تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
افسانہ نگار: لبنیٰ مقبول
بے لگام سرد ہوا کے جھونکے نے اس کے سامنے رکھے سارے صفحات کمرے میں بکھرا دیے- پاگل سرمست ہوا شاید یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ آڑھی ترچھی لکیروں سے بھرے یہ سارے صفحات اس شخص کے لیے بے کار تھے جو اپنی زندگی کی کہانی لکھنے کا خواہشمند تھا- لیکن وہ تو نہ جانے کب سے کاغذ قلم تھامے یونہی ساکت بیٹھا تھا- نظریں دیوار پر مرکوز مگر سوچیں منتشر-
وہ کوئی کہانی نویس نہیں تھا پھر الفاظ کیسے ترتیب دیتا؟
تمام عمر دو جمع دو چار کرنے کی فکر نے اس کو کبھی قلم ٹھیک سے پکڑنے کی فرصت ہی نہ دی اور اب عمر کے اس دور میں رعشے کی بیماری کے ساتھ تیزی سے بھاگتی دوڑتی یادوں میں سے بھی وہ محض چند یادیں ہی پکڑ پاتا تھا، قلم نہیں –
وہ سوچ رہا تھا کہ اس کی کہانی کیا تھی؟
ایک عام سے انسان کی اک عام سی کہانی میں کوئی باکمال قلمکار بھی کتنے رنگ بھر سکتا تھا؟
پھر وہ اپنی کہانی کیا لکھتا، کیا کسی کو سناتا-
گزشتہ زندگی پر غور کرتا تو بے رنگ و بے کیف زندگی میں اسے بظاہر ایسا کچھ بھی دکھائی نہ دیتا جس کی بنیاد پر وہ کہانی پڑھنے والوں کے لیے تجسّس کے در وا کر دیتا یا کم از کم اتنے رنگ بھرتا کہ آخر تک ان کی دلچسپی برقرار رہ پاتی-
پیچھے مڑ کر دیکھتا تو ماضی کے سب گم گشتہ اوراق بکھرے ہوئے سے نظر آتے اور ہر روز یادوں کے ان اوراق کو جتنا سمیٹنے کی کوشش کرتا، وہ خود بکھر جاتا-
فریم پر لگی پینتیس سال پرانی اس تصویر کو دیکھتا تو شرمائی لجائی اس پیکرِ مجسمِ وفا کے برابر خود ساختہ اکڑ اور بے زارگی میں ڈوبے اپنے ہی وجود پر اس کو بے تحاشا ترس آتا-
گھبرا کر فریم پر لگی گرد صاف کرتا مگر صرف گرد ہی صاف ہوتی ندامت نہیں-
پھر وہ سوچتا کہ کیا تھا ایسا جس نے اس کی زندگی کے ان خوبصورت لمحات میں بھی اس کے وجود میں اتنا زہر بھر دیا تھا کہ پھر اپنے زہریلے وجود سے ساری زندگی وہ اُس بے قصور کو ڈستا رہا-
ضد، انا، برتری کا زعم…
یا پھر ناپسندیدہ شخصیت کا زبردستی شاملِ زندگی ہونا۔
کمزور کو روندنے کا نشہ بھی خوب ہوتا ہے نا اور یہ نشہ ساری زندگی اس کے منہ کو لگا رہا-
اپنے سب پرانے رشتوں کو دفن کر کے وہ اس سے منسلک رشتوں کے ساتھ بڑے حوصلے اور ظرف کے ساتھ جی رہی تھی-
مگر کس کے لیے؟
مگر وہ کتنا کٹھور تھا کہ جس نے اسے اپنا نام تو دیا مگر پہلی ہی رات ناپسندیدہ ہونے کا لیبل ماتھے پر چسپاں کر ڈالا-
تین بول کے ساتھ شاملِ سفر کر کے سارا راستہ مزید تین بول کہہ دینے کی یاد دہانی کراتا رہا-
اپنے شاندار ماضی میں جب وہ جھانک کر دیکھتا تو سارے جہاں میں خوشیاں بانٹنے والے اپنے چہرے پر اُسے اُس معصوم کے لیے کرختگی اور جبری مسکراہٹ کے سوا کچھ بھی تو نہ دکھائی دیتا- سرد جذبات کے ساتھ طے کیا جانے والا ازدواجی سفر اس معصوم کی نوخیزیاں بھی کہیں چھین لے گیا تھا-
تین معصوم فرشتوں کی ذمہ داریوں نے اس پیکرِ وفا کو جینے کی اِک وجہ تو فراہم کردی تھی لیکن پھر بھی وہ کبھی اس سے غافل نہ ہوئی- یاس ذدہ چہرے پر امید کی ایک کرن روز روشن ہوتی مگر جلد ہی بجھ بھی جاتی-
مگر سلام اس پیکرِ وفا پر جو ہر رات خلوت میں اس کے بدن کا زہر اپنے وجود میں اتار کر مر جاتی مگر اگلی صبح آفتاب کی پہلی کرن کے ساتھ بڑی ڈھٹائی سے ان معصوم فرشتوں کے لیے پھر سے جی اٹھتی-
ہر روز جینے مرنے کا یہ کھیل بھی خوب چلتا-
مگر وہ بھی جیسے اس کھیل کی عادی ہو گئی تھی یا شاید ازدواجی زندگی کے اس تکلیف دہ کھیل میں اس کے ساتھ خاموش سمجھوتہ کر گئی تھی-
اور رہا وہ… تو اُسے تو بس جیتنے کی عادت ہو چکی تھی-
اُسے تو اِس کھیل میں مزا آنے لگا تھا-
جیتنا بھی تو ایک نشہ ہے نا جبکہ سامنے ایک کمزور سا وجود ہو جو پہلی ہی رات اپنے سارے ہتھیار پھینک کر شکست تسلیم کر چکا ہو-
اس کے حساب سے تو سب کچھ ہی ٹھیک چل رہا تھا مگر پھر ایک رات اِس کہانی میں تبدیلی آئی- اُس رات وہ مر تو گئی مگر اگلی صبح آفتاب کی روشن کرنوں سے بھی اُس کے سرد وجود میں زندگی کی حرارت پیدا نہ ہو پائی- شاید اس بار زہر میں نفرت کی مقدار کچھ زیادہ ہی ہو گئی تھی جسے محبت کا متلاشی اس کا ناتواں وجود برداشت نہیں کر پایا اور پھر روز جینے مرنے کے کھیل میں کامیابی سے اپنا کردار نبھانے والی اُس رات سچ مچ مر گئی-
وہ تو بہت تابعدار کھلاڑی تھی پھر کیسے اس نے جینے مرنے کے اس کھیل کے اصولوں سے انحراف کیا؟
اس لحاظ سے وہ سزا کی حقدار تھی- سزا کے طور پر وہ اس کو منوں مٹی تلے دفنا آیا- کھیل میں بغاوت کی یہی سزا مناسب تھی-
مگر اب کھیل تو ادھورا رہ گیا تھا- اس جیسا شاندار اور مستعد کھلاڑی اب کہاں سے ملتا اُسے- بغیر کسی کو شکست دیے، جیت بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے- اب وہ سرخوشی کا احساس کہاں؟ جیت کے نشے کے عادی کا جسم نشہ پورا نہ ہونے پر ٹوٹنے لگتا- وہ پہروں تنہا اپنے کمرے میں ماہی بے آب کی طرح تڑپتا رہتا-
ارے بات کہاں سے کہاں نکل گئی-
اسے تو اپنی کہانی لکھنا تھی لیکن رفیقِ سفر کی بغاوت سے کہانی ہی ادھوری رہ گئی- کیا لکھتا بھلا وہ اپنی کہانی میں؟
ہار جیت کے اس کھیل میں قارئین کی دلچسپی کا کچھ سامان نہیں تھا-
کتنی عام سی کہانی تھی نا اس کی جس میں بس دلچسپ موڑ یہ آیا کہ اس کو اپنی زندگی میں شامل اُس خاموش مگر فرمانبردار کردار سے تب محبت ہوئی جب وہ اِس محبت کا جواب دینے اس کے اطراف موجود ہی نہ تھی-
کہانی اب بھی وہی تھی-
بس کردار آپس میں تبدیل ہو گئے تھے-
ہار جیت کے اس کھیل میں، جیت ہار میں اور ہار جیت میں بدل گئی تھی-
اس بار اپنی ہی وحشتوں سے خاموش سمجھوتہ کرنا اس کے حصے میں آیا تھا- اب اپنی باقی ماندہ زندگی میں ہر رات کمرے کی تنہائی میں مرنے کا کردار اس کو بڑی تابعداری سے ادا کرنا تھا-
٭٭٭٭