ترجمہ کے فروغ کے لیے ہندستانی زبانوں میں لغات کی ضرورت :پروفیسر پنچانن موہنتی

0
498

اردو یونیورسٹی،شعبہ انگریزی میں ترجمہ پر دورزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اختتام

حیدرآباد۔27 مئی : ’ترجمے کو فروغ دینے کے لیے علاقائی زبانوں کی لغات تیار کی جانی چاہئیں۔ اس کے بغیر زبانوں کے درمیان افہام و تفہیم کو فروغ دینا ممکن نہیں ہے۔ کثیر لسانیت بہتر علمی صلاحیتوں کے فروغ میں معاون ہوتی ہے۔ ہندوستان کثیر لسانی ملک ہے لیکن ہندوستانی عوام نہیں ہیں۔” ان خیالات کا اظہار پروفیسر پنچانن موہنتی، جی ایل اے یونیورسٹی نے شعبہ انگریزی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی جانب سے نیشنل ٹرانسلیشن مشن،سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز ، میسورو کے اشتراک سے منعقدہ دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس بہ عنوان ” ثقافتوں کا ترجمہ: زبان اور ادب کے مشترکہ پہلوؤں کی تلاش ” کےاختتامی اجلاس میں جو جمعہ کی شام منعقد ہو ا، کیا۔ پروفیسر موہنتی نے مادری زبان کی اہمیت، بین لسانی ترجمہ اور مترجمین کی تربیت کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر امتیاز حسنین، پروفیسرآزاد چیئر، مانو نے بھی اس موقعے پر اظہارِ خیال کیا ۔
اختتامی اجلاس میں ڈاکٹر گووندیا گوداورتی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور محترمہ ثمینہ تبسم نے کانفرنس سے متعلق ایک جامع رپورٹ پیش کی۔ فرانس کے پروفیسر ایلین ڈیسولیئرس نے کانفرنس کے کامیاب انعقاد کی ستائش کی ۔ڈاکٹر قدسی رضوی نے کلمات تشکر ادا کیے۔ نظامت ریسرچ اسکالر محترمہ ٹینا تھامس نے کی۔ کانفرنس کا اختتام تقسیم ِ اسناد کے ساتھ ہوا۔
اس کانفرنس میں ترجمے کے میدان میں بر سر کار دانشوروں اور ماہرین کی ایک کہکشاں موجود تھی۔ فرانس سے پروفیسر ایلین ڈیسولیئرس کو بطور پلینری اسپیکر مدعو کیا گیا تھا۔ دیگر بین الاقوامی پلینری مقررین (جو آن لائن شامل ہوئے) میں سعودی عرب سے ڈاکٹر سید سرور حسین، ازبکستان سے نیلوفر خود جیوا، نیپال سے بھیم لال گوتم اور ہانگ کانگ سے جان چون ین وونگ شامل تھے۔ کانفرنس میں پانچ غیر ملکی یونیورسٹیوں کے مقررین کے علاوہ سولہ ہندوستانی یونیورسٹیوں مانو، افلو، جے این یو، بٹس پلانی حیدرآباد، عثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد، گجرات اور کرناٹک کی مرکزی یونیورسٹیوں، پنجاب یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، الٰہ آباد یونیورسٹی، جی ایل اے یونیورسٹی (اتر پردیش)، لولی پروفیشنل یونیورسٹی (پنجاب)، دارالہدیٰ اسلامی یونیورسٹی (کیرالہ)، ٹی وی آر کالج آف ایجوکیشن (پڈوچیری)، اور ویلور انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آندھرا پردیش) کے مندوبین شریک تھے۔
کانفرنس کے مختلف اجلاسوں کے صدور اور کلیدی مقررین میں پروفیسر عصمت مہدی، پروفیسر ہریش نارنگ، پروفیسر سُربھی بھارتی، پروفیسر ٹی وجے کمار، پروفیسر پنچانن موہنتی، پروفیسر آمنہ کشور، پروفیسر انیس الرحمٰن، پروفیسر ہریبندی لکشمی، پروفیسر پشپندر سیال، پروفیسر اکشے کمار، پروفیسر کرسٹوفر کے ڈبلیو، پروفیسر امیت کمار اور پروفیسر وی بی تارکیشور جیسے نامور ماہرین شامل تھے۔
ایم اے انگلش کے طلبہ نے کانفرنس کے پہلے دن شام میں ترجمہ سے متعلق ایک دلچسپ ثقافتی پروگرام کے تحت حبیب تنویر کا تحریر کردہ ڈرامے “آگرہ بازار ” کے چند دلکش مناظر پیش کیے۔ اس موقعے پر طلبہ نے مشہور گیت “ہم ہوں گے کامیاب ایک دن ” کو چار زبانوں میں دلنشیں آواز میں پیش کیا۔
کانفرنس کے دوسرے دن این ای پی 2020 اور ترجمے کے مسائل پر ایک پینل ڈسکشن منعقد کیا گیا جس کی ماڈریٹر پروفیسر شگفتہ شاہین، آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی-او ایس ڈی I اور صدر شعبہ انگریزی ، مانو تھیں۔ اس میں مانو کے اسکول براے السنہ، لسانیات اور ہندوستانیات کی ڈین پروفیسر عزیز بانو،پروفیسر سید علیم اشرف جائسی، صدر شعبہ عربی، پروفیسر شمس الہدیٰ، صدر شعبہ اردو، ڈاکٹر سید محمود کاظمی، صدر شعبہ ترجمہ اور ڈاکٹر جی وی رتناکر صدر شعبہ ہندی نے بہ طور ماہر شرکت کی۔
اس کانفرنس کا مقصد مختلف تہذیبوں و ثقافتوں کے مابین آپسی سمجھ اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے میں ترجمے کے کردار سے متعلق نئی بصیرت اور نقطہ نظر پیدا کرنا تھا۔ اس میں شرکا کومختلف علمی مباحثوں کے دوران ترجمے کے میدان میں کام کرنے والے ماہرین کے ساتھ تبادلہ خیال کا موقع ملا۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here