ابواللیث جاوید کے افسانوں پر مختصر نوٹ

0
565

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: حقانی القاسمی

فکشن بیانیہ میں صرف موضوعاتی تنوع نہیں بلکہ اسلوب کی تازہ کاری بھی ضروری ہے کہ اسلوب یا اظہارِ بیان ہی کسی بھی تخلیق کار کا نقطہ امتیاز و انفراد قرار پاتا ہے۔ افسانہ کے فنی لوازمات یا تشکیلی اجزاء کا التزام نہ ہو تو افسانہ اور مضمون کی حدِ فاصل ختم ہوجاتی ہے۔ آج فکشن میں جس نوع کے تجربے عام ہوتے جارہے ہیں، ان میں سے بعض تجربے افسانہ کی صنفی شناخت کو ہی مجروح کررہے ہیں۔ ان تجربوں کی کوئی بھی منطق ہو مگر افسانہ میں فنی اصول و ضوابط کا خیال نہ رکھا جائے تو اسے افسانہ کہنا ذرا مشکل ہوگا۔

ابواللیث جاوید کے افسانوں کا امتیاز یہ ہے کہ یہ صنفی تشخص اور شناخت کے دائرے سے باہر نہیں کیے جاسکتے۔ ان کے تمام افسانے فنی لوازمات کی تکمیل کرتے ہیں اور یہ احساس دلاتے ہیں کہ ابواللیث جاوید واقعی کہانی کہنے کے آرٹ سے واقف ہیں۔ افسانہ کا جو ایک مخصوص منہج اور مزاج ہے، اس سے ان کے افسانے ہم آہنگ ہیں۔ ان کے افسانے ابلاغ اور ترسیل کے المیہ کے شکار بھی نہیں ہیں۔ ان کے یہاں سادگی، سلاست اور اختصار ہے، ان کے جملوں کی ساخت ثقالت پیدا نہیں کرتی۔ وہ بہت خوب صورتی کے ساتھ اپنے منشا اور مقصد کی ترسیل کرجاتے ہیں اور کوئی نہ کوئی ایسا پیغام ضرور دے جاتے ہیں کہ جس سے معاشرہ کو روشنی ملتی ہے۔ گو کہ تخلیق کار کا کام صرف معاشرتی، سیاسی، تہذیبی، اقتصادی مسائل اور صورتِ حال سے صرف آگاہ کرنا ہوتا ہے مگر ابواللیث جاوید نے انجمن پنجاب کے مطالب مفیدہ والی شق کو اپنے افسانے میں بھی قائم رکھا ہے۔ ان کا کوئی بھی افسانہ مقصدیت سے منحرف نہیں ہے۔ ہر افسانہ میں کوئی ایسا نکتہ ضرور ہوتا ہے جس سے ذہن میں ارتعاش اور احساس کی رگوں میں ایک نئی تجلی پیدا ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

اللہ میاں کا کارخانہ: ایک بڑا ناول

ابواللیث جاوید کے ذہنی نظام میں ادب کا افادی تصور نقش ہے اس لیے انہی موضوعات کو اپنا محور بناتے ہیں جن سے معاشرتی، سیاسی، تہذیبی، اقتصادی احوال و کوائف کی عکاسی کے ساتھ فرد اور معاشرہ کی ذہن سازی کا کوئی پہلو سامنے آسکے۔ انھوں نے عصری مسائل و موضوعات کے حوالے سے بھی افسانے لکھے ہیں اور قدیم تاریخی، تہذیبی روایات کو عصری سیاق سے جوڑا بھی ہے۔ ان میں عصری سیاست، معاشرت اور ثقافت کے وہ موضوعات بھی ہیں جو اکثر صحافتی اور سیاسی ڈسکورس کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں ہمارے عہد میں Trending Topicsکی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ ایسے موضوعات کو فکشن بیانیہ میں ڈھالنا ذرا مشکل ہوتا ہے مگر ایک فن کار کمال ہنر کے ساتھ کسی بھی واقعہ، واردات کو ایسا روپ دیتا ہے کہ وہ آرٹ کا ایک شاہکار بن جاتا ہے اور اخبارات، سوشل میڈیا کے ذریعہ قائم کیے ہوئے نقش کو مٹا دیتا ہے۔ ابواللیث جاوید کی کئی کہانیاں اسی نوع کی ہیں مگر کہیں بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ کسی بھی حادثہ یا واقعہ کی محض رپورٹنگ کررہے ہیں۔ جبکہ آج ناقدین کا ایک بڑا طبقہ یہ کہہ رہا ہے کہ افسانہ یا ناول کے نام پر محض صحافتی رپورٹنگ ہورہی ہے۔ ابواللیث جاوید نے اس حدِ فاصل کو قائم رکھا ہے اس لیے ان کے یہاں کہانی پن برقرار ہے۔ ان کے افسانوں کو اس ’خانے‘ میں نہیں رکھا جاسکتا جس میں کچھ افسانوں کو نہ رکھا جائے تو افسانہ کا تشخص مجروح ہوگا۔

ابواللیث جاوید ایک منجھے ہوئے فن کار ہیں اس لیے انہیں صنفی حدود و حریم کا بھی پاس ہے۔ انھوںنے لا یعنی اور مہمل تجربوں کی آڑ میں افسانہ کے چہرے کو مسخ نہیں ہونے دیا بلکہ اسے خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش کی، ان کے ذہن نے نہ لایعنی تجربات کو قبول کیا، نہ ہی ان ترجیحات کو جو صارفی معاشرت کی وجہ سے ہمارے ذہنی نظام کا حصہ بنتی جارہی ہیں۔ انھوںنے ان اقدار اور افکار کو ہی حرزِ جاں بنائے رکھا ہے، جو انسانی تہذیب کو ارتقائی صورتیں عطا کرتے ہیں۔

اخلاقی اقدار و افکار پر ہی ان کے افسانوں کا ارتکاز ہے۔ ان کے بیشتر افسانوں میں ان کے دروں کا چراغ روشن ہے، ان کے دل اور دماغ کی ساری روشنی ان کے افسانوں میں سمٹ آئی ہے۔ زندگی اور سماج کے تئیں ان کا جو مثبت انداز نظر ہے وہی ان کے افسانوں کا عنوان بھی ٹھہرا۔ ’چراغ کی لو‘ جیسا افسانہ ایک مثبت ذہن ہی تشکیل دے سکتا ہے۔ ورنہ اس موضوع پر لکھنے والے مذہبی نرگسیت کا شکار ہوکر حقیقت کا خون کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ نہایت حساس اور نازک موضوع پر لکھا گیا یہ افسانہ نہ صرف متضاد ذہنی کیفیتوں کو ہم آہنگ کردیتا ہے بلکہ متصادم معاشرہ میں محبتوں کی ایک نئی قندیل روشن کرجاتا ہے۔ افسانہ مسجدمندر تنازعہ سے متعلق ہے۔ مقدمہ عدالت میں پہنچتا ہے۔ ایک مسلمان حاجی امین کی گواہی پر فرنگی جج مندر کے حق میں فیصلہ دیتا ہے مگر یہ فیصلہ دیوان ویریندر جی کو منظور نہیں ہوتا ہے جن کے دادا امریندر جی نے مندر کی زمین مسجد کے لیے وقف کردی تھی۔ ہندو مسلم دونوں ہی عدالت کے اس فیصلہ کو تسلیم نہیں کرتے اور فیصلہ کی کاپی عدالت کے سامنے جلادیتے ہیں کہ انہیں نفرت نہیں، محبت کے چراغ کو روشن رکھنا ہے؛ امن و اتحاد کو قائم رکھنا ہے۔ اس کہانی سے ایک اقتباس:

’’مجھے افسوس ہے کہ تلسی کو کیا لالچ دے کر اس فرنگی افسر نے اتنا بڑا مقدمہ کرادیا۔ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کبھی اس جگہ پر مندر تھا۔ حاجی امین کے بیان سے ساری سچائی معلوم ہوئی۔ یہ سوچنے والی بات ہے کہ اگر ہمارے مسلم بھائیوں کے دل میں ذرہ برابر بھی لالچ ہوتی تو حاجی امین ایسا صاف اور سچا بیان نہ دینے دیتے۔ اُن کے دل میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔ اگر عدالت حاجی صاحب کے بیان کو بنیاد بناکر ہمارے خاطر خواہ فیصلہ سناتی ہے تو ہمیں ہرگز منظور نہیں ہوگا کیونکہ اس زمین کو گفٹ کردینے میں میرے دادا جی کے جذبات کو دخل ہے اور میں اُن کی آتما کو کبھی بھی کسی قیمت پر بھی دکھی کرنا نہیں چاہوں گا…‘‘

موجودہ سیاسی سیاق و سباق میں اس افسانہ کی معنویت اور بڑھ جاتی ہے۔ ابواللیث جاوید نے ایک نہایت حساس مسئلہ کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے اور ایک بڑے پیغام کی ترسیل نہایت فنکاری کے ساتھ کی ہے۔

ابواللیث جاوید کی بیشتر کہانیوں کا تعلق معاشرتی شعور اور شعار سے ہے۔ اس لیے ان کے یہاں معاشرت کی مختلف شکلیں نظر آتی ہیں۔ جبر، استحصال، بدعنوانی، تشدد یا اس نوع کی جتنی بھی صورتیں ہوسکتی ہیں، سب ان کے افسانوی بیانیہ کا حصہ بنے ہیں۔ ’’کیسے سمجھاؤں‘‘ کرپشن/ بدعنوانی کے موضوع پر ایک مؤثر افسانہ ہے، جس میں بدعنوانی کے خاتمہ کا ایک مؤثر حل بھی پیش کیا گیا ہے۔ تو ’’میری بھی ایک بات‘‘ جہیز جیسی لعنت سے متعلق ہے جس میں انھوںنے نہایت طنزیہ انداز میں اس طبقہ کو بھی نشانہ بنایا ہے جس نے مذہب کی آڑ میں اسے کاروبار بنارکھا ہے۔ معاشرہ کی منافقت اور دوغلے پن کو انھوںنے واضح کیا ہے۔ اس میں ایک قاضی کا کردار بھی ہے جو شریعت کے لبادے میں جہیز کا طرفدار ہے۔

ابواللیث جاوید کا مقصد معاشرہ کی مکروہ شکلوں کو پیش کرنا ہے اس لیے معاشرتی موضوعات پر ان کے جتنے بھی افسانے ہیں ان میں الگ الگ معاشرہ اور ماحول سے تعلق رکھنے والے کردار خلق کیے گئے ہیں اور ان کرداروں کے وسیلے سے ماحول اور معاشرہ کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ’نصیب دشمناں‘ کا کردار جلال اپنی موروثی روایت سے نہ صرف انحراف کرتا ہے بلکہ مذہبی قدروں سے بھی برگشتہ ہوجاتا ہے۔ وہ جلال کے بجائے جے لال بن جاتا ہے۔ اس کردار کی نفسیات کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر بچوں کی صحیح طور پر تربیت نہ کی جائے، انہیں اپنے اقدار سے آشنا نہ کیا جائے تو ایسی ہی صورتِ حال جنم لیتی ہے۔ انٹرکاسٹ میرج اور اس کے منفی اثرات پر یہ بہت عمدہ کہانی ہے۔

ابواللیث جاوید اپنی جڑوں سے جڑاؤ کو بہت اہمیت دیتے ہیں، انہیں اپنی مشرقی تہذیب کی تمام تر شکلوں سے بہت لگاؤ ہے۔ وہ اپنی تہذیبی جڑوں سے جدائی کو گویا گناہ تصور کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کے افسانوں میں مشرق کی تہذیبی قدروں کا بڑا احترام ہے۔ مشرقیت ان کے افسانوں کی روح میں رچی بسی ہے۔ ’زبانِ یار من ترکی‘ میں مشرقیت کا جہاں تہذیبی و لسانی جوہر ہے وہیں مغربی فیشن کے خلاف احتجاج بھی۔ اس افسانہ میں اپنی لسانی و تہذیبی قدروں کے تحفظ پر زور ہے۔ خاص طور پر اردو زبان کی جاذبیت، شیرینی کو اس افسانہ میں بہت خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ اس کا کردار اسی ہندوستان سے تعلق رکھتا ہے مگر مغربی مزاج میں ڈھلنے کی وجہ سے اردو زبان اور تہذیب سے نفرت کرتا ہے۔ یہ افسانہ بھی بامقصد ہے اور کہانی کا پیغام بھی واضح ہے کہ جو اپنی جڑوں سے ٹوٹ جاتا ہے، اس کی حیثیت شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتّے جیسی ہوجاتی ہے۔

مشرق کا یہی تہذیبی اور تقدیسی شعور ان کے افسانہ ’بن باس‘ میں بھی ہے جس میں مغربی تہذیب کے زوال کا منظر نامہ ایک مغربی کردار کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے۔ اس افسانہ کا کردار مسز وائٹ ہیں جو آرتھو کی مریض ہیں اور اسپتال میں ایڈمٹ ہیں۔ وہ انڈیا میں رہ چکی ہیں اس لیے یہاں کی تہذیبی، ثقافتی اور اخلاقی قدروں سے آگاہ ہیں اور مشرقی تہذیب کی دلدادہ بھی ہیں۔انہیں جب پتہ چلتا ہے کہ علاج کرنے والے ڈاکٹر کا تعلق انڈیا سے ہے تو وہ پرانی یادوں میں کھوجاتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کی کہانیاں اور داستانِ عشق تک سنا ڈالتی ہے۔ ہندوستانی معاشرہ میں میاں بیوی کے رشتوں کے حوالے سے باتیں کرتی ہے اور دونوں معاشروں کا موازنہ کرتے ہوئے کہتی ہے:

’’تمہیں شاید پتہ نہیں کہ ہمارے یہاں نہ شوہر اپنی بیوی کا اور نہ ہی بیوی اپنے شوہر کی اتنی وفادار ہوتی ہے جتنی ہندوستانی جوڑے ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہیں— ہمارا معاشرہ تو ایسا ہے کہ جس طرح ہمیں کہیں بھی پیاس لگے وہیں پیاس بجھالی جاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح ہم اپنی جسمانی پیاس کہیں بھی بجھالینے میں عار محسوس نہیں کرتے۔‘‘
٭٭

’’میرے یہاں— مت پوچھو— صبح شام شوہر بدلتے ہیں، بیویاں بدلتی ہیں۔ کسی کے دل میں کسی کی عزت و احترام نہیں ہے۔ میں نے تو انڈیا میں رہتے ہوئے بڑا سکون محسوس کیا تھا مگر یہاں عدم تحفظ کے ساتھ عدمِ اعتماد بھی ہے۔ صبح کا نکلا ہوا شوہر اگر شام کو گھر واپس نہیں آتا تو ہمیں کوئی فکر نہیں ہوتی۔ ہم عورتیں بڑے آرام سے نائٹ کلبوں میں مستی کرتی رہتی ہیں۔ جب دیر رات اپنے گھر نشہ میں دھت پہنچتے ہیں تو اپنے نامدار شوہر کوکسی پرائی عورت کے ساتھ اپنے بیڈ روم میں پاکر ہمیں تعجب نہیں ہوتا۔ یہ تو ہمارا معمول ہے۔‘‘

اس افسانے کی خوبی یہ ہے کہ مشرقی تقدیس کا بیانیہ ایک مغربی خاتون کے حوالے سے ترتیب دیا گیا ہے۔ افسانہ نگار نے اگر کسی مشرقی کردار کے ذریعہ یہ بیانیہ مرتب کیا ہوتا تو کہانی میںنہ کچھ تاثر ہوتا نہ تاثیر ہوتی— یہ بہت ہی عمدہ کہانی ہے جس کا مختلف سطحوں پر تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔

مغرب کے تہذیبی زوال کی ایک اور تصویر انھوں نے ’’بیچ تھری‘‘ میں پیش کی ہے۔ یہ افسانہ ہم جنسی کے موضوع پر ہے۔ اور یہ بہت ہی گمبھیر مسئلہ ہے۔ مغرب میں یہ علت عام ہے اور اس کا اثر مشرقی معاشرہ پر بھی پڑ رہا ہے۔ ابواللیث جاوید نے اس افسانہ میں قدیم متن سے بھی استفادہ کیا ہے۔ اس طرح اس افسانہ کا رشتہ مابعد جدیدیت سے بھی جڑجاتا ہے۔ یہ بین المتونیت کی ایک اچھی مثال ہے۔

ابواللیث جاوید کا موضوعی کینوس وسیع ہے۔ انھوں نے عالمی اور مقامی دونوں تناظرات سے اپنے افسانوں کا رشتہ جوڑا ہے اور ایسے مسائل و موضوعات کو ترجیح دی ہے جو معاصر سیاست، معاشرت اور ثقافت سے متعلق ہیں۔ خاص طور پر وہ مسائل جن کی وجہ سے ہمارے خواب، خوف میں تبدیل ہوگئے ہیں۔’سناٹا بولتا ہے‘ ایسی ہی ایک کہانی ہے— جس میں دہشت گردی اور تشدد کو موضوع بنایا گیا ہے۔

ابواللیث جاوید نے جن موضوعات اور مسائل پر بھی افسانے لکھے ہیں ان میں توازن اور اعتدال کا خیال رکھا ہے۔ کہیں بھی ان کے اظہار و بیان میں شدت اور جارحیت نہیں ہے۔ انھوںنے معاشرتی روح اور ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے افسانوں کا ایک اخلاقی منشور ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ فرد اور معاشرہ میں تبدیلی، تحریک پیدا کیا جائے۔ انھوں نے اس جھوٹے عہد کی سچی کہانیاں لکھی ہیں تاکہ ہر فرد اپنے حرکات کا عکس اس افسانوی آئینہ میں دیکھ سکے۔

ابواللیث جاوید کی زبان بہت خوب صورت، سلیس اور سادہ ہے۔ افسانہ میں جو تخلیقی نثر استعمال کی جانی چاہیے انھوں نے اسی نثر کا استعمال کیا ہے۔ ایجاز اور اختصار ان کی نثر کا حسن ہے— اور اس کا التزام انھوں نے بیشتر افسانوں میں رکھا ہے۔

ابواللیث جاوید ہمارے عہد کے ایک معتبر افسانہ نگار ہیں۔ ہند و بیرونِ ہند کے مقتدر مجلات میں ان کے افسانے شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ ’’کانچ کا درخت‘‘ (1982) ادبی حلقوں میں کافی مقبول ہوا خاص طور پر ’سانپ اور شہر‘ ، ’کانچ کا درخت‘ کی بہت پذیرائی ہوئی۔ ان کی کہانیوں کو قارئین نے بھی بہت پسند کیا مگر المیہ یہ ہے کہ فکشن ناقدین نے انہیں نظرانداز کیا ہے۔ خاص طور پر بہار جو ان کی جنم بھومی بھی ہے، میدانِ عمل بھی، وہاں بھی فکشن پر لکھی گئی تنقیدی کتابوں میں ان کا چند سطری تعارف یا تبصرہ ہی ملتا ہے جبکہ ان کے افسانے اتنے اہم اور عمدہ ہیں کہ ان پر مکمل تنقیدی گفتگو ہونی چاہیے۔ ان کی زبان کے تفاعل اور متن کے ساختیے پر گفتگو ہوگی تو یقینا کچھ نئی طرفیں کھلیں گی اور نئے جہات سامنے آئیں گے۔

ابواللیث جاوید کے اس افسانوی مجموعہ میں بھی موضوعاتی تنوع ہے اور لسانی تازگی بھی۔ مجھے امید ہے کہ یہ مجموعہ تنقیدی مکالمہ کا محور ضرور بنے گا۔
٭٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here