حکومت پلوامہ سانحہ کے مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچائے:مولانا خالد رشید

0
237
دہشت گردی کا جواب دہشت گردی نہیں ہو سکتی:وقار رضوی
دہشت گردی کے خلاف اودھ نامہ نے متعدد مسلم تنظیموں کے ساتھ نکالا تاریخی امن مارچ
لکھنؤ۔۱۸؍فروری۔روز نامہ اودھ نامہ نے ہمیشہ ظلم کے خلاف حق اور انصاف کی آواز بلند کی ہے۔نہ صرف کاغز پر بلکہ جب جب ضرورت پڑی ہے تو اودھ نامہ نے عملی میدان میں بھی اتر کر ظلم اور دہشت کے خلاف نعرۂ حق بلند کیا ہے۔ پھرکشمیر کے پلوامہ میںہونے والی دہشت گردانہ انسانیت سوز اور بہیمانہ حرکت پر خاموش کیسے رہ سکتا تھا۔اس بڑھتے دشت گردی کے ناسو رکے خلاف عوام میں بیداری لانے اور ملک دشمن طاقتوں کو خبردار کرنے کے لئے اودھ نامہ نے آج ساکیت پلی ریزیڈنٹس ویلفئیر سوسائٹی ، مسجد نور محل کمیٹی،حسینی ویلفئیر سوسائٹی،نیشنل پروگریسو فورم، امن تکیہ سوسائٹی،،تنظیم علی کانگریس،اردو رائٹرس فورم ،اردو دوست انجمن، فیتھ اینڈ ہوپ،جین ملن اور دیگر کئی تنظیموں کے تمام اہم ذمہ داران کو ساتھ لے کر ایک تاریخی مارچ نکالا جو چڑیا گھر گیٹ نمبر سے ایک نمبر گیٹ سے نکل کر جی پی او پر ختم ہوا۔جس میں متعدد مساجد کے ائمہ ، مدرسے کے طلبہ و ذمہ داران نیز خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔جس سے یہ صاف ہو گیا کہ پلوامہ میں سیکورٹی فورسز پر دہشت گردانہ حملہ اور اس میں چالیس سے زیادہ سیکورٹی اہلکاروں کی شہادت سے پورے ملک میں غم و غصہ کی لہر ہے۔ماضی میں ایک طویل عرصہ سے جاری ان دہشت گردانہ حملوں میں پاکستان کا نام آتا رہا ہے جب جب یہ حملے ہوتے ہیں تب تب سیاسی سطح پر ایک ہلچل ہوتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے۔لیکن اس مرتبہ جس طرح سے سیکورٹی فورسز کے قافلے پر حملہ کر کے چالیس سے زیادہ حفاظتی اہلکاروں کو شہید کیا گیا ہے اس سے ہندوستان کے ہر شہری کا خون کھول اٹھا ہے ۔دوسری طرف شر پسند عناصر اس سے فائدہ اٹھا نا چاہتے ہیں اور ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے کرماحول خراب کرنے کی فکر میں بھی ہیں۔ایسے میں ضروری ہو جاتا ہے کہ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھا جائے۔
اس موقع پر امام عید گاہ مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔پلوامہ میں جو کچھ ہوا ہے اس کے ذمہ دار نہ مسلمان ہو سکتے ہین اور نہ کسی اور مذہب کے۔مذہب تو میل و محبت اور بھائی چارہ سکھاتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ہم، اس حاڈثہ کی مذمت کرتے ہیں اور حکومت ہند سے گذارش کرتے ہیں کہ اس حادثہ کے ذمہ داروں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے۔مولانا نے اپیل کی کہ پلوامہ کے حادثے سے پورے ملک میں غصہ کی لہر ہے اس لئے فرقہ وارانہ ماحول اور یک جہتی و ہم آہنگی کو قائم رکھنا بہت ضروری ہے۔ذرا سی غفلت ہمیں بہت بڑے نقصان سے دچار کر سکتی ہے اور یہی ملک دشمن طاقتیں چاہتی ہیں۔
امن مارچ کے کنوینر وقار رضوی نے کہا کہ ہم سب کشمیر کے پلوامہ میں ہوئے اس جاں سوز حادثہ کی مذمت کرتے ہین۔ہم ان شہیدوں کی قربانی کو ضائع نہیں ہو نے دیں گے۔ہم اس کا بدلہ لیں گے اور ہر طرح سے مودی جی کی مدد کریں گے۔ہم نے انھیں اسی امید سے اس ملک کا وزیر اعظم بنایا تھا ابھی بھی وقت ہے کہ بچے دنوں میں مودی جی سخت سے سخت کاروائی کر کے دہشت گردوں کو نیست و نابود کر دیں۔ اور ہماری ان امیدوں کو قائم رکھیں جو پورے ملک نے ان سے لگا رکھی ہیں۔وقار رضوی نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی تو دہشت گردی ہے چاہے وہ کشمیر کے پلوامہ میں جوانوں کی جان لے کر انجام دی گئی ہو یاپھر بہار میں کشمیریوں کی دوکانیں توڑ کرانھیںہراساں کیا کیا جانا ہو۔جب ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ حصہ ہے تو پھر کشمیری ہمارااٹوٹ جز کیوں نہیں ۔ ہندوستانی مسلمان نہ پاکستان کے ساتھ ہیں نہ دہشت گردری کے حمایتی۔انھوں نے زور دے کر کہا کہ دہشت گردی کا جواب دہشت گردی نہیں ہو سکتا۔
مسجد نور محل کے امام مولانا ظہیدالحسن نے کہا کہ بھارت کے لوگ متحد ہو کر ایک ایک بالٹی پانی پاکستان کی طرف بہا دیں تو پاکستان کا وجود بہہ جائے گا مسجد نور محل کمیٹی کے صدر عارف حیدر نے زیدی نے کہا کہ کہ مودی جی نے بالکل صحیح کیا ہے جو کشمیرکے علاحدہ پسندوںکی سیکورٹی ہٹا لی ہے۔وہ ہمارے ہی پیسوں سے عیش کر رہے ہیں۔اور ہمارے ہی دیش کے خلاف کاروائیوں میں ملوث ہیں۔
نیشنل پروگریسو فورم کے کنوینرنجم الدین فاروقی نے کہا کہ پلوامہ میں دہشت گردانہ واردات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔دہشت گردی کی حمایت کسی بھی طور ممکن نہیں ہے۔یہ بہت بڑا حادثہ ہے یہ نہایت افسوسناک ہے۔اس ملک کے ہر شہری کی ہمدردیاں ان شہیدوں کے افراد خاندان کے ساتھ ہیں جو اس حملہ میں شہید ہو گئے۔جو ظالمانہ اور سفاکانہ عمل انجام دیا گیا ہے ہم اس کی سخت لفظوں میں مذمت کرتے ہیں۔اس حادثہ سے ہندوستان کا ہر ذی شعور غصہ میں ہے ۔مسٹر فاروقی نے کہا کہ اتنا بڑا حادثہ ہوا ہے تو اس میں کہیں نہ کہیں سسٹم اور خفیہ نظام کی بھی کمزوری سامنے آتی ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ خیال بھی رکھا جانا چاہئے کہ یہ وقت بہت نازک ہے۔جو مسلمان اس قسم کی سرگرمیوں میں کسی وجہ سے ملوث ہیں  ؤوہ اسلام کو صحیح طریقہ پر سمجھیں اور اس طرح کی تخریبی کارواائیوں سے باز آ جائیں۔ساتھ ہی سرکار اور عوام دونوں کو یہ دھیان رکھنا ہو گا کہ کسی بھی طرح کا ماحول بگڑ نے نہ پائے۔اور آپسی بھائی چارہ بنائے رکھیں۔زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے اپنی جگہ لیکن ہمیں اس وقت جوش کے ساتھ ہوش بھی قائم رکھنا ہیں۔حسینی ویلفیئر سوساٗٹی کے صد پروفیسر کامل رضوی نے کہا ڈاکٹر کلب صادق نے پاکستان کی انہی سرگرمیوں اور دہشت گردی کی حمایت کی بنا پرایک سلوگن دیا ہے ’’پاکستان نہیں پاپستان ہے‘‘اسے ہم نے اپنا گرومنتر بنا لیا ہے۔ علی کانگریس کی روبینہ جاوید نے کہا کہ دہشت گردی کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہوتا۔ ہم تمام قسم کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی مذمت کرتے ہیںاور اپنے ہم وطنوں سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بنائے رکھنے کی اپیل بھی کرتے ہیں۔۔امیر حیدر (چچا) نے کہا کہ پاکستان بننے کا سب سے زیادہ نْقصان مسلمانوں کو ہی ہوا ہے۔ہندوستان میں سکھ بھائیوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن ایک سکھ اس ملک کاوزیراعظم ہو سکتا ہے مسلمان نہیںہو سکتاکیونکہ مسلمان کے نام پر پاکستان بنایا جا چکا ہے۔اس لئے ہم سے زیادہ درد کس کو ہو سکتا ہے۔فیتھ اینڈ ہوپ کی صدر سیدہ رضوی نے پلوامہ حادثہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان جذباتی طور پر نہایت نازک موڑ سے گذر رہا ہے ایسے وقت میں کچھ لوگ ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت زیادہ جذباتی ہو رہے ہیں ضرورت ہے کہ ہم اپنی گنگا جمنی تہذیب اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو بنائے رکھیں ۔ مسجد تکیہ امام مولانا شمیم نے دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کو کسی مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔اسلام امن کا مذہب ہے رواداری اور بھائی چارے کا مذہب ہے۔یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص دہشت گرد بھی ہو اور وہ مسلمان بھی ہو۔اردو رائٹرس فورم کے جوائنٹ کنو ینرڈاکٹر ہارون رشید نے پلوامہ حادثہ کی مذمت کرتے ہوئے حادثہ کے ذمہ داروں کو جلد سے جلد انجام تک پہنچایا جانا چاہئے۔اردو دوست کے ذمہ دار پرویز ملک زادہ نے کہا کہ ہندوستان کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ یہاں مختلف مذاہب،مختلف فرقے اورمختلف زبانوں کے بولنے والے رہتے ہیں اور ان میں فروعی اختلاف ہونا بھی فطری ہے۔ہمارے سیاسی نظرئے الگ الگ ہو سکتے ہیں لیکن جب بات ہندوستان کی سالمیت کی آتی ہے تو ہر ہندوستانی ایک صف میں کھڑا ہوتا ہے۔اس لئے آج کے مارچ میں علماء ،مساجد کے امام،مدرسے کے طلبہ اور خواتین کی بڑی تعداد کی شرکت یہی پیغام دیتی ہے کہ پلوامہ حادثہ کا سب کو دکھ ہے اور سب کو شہیدوں کے خاندان سے ہمدردی ہے۔اور دہشت گردی کے خلاف ہر ہندوستانی ایک صف میں کھڑا ہے۔
امن مارچ میںعبید اللہ ناصر،عارف نقوی،ریاض الحیدر،مسیب ریحان،ہمایوں چودھری،ڈاکٹر طارق قمر،ڈاکٹر زیدی،محمد آصف،عارف زیدی،ریاض حیدر،ہتیندر جین،رشمی،گرماوغیرہ کے ساتھ بلاتفریق مذہب وملت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here