تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
مضمون نگار: ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
بھارت میں ہندو مسلم فساد یہ آزاد بھارت کے سماج اور سیاست کی ایک ایسی مکروہ سچائی ہے جس نے بھارت کی جمہوریت، اس کے لبرل سیکولر شبیہ، دستور اور قانون کی حکمرانی اور جدید ترقی یافتہ بھارت کی نیک نامی پر بٹہ لگادیا ہے۔ اور دنیا بھارت کو ان ملکوں کی فہرست میں گنتی ہے جہاں شہریوں کے جان و مال، عزت و آبرو محفوظ نہیں ہیں۔ اس طرح بھارت دستوری عوامی جمہوریہ ہونے کے باوجود فسطائی قوتوں کی گرفت میں محصور ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ جس پر آزاد دنیا مستقل اپنی تشویش کا اظہار کررہی ہے اور بھارت کا شمار کنٹری آف کنسرن میں ہونے لگا ہے۔
فسادات کے سلسلے میں کئی سوال ابھر کر آتے ہیں جن کا جواب ڈھونڈنا ضروری ہے۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ فسادات کیوں ہوتے ہیں؟ کب ہوتے ہیں؟ کون کرتا یا کراتا ہے؟ اور آخری اور سب سے اہم سوال کیا اس کو روکا جاسکتا ہے؟ جب تک ہم ان سوالوں کو براہِ راست ایڈریس نہیں کریں گے ان کا حل نکالنا مشکل ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ فسادات کیوں ہوتے ہیں؟ اس کے بہت سے تاریخی، مذہبی، سیاسی، معاشی اور سماجی وجوہات ہیں۔ انگریزوں نے اپنے دور اقتدار میں پہلے کمپنی راج اور بعد میں برٹش راج میں اپنی پھوٹ ڈالو اور راج کرو کی پالیسی کے تحت بھارت کے تاریخ، سماج اور سیاست کی ایسی تعبیر اور تشریح پیش کی جس سے انگریزی درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والے افراد جو بظاہر موڈرن اور ترقی پسند اور عقل و دانش کے ستون مانے جاتے تھے، ان کے ذہنوں میں بھارت میں رہنے والی ہندو اور مسلمان دونوں قوموں کے ذہن میں زہر بھردیا گیا اور یہ زہر کم و بیش دو صدیوں کی آبیاری کے نتیجے میں سماج کے نچلے طبقہ تک پھیل گیا ہے جس نے دونوں قوموں کے درمیان جو اب تک ایک دوسرے کے پڑوسی تھے اور کبھی ان کے درمیان ان کے مذہبی عقائد اور رسوم کی وجہ سے فساد نہیں ہوتے تھے، ایک اجنبیت کی دیوار کھڑی کردی جہاں بدگمانی کی تیز آندھی چل رہی ہے اور دونوں طرف خوف و اور شک کا ماحول پایا جاتا ہے۔ اس میں ہندو اور مسلمان مذہبی طبقہ کو بدنام کرنا غلط ہے۔ وہ نفرت کی اس تیز آندھی میں بہہ گئے جب کہ ان کو اس ٹرینڈ کو روکنا چاہیے تھا، مگر وہ روک نہیں سکے بلکہ زیادہ تر لوگ حق اور انصاف، امن اور خیرسگالی کو تیاگ کر نفرت انگیز پروپیگنڈے کا شکار ہوگئے اور اس کے آلہ کار بن گے تھے۔
چونکہ یہ چیزیں لمبے عرصے سے ہوتی آرہی ہیں لہٰذا یہ ذہنوں میں پوری طرح پیوست ہوگئیں ہیں جب آزادی کی جدوجہد شروع ہوئی تو دونوں قوموں میں برتری کی کشمکش شروع ہوگئی، اس نے بھی آگ میں پیٹرول کا کام کیا۔ نصابِ تعلیم، سیاست، صحافت، سماجی تحریکات اور پروپیگنڈہ مشنری نے ایک ایسا ماحول بنادیا جس میں بظاہر سماجی میل جول کے باوجود ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور تشدد کا رجحان فروغ پانے لگا۔ جب ایک قوم کا اندرونی تضاد زیادہ ابھر کر سامنے آتا ہے تو اس کا رخ موڑنے کے لیے اس کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جاتا ہے۔ ہندوؤں میں ورن آشرم پایا جاتا ہے۔ جب سے سماج کے نچلے طبقات میں تعلیم، تنظیم اور شعور پیدا ہوا ہے وہ اپنے حقوق مانگنے لگے ہیں۔ اس کو روکنے کے لیے کسی بھی واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینا ایک آسان سا طریقہ ہے تاکہ وہ مسائل دب جائیں۔ جب منڈل کمیشن نے زور پکڑا تو فوراً بابری مسجد کا مسئلہ پورے زوروشور سے اٹھایا گیا گویا منڈل کو کمنڈل سے توڑ کرنے کی کوشش کی گئی اور فساد اس کا مؤثر ذریعہ بنا۔ بھارت میں ایک طبقہ فساد کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اس سے اس کو پرولائزیشن میں مدد ملتی اور سیاسی فائدہ ہوتا ہے۔ اس لیے بھارت میں فساد کیوں ہوتے ہیں اس کے تاریخی اور نفسیاتی اور سیاسی اسباب ہیں جو مذہب کی وجہ سے نہیں ہوتا ہے مگر مذہبی رنگ غالب ہوتا ہے۔ اس وقت ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات، سوشل میڈیا، فلموں اور ڈاکومینٹریز کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں جس طرح نفرت کا بارود بھرا جارہا ہے اس نے حالات کو دھماکہ خیز بنادیا ہے اور کوئی بھی معمولی واقعہ کسی بڑے فساد کا پیش خیمہ بن جاتا ہے بلکہ اس کو بنادیا جاتا ہے۔
اس وقت سیاست کے لبادے میں ملک میں دھرم یدھ کا ماحول بنایا جارہا ہے۔ اور تاریخ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان فروغ پارہا ہے۔ یہ تمام حرکتیں، وہ لوگ کرتے ہیں جو غنڈہ یا سماج دشمن عناصر نہیں ہیں تو ان کو کنٹرول کرنا مشکل نہیں ہوتا لیکن جب اعلیٰ دستوری عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ اپنی اوچھی سیاست کے لیے پورے ملک کو آگ اور خون کی بھٹی میں دھکیلنے کے لیے تیار ہوں، تو حالات انتہائی تشویشناک ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں مجھے تعجب اس بات پر نہیں ہوتا کہ فساد کیوں ہوتے ہیں بلکہ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ امن کیسے قائم ہے؟ جبکہ حکومت اور حکومتی پارٹی فساد کرانے پر آمادہ ہے۔ اس کی دو وجہیں ہیں ایک تو یہ کہ مسلمانوں نے اب تک کمال صبر و ضبط کا مظاہر کیا ہے دوسرے ملک کی غالب ہندو اکثریت صلح جو اور امن پسند ہے اور وہ خون خرابے کو پسند نہیں کرتی ہے۔ اس لیے ملک بڑی حد تک آگ اور خون کی ہولی کھیلنے سے محفوظ ہے۔ اس تفصیل سے فساد کیوں ہوتے ہیں یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔ اگلے حصے میں ہم دیگر اسباب کا جائزہ لیں گے۔
(سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل)