سو سال پہلے علامہ اقبالؒ نے جو کہا تھا اسے ساری دنیا نے تسلیم کیا

0
1008

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


ابونصر فاروق

ایک زمانہ میں یہ بات مشہور تھی کہ مدرسے دین کا قلعہ ہیں۔اب وہ زمانہ بھی نہیں رہا اور وہ بات بھی پرانی ہو گئی۔آج نہیں بلکہ آج سے سو سال پہلے یہ دین کے قلعے کس حال کو پہنچ چکے تھے اس کا تذکرہ علامہ اقبال کے اشعار کے مطالعے سے سمجھئے۔مدرسوں کے ساتھ ساتھ خانقاہوں کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں سے دین کی اشاعت ہوئی اور یہاں آنے والوں کی دینی تعلیم و تربیت کی گئی۔لیکن وہ دن بھی ہوا ہوئے جب ایسا ہوتا تھا۔سو سال پہلے علامہ اقبال کے زمانے میں خانقاہوں کا کیا حال تھا اس کا بھی جائزہ علامہ کے اشعار سے لگائیے۔علامہ اقبال پر بھی ان لوگوں نے کفر کا فتویٰ جاری کیا تھا۔یہ ان کی پرانی روش ہے۔

یہ بتان عصر حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ ، نہ تراش آزرانہ

دور حاضر کے مدرسوں سے جو فارغین عالم ،فاضل بن کر نکل رہے ہیں اُن کے متعلق علامہ کہتے ہیں کہ یہ دین کے علم بردار اور پیغامبر نہیں ہیں بلکہ ان کی حیثیت بتوں جیسی ہے،ناسمجھ جن کی پوجا کر رہے ہیں۔ یہ بت بھی ایسے ہیں کہ ان میں نہ تو کافرانہ ادا ہے اورنہ بت تراش آزر کے جیسی تراش خراش ہے۔

احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پازند

قرآن کی تفسیر تو ہزاروں سال پہلے ہی لکھی جا چکی تھی اورعربی زبان میں لکھی ہوئی اُنہیں تفاسیر کو اردو زبان میں اب تک امت پڑھ رہی ہے اور قرآن کا علم حاصل کر رہی ہے۔ لیکن اس دور میں مدرسے کے فارغین نے اپنی من مانی تفسیر سے قرآن کو امت کے پاؤں کی زنجیر بنا دیا ہے، جس میں غریب امت جکڑی ہوئی ہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ نہ اُس کا دین ہی سلامت ہے نہ دنیاداری ہی محفوظ ہے۔

یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذرؓ و دلق اویسؓ و چادر زہراؓ

شیخ حرم کا مطلب ہے خانہ کعبہ کے شیخ جو امام کعبہ کہے جاتے ہیں۔اس لفظ کو علامہ نے استعارے کے طور پر استعمال کر کے وطن عزیز کے شیخ صاحبان کی روش کو سمجھایا ہے کہ یہ لوگ ابوذر غفاریؓ کی دنیا سے بے نیازی، اُویس قرنی ؒ کی شہرت سے پرہیز اور گمنامی، اورفاطمہ زہراؓ کی چادر یعنی حیاداری، سب کی حفاظت کرنے والے نہیں بلکہ چرا کر بیچ کھانے والے ہیں۔

قلندر جز دو حرف لاالٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہاے حجازی کا

اسلام کی بنیادہے، لا الٰہ الا اللہ ،یعنی اللہ ایک ہے۔یہ ایسا عقیدہ ہے جو اپنے ماننے والے کو پوری دنیا سے بے نیاز بنا دیتا ہے۔مطلب یہ کہ جب کسی انسان کو دنیا داری کی فکر سے نجات مل جائے اور وہ دنیا داری کی طرف سے بے پروا ہو جائے تو اُسے قلندر کہتے ہیں۔اسلام ایسے ہی قلندر پیدا کرتا ہے۔فقیہ شہر کہتے ہیں شہر کے سب سے زیادہ دین کا علم رکھنے والے کو۔علامہ کہہ رہے ہیں کہ شہر کا سب سے بڑا عالم اپنے پاس حجازی معلومات کی لغت رکھتا ہے لیکن پھر بھی لا الٰہ کے فلسفے کو نہ سمجھ سکا ہے نہ سمجھا جارہا ہے۔الٹا بے بنیاد باتوں کا فلسفہ گڑھ کر علم کے قارون ہونے کا دعویٰ اور اعلان کر رہا ہے۔

مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق

پیر صاحب کے مرید کو جب سمجھ میں آیا کہ یہ پیری مریدی گمراہی کا کام ہے اور اُس نے اب تک پیر صاحب کی مریدی کرتے ہوئے گناہ کیا ہے تو اُس نے رورو کے اللہ سے توبہ کر لی اور نیک انسان بن گیا، لیکن پیر صاحب کو یہ توفیق نہیں ہوئی،کاش ایسا ہوتا۔

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ

مدرسوں کا ماتم کرتے ہوئے علامہ فرمارہے ہیں کہ مدرسہ والوں نے مدرسے میں پڑھنے والے طالب علموں کا توعلم کے نام پرگلا ہی گھونٹ دیا، اب اس معذور کے سینے سے لا الٰہ الہ اللہ کی آواز نکلے تو کیسے ؟ یعنی یہ تو پکا دنیادار بن گیا۔
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی ، نہ محبت ، نہ معرفت ، نہ نگاہ
اسی مضمون کو دوسری طرح سے کہہ رہے ہیں کہ میں مدرسہ اور خانقاہ سے غمزدہ ہو کر لوٹ رہا ہوں۔ان جگہوں میں اب زندگی نہیں پائی جاتی بلکہ موت دکھائی دیتی ہے۔یہ لوگ اب انسانوں سے محبت کرنا بھی نہیں جانتے۔اللہ کی عظمت، قدرت کو جو پہچانے ایسی نظر ہی ان کے پاس نہیں ہے۔
مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادۂ ناب
نہ مدرسے میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے
وہ پاکیزہ شراب جو انسان کو اللہ کے سوا سب سے بیگانہ بنا دیتی ہے میرے پیالے میں جتنی کچھ ہے اُس کو غنیمت جانو کیونکہ یہ قیمتی دولت اب نہ مدرسوں میں ہے نہ خانقاہوں میں۔یعنی اس دور کے مدرسے اورخانقاہیں دین و شریعت سے خالی اور محروم ہوچکی ہیں۔

تھا جہاں مدرسۂ شیریں و شاہنشاہی
آج ان خانقہوں میں ہے فقط ر و باہی

شیریں فرہاد کی معشوقہ کا نام تھا، جس کا دنیا بھر میں چرچا ہوا اور بادشاہ شہنشاہ بھی کہلاتا ہے۔یعنی جہاں شیریں جیسی مشہور ہستیاںاور بادشاہوں جیسے باوقار لوگ پیدا ہوا کرتے تھے ، اب اُن مدرسوں اور خانقاہوں میں لومڑیاںپیدا ہو رہی ہیں۔لومڑی جنگل کا ایک ایسا جانور ہے جو چالاکی، عیاری اور خود غرضی میں اپنی مثال آپ ہے۔لومڑی اپنے فائدے کے سوا کسی کی وفادار نہیں ہوتی ہے۔یعنی اب مدرسے اور خانقاہ والے صرف اپنے مفاد کے وفادار ہیں۔

’قم باذن اللہ‘ کہہ سکتے تھے جو رخصت ہوئے
خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گور کن

ایک اللہ والے نے ایک مردے سے کہا کہ’’اللہ کے نام سے اٹھ جا‘‘ اور وہ مردہ زند ہ ہوگیا تھا۔جن خانقاہوں میں ایسے اللہ والے بزرگ رہا کرتے تھے وہ اب وہاں سے رخصت ہو گئے ۔ اب ان خانقاہوں میں یا تو قبروں پر بیٹھنے والے مجاور رہ گئے ہیں یا قبر کھود کر مردے دفن کرنے والے گورکن۔

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق

فقیہ شہر کی طرح فقیہ حرم کا بھی بہت اونچا مرتبہ ہوتا ہے۔علامہ فرما رہے ہیں کہ اس دور کے فقیہان حرم(یعنی مدرسوں اور خانقاہوں کے مولانا اور پیر صاحبان) ایسے بے توفیق اور بد نصیب ہیںکہ اپنی غلط حرکتوں اور عادتوں کو نہیں بدلتے بلکہ قرآن کے معنی اور مطلب کو ہی بدل دیتے ہیں۔

ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق

قرآن کہتا ہے کہ عزت صرف اللہ ،اُس کے رسول ﷺ اور مومنوں کے لیے ہے۔عربی زبان میں عزت کا مطلب آزادی اور خود مختاری ہوتا ہے۔مومن اللہ کے سوا کسی کا غلام نہیں ہوتا ہے۔انگریزوں نے اس ملک میں آ کر ایسی تعلیم کا سلسلہ جاری کیا جس کا پڑھنے والا نوکری کرنے کے سوا کوئی کام کر ہی نہیں سکتا ہے۔انگریز بھی یہی چاہتا تھا کہ مسلمان اُس سے لڑنے کی جگہ اُس کے غلام بن کے رہیں۔قرآن کا اصلی قاری کسی کا غلام بننا گوارا نہیں کرے گا۔انگریزوں اور اہل باطل کے چمچوں نے مسلمانوں کو سمجھانا شروع کیا کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے ، یہ قرآن تمہیں غلامی کی جگہ ظلم سے بغاوت کرنا سکھا دے گا۔

دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ کیا مدرسہ والوں کی تگ و دو

ایک چیز ہے تقلید اور ایک چیز ہے اجتہاد۔اہل اسلام تقلید بھی کرتے ہیں اور اجتہاد بھی کرتے ہیں۔لیکن اس وقت کی جو دنیا ہے وہ پرانے زمانے کی روایتوں کی پیروی کرنے کے جال میں پھنسی ہوئی ہے۔مدرسے والوں کو اجتہاد کا عمل کرکے دنیا کو اس جال سے آزادی دلانی چاہئے تھی، لیکن ان لوگوں کی کوششیں بھی اب روایت پرستی کی ہی ہو کررہ گئی ہے۔بزرگوں کی شخصیت پرستی کی بیماری نے انہیں بھی اندھا مقلد بنا کر رکھ دیا ہے۔

کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو

مسلمان دنیا میں امامت کے لیے پیدا ہو ئے تھے ،اہل باطل کی غلامی کرنے کے لیے نہیں۔ لیکن یہ قرآن و سنت کی جگہ فرقہ پرستی کے مرض میں مبتلا ہو کرایسے جاہل اور گمراہ بنے کہ دوسروں سے اپنی پیروی کرانے کی جگہ خود غیروں کی پیروی اور غلامی کر رہے ہیں اور انہیں ذرا بھی ذلت نہیں محسوس ہوتی۔

مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے

شیطان جو انسان کا دشمن ہے اوراُسے حرکت وعمل سے محروم رہنا وہی کام اس زمانے کی خانقاہیں کررہی ہیں کہ مسلمانوں کو ذکر و تسبیح میں الجھا کر ایسا مست کر دو کہ یہ کہ یہ دنیا کے کسی کام کے رہیں ہی نہیں۔اور اس تسبیح و مناجات میںایسا پکا کر دو کہ کوئی اللہ کا نیک اور صالح بندہ ان کو سیدھی راہ دکھانا بھی چاہے تو یہ اُس کی بات ہرگز نہ مانیں۔جب کہ قرآن میں تسبیح کے معنی زبان سے صرف سبحان اللہ کہنا نہیں بلکہ سبحان اللہ کہتے ہوئے ہرحکم کی فوراً تعمیل کرنی ہے۔

رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوز مشتاقی
فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی

علامہ اقبال شروع میں تصوف کے قائل تھے۔جب اُنہوں نے قرآن کو غور و فکر کے ساتھ پڑھا تب سمجھ میں آیا کہ اس دور کا تصوف تو قرآن کے خلاف ذہن اور مزاج بناتا ہے۔اس لئے اُنہوں نے موجودہ تصوف سے توبہ کی اور تصوف کے خلاف کہا کہ اب تصو ف والوں میں اللہ سے محبت کی جو آگ تھی وہ ٹھنڈی ہو چکی ہے۔اب یہ لوگ انسانوں میں یہ سوز پیدا کرنے کی جگہ صرف اپنے بزرگوں کی کرامات سنا نے کی افیم پلاتے رہتے ہیں۔

کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز
کتاب صوفی و ملا کی سادہ اوراقی

داور محشر، حشر کے میدان میں انصاف کرنے والے کو کہتے ہیں۔اس سے مراد اللہ کی ذات ہے ۔ علامہ فرما رہے ہیں کہ صوفی و ملا کی کتاب جو ہر طرح کی علم و حکمت کی تعلیم و تشریح سے خالی ہو کر سادہ ورق بن گئی ہے،وہ اللہ کو بھی شرمندہ کر دے گی کہ اس دور میں میرے صحیفے کو ماننے والے ، میرے نبی کے پیچھے چلنے والے اور دین حنیف کی سمجھ داری کا دعویٰ کرنے والے ایسے گھٹیا، بیکار اور ناقص لوگ بن گئے تھے جنہوں نے اپنے پیچھے چلنے والوں کو باطل کا غلام بنا دیا تھا۔
غور کیجئے کہ جب آج سے سو سال پہلے علامہ اقبالؒ نے مدرسے اور خانقاہوں کا مرثیہ لکھا تھا تو آج مسلمانوں میں جو اخلاقی زوال اور کردار میں گراوٹ پائی جاتی ہے وہ کس درجہ زیادہ سنگین اور گھناؤنی ہو چکی ہے اور ملت کی اس تباہی اور بربادی کے ذمے دار کون لوگ ہیں؟ ہر ادارے کا امیر، ہر خانقاہ کا سجادہ نشیں،ہر اقلیتی ادارے کا چیر مین اور ڈائرکٹر کروڑوں کا مالک بنا بیٹھا ہے۔ ظاہر ہے کہ دولت کی یہ دیوی اُس کی پرہیز گاری،خدا پرستی اورآج کی دنیا سے بے نیازی کی بدولت تو اُس پر مہربان نہیں ہوئی ہے۔دیوی اور دیوتا کے دربار میں چڑھاوا چڑھائے بغیر تو وردان نہیں ملتا۔باطل حق کا منکر بنائے بغیرکچھ بھی نہیں دیتاہے۔
اسلامی سیاست تعلیم دیتی ہے کہ تم خلیفہ(سردار) بن کر رہو ۔خود بھی شیطانی قانون کی جگہ ربانی قانون کی پیروی کر واور دنیا والوں سے بھی کراؤ۔اس کے لئے سب سے پہلے مسلمانوں کو سو فیصد قرآن و سنت کے قانون کی پابندی کرنی پڑے گی۔لیکن مسلمانوں کا ایک طبقہ شیطان صفت آقاؤں کی غلامی میں لگا ہوا ہے اور مسلمانوں کو بھی اسی کی تاکید کر رہا ہے ۔جو لوگ اس کا تعاون نہیں کر رہے ہیں اُن پر سیاسی ناسمجھی کا الزام لگا رہا ہے۔جب کہ وہ خود ناسمجھ، نااہل ، بدنصیب اورجاہل ہے کہ کلمہ پڑھنے والوں کو اللہ کی جگہ شیطان کی غلامی کرنے پر آمادہ کرنا چاہتا ہے اور اس طرح مسلمانوں کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ و برباد کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔چنانچہ اس دور کے جو اکابر ملت اور قائدین امت ہیںاورجواُن کے پیچھے چلنے والے ہیںاُن کا معاملہ یہ ہوچکا ہے کہ :

نا خدا ہی ملا ، نا وصال صنم
نا اِدھر کے رہے نا اُدھر کے رہے

اب صورت حال یہ ہے کہ اہل باطل مسلما نوں کی دشمنی پر آمادہ ہیں اوران کی بد اعمالیوں کے سبب ان کا خدا بھی ان سے ناخوش ہے۔

8298104514

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here