سہیل عظیم آبادی کی افسانہ نگاری

0
3494

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ڈاکٹر محمد ارمان  
وہ عظیم افسانہ نگار جسے دنیا سہیل عظیم آبادی کے نام سے جانتی ہے۔ وہ انشاء پر داز جس نے اپنی عظمت کو عظیم آباد کے کوزے مین بند کر نے کی کوشش کی لیکن اس کی عظمت کا پیالہ چھلک ہی پڑا اور پوری اردو دنیا اس نام سے بخوبی آشنا ہوگئی عصر جدید کے اردو ادب پر سہیل صاحب نے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو شاید کبھی نہ مٹ سکین اور ہی نہ مٹنے والے نقوش انہیں لافانی بنائے ہوئے ہے۔
سہیل عظیم آبادی در اصل پر یم چند کے معتقد تھے۔ سہیل عظیم آبادی کا تعلق عظیم آباد کے دیہات کے ایک زمیندار گھرانے سے تھا۔ لیکن انہیں زمینداروں کے اطوار وعادات سے سخت نفرت تھی۔ وہ ہر طبقہ، ہر پیشہ، ہر عمر اور ہر مکتب خیال کے لوگوں سے ٹوٹ کر ملتے تھے۔ ان کی تخلیقات سے یہ سبھی باتیں کلی طور پر واضح ہوجاتی ہیں۔ ڈاکٹر عبد المعنیٰ رقم طراز ہیں۔
(’’کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، اختر اور ینوی اور راجندرسنگھ بیدی کے بعد احمد ندیم قاسمی، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، ممتاز شیریں، ممتاز مفتی، علی عباس حسینی اور حجاب امتیاز علی وغیرہ کی جو صف بنتی ہے۔ اس مین ایک نام سہیل عظیم آبادی کا بھی ہے۔۔۔۔ اس صف مین سہیل عظیم آبادی کی خصوسیت یہ ہے کہ انہوں نے پریم چند کی روایت کو دور حاضر کے ایک تقاضے سے ہمکنار کیا۔‘‘)
(سہیل عظیم آبادی کے افسانوں کا ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ بات صاف طور پر نظر آتی ہے کہ وہ اپنے مشہور ومعروف پیش رو منشی پر یم چند کے افسانوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ انہی کی طرح سہیل نے بھی دیہات اور شہر دونوں کے روز مرہ کے واقعات کو انسانوں کا موضوع بنایا، کسانوں، مزدوروں اور نچلے طبقے کے ساتھ ساتھ متوسط طبقے کی نمائندگی بھی اپنے افسانوں مین کی۔ ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے فطرت یا حقیقت کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔)
(سہیل عظیم آبادی نے اپنے افسانوی سفر کا آغاز کلکتہ سے کیا۔ کلکتہ سے شائع ہونے والے ہفتہ وار اخبار ’’اداکار‘‘ میں ۱۳۹۱؁ء کے شمارہ میں ’’سحر نغمہ‘‘ کے عنوان سے افسانہ لکھا، اس کے بعد افسانہ نگاری کا سلسلہ چلتا اور افسانے مجوعوں مین تبدیل ہوتے رہے۔ ان کے افسانوں کے تین مجموعے ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’‘’الائو‘‘ ہے جو دس افسانوں پر مشتمل ہے دوسرا انسانوی مجموعہ ’’نئے پرانے‘‘ ہے جس میں تیرہ افسانے ہیں اور تیسرا مجوعہ ’’چار چہرے‘‘ ہے جو چار افسانوں سے مزین ہے۔ اس کے علاوہ ایک ناولٹ ’’بے جڑ کے پودے‘‘ ہے۔ جو بہت ہی شہرت پا چکا ہے۔ اور بھی بہت ساری خدمات ہیں جن سے انکار ممکن نہیں۔)
(سہیل عظیم آبادی کی کہانیاں اپنے موضوع اور پیشکش دونوں ہی اعتبار سے سادہ اور تکلف سے پاک ہیں۔ اس سادگی میں ایسی پر کاری اور رنگینی ہے کہ حسن بے ساختہ کامزہ آتا ہے۔ پریم چند کے بعد آج تک درجنوں افسانہ نگار ہوئے ہیں لیکن سہیل کے اسلوب میں جو سادگی، سکون اور قرار ہے وہ کسی میں نہیں ہے۔) یہی نہیں اس سادگی میں ایک طرح کی مقناطیسی کشش ہے۔ (ان کی اس صفت سے متاثر ہو کر کرشن چندر کہتے ہیں۔)
(سہیل کی زبان نہایت سادہ اور سلیس ہے۔ معنوی اور غیر ضرویر مکالمے کہیں نہیں ہیں، بہاری گائوں اور اس کے افراد کی تصویر اس فنی صناعی اور چابکدستی سے کھینچتے ہیں کہ افسانے کی دلکشی دو بالا ہو جاتی ہے۔ غیر ضروری الفاظ کے استعمال سے بہت پر ہیز کرتے ہیں۔ اپنی تحریرات میں کم گو مگر پر گوہیں، اسے ان کے انداز تحریر کا اعجاز سمجھنا چاہیے۔‘‘)
اس سے قبل ذکر کیا جاچکا ہے کہ سہیل عظیم آبادی نے غریب، مزدور، کسان اور متوسط طبقے کے لوگوں کی زندگی کا بغائر مطالعہ ومشاہدہ کیا ہے۔ پریم چند کے اہم افسانونں کے نام ’’دوستی‘‘ ’’الائو‘‘،’’جینے کے لیے‘‘،’’وقت کی بات‘‘،’’چوکیدار‘‘ اور ’’اپنے پرائے‘‘ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ افسانہ ’’دوستی‘‘ میں دیہات کی زندگی، یہاں کی معاشرت اور یہاں کے بلند اخلاق کی بھر پور عکاسی ہے۔ افسانہ ’’الائو‘‘ ان کے شاہکار افسانوں میں سے ایک ہے۔ اس میں دیہی زندگی، اس کے جیتے جاگتے کر دار اور غریب کسانوں پر ظلم وستم کی تصویریں بڑی صاف نظر آتی ہیں۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
(’’۔۔۔۔۔ بھیا بات پتے کی ہے، ہم لوگوں پر جتنا ظلم ہوتا ہے، اسے کون جانے سال بھر محنت کر کے اپجاتے ہیں اور ہمارے ہی بال بچے بھوکوں مرتے ہیں۔۔۔۔‘‘
’’۔۔۔۔ مشکل کیا ہے؟ آج سے ہم لوگ ٹھان لیں کہ آپس میں مل جل کر رہیں گے۔ زمیندار کو بیگار نہیں دیںگے کوئی ناجائز دبائو نہیں سہیں گے۔‘‘)
افسانہ ’’چوکیدار‘‘ بھی سہیل صاحب کا لازوال افسانہ ہے۔ اس مین گائوں کے ایک معصوم اور غریب ’’انسان‘‘ رام لال کی کہانی ہے۔ ’’رام لال‘‘ غریب وافلاس اور معصومیت وانسانیت کا پتلا ہے ٹھیک اس کے برعکس ’’ڈپٹی مجسٹریٹ صاحب‘‘ سرمایہ دارانہ وزین دارانہ نظام کے علمبر دار ہیں۔ ان افسانوں کے مطالعہ کے بعد یقینی طور پر زمیندار وسرمایہ دار طبقہ سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔
۱۳۹۱؁ء سے ۰۴۹۱؁ء کے درمیان سہیل صاحب نے جو افسانے لکھے ان میں کچھ اچھے ہیں۔ اس فہرست میں ’’آدھی کہانی‘‘ ’’گرو آیا‘‘ ’’دماغ کی فتح‘‘ ’’سوغات‘‘ ’’ایک سوال‘‘ اور ’’وہ آئیںگے‘‘۔ ہیں۔۰۴۹۱؁ء سے ۰۵۹۱؁ء تک جوافسانے لکھے گئے ان میں ’’نئے پرانے‘‘ یہاں سے وہاں تک ’’ ایک سفر‘‘ ’’عمل اور در‘‘ ’’غیر آسودہ‘‘’’ خدا کی دین‘‘ اور ’’پتھورا‘‘ وغیرہ اچھے افسانے ملتے ہیں۔ یہ افسانے تیر ونشتر سے پر ہیں۔ ۰۵۹۱؁ء سے ۰۷۹۱؁ء تک انہوں نے جو افسانے لکھے وہ آج تک لوگوں کے ذہن میں قید ہو چکے ہیں۔ یہی وہ دور ہے جس ے انہیں بام عروج پر پہنچایا۔ اس دور کے افسانے ’’غیرت‘‘ کاغذ کی نائو‘‘ ’’کوھسٹ‘‘ ’’دل کا کانٹا‘‘ ’’اسٹیشن پر‘‘ ’’کمزوری‘‘ ’’کل وہ مرگیا‘‘ ’’عجائب خانہ‘‘ اور ’’گیت ناچ اور موت‘‘ وغیرہ مشہور ہیں۔ یہ افسانے قاری کے دل ودماغ کو چجھنجھوڑ کر دکھ دیتے ہیں اور سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ ۰۷۹۱؁ء سے ۹۷۹۱؁ء کے دوران جو افسانے لھے گئے ان میں۔ ’’استاد‘‘ کہانی‘‘ ’’دھوپر‘‘ ’’اندھیرا اجالا‘‘ ’’پارک‘‘ افسانہ نگا‘‘ وغیرہ جیسے بلند پایہ افسانے ہیں۔
عام طور پر سہیل صاحب کے کردار غریب، مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں (اختر او ر بیوی صاحب ان کی افسانہ نگاری سے متعلق فرماتے ہیں)
’’آپ کر دار نگارسے زیادہ جرانگار ہیں۔‘‘
(جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سہیل صاحب کے افسانوں یں ماجرا نگاری کے ساتھ کر دار نگاری بھی فن کارانہ طور پر پیش ہوئی ہے۔ سہیل صاحب کے افسانوں میں کچھ خامیاں بھی ہیں جن میں سب سے اہم خامی یہ ہے کہ بعض اوقات ایک ہی بات کئی جگہ دہراتے ہیں۔ اس سے افسانے کا فن مجروح ہوتا ہے۔ یہ خامی خاص طور سے ان کے تیرے مجموعے ’’چار چہرے‘‘ میں ملتی ہے۔)
یہ سب درست مگر کیا کوئی سہیل عظیم آبادی کی افسانہ نگاری کی عظمت سے چشم پوشی کر سکتا ہے، جہاں افسانوی ادب مین پر یم چند، بیدی، کرشن چندر، عصمت، منٹو، علی عباس حسینی وغیرہ کا ذکر آئیگا۔ کیا وہاں سہیل کی تصویر بھلا دی جائیگی؟ ایسا ممکن ہی نہیں کیونکہ (سہیل نے جو طرز ادا مضمون آفرینی اور جدت ادا کا اختراع کیا وہ اپنے آپ میں انو کھا ہے جو انہیں کی ذات سے مختص ہے۔ لہٰذا افسانوی ادب میں سہیل کی شخصیت بے کم وکاست مسلم ہے۔)
شانتی باغ، نیوکریم گنج، گیارابطہ :  9931441623
ضضض
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here