متین اچل پوری کے ننھے منھے گیت

0
370

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


حُسین قُریشی

متین اچل پوری مشہور و معروف ادیب الاطفال ہے۔ آپ نے بچوں کے نظمیں اور کہانیاں تحریر کی ہیں۔ چوںکہ آپ پیشہَ مدرسی سے وابستہ تھے۔ اس لئے بچوں کے بارے میں مکمل تجربات رکھتے تھے۔ بچوں کی دلچسپی ، پسند ، ان کی نفسیات کو بخوبی سمجھتے تھے‌۔ آپ کی زندگی کا نصف صدی سے ذائد عرصہ ادبِ اطفال تحریر کرنے میں گزرا ہے۔ اس دوران آپ نے بالخصوص بچوں کی ہمہ جہت ترقی کو مرکز بناکر ان کے لئے کہانیاں ، نظمیں اور گیت باقاعدہ مسلسل و مستقل تحریر کئے ہیں۔ آپ کی تحریریں کافی مقبول ہیں۔ کیوں کہ اس میں بچوں کی سطح کا مواد بچوں کی زبان میں موجود ہیں۔ آپ کے بارے میں بہت سے معروف ادبی شخصیات نے آپ کے بارے میں مثبت خیالات پیش کئے ہیں۔ کسی نے آپ کو’ بچوں کا باوا آدم‘ کہا۔ تو وہی امین انعامدار نے آپ کو ‘بچوں کا نمائندہ شاعر کہا ہے‌۔ وہی پر سید صفدر کہتے ہیں کہ “متین اچل پوری بچوں کے دوست۔۔۔۔ اور صالح فکر کا شاعر ہے۔” گویا آپ کے ادبی کارناموں کو ہر کسی نے دلچسپی کے ساتھ سمجھا اور پھر اس پر اپنی قلم کے موتیوں کی لڑی سجائی۔ جس سے متین اچل پوری کی تحاریر مزید روشن ہوتی گئی۔ چھوٹے بڑے سبھی حضرات نے متین اچل پوری کو سنوارہ اور سراہا ہیں۔ اس وسیع و عریض عرصے میں آپ کی تقریباً 17 کتب منظر عام پر آئی ہوئی ہیں۔ جس میں 14 کتب میں نظمیں موجود ہیں۔ ایک کتاب ‘اکشر دھارا’ نام سے ہندی زبان میں گیتوں کا مجموعہ ہے۔ اوردو کتب میں بچوں کے لئے کہانیوں موجود ہیں۔ آپ کی پانچ کتب زیر طبع ہیں‌۔ اس کی اشاعت کے وقت درکار ہیں۔ کیوںکہ موصوف اس دارفانی سے رخصت کرگئے ہیں۔ بحر حال آج ہم ان کتب میں ایک کتاب بنام ‘ ننھے منھے گیت ‘ کا جائزہ لینے کی کاوش کرتے ہیں۔ کتاب کا سرورق مختلف پھولوں ، پھلوں ، دائروں اور دیگر چھوٹی موٹی اشکال سے مزین ہیں۔ جو ننھے منے بچوں کو اپنی جانب راغب کرتا ہے۔ کتاب کا نام جلی لفظوں میں نمایاں طور پر لکھا ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس کتاب کے بارے میں معلومات لکھی ہوئی ہے کہ یہ کتاب درجہ اول و دوم کے طالب علموں کے لئے مفید ہے۔ جو نئی تعلیمی پالیسی کے تحت بنائی گئی ہے۔ اسی صفحے پر نیچے مصنف کا نام لکھا ہوا ہے۔ کتاب کو دیکھتے ہی ایک نظر میں اہم نکات ذہن نشین ہوجاتے ہیں‌۔ دوسرے صفحے پر کتاب کے بارے میں مزید معلومات دی گئی ہیں۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب سن 1994 شائع ہوئی تھی‌۔ جس کی کتابت اور ٹائٹل و ڈیزائن کبیر حنفی اچل پوری نے کی تھی۔ اس کتاب کے ناشر ندیم پبلیکیشنز قاصد پورہ اچل پور ہیں۔ وہی اس کی طباعت وینت آفسیٹ اچل پور نے کی تھی۔ اس کتاب کی قیمت 10 روپیہ ہے۔ جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں۔ یہ ہدایت بھی سرفہرست موجود ہیں۔ یہ کتاب قومی تعلیمی پالیسی کے تحت چھوٹے بچے جن کی عمر چھ تا سات سال ہیں۔ ان کے لئے سماعت کا مواد مہیا کرتی ہیں‌۔ مطلب یہ ہے کہ کسی بھی زبان کو سکھانے کے مدارج میں پہلی مرحلہ سماعت ہوتا ہیں۔ اس مرحلے میں بچوں کو زبان کے چھوٹے چھوٹے الفاظ صحیح تلفظ کے ساتھ سنانا چاہیے۔ اور ان سے سن کر حرکات کرنے کی مشق کروانی چاہیے۔ تاکہ یہ پتہ لگایا جاسکے کہ بچوں نے درست سنا اور سمجھا ہے یا نہیں۔ اس مرحلے کامقصد بچوں میں صحیح سماعت کی ترقی کرنا ہے۔ اس کے لئے ایسے چھوٹے چھوٹے الفاظ یکجاکئے جاتے ہیں۔ اور اگر یہ الفاظ ایک نظم یا گیت کےشکل میں ہو تو بچوں کے لئے مزید مؤثر ثابت ہوتے ہیں‌۔ چوںکہ اس عمر بچوں کو گیت ، نظمیں اور کہانیاں سننا بہت پسند ہوتا ہے۔ اس لئے انہیں ان کے آس پاس کے ماحول میں موجود چیزوں کے بارے میں گیت یا نظم یا کہانی کی طرز میں معلوم سنائی جائے بچے بخوشی متوجہ ہو کر سنتے ہیں‌۔ بچے اسے گنگناتے رہتے ہیں۔ اور جلدہی زبانی یاد کرلیتے ہیں۔ اس کتاب میں اسی طرح کی کامیاب کاوش کی گئی ہیں‌۔ سرِورق کےبعد کتاب کے اگلے صفحے پر حیدر بیابانی نے بعنوان ” ہماری بھی سنو۔۔۔” اپنی بات رکھی ہیں۔ جو مختصر مگر جامع ہے۔ انھوں نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ بچے قوم و ملت کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ ان کی ہر لحاظ سے ترقی مقصود ہونا چاہیے۔ آگے وہ قوم کے ہر فرد کو تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” ہمیں محض بچوں کو عمدہ غذا، بہترین لباس اور خوبصورت کھلونے دے کر فرض ادا نہیں کرنا چاہیے بلکہ بچوں کی جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ ان کے لئے ذہنی اور روحانی تربیت کے سامان فراہم کرنا بھی اہم ٹھہرتا ہے۔” مطلب وہ ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ بچوں کی ہمہ جہت ترقی کے لئے ہمیں انھیں ادب سے منسلک رکھنا چاہیے۔ انھیں تعلیمی ماحول دینا چاہیے۔ ان کی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر نے کے نت نئے طریقے ، تجربات اور حالات مہیا کرنا چاہیے۔ اور یہ کام ادب اطفال کےذریعے کیا جاسکتا ہیں۔ آگے انھوں نے چھوٹے بچوں کی نفسیات پر روشنی ڈالی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ترقی پسندی

پانچ سال کے بچوں کو ایسے ادب کی ضرورت ہوتی ہے جسے وہ دلچسپی سے سن سکے ، بول سکے اور یاد رکھ سکے‌۔ حیدر بیابانی کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ” اسکول کی ابتدائی جماعتوں میں بھی ایسے قسم کے ادب کی ضرورت ہے‌۔ اس اعتبار سے متین اچل پوری کی کتاب ” ننھے منے گیت” لائقِ ستائش ہے‌ امید ہے کہ سرپرست حضرات اور اساتذہ کرام بچوں کا یہ خوبصورت تحفہ ان تک پوری ذمہ داری کے ساتھ پہنچائیں گے۔” اس کے بعد کبیر حنفی نے اس کتاب پر ان کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ جو بعنوان “ننھے منھے گیت کتاب چھوٹی ۔۔۔۔ کام بڑا” موجود ہے۔ پہلے کبیر حنفی نے موصوف کی گزشتہ چند تصانیف کے بارے میں لکھا ہے۔ جس میں بتایا کہ متین اچل پوری نے 1992 میں ” قلم کے موتی” نام سے ایسا کتاب شائع کی تھی۔ جو بڑی عمر کے بچوں کے لئے خاص تھی۔ وہ کافی مقبول ہوئی۔ اس کے اگلے سال ہی مصنف نے مزید ایک کتاب بنام “اکشر دھارا کےگیت” شائع کی تھی۔ یہ کتاب ہندی و مراٹھی گیتوں کا مجموعہ ہے۔ یہ گیت ناخواندہ لوگوں کے احساس کو چھو کر ان کے دلوں میں علم کے تئیں محبت پیدا کرتے ہیں۔ ننھے منھے گیت اس کتاب کے بارے میں کبیر حنفی لکھتے ہیں۔ کہ ” زیر نظر مجموعہ “ننھےمنھے گیت” نئی تعلیمی پالیسی کے تحت شائع کردہ ایک اہم کتاب ہے۔ اس مجموعے میں شامل گیت اور نظمیں نئی تعلیمی منصوبے کے تحت درجہ اول و دوم کے طلبہ میں سمجھ کرسنے کی درسی صلاحیت پیدا کرنے کے لئے نہایت سود مند ، موزوں اورموثر ہے۔ کتاب کیا ہے ایک خوبصورت موتی ہے۔ جسے ننھی منھی معصوم ہتھیلی پر قرینے سے سجا دیا گیا ہے۔” اس سال حکومت نے ایک پروگرام M.L.L یعنی کم از کم اکتسابی سطح شروع کیا تھا۔ جس کا مقصد بچوں میں زبان دانی کی بنیادی اقدار پروان چڑھانا تھا۔ بچوں میں صحیح سننے ، بولنے ، پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت ترقی کرنا تھا۔ اس لیے یہ کتاب اہمیت کی حامل ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ اس کتاب سے حکومت کےپروگرام کا مقصد پورا ہونے میں مدد ملےگی۔ اس کتاب کو شائع کرکے موصوف نے ایک اہم اور ضروری کام پورا کیا ہے۔ اساتذہ اکرام اسے استعمال کرکے بچوں کی زبا ندانی کی ترقی کرسکتے ہیں۔
یہ کتاب دوحصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ جماعت اول کے طلباء کے لئے ہیں‌‌۔ یعنی چھ سال عمر والے بچے اس حصے سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں‌۔ اس حصے میں کُل 16 نظمیں موجود ہیں‌۔ جن کے عنوانات بچوں کے لئے نہایت مفید اور دلچسپ ہیں۔ یہ ایسے عنوان ہیں جس سے بچے ماحول میں منسلک رہتے ہیں۔ اس عنوان میں اماں جی ، مرغی کےبچے ، گڈو چلنا سیکھ رہا ہے، سات دن ، مخمل کی ٹوپی ، بھیا ہمارا، گڑیا کا مالا، ناؤ، بابو کی بکری، بیری ، سردی ، گنتی کا گیت ، منے میاں ، گلی ڈنڈا ، چڑیا کے بچے اور وطن کے رکھوالے شامل ہیں۔ پہلی نظم اماں جی میں بہت سے مانوس آسان الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے۔ یہ چھوٹے الفاظ بچے با آسانی سن کر اول سکتے ہیں۔ جسے چائے ، کھانا ، اماں جی ، پھول ،گھر اور سجانا وغیرہ وغیرہ اس نظم میں دو تین الفاظ کےمصرعے موجود ہیں۔ جسے بچے جلد ہی یاد کرسکتے ہیں۔ اکثر گھر کے آنگن میں مرغی ہوتی ہیں۔ بچوں کو اس کے چوزوں سے بہت پیارے پیارے لگتے ہیں۔ چھوٹے بچے انھیں دیکھکر سوالات بھی دریافت کرتے ہیں۔ موصوف نے دوسری نظم مرغیکے بچے اس عنوان پر ہی لکھی ہے۔ اس نظم کا ہر مصرعہ تین چھوٹے چھوٹے الفاظ پر مشتمل ہے۔ ردیف قافیہ ہونے کی جگہ سے مؤثر تسلسل قائم رہتا ہے۔ اس نظم میں پانچ اشعار ہیں۔ اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

مرغی کے بچے لگتے ہیں اچھے
ہیں پورے سولہ ہر ایک بھولا
ماں جو پکارے دوڑیں گے سارے
ماں کے دیوانے چلتے ہیں دانے
مرغی کے بچے لگتے ہیں اچھے

جب ننھے منھے بچے چلنے کی ابتداء کرتے ہیں۔ تو والدین کو بہت خوشی ہوتی ہیں۔ اس دور میں بچوں کو چلنا سیکھانے کے لئے انھیں تین پہیے والی گاڑی دی جاتی تھی۔ عموماً یہ گاڑی نانا اور ماموں لے کر آتے تھے۔ اور جب بچہ اس گاڑی کے سہارے سے چلتا تو والدین یا جو بھی گھر کے افراد موجود رہتے وہ بھی اس بچے کی پیچھے دوڑے جاتے تھے۔ تاکہ اگر بچہ کرنےلگی تو اسے سبھالے۔ سبھی کہتے ” بچہ ابھی چلنا سیکھ رہا ہے۔” ہر مذہب و سماج کے گھر کی کہانی ہوتی تھی۔ اسے متین اچل پوری نے “گڈو چلنا سیکھ رہا ہے” اس نظم کے ذریعے موثر انداز میں نقشہ کھینچا ہے۔ یہ پانچ اشعار والی چھوٹی نظم ہیں۔ اگلی نظم “سات دن” ہے۔ جس کے ذریعے متین اچل پوری نے بچوں کو کھیل کھیل میں ہفتے کے سات دنوں کے نام یاد کروادیئے ہیں‌۔ نیز ایک دن کے بعد دوسرا کونسا دن آتا ہے‌۔ یہ بھی مشق کرانے کے کامیاب کاوش کی گئی ہیں۔ اس نظم کی خاص بات یہ ہے کہ جس دن بچے اکثر جو کام کرتے ہیں‌۔ اسی کو اس دن سے نسبت دے کر بیان کیا گیا ہے۔ جسے جمعہ کے دن پیسوں کی فرمائش کی جاتی ہے‌۔ اتوار کا دن کھیل کود کے لئے طے ہوتا ہے۔ وغیرہ یہاں بچوں کے روز مرہ کے کاموں کو ان کی پسندوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ جس وجہ سے نظم مؤثر اور مقبول ہوجاتی ہیں۔

“مخمل کی ٹوپی ” اس عنوان سے موصوف نے اگلے نظم پیش کی ہے۔ اس نظم میں دو سے تین لفظوں کے مصرعوں کے اشعار ہیں۔ بہت الفاظ بار بار بیان کئے گئے تاکہ بچے بغور سنتے رہے‌۔ دہراتے رہے۔ اور یاد کرلے۔ یعنی بچوں کی زبان دانی کی ترقی کے لئے اچھا دلکش مواد ممنتین اچل پوری نے پیش کیا ہے۔ ٹوپی بچوں کو بہت پسند ہوتی ہے‌۔ اس پر مخمل کی ٹوپی بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ بجوں کو بہت سے نئے الفاظ سے مانوس کیا گیا ہے‌ جسے مخمل ، پیلے ، گوٹ ، اودے ، رِبن اور گڑیا وغیرہ
متین اچل پوری کے منتخب عنوانات بچوں سے کافی مانوس سے ہیں‌۔ اب اگلے نظم آپ نے “بھیا ہمارا” اس عنوان پر تحریر فرمائی ہیں۔ اس نظم میں بھی دو سے تین لفظوں کے مصروں کے اشعار موجود ہیں۔ جس میں بچے کو اپنے بھائی کے لیے لائی گئی لوٗنا سواری کے بارے میں معلومات دی گئی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ بچوں کی سماعتوں کے حوالے نئے الفاظ کی لڑی کی گئی ہیں۔ جسے لوٗنا ، سواری ، پوٗنا ، پیاری ، بٹھانا۔ وغیرہ۔ اس نظم کے اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

بھیا ہمارا آنکھوں کا تارا جائے گا پونا لائے گا لوٗنا
لوٗنا سواری ہے کتنی پیاری بھیا چلائے گا ہم کو بھی بٹھائے

اگلا گیت ” گڑیا کا مالا ” ہے۔ بچوں کو گڑیا اور گڈا بہت پسند ہوتے ہیں۔ وہ ان سے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان سے باتیں کرتے ہیں۔ بچوں کی اسی دلچسپی کے پیش نظر متین اچل پوری نے یہ گیت لکھا ہے۔ اس میں بھی دو یا تین الفاظ کے مصرعوں کے صرف چار اشعار موجود ہیں۔ یعنی بچوں کی ذہنی صلاحیت کے مطابق مؤثر ہیں‌۔ یہاں بھی ردیف قافیہ کا میل جول متاثر کن ہے۔ اسی طرح دیگر گیت جن کے عنوانات ناؤ،بابو کی بکری ، بیری ، سردی ، گنتی کا گیت ، منے میاں ، گلی ڈنڈا اور چڑیا کے بچے شامل ہیں۔ ان میں بھی گوناگوں خصوصیات موجود ہیں۔ تمام عنوانات بچوں سے ہم ربط ہیں۔ ان کے روز مرہ کے حالات میں شامل رہنے والے ہیں۔ گنتی کا گیت اس میں ایک سے دس تک گنتی سکھائی گئی ہیں۔ تو دیگر گیتوں میں موسم کی معلومات ، کھیلوں کی معلومات اور ماحول کے اطراف و اکناف سے آگاہی کرئی گئی ہیں۔ گویا موصوف نے بچوں کی ہمہ جہت ترقی کے لئے اسکول کے تمام مضامین کو شامل کرنے کی کامیاب کاوش کی ہے۔

دوسرا حصہ جماعت دوم یعنی سات سال عمر کے بچوں کے لئے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس حصے میں کُل 11 نظمیں شامل ہیں۔ جس کے عنوان مَیں ، تعریف ، رنگ ، گڑیا کی تختی ، آئینہ بولتا ہے ،کھٹی میٹھی بیری ،پھول بناؤ ، میاں مخدوم ، گھروندہ ،مٹیکےکھلونے، کام کے پیڑ ، کوئل ، فراک اور پانی ہیں۔ پہلے حصے کی بہ نسبت اس دوسرے حصے کے عنوانایں مرکزیت موجود ہیں۔ اس حصے کا پہلا گیت وطن سے محبت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ جس کا عنوان وطن کے رکھوالے ہیں۔ صاف صفائی اور اسکول جانے کی عادت مستقل رہے اسی مقصد کے پیش نظر موصوف نے “مَیں” گیت لکھا ہے۔ اگلےگیت میں اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی گئی ہیں‌۔ بچوں سے پوچھا گیا ہے۔

کس نے سجائے چاند اور تارے رب نے ہمارے رب نے ہمارے
کس نے کھلائے یہ پھول سارے رب نے ہمارے رب نے ہمارے
کس نے دئے ہیں ماں باپ پیارے رب نے ہمارے رب نے ہمارے

اس کے بعد معلوماتی گیت ترتیب دئیے گئے ہیں۔ جس میں آئینہ بولتا ہے، رنگ ، کوئل ، آم ، مٹی کے کھلونے ، گھروندہ اور کام کے پیڑ شامل ہیں۔ ہر ایک گیت میں مؤثر انداز میں بچوں کے آس پاس کے حالات کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔ آم کے پیڑ میں آم کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ جام کے پیڑ کے بارے میں کہا گیا ہے۔ ” ہم پیڑوں کی حفاظت کرے گے ” بچوں کو سجھایا گیا ہے۔ پھول اور باغ کے بارے میں بچوں سے گفتگو کی گئی ہیں۔ مٹی کے کھلونے جسے پھلوں کی شکلیں اور سبزیوں کی تصاویر جو بچے بناتے ہیں‌۔ ننھے منھے بچے گھروندہ بناکر کھیلتے ہیں۔ وہ بہت خوش ہوتے ہیں‌۔ ملجول کر رہتے ہیں‌۔ کھیلوں کے ذریعے بچوں میں بہت سی خوبیاں پروان چڑھتی ہیں‌۔ جسے امداد باہمی ، صبر و تحمل ، اظہارِ خیال اور صحت کی اہمیت وغیرہ وغیرہ
پانی اس گیت میں پانی کی خصوصیات اور معلومات قلمبند کی گئی ہیں۔ پانی بہتا ہے۔ شکل بدلتا ہے۔ پانی کی شکلیں ( ٹھوس ، مائع اور گیس ) کو واضح کیا گیا ہیں‌۔ پانی گرمی سردی سہتا ہے۔ پانی زندگی ہے۔ نیز گہرے پانی میں چھلانگ نہیں لگانی چاہیے۔ اس کی بچوں کو تاکید کی گئی ہیں۔ آخری شعر میں دریاکی موجیں جس طرح مل جل کر رہتی ہیں اس طرح ہم سب بھی مل جل رہے۔ یہ عمدہ سبق دیاگیا ہیں۔ یہ موصوف کے کلام کی خوبی ہے کہ وہ ہر لمحہ ، ہر وقت مختلف اخلاقی ، مذہبی اور سماجی پیغامات دیتے رہتے ہیں۔ جو ادب اطفال کا اصل مقصد بھی ہیں۔ جسے موصوف حاصل کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سےاڑے بڑے سبق دینا مؤثر طریقہ ہیں۔
پانی گیت کے اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

جھر جھر جھر جھر بہتا پانی سرد ی گرمی سہتا پانی
برف کہیں ہے بھاپ کہیں ہیں شکل بدلتا رہتا پانی
روکو تو تالاب بنا لو ندی کیا ہے بہتا پانی
گہرے پانی میں جو کو دے اس کو ڈبوکے رہتا پانی
مل جل کر رہتی ہیں موجیں مل کر رہنا کہتا پانی

دیگر گیت بھی کافی مؤثر ہیں۔ موصوف نے تمام گیتوں کو سادہ سلیس اور آسان زبان میں بُنا ہے۔ جس کا ہر موتی قیمتی ہے۔ بچوں کی صلاحیت و قابلیت کے عین مطابق الفاظ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ گیتوں کےمصرعے بھی ننھے منھوں کی طرح چھوٹے چھوٹے ہیں۔ جو بچوں کو جلد یاد ہو جاتے ہیں۔ ہر گیت کے ساتھ متن کے مطابق تصویر لگائی گئی ہے۔ جس سے کتاب کی اثر انگیزی میں اضافہ ہوا ہے۔ بالکل بچوں کی تفہیم کے مطابق عنوانات اور عنوانات کے مطابق مواد لکھا گیا ہے۔ متین اچل پوری ایک تعلیم یافتہ تجربہ کار شخصیت رکھتے ہیں۔ اس لئے اس کتاب میں کسی قسم کی کمی نہیں ہے۔

ریسرچ اسکالر بامو یونیورسٹی اورنگ آباد مہاراشٹر
9850155656

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here