تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
مضمون نگار: ڈاکٹر جی۔ایم۔ پٹیل
نذر سجاد حیدر نے وکٹوریہ ہندوستان میں ۱۸۹۲ میں جنم لیا اور آزادی کے بیس سال بعد ۱۹۶۷ میں وفات پائیں۔اس طرح برطانوی ہندوستان،آزاد ہندوستان اور پاکستان تینوں ادوار کا تجربہ کیا۔آپ کی نسل کے بیشتر افراد سیاسی بدامنی، تقسیم ِہند کی خونریزی ،پاکستان یا دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کا مسائل سے دو چار رہے۔ نذر سجاد حیدر ایک قوم پرست،اردو کی معروف ناول نگاراور مسلم خواتین کے مسائل کو اٹھانے والی آوازوں میں سے ایک تھیں۔آپ پہلی نمایاں مسلم خواتین میں سے ایک تھیں جنہوں نے ’’ پردے‘ کے خلاف احتجاج کیا۔ ’آپ اردو ادب کی ایک ممتاز اور با اثر خاتون قرۃ العین حیدر کی والدہ ہیں‘ ۔آپ ۱۸۹۲ میں نذر زہرہ کے نا م سے سیالکوٹ کے ایک اشرافیہ خاندان میںپیداا ہوئیں۔ آپ کی والدہ محترمہ مصطفائی بیگم اور والد محترم محمد نذرالباقر تھے جو فوج میں تھے۔آپ نے صرف ۱۶ سال کی عمر میں اپنی والدہ کو کھو دیا اور ان کے بعد آپکی خالہ جان محترمہ مرتضیٰ بیگم نے آپ اور آپ کے بھائی مصطفی باقر اور بہن عینی ثروت آرا کی پرورش کی۔ آپ کی پھوپھی بھی ایک ناول نگار تھیں جنہوں نے ۱۹۰۷ میں ’’ چیتھڑوں کا لعل “دی روبی اِن ریگس” شائع کی جس میں تعلیم نسواں پر زور دیا گیا تھا۔دراصل بنت نذرالباقر کا طبی تعلیم حاصل کرنا عین مقصد تھا جسے آپ اسے بیحد پسند بھی کرتی تھیں اور اس طبی تعلیم کے لئے والدین بھی نذرکو لدھیانہ بھیجنے کے لئے تیار ہوگئے تھے کیوں کہ اس دور میں مسلم ماہر امراض نسوان تقریباََ ناپید تھیں۔مگر آپکی کمزوریٔ بصارت کی وجہ سے آپ طبی علم نہ حاصل کر پائیں۔
۱۹۱۲ میں آپ نے مختصر افسانے نگار سید سجاد حیدر یلدرم سے شادی کی ۔سید سجاد حیدر یلدرم اترپردیش بجنور میں پیدا ہوئے ، علی گڑھ کالیج سے تعلیم حاصل کی اور نو آ ّبادیات میں ملازم تھے اور سید احمد خان اور علی گڑھ تحریک سے وابستہ نظریات کے حامی تھے اور اردو ادبی رسائل ’’ معروف‘‘ اور ’’ مغازان‘‘ میں کثرت سے لکھتے تھے۔شادی کے بعدہی بنت نذرالباقر سے تبدیل ہو کر ’ نذر سجاد حیدر ‘ ہوگئیں۔سجاد حیدر کا تبادلہ دہرادو ن ہوا تو آپ بھی ان کے ہمراہ دہرادون چلی گئیں اور وہاں بھی تعلیم نسواں کی تحریک جاری رکھی۔
آپ نے مسلم خواتین کی تعلیم کے لئے فعال طور پر کام کرنا شروع کیا تو دیکھا کہ ہندو لڑکیوں کے لئے تعلیم عام ہے اور کچھ اعلیٰ معیاری انگلش میڈیم مشنری اسکول میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ لیکن مسلم لڑکیا ں اس سے محروم تھیں۔اس لئے کہ مسلم خاندانوں میں پردہ عام تھا اور خصوصی طور سے خواتین پردہ کی سخت پابندیاں تھیں ،یہاں تک کہ ترقی پسند خواتین بھی مسلم لڑکیوں کو تعلیم دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھیں۔مشنری اسکول میں پردہ کے پیروکار مہذب مسلمان وہاں اپنی لڑکیوں کو تعلیم دینا اپنی شان کے خلاف اور عیب سمجھتے تھے انہیں یہ قطعی پسند نہیں تھا۔آپ کافی سنجیدہ ہوئیں اور اس جدو جہد میں رہیں کہ ان مسلم لڑکیوں کو تعلیم کا انٹطام کیا جانا چاہئے۔اسلئے کچھ ہم خیال خواتین سے رابطہ قائم کرنا شروع کر دیا اور مسلم لڑکیوںکی تعلیم کو آگے فروغ دینے کی وکالت شروع کر دی۔دہرادون ، متحدہ صوبوں اور اتر پردیش میں مسلم لڑکیوںکے لئے کئی اسکول شروع کرنے میں اہم کردار نبھایا۔آپ نے علی گڑھ میں مسلم گرلز کالج کے بانی شیخ اور بیگم عبداللہ کی مدد سے لکھنؤ میں ’’ کرامت حسین ‘‘ مسلم گرلز کالج کے لئے انتظامی تعاون فراہم کیا۔آپ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھیں کہ آپ اپنے زمانے کے مسلم معاشرے کے ایک مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتی تھیں اور اپنی بیٹیوں کو اسکولوں میں بھیجنا شروع کر دیا۔
آپ مسلم خواتین کی زندگیوں پر حکمرانی کرنے والے روایتی معاشرتی تقلیدی پسنداصولوں کے سخت خلاف تھیں اور مسلم خوا تین کو با اختیار بنانے میں اسے ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھتی تھیں۔ آپ کے مطابق پردہ کانظام خواتین کو گھریلو شعبے میں محدو د کرنے اور مسلم مردوں کو تابع کرنے کا ایک طریقہ تھا۔بعد ازاں آپ نے پردے کی سخت مخالفت کی، روایتی برقعے اور گھاگرا کے ڈیژا ائن میں ترمیم کی اور آپ نے خود ۱۹۲۳ میں تحریک آزادی میں شمولیت اختیار کی تو پردے سے باہر آئیں اور متعد خواتین کو بھی اسکی پیروی کرنے کی ترغیب دی ۔آپ ایک بلند حوصلہ خاتون و بلند و مضبوط آواز تھیں جنہوں نے روایتی مسلم معاشرے کے غالب اصولوں اور مذہب کے قدامت پسندی کو للکارہ ۔آپ نے نہ صرف مسلم خواتین کی تعلیم کی حمایت کی بلکہ جبری شادیوں سے خوا تین پر ہونے والے ظلم و تشدد کی مخا لفت کی ۔آپ کے ان خیالات ،آپ کے کاموں اور یادداشتوں نے ہندوستان کی ابتدائی مسلم نسائی مصنفین اور شاعروں کو متاثر کیا۔ ان میں آپ کی دخترقرۃ العین حیدر بھی شامل تھیں۔ مسلم خواتین ہی نہیں بلکہ نذر کی تحریر وں ،شخصیت اور زندگی کو ہندوستان کی متعدد خواتین کے لئے ایک الہام کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جن کے انتخاب یا تو روایت یا مذہب یا سماجی ڈھانچے کی وجہ سے محدود ہیں،آپ جیسی خواتین کی شراکت ملک میں حقوقِ نسواں کی بڑی تحریک میں ایک بہت ہی نمایاں اور متنوع مداخلت ہوسکتی ہے خواتین تعلیم کی وکالت میں آپ کے غیر معمولی کام آج کی نسل کی بہت سی خواتین کو روایتی سماجی ڈھانچے کی رکاوٹوں کو ترک کرنے اور تعلیم کے ذریعے آزادی کی راہ تلاش کرنے کی تحریک دینے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
آپ نے بہت ہی چھوٹی عمرہی میں میں جرائد ’’ تہذیب النساء(لاہور) اور’’ عصمت ‘‘ میں دہلی میں تخلص بنت نذرالباقرکے نام سے لکھنا شروع کیا۔ آپ کی شراکتیں اتنی کثیر ہوگئیں کہ آپ جلد ہی’ ’تہذیبی بہن‘ ‘ کے نام سے مشہور ہوئیں۔آپ نے بھی اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلتی ہوئیں ان جرائد میں تعلیم ِ نسواں کی وکالت کی ۔چنانچہ آپ جو اپنے زمانے کی ایک پیشتر خاتوں تھیںاور اپنے وقت سے بہت پہلے پیدا ہوگئیں تھیں۔ ۱۸۹۸ میں جب مولوی ممتاز علی نے رسالہ’’ تہذیب نسواں ‘‘ جاری کیا اس وقت مسلم معاشرے میں تعلیم یافتہ ہخواتین اتنی بڑی تعدد میں موجود تھیں جو تہذیب نسواں میں اسکی خریداری اور اس میں اپنے مضمون لکھے۔یہ ایک بہت قابل ذکر ترقی تھی یعنی ۱۸۵۷ سے پہلے مسلم خواتین کے مضامین اخبار میں شائع ہونا اور خود انکے مضمون نویسی کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔یہ ترقی بہت سُست فتار ہی سہی لیکن ایک سماجی انقلاب کا پیش خیمہ بنی ۔اس اولین دور میں جن مسلم لڑکیوں نے مضمون نگاری شروع کی اس میں آپ کا نام سرِ فہرست رہا۔ہر مصنف یا ادیب کی ادبی سرگرمیاں یا تخلیقات اس کے سماجی پس منظر کا آئینہ دار ہوتی ہیں۔نذر سجاد حیدر نے بھی ایک ایسے ہی عبوری دور میں جنم لیا جب برطانوی تہذیب اور برطانوی حکومت ہندوستا ن میں مستحکم ہو چکی تھیں۔آپ نے نو عمر ہی میں اپنی مضمون نویسی کی دھاک بیٹھا دی کہ شمس العلما ء ممتاز علی آپکی تحریر سے بیحد متاثر تھے اور انہوں نے نذر کو ۱۹۱۰ میں ہفتہ وار اخبار ’’ پھول ‘‘ کا باقاعدہ مدیر مقرر کیا۔ غالباََآپ اس وقت ہندوستان کی پہلی خاتون تھیں جنہیں اس کم سنی میں اتنی بڑی ذمہ داری سونپی گئی ،لیکن وہ زمانہ ذاتی میڈیا شہرت کا نہیں تھا۔چنانچہ اس قسم کے غیر معمولی واقعیات کا کوئی چرچہ نہیں ہوتی تھی۔
نذر سجاد حیدر کی ایک اور ناول ’’ ثریا‘‘ میں اداکارہ ایک اینگلو انڈین گورنس کا روپ اختیار کر لیتی ہے،مقصد واضح ہے کہ اس وقت معاشرے میں اگر آزادیاں حاصل تھیں اور عورتیں اپنا خود مختار طرزِ زندگی بناسکتی ہیں تو زیادہ ہندو برہمن ،بنگالی ،کرسچن یا پارسی خواتین ہی تھیں۔ہ۱۹۲۔۱۹۸۳۰ کا ہے ،مطلب برطانو جدید سوسائٹی کی طرز ِزندگی۔ناول کے کردا ر اور اس عہد کے افکار و اقد ار کی نمائندگی کرتے ہیں۔متوسط کلاس کے نوجوان ولایت سے بیرسٹری پڑھتے ہیں اور ہندو خاندانوں کی لڑکیاں بھی کالجوں میں پڑھ رہی ہیں اور مسلم لڑکیاں اگر ایکاد ھ کالج جارہی ہیں تو بڑی قابل ذکر بات ہے۔ناول کی اداکارہ ثریا بھی ازابیلاتھوبرن کالج کے فرسٹ ائر میں پڑھ رہی ہے ۔عمر ۱۴ سال روایتوں سے محفوظ۔ مصنفہ نے اپنی ساری جدت پسندی کے باوجود ہی روایت پرستی اختیار کی یعنی اداکارہ محض ۱۴ سال کی ہے لیکن انتہائی ہوشمندی اور عاقل وداتا کیوں کہ اداکارہ کی مجموعی خوبی ہونا ضروری ہے ۔ یہاں ہندوستان کے ناول نگار اٹھارویں صدی انگلستان کی پیروی کر رہے تھے۔جہاں اس زمانے میں کی اداکارائیں نہایت کم سن لیکن بے حد عقل مند اور حسین ہوتی تھیں۔اگلی صدی آتے آتے نالوں میں انگریزی حقیقت پسندی آگئی تھی۔ناول ثریا کے آغاز ہی میں اداکار اپنی اداکارہ سے مل کر اظہار مسرت کرتاہے۔ کہ وہ ایک کالج کی تعلیم یافتہ لڑکی ہے یعنی نا ول میں قدم قد م پر تعلیم نسواں کا اظہار جاری ہے۔ایک نقطہ شروع ہی میں اظہار کر دیا جاتا ہے کی ناول میں ہندو مسلم رومانس کی گنجائش نہیں ہے،اداکار ہندو لڑکی مس موہنی کو چندر لال کو سگی بہن کی طرح مانتا ہے۔یہ معاملہ صاف ہوجانے کے بعد قصہ آگے بڑھتا ہے کیونکہ اس مسئلہ پر یعنی ہندو مسلم شادی موضوع پر مصنفہ نے بعنوان ’ مذہب اور عشق ‘‘ ایک ناول الگ سے لکھی جو غالباََ ۱۹۳۵ میں شائع ہوئی۔نواب صاحب ’کیواں قدر‘ کا اس پارٹی میں ثریا کو دیکھتے ہی پہلی نظر میں اس پر فدا ہوجاتا ہے۔ “لَو ایٹ فرسٹ سائٹ ن”ذر سجاد حیدر کے ناولوں میں اور اس عہد کے دوسرے ناول نگاروں کے یہاںبھی ہندو مسلم فسادوں کا تذکرہ نہیں ملتا بلکہ محض ایک مخصوص طرز معاشرت کی تصویر کشی کی گئی ہے خواہ وہ ہندو ہو کہ مسلم آپ نے شمالی ہند کے اس بالائی انگریز یت زدہ طبقے کی عکاسی نہایت مساقی سے اپنے ناولوں میں کی۔اس طرز کی تحریر اس دور کے روح عصر کا حامل تھا۔ نیا ادب بھی اسی تحریک کے زیر اثر لکھا گیا۔
نذر سجاد حیدر کی ساری زندگی سیر و سیاحت میں گزری اور آخر وقت تک سفر کرتی رہیں۔۱۹۶۷ میں وہ انگلستان سے آئیں وہاں سے واپس کراچی اور اس کے بعد بمبئی ،لیکن بمبئی کا آپ کا یہ سفر آخری سفر ثابت ہوا۔ اکتوبر ۱۹۶۷ میں انہوں نے بمبئی میںسفر آخرت اختیار کیا‘‘
پونہ رابطہ : 9822031031
٭٭٭