ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کا تنقیدی رویہ :’’ تفہیمات و ترجیحات‘‘ کی روشنی میں

0
613

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)

 


مضمون نگار:ڈاکٹر مجیر احمد آزاد

ڈاکٹر شیخ عقیل احمد علم وادب کی عالمی بستی میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ انہوں نے معلم کی حیثیت سے اردو زبان وادب کے طلبہ کو فیضیاب کیا ہے۔قلم کار کے طور پر ان کی تحریریں پسند کی جاتی رہی ہیں ۔ ’’غزل کا عبوری دور ‘‘،’’ادب ،اسطور اور آفاق ‘‘، ’’فنِ تضمین نگاری :تنقید و تجزیہ ‘‘، ’’مغیث الدین فریدی اور قطعات تاریخ ‘‘،’’مغیث الدین فریدی کا تخلیقی کینوس ‘‘ ، ’’تفہیمات و ترجیحات‘‘ وغیرہ ان کی اہم تصنیفات ہیں جن میں مطالعہ پسندی کا درک اور ہمہ رنگ تنقیدی کاوشیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں ۔ ’’ادب کی جمالیات‘‘ ، ’’فکشن کے فنکار :پریم چند اور شکیل الرحمن‘‘ جیسی اہم کتابیں ان کی ترتیب کاری کے حسن کا نمائندہ ہیں۔ انہوں نے عنبری رحمن کے افسانوی مجموعے ’’مٹی کی خوشبو‘‘ اور ’’ رنگ حیات‘‘ کو بھی ترتیب دیا ہے ۔ مذکورہ تمام تصنیفات و تالیفات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ شیخ عقیل احمد کی تحریریں متفرق موضوعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئی ہیں ۔ ’’تفہیمات و ترجیحات ‘‘ کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے شعر و نثر دونوں اصناف کو اپنے رشحات قلم کا عنوان بنایااور خیالات کی ترسیل میں کامیاب ہوئے ہیں۔
’’تفہیمات و ترجیحات ‘‘ کے مشمولات میں شیخ عقیل احمد کی نثرسے دلچسپی نمایاں ہے ۔ ’’حمد و ثنا کی تقدیسی معنویت‘‘ ،’’قدیم ہندوستانی فلسفہ اور کالی داس کی تخلیقات میں ماحولیاتی اشارے ‘‘ ،’’علامہ اقبال کی شاعری میں فطرت کی منظر کشی ‘‘،’’ بیسویں صدی میں خاکہ نگاری کی سمت و رفتار ‘‘، ’’عالمی بحران اور فیض احمد فیض کی معنویت ‘‘،’’منٹو کے افسانوں میں جنس کی جمالیات ‘‘، ’’ ہم عصر تنقیدی رویے‘‘،’’محمد حسن کا تنقیدی وژن ‘‘، ’’شکیل الرحمن کی جمالیاتی بو طیقا ‘‘،’’منٹو کے افسانوی اسلوب کا جمالیاتی پہلو ‘‘ ،’’فلسفیانہ بصیرت اور عصری احساس کا شاعر :فرید پربتی ‘‘، سیدہ جعفر اور فلسفیانہ تنقید‘‘،’’ نور مجرد کا شاعر فرید پربتی ‘‘، ’’عنبری رحمن کے افسانوں میں تانیثی حسیت ‘‘ ،’’نثری نظم ‘‘،’’فراغ روہوی بحیثیت دوہا نگار ‘‘،’’شموئل احمد کا افسانہ’ نملوس کا گناہ‘ ایک تجزیہ ‘‘ مضامین / مقالے میںمتن سے سروکار، ایماندارانہ ایپروچ اور اظہار رائے میں بے ساختگی متاثرکرتے ہیں ۔ یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ قلم کار نے نثر ی شہ پاروں اور شخصیات کو نمایاںطور پر اپنی تنقیدی حوالوں کا حصہ بنایا ہے۔
منٹو اردو افسانوی ادب کا وہ معتبر اور ممتاز نام ہے جن کی تخلیقات کانقد و احتساب بہتوں سے زیادہ ہوا ہے ۔بطورِ خاص جنسی موضوعات پہ مبنی ان کے افسانے الگ الگ نظریے سے دیکھے گئے۔ قاری کا ایک طبقہ انہیں بے حد پسند کرتا رہا ہے جبکہ ان موضوعات کی پیش کش کے سبب اعتراضات کرنے والے بھی کم نہیں ہیں۔ ان میں جو سب سے اہم ہے ،وہ منٹو کا اپنا انداز ہے اور اس کے سبھی قائل ہیں۔ شیخ عقیل احمد بھی انہیں قلم کاروں میں شامل ہیں جنہوں نے منٹو کے ابعاد واضح کرنے کی سعی ہے ۔زیر گفتگو کتاب میں منٹو کے حوالے سے دو مضامین شامل ہیں ۔اسی سے مصنف کی فن کار سے وابستگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے اس نامور فکشن نویس کے افسانوں میں جنس کے حسن کو فطری جذبہ قرار دیا ہے۔وہ ’’منٹو کے افسانوں میں جنس کی جمالیات ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ منٹو کے اسلوب سے منٹو کا فن ،ان کے تجربے اور روح ہم آہنگ ہو کر جنسی تلذذ کو لافانی بنا دیتے ہیں ۔منٹو کا کمال یہ ہے کہ مختلف النوع جنسی تجربات و احساسات کے اظہار کے لئے جو پیرایہ بیان اختیار کیا ہے اس نے ان کے اپنے تجربے شامل ہوگئے ہیں اور ان کا قاری بھی ویسا محسوس کرنے لگتا ہے جیسے ان کے افسانوں کے کرداروں نے محسوس کیا تھا۔‘‘ (ص :۱۱۳)
شیخ عقیل احمد منٹو کے ا فسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے اس کی روح تک پہنچنے کوشش کرتے ہیں ۔منٹو چوں کہ عظیم فن کار ہے اس لئے کسی بھی موضوع کو عمومی نہیں مانتے ہیں اور اسی طرح کا برتا ئو بھی افسانوں میں رکھتے ہیں ۔جنس کے تعلق سے موضوعات ان کے نزدیک اور بھی اہم ہیں کہ ان کے شناخت نامے کا حصہ قرا ر پائے ۔شاید اسی وجہ سے شیخ عقیل احمد ان افسانوںکا باریک بینی سے تجزیہ کرتے ہیں اور فکری اور فنی طور پر جائزہ لیتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ:
’’منٹو کے افسانوں میں سیکس کا اصل جو ہر ultimate جنسی لذتیت کے ان لمحوں کے بیان میں نظر آتا ہے جہاں منٹو کے نسوانی کرداروں کے بدن سے طرح طرح کی خوشبو نکلنے کا احساس ہوتا ہے ۔ان کی ان تحریروں میں بھی نظر آتا ہے جہاں انہوں نے sexuality کو Texuality میں تبدیل کر دیا ہے اور وہاں بھی جہاں ان کے فن کی جمال و جلال اور ان کی روح جنس سے متعلق افسانوں کے کرداروں کے جذبات و احساسات اور اعمال سے ہم آہنگ ہو گئی ہے ۔‘‘ (ص: ۱۱۷)
’’منٹو کے افسانوی اسلوب کا جمالیاتی پہلو ‘‘ ان کا ایک اہم مضمون ہے جس میں تخلیق کار کے جملہ کارکردگی میں شاندار اور متاثر کن نگارش کو موضوع بنایاگیاہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ ہر ایک تخلیق اپنا پیرہن رکھتی ہے اور یہ حسن و قبح سے معری ہوتی ہے ۔یہاں مقالہ نگار کی ستائش ہونی چاہئے کہ ان پر دوسرے نقادوں کا کوئی خاص اثر نہیں ہے ۔ وہ اس طرح رقم طراز ہیں :
’’ منٹو کا اسلوب دراصل افسانوی ادب کا وہ روشن اسلوب ہے جو قاری کے شعور و احساس کو متاثر کرتا ہے اور بصیرت بھی عطا کرتا ہے ۔ان کی افسانوی اور فن کارانہ بصیرت نے ان کے اسلوب کو خلق کیا ہے ۔منٹو کی زبان وبیان کے ذریعے ہندوستان کی سماجی صورت حال و تہذیبی وحدت کا پتہ چلتا ہے ۔ان کے اسلوب میں ان کی شخصیت کے کئی پہلو ئوں کو شدید طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ان کے کرداروں کے تجربے ان کے اپنے تجربے بن گئے ہیں ۔مختلف موضوعات پر مشتمل منٹو کے افسانوں کی فن کارانہ پیش کش کرداروں کے جذبات و احساسات اور مذہبی کش مکش کے جوہر کو جس طرح نمایاں کرتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ منٹو نے کس طرح تمام واقعات و حادثات اور کرداروں کے اعمال کو اپنے اندر جذب کر لیا ہے ۔ان کے افسانوں کے مختلف موضوعات ،مواد اور بعض پیچیدہ اور نازک issuesکو سمجھنے میں وژن کا کارنامہ بھی کم اہم نہیں ہے۔یہ منٹو کے وژن ہی کا کرشمہ ہے کہ افسانوں کے کئی بے معنی الفاظ اور جملوں کے ذریعے نہ جانے کتنے با معنی مفاہیم اور سچائیوں تک پہنچنے کی کامیاب کوشش ملتی ہے ۔‘‘ (ص:۱۵۵)
منٹو پر فحش نگاری کا الزام لگانے والے کی دلیلیں اپنی جگہ مگر جنس کے بیان میں جو صداقت اور فطری پن ہونی چاہیے اس باب میں ان کے معترضین بھی خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ۔ انہوں نے نقادوں کے رویے کا اس طرح ذکر کیا ہے :
’’… سیکس جمالیاتی انبساط و آسودگی کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے ۔جنسی عمل کے انبساط میں جسم کا جمال و جلال مختلف رنگوں میں ابھرتا ہوا معلوم ہوتا ہے ۔ سیکس موضوع اور اسلوب کی تخلیق کا سر چشمہ بھی ہے لیکن اس موموضع کے اظہار کے لئے زبان و بیان پر گرفت ہونا ضروری ہے ورنہ اس کے اظہار میں ذرا سی لغزش فن کار کو فحش نگار کے زمرے میں لا کھڑا کر دیتی ہے۔لیکن اگر فن کار سیکس کی اصل روح تک پہنچنے کی کوشش کرے اور زبان کی نزاکتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو پیش کرے تو قاری سیکس کی اس دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاں آنند ہی آنند ہے ۔منٹو نے اپنے افسانوں میں سیکس کی اصل روح کو ہی پیش کیا ہے لیکن زیادہ تر نقادوں نے ان کے اسلوب کی نفاست اور لطافت کو سمجھے بغیر ان پر فحش نگاری کا الزام عاید کر دیا ۔‘‘ (ص :۱۶۴ )
افسانہ نویس عنبری رحمن کے افسانوں پر شیخ عقیل احمد کا مطالعہ وسیع ہے۔ انہوں نے ان کے افسانوں کو ترتیب دیا اور ان کی خوبیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ خاتون تخلیق کا ر کے موضوعات اور اس میں تانیثی افکار و نظر کی تلاش اور اس کے اقدار کی تعیین میں مضمون نگار کا رویہ احسن ہے ۔ انہوں نے افسانوں میں عورت کے کردار ،محبت ،وفا شعاری ،عزت نفس کے لئے حد سے گزر جانے کا حوصلہ وغیرہ کی ستائش کی ہے جو عنبری رحمن کے یہاں نمایاں ہیں ۔وہ ’’عنبری رحمن کے افسانوں میں تانیثی حسیت ‘‘ میں افسانہ نگار کا اس طرح تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ عنبری رحمن ایک تازہ کار افسانہ نگار ہیں ۔انہوں نے اپنے افسانوں میں انہیں واقعات و حادثات کو موضوع بنایا ہے جنہیں انہوں نے اپنے ارد گرد کے ماحول میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔اسی لئے ان کے افسانوں میں علاقائی رنگ کے ساتھ ساتھ آفاقیت بھی پیدا ہو گئی ہے ۔مثلاً عورتوں کے مسائل کو اس طرح پیش کیا ہے کہ اب وہ علاقائی مسائل نہیں رہے بلکہ آفاقی ہو گئے ہیں کیوں کہ ان مسائل میں تانیثی آگہی کار فرما ہے۔ ‘‘ (ص:۱۹۹-۲۰۰ )
ذکر آچکا ہے کہ مصنف کو فکشن سے خوب دلچسپی ہے ۔اس کا جیتا جاگتا ثبوت ’’شموئل احمد کا افسانہ نملوس کا گناہ ‘‘(ایک تجزیہ ) ہے۔ انہوں اس افسانے میں کرداروں کی نامیت اور معنویت نیز عصری منظر نامے میں اس کہانی کی صداقت کا بحسن و خوبی جائزہ لیا ہے ۔شموئل احمد وہ افسانہ نگار ہیں جن کا امتیاز ان کے موضوعات اور کرداروں کی تخلیق کے حسن میں پوشیدہ ہے ۔تجزیہ کار کے جملے یاد ماضی سے روبرو ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔وہ اس افسانے کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ افسانہ ’نملوس کا گناہ ‘عمرانہ کے اس مشہور واقعہ سے ماخوذ ہے جس میں عمرانہ کے اپنے ہی خسر نے اس کی عصمت لوٹ لی تھی اور شہر قاضی نے فتویٰ جاری کر کے عمرانہ کو اس کے شوہر کے لئے حرام قرار دے دیا تھا اور اس کے سسر کے جرم کے متعلق یہ کہا تھا کہ اس کو سزا ہندوستان کی عدلیہ دے گی ۔قاضی شہر کے اس فیصلے سے سارا ہندوستان ششدر رہ گیا تھا۔سماج کے مختلف تنظیموں اور ادیبوں نے اس فیصلے پر احتجاج بھی کیا تھا شموئل احمد ایک حساس اور سچے تخلیق کار ہیں ،ہندوستان کے اتنے بڑے واقعہ سے اثر قبول کئے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں ۔لہٰذا انہوں نے احتجاج درج کرنے کے لئے افسانہ ’’نملوس کا گناہ ‘‘ کی تخلیق کی ۔افسانہ بھی اپنے قاری سے سوال کرتا ہے کہ نملوس نے آخر کیا گناہ کیا تھا کہ معاشرے نے اسے حلیمہ سے دست بردار کر دیا ۔‘‘ (صفحہ:۲۳۷)
شیخ عقیل احمد کو ناقدین اور قارئین کا حلقہ میسر ہے ۔ ان پر مشاہیر ادباء نے خامہ فرسائی کی ہے ۔ڈاکٹر امام اعظم کا مضمون ’’پروفیسر شیخ عقیل احمد کی تنقیدی بصیرت ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں موصوف کی تحقیقی ،تنقیدی اور دیگر ادبی کارگزاریوں کو سراہا گیا ہے نیز ان کی اہم تصنیفات و تالیفات کے محتویات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔انہوں نے مطالعے کا نتیجہ بر آمد کرتے ہو ئے لکھا ہے کہ:
’’…یہ بات بلا تکلف کہی جا سکتی ہے کہ اردو تنقید و تحقیق کے عصری منظر نامے میں جو بیسویں صدی کے اواخر تا حال محیط ہے ،میں جن محققوں و نقادوں نے اپنی بے باک گفتگو اور غیر جانب دارانہ طرز تحریر ،نیز تنقیدی بصیرت سے عوام و خواص کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ،اس میں ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کا نام نمایاں ہے ۔اپنے استاد محترم مغیث الدین فریدی کی تخلیقات کی ترتیب و تزئین و باز اشاعت سے لے کر مختلف النوع ادبی موضوعات پر نادرالخیال اور حقیقت بیانی سے متصف مضامین /مقالات ڈاکٹرموصوف کو موجود ہ اردونقادوں کی پہلی صف میں کھڑا کرتے ہیں۔‘‘ (روزنامہ ’’عوامی نیوز‘‘ پٹنہ ۱۱ ؍فروری۲۰۲۳ء، ص :۵)
’’تفہیمات و ترجیحات ‘‘ میں’’ قدیم ہندوستانی فلسفہ اور کالی داس کی تخلیقات میں ماحولیاتی اشارے ‘‘ ،’’ بیسویں صدی میں خاکہ نگاری کی سمت و رفتار ‘‘، ’’ ہم عصر تنقیدی رویے‘‘،’’محمد حسن کا تنقیدی وژن ‘‘، ’’شکیل الرحمن کی جمالیاتی بو طیقا ‘‘ ،’’ سیدہ جعفر اور فلسفیانہ تنقید‘‘وہ چیدہ مضامین ہیں جن کا تعلق نثرسے ہے۔ ان میں موضوع کو پوری طرح آشکارا کیا گیا ہے ۔اس طرح شیخ عقیل احمد نے بین لسانی ادبی اقدار ،تحقیق و جستجو ،تنقیدی محاسبہ اور ہم عصر ادبی منظر نامے کو اپنی تحریر کا نہ صرف حصہ بنایا ہے بلکہ اپنی بے باکی اور معروضی نقطۂ نگاہ سے حلقہ ٔ قارئین و ناقدین کے درمیان مقبولیت حاصل کی ہے۔ان کے ادبی کارنامے بنظر تحسین دیکھے جاتے ہیں اور ان سے استفادہ کیا جاتا ہے ۔کسی بھی قلم کار کے لئے یہ وجہ خوشنودی ہو سکتی ہے ۔

9430898766
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here