اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
تبصرہ نگار: محمد سخی خان
’’بولتی حقیقتیں‘‘کے نام سے یہ نثری کتاب مثال پبلشرز فیصل آباد سے 2022ء میں شائع ہوئی۔ کتاب کے مصنف ایک ریٹائرڈ پولیس افسرہیں۔ کتاب کے نام اور مصنف کے شعبۂ زندگی کی مناسبت سے خیال تھا کہ اس کتاب کے موضوعات پر ایک پولیس افسر کی زندگی کا رنگ غالب ہوگا۔ اس کتاب کا ذکر سن کر ذہن میں پہلا خیال یہ ابھرا کہ ایک پولیس افسر نے سروس کے دوران جن تلخ معاشرتی حقائق کا مشاہدہ کیا ہوگا ، وہی اس میں درج ہوں گے۔ کتاب کے مطالعے سے قبل ذہن میں دوسرا خیال یہ تھا کہ مصنف نے اپنی زندگی چونکہ پولس افسر کے طور پر گزاری ہے جہاں سخت اور کھردرے لہجے برتنے کا رواج عام ہے، اس لیے کتاب کے الفاظ میں بھی وہی چبھتا ہوا غیر ادبی کھردرا پن عیاں ہو گا۔ ایک خیال یہ بھی ذہن میں تھا کہ ایک افسر کی مصروف زندگی میں مطالعے جیسے کاموں کا وقت نہیں بچتا ہوگا اس لیے یہ کتاب علمی حوالے سے خالی خالی سی ہوگی۔ سوچنے کو تو انسان کچھ بھی سوچ سکتا ہے لیکن یہ قطعاً ضروری نہیںہے کہ حقیقتیںہماری سوچ کے عین مطابق نکلیں۔ یہی ہوا، جب کتاب کا مطالعہ کیا تو یہ حقیقتیں کچھ اور بول رہی تھیں۔ الفاظ کے استعمال اور جملوں کے نشست و برخاست میں حسنِ ترتیب اور سلاست و شائستگی دیکھ کر میں نے کتاب کی پشت پر لگی مصنف کی باوردی تصویر کو دوبارہ سے بغور دیکھا۔ تصویر میں زیرِ لب تبسم کا اظہار ہوا، جیسے مجھ سے کہا جا رہا ہو کہ کتاب پڑھو، تصویروں میں کیا جھانکتے ہو۔پھر میں نے بھی یہی سوچا کہ تصویر کی بجائے مصنف کے داخلی جہان میں جھانک لیا جائے۔
کتاب کے الفاظ اور موضوعات کی سیڑھی پر کھڑے ہوکرمیں نے جہانِ کتاب کے دریچوں سے تانک جھانک شروع کردی۔ان دریچوں سے پھوٹنے والی پہلی خوشبو جو مجھ تک پہنچی وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آل رسولؐ سے محبت کی خوشبو تھی۔ الفاظ کی بے ساختگی بتا رہی تھی کہ الفاظ میں موجود جذبات مصنوعی نہیںہیں بلکہ یہ محبت گہری جڑیں رکھتی ہے۔ میںنے ایک دوسرے روزن پہ آنکھ رکھی تو دل زور سے دھڑکا۔ روزن میں سے نورانی اور رعب دار چہرے والے مولانا عبد الستار خان نیازی نظر آئے۔ مصنف مولانا صاحب کے سامنے عقیدت سے سر جھکائے، ہاتھ باندھے باادب کھڑے تھے۔ مولانا نیازی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریک ختم نبوت اور تحریک نظامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قابلِ فخر کردار ادا کیا تھا۔
جہانِ کتاب کی ایک اور درز پہ آنکھ پیوست کی تو مصنف اپنے خاندان کے صاحبانِ قلم اکابرین: مولانا کوثر نیازی، ڈاکٹر اجمل نیازی اور پروفیسر اکبر خان نیازی کے ساتھ ایک ہی شجر و شجرہ کے سائے میںبیٹھے نظر آئے۔اس شجروشجرہ کا سایہ میرے لیے نامانوس نہیں تھا۔ مجھے اس سائے میں ان کے خاندان کی کئی ایسی قدآور اور علمی شخصیات بھی بیٹھی نظر آئیں جن کا تذکرہ کتاب میںبراہ راست موجود نہیں تھا لیکن ان کے عکس موجود تھے۔
میں نے ایک اور کھڑکی سے جھانکا تو ہنس دیا۔ کھڑکی کے اُس پار مصنف نے ایک بچے کا روپ دھار رکھا تھا۔وہ یہاں سرجھکائے ٹاٹ پر بیٹھاسرکنڈے کے قلم سے تختی لکھتا نظر آیا۔ اس کے پاس پروفیسر ظہور الحسن ارزش اور عبدالعلی خان نامی استاد بٹھے نظر آئے جو مصنف کے دل کی تختی پر اپنے اثرات قلم بند کر رہے تھے۔
پھر ایک جگہ مجھے مصنف ایک ادبی نشست میں نظر آئے۔ منیرنیازی، اشفاق احمد اور احمد ندیم قاسمی کے ہمراہ رئیس احمد عرشی، ممتاز عارف اور ہارون الرشیدتبسم موجود تھے ،جو شعرو سخن کے پھول کھلا رہے تھے۔ ایک جگہ مجھے کچھ باوقار سی باوردی شخصیات بھی نظر آئیں جو میرے لیے اجنبی تھیں۔ مصنف نے پولیس ڈیپارٹمنٹ کے کچھ ایسے افسروں کو اپنے ساتھ بٹھا رکھا تھا جو اچھی شہرت کے حامل تھے۔ایک جگہ مصنف مجھے سیا سی جلسے میں بھی نظر آئے۔ عمران خان (سابق وزیراعظم) تقریر کر رہے تھے اور مصنف ہمہ تن گوش تھے۔
ایک جگہ لوح دیوار پہ مصنف کا شجر ۂِ نسب آویزاں نظر آیا تو میں نے بھی فوراً اپنے شجرے کی پوٹلی کھولی۔ مواز/معاذ خان (آزاد خان کے بھائی) سے قبل کا شجرہ یکساں تھا۔ شجرے میں لودھی کی والدہ اور نیازی قبلے کے بانی’’بابا نیازی‘‘ کی دادی، بی بی متو، کا ذکر موجود نہیںتھا۔ بی بی متو کی نسبت سے بابا نیازی کو متوزئی کہاجاتا تھا۔ بعدازاں نیازی نامی اس افغان سردار کی اولاد کو نیازئی کہا جانے لگا۔ بی بی متو کے شوہر کی دوسری بیویوں کی اولادوں نے الگ شناخت پائی تھی۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ نیازی کا اصل نام نیاز تھا جسے پیارسے نیازی کہا جاتا تھا۔ افغانستان میں’’ ی‘‘کو پانچ مختلف طرح سے ادا کار جاتا ہے جس سے لفظ کی معنوی حیثیت میں بھی تغیر رونما ہوتا ہے۔کسی اسم کے ساتھ ’’زئی‘‘کو ’’بیٹا، آل‘‘ کے معنوں میں بطور لاحقہ استعمال کیاجاتا ہے۔ جیسے یوسف زئی، سدوزئی وغیرہ۔ تاہم برصغیر کی بیشتر زبانوں میں’’ی‘‘کے لاحقہ کو’’ کا، کی، کے‘‘ کے معنوں میں بھی برتا جاتا ہے۔ جیسے: لاہور سے لاہوری (لاہور کا)۔ اس لسانی تغیرکی وجہ سے’’نیازئی‘‘ کا لفظ اب یہاں’’نیازی‘‘کے تلفظ کے ساتھ مستعمل ہے۔
اس شجرے کے علاوہ بھی کتاب میں مجھے مصنف کے قبیلے اور خاندان کے دیگر بہت سے لوگوں کی زیارت ہوئی۔ مصنف کے خاندان کے ساتھ علی لغاری نام کا ایک اجنبی فرد بھی موجود تھا جو منہ بولے رشتوں کی صورت میں خونی رشتوں کے برابر آن کھڑا ہوا تھا۔ اس کتاب میں ایک جگہ میں نے دیکھا کہ مصنف اپنی ماں کی آغوش میں بیٹھ جانے کے لیے ماں کے سامنے بلک رہا ہے۔ماں کی آغوش تسکین و تحفظ کا مقام ہے۔ اس اصرار میں بے بسی محسوس ہوئی۔ مجھے لگا کہ مصنف شاید تھکا ہوا ہے یا شاید ڈرا ہوا ہے اس لیے ماں کی گود میں پناہ لینے کا خواہاں ہے۔
مصنف کو میں نے کئی اہم شخصیات کی محفلوں کے علاوہ تخلیے میں بھی دیکھا۔ تخلیے میں وہ مختلف موضوعات پر خودکلامی کرتے نظرآئے۔ ان کی خود کلامی میں گنگناہٹ جیسا آہنگ موجود تھا۔ گنگناہٹ میں موجود موسیقیت کے سُر زیادہ پیچیدہ نہ تھے مگر اپنے اندر بھرپور کشش رکھتے تھے۔ تخلیہ انسان کی آرزوؤں اور خواہشات کے نخلستان کا نام ہوتا ہے۔ اس نخلستان میں بیٹھے ہوئے مصنف کی دو خواہشات مجھے نظر آئیں۔ صفحہ نمبر تیس کی آخری سطور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی خوبصورت خواہش درج تھی جب کہ دوسری خواہش کا تعلق میری محسوسات سے ہے کہ مصنف اپنے لیے اولاد نرینہ کی خواہش کی بجائے اپنی بیٹیوں کے لییان کے بھائی کی کمی محسوس کرتے ہیں۔
اس کتاب میں مصنف نے اپنی حقیقی زندگی سے متعلق کچھ یادگار تصاویر بھی شامل کی ہیںلیکن سرِ ورق کی تصویر میں جھانکتی پانچ آنکھوں کی تعداد اور زندگی کی الجھی راہوں جیسی شاخوں کا ایک جال بھی اپنے اندر ایک معنی خیزی لیے ہوئے ہے۔
مصنف کو زندگی میں ایک آدھ بار دیکھا ہے لیکن ان سے کبھی تفصیلی ملاقات نہیں ہوئی، تاہم اس کتاب کے مطالعے سے مصنف کے مزاج و نفسیات کا ادراک ممکن ہوا۔ مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ مصنف نے ہمیشہ اچھے لوگوں پر اپنی نظر مرکوز رکھی ہے۔ مثبت سوچ کی یہی نشانی ہے کہ مثبت سوچ والے انسان کا زیادہ دھیان مثبت چیزوںپر رہتا ہے۔ مصنف نے مثبت تشخص کی حامل شخصیات پر قلم اٹھایا اور ان شخصیات کے مثبت پہلوؤں کو زدِقلم کیا ہے، چنانچہ ہم مصنف کو مثبت سوچ کا حامل شخص قرار دینے میں حق بجانب ہیں۔ مصنف معاشرے کا نقاد و جراح نہیں ہے بلکہ وجدان کا کیمرہ لیے پھولوں کی تصویریں بناتا پھرتا ہے۔ مصنف دوسروں کے کندھے پر سوار ہوکر خود کو نمایاں کرنے کی بجائے خوبصورت خدو خال کے حامل کچھ دوسرے لوگوں کی تصاویر کو اونچا کر کر کے انھیں نمایاں کر رہا ہے۔ مصنف جن لوگوں سے پیار کرتا ہے ان کے حصے کے پیار کے اظہار میں کنجوسی سے کام نہیں لیتا بلکہ سطر سطر سے ان کی محبتوں کے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔بڑا آدمی وہی ہوتا ہے جو اپنے اردگرد پھیلے لوگوں سے اور اپنی مٹی سے محبتوں کے رشتے قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ اس لحاظ سے شفقت نیازی ایک بڑا آدمی ہے۔
مصنف کے لیے بہت سی تعظیم، بہت سا پیار اور بہت سی دعائیں ہیں، نیز اب سے ان کی اگلی کتاب کا انتظار ۔
٭٭٭٭