اپوزیشن اتحاد: ضروری یا مجبوری

0
470

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

کرناٹک میں کانگریس کی جیت سے حزب اختلاف کی جماعتیں خوش ہیں ۔ حالانکہ اس سے قبل کانگریس کے بغیر اپوزیشن کے اتحاد کی بات ہو رہی تھی ۔ جس میں کے سی آر اور ممتا بنرجی پیش پیش تھے ۔ وہ اکھلیش یادو، اروند کجریوال، فاروق عبداللہ، شرد پوار وغیرہ کے ساتھ تیسرا مورچہ بنانے کی قواعد میں لگے تھے ۔ اکھلیش یادو کا بی جے پی اور کانگریس سے فاصلہ بنانے پر زور تھا ۔ یہاں تک کہ وہ بھارت جوڑو یاترا میں بھی شامل نہیں ہوئے ۔ دوسری طرف بد عنوانی کے الزام میں عام آدمی پارٹی کے دو وزیر جیل میں ہیں ۔ اس کی آنج کجریوال تک بھی آسکتی ہے ۔ کے سی آر کی بیٹی اور ممتا کے بھتیجے سے پوچھ تاچھ کی جا چکی ہے ۔ ٹی ایم سی کے وزیر بھی جیل میں ہیں ۔ بھوپیش بگھیل اور اپوزیشن کے کئی دیگر لیڈران ای ڈی کے رڈار پر ہیں ۔ ایسے وقت میں کرناٹک کی جیت نے نہ صرف اپوزیشن کا حوصلہ بڑھایا ہے بلکہ یہ بھی طے کر دیا کہ کانگریس کے بغیر اپوزیشن اتحاد کی بات نہ تو کارگر ہو سکتی ہے اور نہ ہی دم دار ۔ اس لئے ممتا بنرجی، اکھلیش یادو اور کجریوال کا کانگریس کے تئیں رویہ نرم ہو گیا یے ۔

یہ بھی پڑھیں

بچوں میں ذہانت کا فروغ کیوں اور کیسے

کانگریس نے ہم خیال اور ان پارٹیوں جن سے اس کا سیدھا مقابلہ ہو سکتا ہے کو سادھنے کی ذمہ داری نتیش کمار کے کندھوں پر ڈالی ہے ۔ نتیش کمار نے شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک ملک کا دورہ کر حزب اختلاف کے تمام لیڈران کو اتحاد کا حصہ بننے کو تیار کیا ہے ۔ وہ اپوزیشن خیمے کی آپسی لڑائی کو فرینڈلی فائٹ میں بدلنا چاہتے ہیں ۔ بی جے پی مخالف جماعتوں کی میٹنگ جو 12 کو ہونے والی تھی اب 23 جون کو پٹنہ میں ہوگی ۔ اس میں ملکارجن کھرگے اور راہل گاندھی سمیت زیادہ تر اپوزیشن کے اعلیٰ لیڈران نے شامل ہونا منظور کیا ہے ۔ بہار کے نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو اور جے ڈی یو کے قومی صدر راجیو رنجن سنگھ عرف للن سنگھ نے پریس کانفرنس کے ذریعہ اطلاع دی ہے ۔ اس میں ممتا بنرجی، اکھلیش یادو، ہیمنت سورین، ادھو ٹھاکرے، شردپوار، ایم کے اسٹالن، اروندکجریوال، بھارتیہ کمونسٹ پارٹی کے ڈی راجا، مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے سیتا رام یچوری، بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی (مالے) کے دیپانکر بھٹاچاریہ نے میٹنگ میں آنے کی حامی بھری ہے ۔ انہوں نے تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ چندر شیکھر راؤ کا نام نہیں لیا ۔
نریندر مودی اور امت شاہ کی کاٹ تلاش کر رہے نتیش کمار اور ممتا بنرجی نے پارلیمانی انتخابات سے پہلے بی جے پی کو ہرانے کا پلان 475 بنایا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ میٹنگ میں ایک ایک سیٹ پر اسٹریٹجک لڑائی کا روڈ میپ سب کے سامنے ہونا چاہئے ۔ ممتا بنرجی کا کہنا ہے کہ لوک سبھا کی 543 سیٹوں میں سے کم از کم 475 پر اپوزیشن کا صرف ایک امیدوار چناؤ لڑے ۔ وہ کانگریس کا ہو یا کسی اور پارٹی کا ۔ اس سے بی جے پی مخالف ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچایا جا سکتا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ کانگریس صرف 200 سیٹوں پر الیکشن لڑے باقی پر ریجنل پارٹیوں کو فوقیت دی جائے جو جہاں مضبوط ہے ۔ اکھلیش بھی ممتا کے سر میں سر ملا رہے ہیں کیونکہ دونوں ریاستوں میں کانگریس کی حالت ایک جیسی ہے ۔ میٹنگ میں 475 سیٹوں کے جس فارمولے پر بات ہوگی اس میں 2019 کے الیکشن کو بنیاد بنایا جائے گا ۔ جس پارٹی نے جو سیٹ جیتی وہ اس کی، دوسرے نمبر پر رہی پارٹی کو فوقیت ۔ ریجنل پارٹیاں کانگریس کو اس فارمولے پر راضی کرنے کی کوشش کریں گی ۔ اگر کانگریس اس پر راضی ہوتی ہے تو اسے 2024 میں لڑنے کے لئے 250 سیٹیں مل جائیں گی ۔ ایسے میں اگر اپوزیشن اتحاد جیت گیا تو حکومت کی لگام اتحادی ساتھیوں کے ہاتھ میں رہے گی ۔ لیکن سیدھی لڑائی میں بی جے پی کانگریس پر حاوی رہتی ہے ۔
پچھلے پارلیمانی انتخاب پر نظر ڈالیں تو 190 سیٹوں پر آمنے سامنے کی لڑائی میں بی جے پی 175 اور کانگریس 15 سیٹیں جیتی تھی ۔ 209 سیٹوں پر کانگریس دوسرے نمبر پر تھی ۔ رنر اپ سیٹوں کو ملا دیں تو 261 پر کانگریس جیتی یا آگے رہی ۔ 71 سیٹوں پر اس کا مقابلہ ریجنل پارٹیوں سے تھا ۔ ان میں سے اسے 37 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی ۔ کانگریس کو چھوڑ کر حزب اختلاف کی باقی جماعتوں کا 185 سیٹوں پر سیدھے مقابلہ میں بی جے پی کو 128 اور اپوزیشن کو 57 سیٹیں ملی تھیں ۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اپوزیشن اتحاد کانگریس کتنا جھکتی ہے اس پر منحصر کرے گا ۔ اگر ریجنل پارٹیاں کانگریس کو یہ بھروسہ دلاتی ہیں کہ پہلے زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتی جائیں اور سب سے بڑی پارٹی حکومت کی سربراہی کرے گی تو شاید بات بن جائے ۔
کئی ریاستوں میں ریجنل پارٹیاں کانگریس اور بی جے پی لڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔ مثلاً کیرالہ میں لیفٹ اور کانگریس آمنے سامنے ہوگا ۔ مغربی بنگال میں ٹی ایم سی کا مقابلہ لیفٹ، کانگریس اور بی جے پی سے ہے ۔ آندھرا پردیش میں وائی ایس آر کانگریس بی جے پی اور کانگریس کے خلاف چناؤ لڑے گی ۔ تلنگانہ میں بی آر ایس کا مقابلہ بی جے پی اور کانگریس سے ہوگا ۔ اڑیسہ میں بیجو جنتا دل کو ابھرتی ہوئی بی جے پی اور کانگریس سے مقابلہ کرنا ہے ۔ پنجاب میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس آمنے سامنے ہوں گے ۔ جبکہ دہلی میں اسے خطرہ ہے ۔اس لئے وہ کانگریس کے ساتھ مل کر چناؤ لڑ سکتی ہے ۔ تریپورہ میں کانگریس اور لیدٹ کو ٹپرا موتھا سے اتحاد کرنا ہوگا ۔ آسام میں کانگریس کو ریجنل پارٹیوں سے اتحاد کے لئے کئی مسائل حل کرنے ہیں ۔ وہاں بی جے پی کے وزیر اعلیٰ تیز ترار لیڈر ہیں ۔ جو مقامی پارٹیوں سے تال میل بیٹھانے میں ماہر ہیں ۔ ایسے میں نتیش کمار اور ممتا کا ایک سیٹ ایک امیدوار کا فارمولہ الیکشن کے نتائج بدل سکتا ہے ۔
ہندی پٹی میں بی جے پی 2019 میں بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی ۔ لیکن اس وقت صورتحال بدلی ہوئی ہے ۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ یوپی کو چھوڑ کر بی جے پی کو بڑی تعداد میں سیٹوں کا نقصان ہونا طے ہے ۔ مثال کے طور پر مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتس گڑھ میں لوک سبھا کی 65 سیٹیں ہیں ۔ ان میں سے بی جے پی کو 61 اور کانگریس کو تین سیٹیں ملی تھیں ۔ اس مرتبہ کانگریس 30 سے زیادہ سیٹیں لے سکتی ہے ۔ اسی طرح کرناٹک کی 28 میں سے بی جے پی کو دس سیٹ ملنا بھی مشکل ہوگا ۔ اگر کانگریس کا جے ڈی ایس سے اتحاد ہو گیا تو بی جے پی کو پاانچ سیٹ ملنا بھی مشکل ہوگا ۔ کانگریس کے منصوبہ ساز سنیل قانون گولو کے تحت مناسب حکمت عملی اپنائی گئی ۔ تو کانگریس کی سیٹوں میں 70 سے 80 تک کا اضافہ ہو سکتا ہے ۔ 2024 کے انتخابات کے بعد کانگریس کی سیٹوں کی تعداد 122 سے 132 کے درمیان ہو جائے گی، جو بی جے پی کو کل 543 لوک سبھا سیٹوں میں سے 170 سیٹوں سے نیچے لانے کے لئے کافی ہے ۔ایسی صورت میں 2024 لوک سبھا انتخابات کے بعد وائی ایس آر کانگریس اور بی جے ڈی اپوزیشن اتحاد کے ساتھ تعاون کرنے میں دلچسپی لیں گے ۔ 2004 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو صرف 145 سیٹیں ملی تھیں اور 2009 کے انتخابات میں یہ تعداد بڑھ کر 206 ہو گئی ۔ اپوزیشن کے آئندہ اجلاس میں ان امور پر غور کیا جانا چاہئے ۔
اس وقت پہلوانوں کے مدے خاص طور پر بیٹیوں کے ساتھ زیادتی نے سماج کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ اس پر طرہ یہ کہ ایم ایس پی کی مانگ کر رہے کسانوں پر لاٹھی چارج اور مقدمات کا دہلی، مغربی یوپی، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب کی سیٹوں پر اثر پڑنے والے ۔ کرناٹک کے انتخابی نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ بے روزگاری، غربت کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کے مسائل نے بھی ووٹروں کی رائے بدلی ہے ۔ متحدہ اپوزیشن کی جانب سے ان مسائل پر مبنی قومی مہم شروع کی جانی چاہئے ۔ یہ آنے والے دنوں میں مشترکہ کم از کم پروگرام کا بنیادی حصہ بن سکتی ہے ۔ سیاسی صورتحال اب غیر بی جے پی اپوزیشن کے لیے زرخیز ہے ۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل اگلا ایک سال کانگریس کے ساتھ ساتھ دیگر بی جے پی مخالف اپوزیشن جماعتوں کے لیے بھی اہم ہے ۔ جس میں اس سال اور اگلے سال کے شروع میں ہونے والے اسمبلی انتخابات بھی شامل ہیں ۔ حزب اختلاف کی 23 جون کو ہونے والی میٹنگ میں اس پر بھی غور و خوص کیا جانا چاہئے ۔ ملک میں ایک طرف بدلاؤ کے لئے ماحول سازگار ہے ۔ دوسری طرف بی جے پی اپوزیشن مکت بھارت کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے ۔ ایسے میں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں آپسی اختلافات بھولا کر متحد ہو کر بی جے پی کا مقابلہ کریں ۔ اب یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ اپوزیشن عوام کی امید پر کتنا کھرے گی یا آپس میں الجھ کر تیسری بار بی جے پی کے لئے جیت کا راستہ ہموار کرے گی ۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here