[email protected]
9807694588(موسی رضا)
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
مبصر:توصیف بریلوی
مترجم: ابراہیم افسر
سنہ اشاعت:2022
قیمت: 300 ؍روپئے،صفحات:160
مطبع:اصیلا آفسیٹ پرنٹرس، دہلی
ترجمہ ایک ایسا فن ہے کہ جس میں نہ صرف لفظی بلکہ لغوی معنی کو دوسری زبان میں منتقل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قواعد، محاورات اور رموز اوقاف پر دلجمعی سے توجہ دی جاتی ہے۔ اس کام میں نہ صرف صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ بہت ہی باریک بیں ہونا پڑتا ہے حتی کہ رموز اوقاف کے سبب پڑنے والے اثرات کو بھی سمجھ کر اس کا مفہوم لے آنا اور اسے اپنے تجربات کی روشنی میں دوسری زبان میں پیش کر دینا مترجم کا فن ہے۔پروفیسر صادق نے اسکول کالج سے لے کر دہلی یونیورسٹی تک کے سفر کو بہت ہی کامیابی سے طے کیا علاوہ ازیں وہ کئی اردو تنظیموں سے بھی جڑے رہے اور ساتھ ہی رنگ منچ اور ڈرامہ سے بھی ان کا تعلق رہا ہے۔ وہ مصوری میں بھی کمال کا ہنر رکھتے ہیں اور ایک کارٹونسٹ کی حیثیت سے بھی اخبار و رسائل میں اپنی خدمات دیتے رہے ہیں۔ ہندی اور اردو پر انہیں یکساں قدرت حاصل ہے۔ ایسی ہر فن مولا شخصیت کا ملنا آج کے دور میں کسی نعمت سے کم نہیں۔پروفیسر صادق نے اپنے لکھنے کی ابتدا ہندی سے کی اور وہ ہندی اردو میں نوجوانی کے دنوں میں ہی لکھنے لگے تھے۔ اردو میں بھی وہ وقتاً فوقتاً لکھتے رہے اور بعد میں تحقیق بھی کی۔اس مختصر سے تبصرے میں پروفیسر صادق کے ہندی مضامین کی ترجمہ شدہ کتاب’’صادق کے ہندی مضامین‘‘ کا مختصراً جائزہ پیش کیا جائے گا جسے ڈاکٹر ابراہیم افسر نے ترجمہ کیا ہے اور انہوں نے نہ صرف صادق صاحب کے ہندی مضامین کو اردو قالب میں ڈھالنے کی سعی کی ہے بلکہ ان کے مفاہیم کی گہرائی تک اتر کر ان کو اردو میں پیش کیاہے۔ زیر نظر کتاب میں 16 مضامین اور 2 ؍انٹرویو ترجمہ کر کے شامل کیے گئے ہیں۔ان تمام مضامین کا اسلوب بہت ہی بے باک اور حقائق سے تعلق رکھتا ہے۔
ان تمام مضامین کے عنوان کچھ اس طرح ہیں:
مذکورہ کتاب میں سب سے پہلے ڈاکٹر ابراہیم افسر کا پیش لفظ ہے جس میں انہوں نے پروفیسر صادق کا تفصیلی تعارف اور اس کتاب کو ترجمہ کرنے کے متعلق اپنے تجربات لکھے ہیں۔ ڈاکٹر ابراہیم افسر اردو کے سب سے معتبر محقق و مدون رشید حسن خان کے حوالے سے اپنی شناخت بنا چکے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف رشید حسن خان پر تفصیلی مقالہ لکھ کراپنا ڈاکٹریٹ مکمل کیا بلکہ رشید حسن خان پر کئی کتابیں ترتیب دے کر اردو تحقیق اور تدوین اور دیگر پہلوؤں پر از سر نو غور و فکر کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ زیر نظر کتاب ابراہیم افسر صاحب کی ترجمہ شدہ پہلی کاوش ہے جس کا مطالعہ کرنے پر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کس سلیقے سے زبان و بیان کے نوک و پلک سنوارتے ہوئے یہ ترجمہ کیا گیا ہے۔ کسی تخلیقی ادب کو ترجمہ کرنے میں ایک sense کارفرما ہوتا ہے لیکن تنقیدی یا دیگر مضامین میں ایسا نہیں ہوتا ہے اور ایسے میں مترجم کو ذرا زیادہ محنت کرنی ہوتی ہے اور جس کا ثبوت ابراہیم افسر نے ’’صادق کے ہندی مضامین‘‘ کے روپ میں دیا ہے۔
ترجمہ شدہ کتاب میں پہلا مضمون بہت ہی اہم موضوع پر ہے جس کا عنوان ہے ’’ہندی اور اردو کے رشتے‘‘ ہندی اور اردو جھگڑے کو بیشتر لوگ جانتے ہیں لیکن اس کے بر عکس اگر ان دونوں زبانوں کی ہم آہنگی کو سمجھیں تو انداز ہ کیا جا سکتا ہے کہ واقعی دونوں بہنیں ہیں کیوں کہ دونوں کھڑی بولی سے نکلی ہیں۔ ’’ہندی اور اردو کے رشتے‘‘ مضمون سے ایک اقتباس دیکھیں:
’’اردو اور ہندی زبانوں کے درمیان مختلف مماثلتوں کا میں ذکر کر چکا ہوں۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی مماثلتیں ہوں گی یا ہو سکتی ہیںجن سے میں واقف نہیں۔ دونوں زبانوں کی ان مماثلتوں کے باوجود حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہندی اور اردو زبانیں ہیں جو ایک دوسرے سے الگ اپنا وجود رکھتی ہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی حرف تہجی ہیں۔ دونوں کے اپنے اپنے رسم الخط ہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی لغت ہیں۔ دونوں کے اپنے اپنے مورخ ہیں۔ اپنے اپنے ادب اور ادبی تاریخیں ہیں جن پر انہیں ناز ہے۔
ہندی اور اردو کھڑی بولی کی بیٹیاں ہیں ۔ بول چال کی سطح پر دونوں بڑی حد تک ایک ہونے کے باوجود اپنا الگ وجود ر کھتی ہیں۔ اس لیے دونوں ایک ہو جائیں گی اس کا کوئی امکان نہیں ہے ، ہاں ریل کی پٹریوں کی طرح ساتھ ساتھ چلتے رہنے میں ہی دونوں کا بھلا ہے۔‘‘
( ص: 18-19)
مندرجہ بالا اقتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح پروفیسر صادق نے اپنی بات تجربات اور حقائق کی روشنی میں کہی ہے اور یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ ڈاکٹر ابراہیم افسر نے اسے آسان اور رواں اردو میں ترجمہ کیا ہے۔
دوسرا مضمون ’’چراغ دیر‘‘ہے جو غالب کی مشہور مثنوی’’چراغ دیر‘‘ پر لکھا گیا ہے جس میں مثنوی چراغ دیر بلکہ شہر بنارس کا بھی خوبصورت ذکر ملتا ہے۔تیسرا مضمون ’’اردو میں پریم چند کی روایت‘‘ہے۔ اردو اور ہندی کہانی کے علمبردار پریم چند دونوں ہی زبانوں کے کہانی کار اور ناول نگار مانے جانتے ہیں۔ پریم چند کی روایت پر یہ ہندی میں لکھا ہوا اہم مضمون ہے۔ ’’قرۃ العین حیدر کی کہانیاں‘‘ اس کتاب میں شامل چوتھا مضمون ہے جو نہ صرف قرۃالعین حیدر کی کہانیوں پر مبنی ہے بلکہ اس میں اردو کی ابتدائی کہانیوں اور اس کے بعد رومانی بیانیہ اور حقیقت پسند بیانیہ اور ترقی پسند تحریک پر بھی زور دار بحث کی گئی ہے۔ فکشن کے ساتھ ساتھ صادق صاحب نے شاعری پر بھی مضامین لکھے ہیں۔’’اخترالایمان کے تخلیقی سروکار‘‘ شامل کتاب پانچواں مضمون ہے جو نہ صرف اخترالایمان کی نظموں پر لکھا گیا ہے بلکہ اس وقت کی تحریکوں اور رجحانوں پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔مضمون کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صادق صاحب کا مطالعہ کس قدر وسیع ہے۔چھٹا مضمون ’’چاند کا منھ ٹیڑھا ہے: کچھ باتیں ‘‘ ہندی کے مشہور ادیب گجانن مکتی بودھ کی مشہور زمانہ کتاب ’’مکتی بودھ رچنا ولی‘‘ کی نظم ’’چاند کا منھ ٹیڑھا ہے‘‘ پر لکھا گیا ہے۔ مذکورہ مضمون میں اس نظم کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔
ساتواں مضمون ’’سردار کہاں ہے محفل میں‘‘ سردار جعفری کی زندگی اور واقعات پر مبنی یادگاری مضمون ہے۔ اس کو پڑھنے سے سردار جعفری کے متعلق دلچسپ معلومات سامنے آتی ہیں۔ آٹھواں مضمون ’’جگ جگ جیوے میرا مرشد سونا‘‘صادق صاحب نے اپنے استاد محترم اور اپنی تعلیمی زندگی کے حوالے سے لکھا ہے جو بہت دلچسپ یاد نگاری کے طور پر لکھا گیا ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
’’نریندر موہن کی طویل نظمیں‘‘ شامل کتاب نواں مضمون ہے جو ہندی ادب کے مشہور و معروف ادیب ڈاکٹر نریندر موہن کی طویل نظموں پر لکھا گیا ہے۔’’چندر کانت پاٹل کی ادبی خدمات‘‘ دسواں مضمون ہے ۔ چندر کانت پاٹل مراٹھی زبان کے اینگری ینگ مین کہلاتے تھے۔ اس مضمون کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پروفیسر صادق کا واسطہ بچپن ہی سے ہندی، اردو کے علاوہ مراٹھی اور دیگر علاقائی بولیوں سے پڑا تھا اس لیے ان کے یہاں بہت وسعت دیکھنے کو ملتی ہے۔گیارہواں مضمون ’’بال سروپ راہیؔ کی غزلیں‘‘ ہے جس میںصادق صاحب نے اپنے عزیز دوست جو ہندی کے ادیب اور مدیر رہ چکے تھے ان کی غزلوں پر گفتگو کی ہے۔
سدیپ نامی عزیز کے گزر جانے پرصادق صاحب نے ’’باتیں اس کی یاد آتی ہیں‘‘مضمون لکھا ہے جو کہ بارہواں ہے۔’’میں اور میرا ہم زاد‘‘ انسانی سائیکی، خودکلامی اور ہمزاد سے گفتگو پر مبنی ہے اور یہ شامل کتاب تیرہواں مضمون ہے۔ چودہواں مضمون ’’منٹو کی کتاب : جنازے‘‘ہے جس میں منٹو کی اہم کتاب جنازے کے علاوہ ان کی مراٹھی میں ترجمہ ہوچکی کتب کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔’’نئی اردو شاعری کا پس منظر: ایک تجزیہ‘‘پندرہواں مضمون ہے جس میں اردو شاعری پر اختصار کے ساتھ اہم نکات پیش کیے گئے ہیں۔سولہواں مضمون ہندی کے اہم غزل گو شاعر کل دیپ پر لکھا گیا ’’کل دیپ سلیل کی غزلیں‘‘ ہے۔
اخیر میں دواہم شخصیات سے لیے گئے انٹرویو بھی شامل ہیں کہ جن کو پڑھ کر پروفیسر صادق کے سوالات اور ان ادیبوں کے جوابات سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ پہلا انٹرویودیوندر کمار بہل جی کا جو اردو کے مشہور افسانہ نگار منٹو پر ہے اور دوسرا ششی کانت جی کا ہے جس میں غزل پر گفتگو کی گئی ہے۔تمام مضامین ہی کی طرح انٹرویو بھی بہت دلچسپ اور معنی خیز ہیں ۔
ان تمام مضامین کو پڑھنے سے پروفیسر صادق کا بے باک لہجہ بہت ہی صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ مترجم کی یہ خوبی ہے کہ انہوں نے نہ صرف ترجمہ کیا بلکہ مصنف جو بات کہنا چاہتا تھا اس فکرکی گہرائی، اس کے مشاہدات اور تجربات کو بھی بہت ہی ہنر مندی کے ساتھ ترجمہ کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ یہ وہ مضامین ہیں جو اردو اور ہندی دونوں ہی زبانوں کے ادیبوں پر لکھے گئے ہیں جن میں بہت سی اہم معلومات اور نظریات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ دونوں ہی زبانیں جاننے والوں کی دلچسپی کا سامان بھی ان میں موجود ہے۔ اس کتاب کے ذریعے خالص اردو ادیب بھی ہندی کے کچھ ادیبوں سے واقفیت حاصل کر سکتے ہیں ۔
البرکات کالج آف گریجویٹ اسٹڈیز
علی گڑھ، یوپی