نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے لئے عملی اقدام

0
347

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: پروفیسر مشتاق احمد

ہندوستان میں گذشتہ پانچ برسوں سے نئی تعلیمی پالیسی پر بحث ومباحثہ ، سمینار ومذاکرہ اور اس کے نفاذ کے طریقہ کار پر نظریاتی اختلافات کا دور چل رہا ہے اور اب تک پورے ملک میں نئی تعلیمی پالیسی 2020کا مکمل طورپر نفاذ نہیں ہو سکا ہے ۔جن ریاستوں میں موجودہ مرکزی حکمراں جماعت والی حکومت ہے وہاں تو مرکز کے ذریعہ اس نئی پالیسی کے اعلانیہ کے ساتھ ہی اس پر عمل شروع ہوگیا لیکن جن ریاستوں میں دیگر سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے وہاں اب تک مکمل طورپر اس پالیسی کو نہیں اپنایا گیاہے۔ جہاں تک بہار کا سوال ہے تو یہاں بھی اب تک اس کا نفاذ نہیں ہوا تھا البتہ اس پالیسی کے خاکوں پر حکومت کی جانب سے اکیڈمک سمینار اور مذاکرے ضرور منعقد ہوئے تھے۔ مگر موجودہ گورنر موصوف راجندر وشوناتھ ارلیکرجو ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہوتے ہیں انہوں نے ریاست کی تمام یونیورسیٹیوں میں گریجویٹ کورسوں کو نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق چوائز بیس سسٹم( سی بی ایس) سمسٹر سسٹم کے نفاذ کے لئے راج بھون سے ریگولیشن جاری کردیا ہے اور رواں تعلیمی سیشن 2023-27سے اس کے نفاذ کا حکم نامہ بھی جاری کردیا ہے۔واضح ہو کہ موجودہ گورنر راجندر وشوناتھ ارلیکر محض چار ماہ پہلے بہار کے گورنر کے عہدہ پر فائز ہوئے ہیں اور اپنا عہدہ جلیلہ سنبھالتے ہی بہار کے اعلیٰ تعلیمی نظام کی تبدیلی کے لئے کئی ٹھوس اقدام اٹھائے ہیں۔ بالخصوص چار سالہ گریجویٹ ڈگری کورس کے لئے انہوں نے راج بھون کے ذریعہ ایک کمیٹی تشکیل دے کر اس کورس کے نصاب کو آخری صورت دے کر تمام یونیورسیٹیوں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ نصاب میں بھی بڑی تبدیلی کی گئی ہے ۔ اس چار سالہ ڈگری کور س کے لئے انہوں نے جو کمیٹی تشکیل دی تھی اس کے چیئر مین پروفیسر سریندر پرتاپ سنگھ ، وائس چانسلر للت نرائن متھلا یونیورسیٹی دربھنگہ بنائے گئے تھے اور ان کے ساتھ ریاست کی دیگر چار یونیورسیٹیوں کے وائس چانسلر زاس کے ممبران تھے۔ چوں کہ پروفیسر سریندر پرتاپ سنگھ متھلا یونیورسیٹی، دربھنگہ کے وائس چانسلر ہونے سے قبل لکھنؤ یونیورسیٹی، لکھنؤ ،اترپردیش کے وائس چانسلر شپ کی مدت پوری کرکے آئے تھے اوروہاں وہ چار سالہ گریجویٹ کورس کو عملی جامہ پہنا چکے تھے اس لئے انہوں نے جو چار سالہ سمسٹر سسٹم کورس تیار کیا ہے وہ بہار کی یونیورسیٹیوں کے لئے نیا ضرور ہے لیکن ملک کی بیشتر یونیورسیٹیوں میں اس طرح کا کورس 2022سے ہی نافذ ہے۔

یہ بھی پڑھیں

عدلیہ اور حکومت کی کشمکش— سول سوسائٹی کا رول

یہی وجہ ہے کہ اب تک بہار کی یونیورسیٹیوں میں تین سالہ ڈگری کورس اور سالانہ امتحان کے ذریعہ پاس ہونے والے طلبا وطالبات کو دیگر ریاستوں کی یونیورسیٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے داخلہ لینے میں پریشانیاں ہو رہی تھیں۔ البتہ گذشتہ سال بہار کی واحد پٹنہ یونیورسیٹی ، پٹنہ نے تین سالہ کورس کو سمسٹر سسٹم میں تبدیل کیا تھا لیکن بقیہ تمام یونیورسیٹیوں میں روایتی تین سالہ نصاب جاری تھا۔ اب جب کہ گورنر موصوف نے اپنے حکم نامے میں تمام یونیورسیٹیوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ ریاست میں اب صرف اور صرف چار سالہ سمسٹر سسٹم ڈگری کورس کی چلائے جائیں گے تو ایک بڑی مشکل یہ پیش آرہی ہے کہ ریاست کی یونیورسٹییوں میں جب سالانہ امتحان کا نظام چل رہا تھا تو بیشتر یونیورسیٹیوں کے سیشن میں سال دو سال کی تاخیر واقع ہو گئی تھی ۔ اب جب کہ ہر ایک چھ ماہ پر امتحان ہوگا اور پابندی کے ساتھ تمام سمسٹر کے امتحانات مکمل کئے جائیں گے تاکہ سیشن میں تاخیرنہ ہو تو اس کے لئے یونیورسیٹیوں کے شعبۂ امتحانات میں مزید بنیادی ڈھانچوں کو مستحکم کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ اب چوں کہ کریڈٹ سسٹم کا نفاذ ہوگا اور اسی کی بنیاد پر نتائج بھی جاری ہوں گے تو اچانک امتحان کے نظام میں تبدیلی باعثِ پریشانی تو ضرورہوگی۔ دراصل اب طلبا کو یہ آزادی ہوگی کہ وہ اپنی پسند کے موضوعات لے کر اپنی ڈگری حاصل کریں۔ اب تک روایتی کورس میں آرٹس کے طلباء صرف آرٹس کے سبجکٹ ہی لے سکتے تھے اور سائنس وکامرس کے طلباء اپنی فیکلٹی کے سبجکٹ ہی منتخب کرسکتے تھے لیکن اس نئے کورس کے نفاذ سے سائنس کے طلبا آرٹس کا کوئی سبجکٹ بھی رکھ سکتے ہیں اور آرٹس کا طالب علم سائنس کا کوئی سبجکٹ منتخب کر سکتا ہے۔ دوسری اہم سہولت یہ ہوگی کہ پہلے تین سالہ ڈگری کورس میں داخلہ لینے والے طلبا جب تک تینوں سال کے امتحان میں شامل نہیں ہوتے اس وقت تک انہیں فائنل ڈگری نہیں دی جاتی تھی جب کہ اس چار سالہ کورس میں اگر کوئی طالب علم صرف ایک سال مکمل کرکے یعنی دوسمسٹر کا امتحان دے کر اپنی پڑھائی چھوڑ دیتا ہے تو انہیں ایک سال کی سرٹیفکٹ مل جائے گی اور اس نے دو سال پورا کرلیا تو اسے دوسری سرٹیفکٹ مل جائے گی اور اگر تین سال یعنی چھ سمسٹر مکمل کرلیا تو اسے ڈگری مل جائے گی اور ایسے طلبا جو چار سالوں تک اپنی پڑھائی جاری رکھیں گے اور کل آٹھ سمسٹر کے امتحانات دیں گے تو انہیں گریجویٹ کے ساتھ ساتھ ریسرچ کی بھی ڈگری مل جائے گی اور اسے ماسٹر ڈگری کے لئے محض ایک سال کا نصاب پورا کرنا ہوگا۔

دراصل حکومت کی منشا یہ ہے کہ اگر کوئی طالب علم کسی مجبوری کی وجہ سے ایک سال مکمل کرکے اپنی پڑھائی چھوڑ دیتا ہے تو اس کا وہ سال ضائع نہ ہو اور اسے ایک سند بھی مل جائے تاکہ وہ روزگار کے شعبے میں اپنی قسمت آزمائی کر سکے۔ اب دیکھنایہ ہے کہ یہ نیا نصاب سالِ رواں سے شروع کیا جا رہاہے اور گورنر موصوف جوبہار کی تمام یونیورسیٹیوں کے چانسلر ہیں وہ اس کا مکمل نفاذچاہتے ہیں اور محکمہ اعلیٰ تعلیم ، حکومت بہار کے پرنسپل سکریٹری بھی اس کمیٹی میں شامل رہے ہیں تو مستقبل میں یونیورسیٹیوں کے سامنے جو مسائل درپیش ہوں گے اس کا حل کس طرح نکل پاتا ہے کیوں کہ ریاست میں سیشن میں تاخیرکی وجہ سے ہی یہاں کے طلبا دوسری ریاستوں کا رخ کرتے رہے ہیں ۔ اگر اس پر قابو پا لیا گیا تو واقعی اس نئے تعلیمی نظام سے اعلیٰ تعلیم میں ایک بڑاانقلاب پیدا ہو سکتا ہے اور ریاست میں ایک نئی تعلیمی فضا قائم ہو سکتی ہے جو ریاست کے عوام الناس کے لئے مفید ثابت ہوگی۔اگرچہ حکومت بہار نے ریاست میں اب تک نئی پالیسی 2020کو مکمل طورپرنافذ نہیں کیا ہے اور اس کے نفاذ کو لے کر طرح طرح کی سیاسی بیان بازیاں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن اب جب کہ ریاست کی یونیورسیٹیوں میں گریجویٹ سطح پر نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق نصاب داخل کئے جا رہے ہیں تو ایسا سمجھا جانا چاہئے کہ یہ نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کا اشاریہ ہی ہے۔

موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]
٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here