’گل نامہ‘ – زندگی کے مختلف رنگوں کی تفسیر

0
470
ڈاکٹر پروین شجاعت

[email protected]
9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

مغل بادشاہ شہاب الدین شاہجہاں اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ ’’میں اپنی مملکت میں پورب کے قصبات پر فخر کرتا ہوں جہاں کی خاک نے بڑے بڑے فضلاء، فقراء، علماء اور اربابِ دول پیدا کیے ہیں اور جہاں کا ہرقصبہ شیراز کا ہم پلّہ ہے۔‘‘
انھیں قصبات میں علم وادب، فکروفن اور تہذیب وثقافت کا ایک مرکز کاکوری بھی ہے، جس کے زرخیز خطّۂ زمین سے ہردور میں عالم، فاضل، ادیب وشاعر پیدا ہوئے ہیں اور جنھوں نے دنیائے علم وادب کو تابانی بخش کر خود بھی شہرت حاصل کی اور اپنے وطن کاکوری کے وقار میں بھی اضافہ کیا۔
اس شعری مجموعہ ’گل نامہ‘ کے خالق سہیل کاکوروی صاحب کا تعلق بھی علم وادب کے اس گہوارے کاکوری سے ہے۔ کاکوری کی تہذیب وثقافت، تصوف اور علم وادب کی مکمل چھاپ ان کی شخصیت میں نظر آتی ہے۔ اور چوں کہ ان کی پرورش، تعلیم وتربیت لکھنؤ میں ہوئی، اس لیے ان کی شخصیت لکھنؤ اور کاکوری دونوں کی تہذیبی روایات کا مجموعہ ہے۔ نہایت مخلص، مہذب، خلیق، سادہ مزاج، ہمدرد، باوضع، متین وسنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں، سہیل بھائی -ان سے مل کر- ان سے گفتگو کرکے آپ کو یہ احساس ہوگا کہ ابھی اردو زبان بھی زندہ ہے اور اردو تہذیب بھی۔
سہیل کاکوروی کی شاعری میں فکر کی گہرائی، وسعتِ نظر، روایت کی پاسداری، جدید طرزِ احساس کی آئینہ داری اور کلاسیکی شاعری کے پس منظر میں ان تجربات ومشاہدات کے اظہار کا آئینہ ہے جن سے وہ اپنے سفرحیات میں مختلف منزلوں سے گزرے ہیں یا گزر رہے ہیں۔ ان کے مزاج کا دھیماپن، نرم روی وسادگی ان کے کلام میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ نہایت حسین انداز والفاظ میں انھوں نے اپنا شعری نگارخانہ سجایا ہے۔
سہیل کاکوروی کے تخلیقی سفر کا جائزہ لینے سے ہمیں ایک بیدار مغز فن کار سے روشناس ہونے کا موقع ملتا ہے۔ جو درجہ بہ درجہ اور زینہ بہ زینہ اپنے گردوپیش کے احوال کے مشاہدہ سے فکری پختگی وجامعیت کے مراحل طے کرتا نظر آتا ہے۔ جدت وندرت ان کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ نئی نئی ترکیبوں اور استعاروں نے ان کے کلام میں ایک خاص کیفیت پیدا کردی ہے۔ ’’آم نامہ‘‘ جیسی طویل نظم جو کسی پھل پر شاعری میں دنیا کی پہلی کتاب تسلیم کی گئی اور ’’لمکا بک آف ریکارڈ‘‘ میں درج ہوگئی۔ ’’ارضیاتِ غالب‘‘ میں غالب کی سو غزلوں پر غزلیں کہیں جس کی اہمیت کو اردو کے مشاہیرِ ادب نے تسلیم کیا اور اب یہ شعری مجموعہ ’’گل نامہ‘‘ ان کی فکری جدت کا ایک اور شاہ کار کارنامہ ہے۔ جس میں ایک ہی لفظ ’’گل‘‘ کو ردیف بناکر کہیں تشبیہ اور کہیں استعارے کی شکل میں پیش کرکے انھوں نے زندگی کے مختلف رنگ اور مختلف کیفیات بیان کردی ہیں۔ تمام اشعار کو پڑھ کر یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ شاعر کا مقصد صرف ایک لفظ ’’گل‘‘ کو ردیف بناکر پیش کرنا ہے۔
’’گل نامہ‘‘ کی ۱۹؍غزلوں میں شاعر نے زندگی کے مختلف رنگ، خیالات واحساسات کو خوش رنگ پھولوں کے ہارکی مانند نہایت سلیقہ سے گوندھ دئے ہیں۔ ان غزلوں میں تصوف بھی ہے اور فلسفہ بھی، عشقِ حقیقی بھی ہے اور عشقِ مجازی بھی۔ امن وامان، قومی یکجہتی اور وطن پرستی کا درس بھی ہے۔ غرض انسانی زندگی کے سارے رنگ گلوں کے اس رنگارنگ چمن ’’گل نامہ‘‘ میں مل جائیں گے۔ ’’گل نامہ‘‘ کے اشعار صرف فکروفلسفہ تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ دنیاوی زندگی میں شب وروز کے تجربات اور سچائیاں بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں جن کی جھلکیاں مطالعہ کے دوران سامنے آتی ہیں اور ہمیں بہت کچھ بتا جاتی ہیں۔ شاعر نے اپنی فکر کو کس طرح وسعت دی ہے، ملاحظہ ہو ؎
فکر کو وسعت ملے اس واسطے اکثر سہیل
میں بسا لیتا ہوں اپنے ذہن میں تنویرِ گل
انسانی زندگی خوشی اور غم دونوں کا مجموعہ ہے۔ وقت اچھا ہو یا برا ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ خزاں کے بعد موسمِ بہار کی آمد بھی ضرور ہوتی ہے۔ یہی انسانی زندگی کا فلسفہ ہے جسے شاعر نے گلوں کے ذریعہ بیان کر دیا ہے، ملاحظہ ہو ؎
ہم کو مل جائے چمن سے خوشبوئے مہر و وفا
کاش ہردل میں سمائے جذبۂ تجسیرِ گل
قصۂ گل میں نکالے زاویے کتنے مگر
ہم نے لکھا پھر قلم زد کردیا تکفیرِ گل
آج کے اس پر آشوب دور میں شاعر نے ’’گلوں‘‘ کے ذریعہ امن وآشتی کا پیغام بھی دیا ہے، تمام شکوے،گلے، رنج ومحن سب دور ہو جائیں اگر انسان گلوں کا طرزِزندگی اختیار کرلے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں ؎
دو دلوں کو جوڑنے کی ہے یہ کوشش لاجواب
ہے محبت کی ادائے خاص سے تسمیرِ گل
ملک سے اپنے محبت کیجیے جو ہے چمن
درد مٹ جائیں گے یاں سے پائیے تزویرِ گل
یہ میرا شہرِ نگاراں ایکتا کا باغ ہے
سب سے دل کش ہے یہاں جاری عمل تصویر گل
کاکوری سے تعلق ہونے کی وجہ سے وہاں کے صوفیانہ ماحول کا اثر سہیل کاروی کی شخصیت اور شاعری کا ایک لازمی جز بن چکا ہے۔ عارفانہ خیالات اور عشقِ حقیقی کی جھلک ان کی شاعری میں جابجا نظر آتی ہے۔ مثال کے لیے یہ اشعار دیکھیے ؎
پھول جھکتے ہیں صدائے دل پہ کیا انداز ہے
سجدہ ریزی کا اشارہ بن گئی تکبیرِ گل
بندگی کا سلسلہ گلشن میں چلتا جائے گا
یوں ہی گونجے گی قیامِ حشر تک تکبیرِ گل
آخر میں بس اتنا عرض کرنا چاہوں گی کہ ’’گل نامہ‘‘ کی غزلیں بلاشبہ زندگی سے بھرپور پاکیزہ خیالات وجذبات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ زبان وبیان، انداز وافکار وتجربات جو ان کے اپنے ہیں اور ان کے اپنے ہی انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ اپنا ایک خاص مزاج، کیفیت، اثر وتاثیر رکھتے ہیں۔ ’’گل نامہ‘‘ کی مہک سے ہم خود کو ایک نئی فضا میں سانس لیتا ہوا محسوس کرتے ہیں اور پھولوں کی یہ خوش گوار تاثیر ہمارے ذہنوں پر دیر تک قائم رہتی ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here