اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
بھارتی دیوی
1989 میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی گورننگ کونسل کی جانب سے 11 جولائی کو عالمی یوم آبادی کے طور پر منانے کے فیصلے کے بعد سے یہ دن ہر سال پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو آبادی سے متعلق مسائل کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے کیونکہ جب یہ دن شروع ہوا تو دنیا کی آبادی 5 ارب تک پہنچ چکی تھی۔ ڈاکٹر سی زکریا کی طرف سے عالمی یوم آبادی منانے کی تجویزپیش کی گئی تھی۔ اس دن غربت، بچوں کی صحت، صنفی مساوات، خاندانی منصوبہ بندی، انسانی حقوق، مانع حمل ادویات کے استعمال سے لے کر تحفظ اور مساوات تک کے مسائل پر بات کی جاتی ہے۔درحقیقت آبادی میں اضافے کے تین بنیادی مراحل ہیں۔ جن میں سب سے اہم معاشرے میں آبادی میں اضافے کی شرح کو کم کرناہے، کیونکہ معاشرہ کم ترقی اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے پیچھے ہے۔ ویسے تو پوری دنیا میں کل 240 ممالک ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ ممالک کی کل تعداد 195 ہے۔ ان ممالک میں آبادی کے لحاظ سے بھارت چین کو پیچھے چھوڑ کر پہلے نمبر پر آ گیا ہے جبکہ زمینی رقبے کے لحاظ سے بھارت دنیا کے کل ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے۔ ہندوستان اب بھی ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہندوستان اب بھی ترقی کے تمام اہداف کو پوری طرح پورا نہیں کر پایا ہے۔ یہاں کے شہریوں کو تمام بنیادی سہولیات یکساں طور پر میسر نہیں ہیں۔ ایسے میں اس کی آبادی میں اتنا تیزی سے اضافہ اپنے آپ میں حیران کن ہے۔
اس وقت بڑھتی ہوئی آبادی دنیا کے کئی ممالک کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر کھڑی ہے۔ یہ انسانوں کے لیے لمحہ فکریہ بنتا جا رہا ہے۔ جنوری 2023 میں پوری دنیا کی آبادی 8 ارب تک پہنچ گئی ہے۔ اس میں صرف چین اور ہندوستان کی آبادی 280 کروڑ سے زیادہ ہے جو کہ دنیا کی کل آبادی کا 36.17 فیصد ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اس وقت ایک عالمی مسئلہ بن کر ابھری ہے۔ دنیا کی آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے، آنے والی دہائیوں میں یہ 10 ارب سے تجاوز کر جائے گی۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق روزانہ ڈھائی لاکھ سے زائد بچے پیدا ہوتے ہیں۔ 1950 کی دہائی میں پوری دنیا کی آبادی ڈھائی ارب تھی۔ جو اب بڑھ کر 8 ارب سے تجاوز کر گیا ہے۔ہر سال عالمی یوم آبادی کی کوئی ایک تھیم رکھی جاتی ہے۔ جس کی بنیاد پر عوام کو بیدار کیا جاتا ہے۔ اس سال آبادی کے عالمی دن کا تھیم ہے ’’ایک ایسی دنیا کا تصور کرنا جہاں ہم میں سے تمام 8 بلین کا مستقبل امید اور امکانات سے بھرا ہو۔‘‘ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں؟ صرف ہندوستان کی بات کریں تو ہندوستان، آبادی کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس کے مضر اثرات کیا ہیں؟ یہ ایک قابل غور مسئلہ ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کا سب سے زیادہ اثر پیدا ہونے والے بچوں اور ان کی خوراک پر پڑتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بچوں کو مکمل غذائیت نہیں ملتی۔ جس کی وجہ سے وہ غذائی قلت اور دیگر کئی خطرناک بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ملک میں بے روزگاری میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ آبادی میں اضافہ ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بے روزگاری کے علاوہ ماحول کے ساتھ چھیرچھار، رہائش کی کمی اور معیار زندگی کا پست ہونا شامل ہے۔ ہندوستان میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ غربت، جرائم، چوری، کرپشن اور کالا بازاری جیسے مسائل کو جنم دیتا ہے۔آبادی میں اضافہ ماحولیاتی نقطہ نظر سے بھی نقصان دہ ہے۔ بڑھتی ہوئی ضروریات کی وجہ سے قدرتی وسائل کا اندھا دھند استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس کے نتائج تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ آبادی میں اضافے کو آبی آلودگی، فضائی آلودگی اور مٹی کی آلودگی کا بھی ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی معیشت کے نقطہ نظر سے بھی تشویش کا باعث بن رہی ہے۔ محدود وسائل کے درمیان بڑی آبادی نے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس بڑی آبادی میں محدود وسائل کی مساوی تقسیم ممکن نہیں۔ ایسی صورت حال میں ایک صحت مند اور ترقی یافتہ معاشرے کا تصور ہی بے معنی ہو جاتا ہے کیونکہ غیر مساوی تقسیم کرپشن اور دیگر بہت سی برائیوں کا سبب بنتی ہے۔ یہ پائیدار ترقی کے اہداف کو بھی متاثر کرتا ہے۔
ماہرین نے بھارت میں بڑھتی ہوئی آبادی کی بنیادی وجوہات میں کم عمری کی شادی اور کم عمری میں حمل، گرم آب و ہوا، کم زچگی اور بچوں کی شرح اموات، کم معیار زندگی اور خواتین کی کم معاشی انحصار کے ساتھ ساتھ تعلیم اور بیداری کی کمی کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے بنیادی وجہ بھی تسلیم کیا ہے۔’’بچے دو ہی اچھے‘‘ جیسے نعروں اور نس بندی جیسی اسکیموں کے باوجود ہندوستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان اسکیموں اور نعروں سے زمینی سطح پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے۔ بہت سے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر خواتین کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے تو بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنا ممکن ہے۔ معروف استاد خان سر کے الفاظ میں’’حکومت آبادی کو روکنے میں جتنا پیسہ لگا رہی ہے۔ اگر اتنی ہی رقم لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ کرے تو یقیناً تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو روکا جا سکتا ہے۔ (چرخہ فیچر)،پونچھ، جموں
٭٭٭٭