلم)،حمایت علی شاعر کے ڈرامے، وغیرہ اُن کا نثری سرمایہ ہیں۔اس کے علاوہ نئی پود (نئی نسل کے اہل قلم کی تخلیقات کا تنقیدی جائزہ )،محبتوں کے سفیر ( سندھ میں اردو شاعری کے پانچ سو سال)،عقیدت کا سفر(نعتیہ شاعری کے سات سو سال ،تحقیق)،نقطہ نظر(تحقیقی اور تجزیاتی مضامین) وغیرہ شاعر کے تنقید و تحقیقی صلاحیتوںکا اعتراف نامہ ہیں۔تصنیفات کے ساتھ شاعر کو ملنے والے اعزازات و انعامات کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔

ایک جبرِ وقت ہے کہ سہے جارہے ہیں ہم
اور اسی کو زندگی بھی کہے جارہے ہیں ہم

حمایت علی شاعرفطرتاََ ایک حساس شاعر ہیںانہوں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اورجو کچھ دیکھا اسے اشعار کے قالب میں ڈھال دیا۔ اوراس خوبی سے بیان کیا ہے کہ وہ ذاتی غم نہیں بلکہ مشترکہ غم کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ قاری کوحمایت علی کے کلام میں اپنا غم دکھائی دیتا ہے وہ لکھتے ہیں۔۔۔

’’ میری شاعری کوآسانی سے تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔غم جاناں،غم وطن اور غم کائنات۔۔۔غم جاناں کے زمرے میں جو تخلیقات شامل ہیں ان میںیقیناً میرا ذاتی غم موضوع شعر ہے۔لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ میرا ذاتی غم میرا نجی غم بن کر نہ رہ جائے،بلکہ سماجی زندگی کے رشتے سے یہ موضوع غم مشترک کی حیثیت اختیارکرجائے۔‘‘

اس کے غم کوغم ہستی تو مرے دل نہ بنا
زیست مشکل ہے اسے اور بھی مشکل نہ بنا
دل کے ہر کھیل میں ہوتا ہے بہت جاں کا زیاں
عشق کو عشق سمجھ مشغلہ دل نہ بنا

حمایت علی کی رنج و الم میںڈوبی شاعر ی سے درد چھلکتا ہے جو قاری کو اداس ضرور کرتا ہے لیکن اس میں گھٹن کا احساس نہیں ہوتا،بلکہ ایک نیا حوصلہ و امید ملتی ہے۔حسن و عشق،سوز وگداز،ہجر و وصال کی کیفیات وغیرہ کو بھی بڑی خوبصورتی سے حمایت علی نے اپنے کلام میں پیش کیا ہے۔چند اشعار ملاحظہ فرمائے۔

سامنے رشک قمر ہو تو غزل کیوں نہ کہوں
کوئی محبوب نظر ہو توغزل کیوں نہ کہوں
یوں تو کٹتی ہی رہے گی غمِ دوراں میں حیات
آج کی رات،غمِ یار کی باتیں ہی سہی
زندگی بھر کی مسافت کا مداوا کہیے
اس کی بانہوں میں جو آرام لیا آخِر شب

غزلوں کے ساتھ حمایت علی نے کئی بہترین نظمیں بھی لکھیں بلکہ ابتدا سے ہی اُن کا رجحان نظموں کی طرف تھا ۔انہوں نے کئی نظمیں لکھیں۔ نظموں کے ذریعہ اپنے احساسات و جذبات کی خوبصورت ترجمانی کی۔اپنے دور کے حالات کو نظموں کا موضوع بنایا۔حمایت علی کی طویل تمثیلی نظموں نے اردو ادب میں انھیں ایک منفرد مقام دلایا ہے۔اُن کی نظموں میں’’ شعلہ بے دود،بنگال سے کوریاتک،بدلتے زاویے اور حرف حرف روشنی‘‘ کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ آئینہ در آئینہ(منظوم خود نوشت سوانح حیات) حمایت علی کا وہ ادبی کارنامہ ہے جو ان سے قبل کسی اور نے انجام نہیں دیا۔حمایت علی کی’’ بنگال سے کوریا تک‘‘ اور’’ حرف حرف روشنی‘‘ نظموں کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔حمایت علی نے اردو شاعری میں نیا تجربہ کیا ،تین مصرعوں پر مشتمل نئی صنف ثلاثی سے اردو ادب میں اضافہ کیا۔

انکشاف
عالم تھے ،باکمال تھے،اہل کتاب تھے
آنکھیں کھلیں تو اپنی حقیقت بھی کھل گئی
الفاظ کے لحاف میں ہم محوخواب تھے

سادگی حمایت علی کے فن کی خصوصیت ہے ۔ حمایت علی شاعر کی تمام تحریریں ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قصہ مختصر !حمایت علی شاعر نام ہے اس شخصیت کاجس نے ادب کی ہر صنف (شاعری،افسانہ،ڈرامہ،تنقید،تحقیق) میںاپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔جس نے ثلاثی جیسی نئی صنف سے اردو ادب میں اضافہ کیا۔صحافت،ریڈیو،ٹیلی وژن پروگرام،فلمی دنیا،درس وتدریس وغیرہ شعبہ،اُن کی صلاحیتوں کی معترف ہیں۔غرض جس میدان میں حمایت علی نے قدم رکھا کامیابی اور شہرت نے ان کے قدم چومے۔

حمایت علی شاعر ان خوش قسمت شعرا میں سے ہیں جنہیں زندگی میں ہی بے پناہ شہرت ،مقبولیت اور محبت ملی،لیکن اس کامیابی کے پیچھے شاعر کی طویل جدوجہد اور محنت ہے ۔حمایت علی نے زندگی میں کئی نشیب و فراز دیکھے اور زندگی کی اس پر خار راہ میں ان کی اہلیہ معراج نسیم ان کے ہمقدم رہیں۔اپنے شریک سفر کے ساتھ حمایت علی نے زندگی کی ہر جنگ جیت لی۔ اپنی اولادوں کو بہترین تعلیم و زندگی فراہم کی۔اردو کا یہ عظیم شاعر ۱۶ ؍جولائی ۲۰۱۹ء کو ۹۳ سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملا۔۔۔

میں آج تم میں ہوں موجود،کل نہیں ہوں گا
مگر جو تم ہو تو میں ہوں سدا سلامت بھی

شعبہ اُردو، ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی،اورنگ آباد

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here