نہ ستم کی ہے شکایت نہ کرم کی خواہش

0
360

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

انیس درّانی

نومبردسمبر پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوروان وزیراعظم نریندرمودی کا نڈھال چہرہ آواز کی پژمردگی جسم کی حرکات میں بے آرامی کی سی کیفیات نمایاں طورپر محسوس ہورہی تھیں۔ ان کی گفتگو کی چٹک مٹک آنکھوں سے ٹپکتی عیاری سب رخصت ہوچکی تھیں۔ یہی حال ان کے جانشین بننے کے خواہش مند بھاجپا کے صدر امیت شاہ کا تھا۔ ان کے لبوں پر ہردم کھیلنے والی شرانگیز مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی ان کی غلافی آنکھیں کوتاہ اندیشی سے بوجھل نظر آتی تھیں۔ دونوں میں تبدیلی کی وجہ مدھیہ پردیش چھتیس گڑھ اور راجستھان میں ان کی عبرتناک شکست تھی جس نے ان کے ناقابل شکست ہونے کے اعتماد کو متزلزل کردیا تھا۔ لیکن وہ اس شکست سے بھی زیادہ پریشان بابری مسجد تنازعے سے تھے جس کو لے کر سنگھ پریوار اور اس کی تنظیمیں ان پر دباؤ بنائے ہوئے تھیں۔ سنگھ پریوار کا اصل مقصد اپنے ان دونوں چیلوں کو یہ باور کرانا تھا کہ وہ اپنی اوقات میں رہیں اور آج وہ جو کچھ بھی ہیں سنگھ پریوار اور گروموہن بھاگوت کی مہربانی اور کِرپا سے ہیں اس لئے اقتدار کی سڑک پر ہاتھی کی طرح نہ جھومیں اور اس بات کو فراموش نہ کریں کہ وہ صرف رام مندر کے نام پر اور اس کی تعمیر کے نام پر برسراقتدار آئے تھے اور ابھی تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ 2019 کے پارلیمانی الیکشن میں وہ بھارت ماتا کے سپوتوں کو کیسے بے وقوف بنائیں گے؟ انہیں صرف سنگھ ہی اقتدار میں بحال رکھ سکتا ہے اس لئے وہ صرف سنگھ کی حکمت عملی اور احکامات پر عمل کریں۔
دراصل سنگھ پریوار بھی پہلی مرتبہ اتنی اکثریت اور قوت کے ساتھ برسراقتدار آنے کے بعد خود سست ہاتھی کی طرح بھارت کے ایک سرے سے دوسرے سرے کی طرف دوڑ لگارہا ہے تاکہ جہاں جہاں وہ ابھی تک نہیں پہنچ سکا ہے وہاں اپنے وجود کا احساس دلاسکے۔ اس مقصد سے وہ ناگپور سے خفیہ طریقے سے سے نئے نئے احکامات جاری کرتا رہتا ہے کہ عام بھارتیوں کے دل میں ’’ہندتوا‘‘ کے لئے جگہ پیدا ہو۔ دلچسپی پیدا ہو۔ اس کا اپنا حلقہ اثر بڑھے لیکن احکامات کی تعمیل تو آئین اور قانون کے دائرے میں ہی ہوسکتی ہے۔ بھارت میں ابھی جمہوریت بھی زندہ ہے اور فی الحال آئین بھی سلامت ہے۔ سنگھ پریوار چاہتا ہے کہ جتنی جلدی ہوسکے آئین ترنگے اور پارلیمانی نظام حکومت سے نجات حاصل کی جائے۔ مگر حکومت کی باگ ڈور سنبھالے مودی جی اچھی طرح جان گئے ہیں کہ وہ آئین کی قیود میں کس حد تک آگے بڑھ سکتے ہیں اور کہاں انہیں رکنا ہی ہوگا کیونکہ ملک کا عدلیہ ان کے بے لگام خواہشات کو پابند کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس لئے وہ چاہتے ہوئے بھی رام مندر کے معاملے کو ایک خاص حد سے زیادہ آگے نہیں لے جاسکتے۔ سنگھ پریوار ملک میں کلی طورپر گئو ماتا اور بیل پتا کاٹنے پر پابندی لگانا چاہتا ہے۔ مگر بھارت کی کچھ ریاستیں ایسی ہیں جہاں ان جانوروں کا گوشت بہت رغبت سے کھایاجاتا ہے۔ سنگھ کی خواہش تھی کہ وہ تمام افراد جو گئو رکھشا سے متعلق کیسوں میں جیل میں بند ہیں یا ان پر مقدمات چل رہے ہیں انہیں رہا کیاجائے۔ مقدمات واپس لئے جائیں۔ اس کے علاوہ فرقہ وارانہ فسادات کے تعلق سے غیر مسلموں پرجو مقدمات قائم ہیں وہ بھی واپس لئے جائیں۔ یہ سب معاملات ملک کے سیکولر جمہوری نظام سے مطابقت نہیں رکھتے مگر سنگھ پریوار کا دباؤ بنا ہوا تھا۔ کیونکہ سنگھ عام آدمی تک یہ پیغام پہنچانا چاہتا ہے کہ رام راجیہ آچکا ہے۔ اب تمام کام ہندو مفادات کو سامنے رکھ کر کئے جائیں گے اور بھارت کو ہندوراشٹر بنانے کے لئے سنگھ کی ضمانت پر ایک بارپھر بھاجپا کو ووٹ دو۔ کیونکہ سنگھ ہی ’’ہندتوا‘‘ کی اصل قوت ہے۔ لیکن اٹل جی وزیراعظم اور ایڈوانی کے وزیرداخلہ ہونے کے زمانے سے سنگھ پریوار کے باربار رام مندر بنانے کے راگ سن سن کر بھارت کے عوام نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ یہ صرف انتخابی ہتھکنڈہ ہے۔ مودی سرکار کے 56ماہ گزرنے کے بعد بھی رام مندر کا معاملہ ایک انچ آگے نہیں بڑھ پایا ہے۔ اس بات سے جہاں ایک طرف مودی جی پریشان تھے کہ انتخابی جلسوں میں وہ عوام کے سامنے کیا وضاحت دیں گے۔ رام مندر کی تعمیر کیوں نہ ہوسکی۔ عوام سے جھوٹے وعدے کیوں کئے گئے وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف سنگھ پریوار سے وابستہ سادھو سنت اور اکھاڑے سنگھ پر دباؤ بنائے ہوئے ہیں کہ ہم سادھو سنتوں کو بھی لوگ جھوٹا سمجھنے لگیں گے۔ کیونکہ سنگھ سے غیر وابستہ لوگ سادھو سنتوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔ ان کی باتوں کو سچ اور ان کے وعدوں کا اعتبار کرتے ہیں۔ اس لئے رام مندر کی تعمیر کے لئے کچھ قدم تو سرکار سے اٹھوائیے۔
ہماری اطلاعات کے مطابق بھاجپا کے صدر امیت شاہ نے جنوری میں ناگپور جاکر موہن بھاگوت کی قدم بوسی کی۔ مودی جی کا پیغام دیا اور ان کی اور اپنی وفاداری کا یقین دلایا کہ وہ کبھی بھی سنگھ پریوار کے احکامات کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ البتہ قانونی اور آئینی رکاوٹوں کے سبب وہ بہت تیز نہیں چل سکتے۔ مودی جی نے گروبھاگوت سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنی لگائی آگ سے انہیں بچائیں اور رام مندر تحریک کو الیکشن کے بعد کے لئے مؤخر کردیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق امیت شاہ نے نہ صرف معافی تلافی کی بلکہ بھاگوت جی کے پاؤں پکڑ کر یہ بھی درخواست کی اگر کسی وجہ سے وہ مودی جی کی بجائے کسی اور کووزیراعظم بنانا طے کریں تو وہ بھی یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں اور وہ سنگھ کے لئے ایک وفادار مخلص وزیراعظم ثابت ہوں گے۔ بہرحال بھاگوت جی نے ان کی اس درخواست پر کسی ردعمل کااظہار نہیں کیا۔ قارئین کو بتاتا چلوں کہ رام مندر کے ہون کنڈمیں لپٹیں مارنے والے حالیہ شعلے بھاگوت جی کے پیدا کردہ تھے۔ انہوں نے 8اکتوبر کو ناگپور میں وجے دشمی (دسہرہ) کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اپنی تقریر میں انہوں نے رام مندر بنانے کے لئے ایک خصوصی قانون بنانے کی بات کہی تھی۔ اس سے پہلے بھی سنگھ پریوار کے نمبردو ’’بھیاجی جوشی‘‘ بھی کئی مرتبہ سنگھ پریوار کے ماتحت سرگرم لیڈروں اور کارکنوں سے یہ بات کہہ چکے تھے۔ لیکن گرو بھاگوت کی وجے دشمی کی تقریر سارے بھارت کے لئے ایک پیغام کی حیثیت رکھتی تھی۔ وجے دشمی کی تقریر سے قبل تمبر میں آر ایس ایس کے 200 سینئر لیڈروں اور اس کی ذیلی تنظیموں کے اہم عہدیداران کی ایک میٹنگ میں بھی رام مندر پر پیش رفت نہ ہونے کو لے کر مودی کو لتاڑا گیا تھا۔
وجے دشمی کے ناگپور اجلاس میں گرو بھاگوت کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر سادھو سنتوں نے بھی چمٹے اٹھالئے اور مودی جی تابڑتوڑ حملے کئے جانے لگے کہ آخر گزشتہ ساڑھے چار سال میں کیوں حکومت نے رام مندر کے معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں کی چنانچہ کنبھ کے میلے میں سادھو سنتوں نے مودی سرکار کے خلاف جو کچھ کہا وہ ناگفتہ بہ ہے۔ مختصراً انہوں نے وارننگ دے دی کہ اگر فروری کے آخر تک رام مندر تعمیر کے لئے آرڈیننس نہیں لائے تو وہ کھل کر بھاجپا کی مخالفت کریں گے۔ اس کے علاوہ وشواہندو پریشد کے بڑے اور اہم لیڈروں کی بھی ایک بڑی میٹنگ ہوئی جس میں رام مندر پر مودی سرکار کے تساہل پر زبردست تنقید کی گئی۔ ان لگاتار حملوں سے مودی جی سٹپٹا گئے۔ آخر جب سنگھ پریوار نے دیکھ لیا کہ مودی جی اور امیت شاہ کی اکثری گردنیں جھک چکی ہیں تو انہوں نے پہلے سے لکھے اسکرپٹ کے مطابق بچا ؤ کارروائی شروع کردی اور اس کے مطابق مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں عرضی دائرکی کہ ایودھیا میں ایکوائر شدہ زمین میں سے بابری مسجد کی متنازعہ جگہ (جولگ بھگ ڈھائی ایکڑ ہے) کو چھوڑ کر بقیہ 67 ایکڑ زمین کے اصل مالک ’’رام جنم بھومی نیاس‘‘ کو واپس کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس عرضی کا سپریم کورٹ میں داخل ہونا تھا کہ سنگھ پریوار کے اشارے پر دھرم سنسد کے ممبران اور وشواہندوپریشد اور اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد سب نے مرکزی حکومت کی تعریف میں نقارے پیٹنے شروع کردیے۔ حالانکہ حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ سپریم کورٹ ماضی میں تین بار اسی نوعیت کی عرضیاں نامنظور کرچکی ہے۔ سپریم کورٹ کا موقف بالکل صاف اور منصفانہ ہے کہ جب تک بابری مسجد/رام مندر کی ملکیت کا فیصلہ نہیں ہوجاتا ایکوائر شدہ زمین سرکار کی تحویل میں رہنی چاہئے۔ تاکہ مستقبل میں تنازعہ کے کسی فریق کو پریشانی نہ ہو۔ بہرحال بڑے پیمانے پر رام بھکتوں کی ناراضگی سے بچنے کے لئے مودی سرکار نے یہ قدم اٹھایا اور سنگھ پریوار کی ہدایت پر دوسری تنظیموں نے بھی سپریم کورٹ میں عرضی کا زبردست خیرمقدم کیا۔ اس سے تاثر پیدا ہوگیا ہے کہ مودی جی تو رام مندر بنانے کے لئے سپریم کورٹ تک گئے مگر وہاں سے انہیں فی الحال اجازت نہیں ملی ہے۔ اس معاملہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بھاجپا کے حلیف جو این ڈی اے (NDA) کے ممبر ہیں وہ اپنے آپ کو رام مندر تحریک کے ساتھ جڑنے میں ہچکچاہٹ محسوس کررہے تھے۔ رام ولاس پاسوام کی لوک جن شکتی پارٹی نے صاف طورپر کہاکہ رام مندر تحریک سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسی طرح اناڈٰ ایم کے اور کئی چھوٹی پارٹیاں بھاجپا کے ساتھ رشتہ قائم کرنے پر جھجک محسوس کررہے تھے چنانچہ بھارتی عوام کو مزید گمراہ کرنے کے لئے سنگھ پریوار نے ایک اور کھیل کھیلا اور بھاگوت جی نے ایک بیان دیا کہ ملک میں 2019 میں ہونے والے پارلیمانی چناؤ کے مدنظر ہم رام مندر کی تحریک کو الیکشن کے بعد سرگرم کریں گے۔ کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ رام مندر تحریک جو ایک دھارمک موضوع ہے سیاست کا شکار ہو۔ یہاں قارئین کو یاددلاتا چلوں کہ بڑے شنکراچاریہ سروپانند سرسوتی نے اعلان کررکھا ہے کہ وہ 21فروری کو ایودھیا میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ چنانچہ مودی سرکار کے ذریعہ سپریم کورٹ میں متنازعہ 67 ایکڑ زمین کو واپس کرنے کی درخواست سادھو سنتوں کو بھی تحریک کو فی الحال روکنے کا ایک معقول بہانہ مل گیا۔ چنانچہ وشواہندو پریشد اور دھرم سنسد وغیرہ نے بھی بھاگوت جی کے اعلان سے متفق ہونے کا اعلان کردیا۔ آر ایس ایس کے میڈیا انچارج ارون کمار کے مطابق سنت سماج اور وہ تمام لوگ جو مندر کی تعمیر کا مطالبہ کررہے تھے وہ حکومت کے سپریم کورٹ سے غیر متنازعہ اراضی واپس کرنے کی درخواست سے مطمئن ہیں اور فی الحال رام مندر تحریک کے 2019 کے پارلیمانی الیکشن کے خاتمہ تک موقوف کرنے سے اختلاف نہیں رکھتے۔ تاہم رام مندر تحریک کے پروگرام کے تعلق سے عوام کو متحرک رکھنے کے لئے6اپریل کو بھارت کے سب مندروں میں ’’جے رام۔ شری رام‘‘ کا جاپ کیاجائے گا۔ اس طرح وشواہندو پریشد کے ترجمان نے بھی کہا ہے کہ رام مندر تحریک کو الیکشن سبب موقوف کردیاگیا ہے کیونکہ سادھو سنت نہیں چاہتے کہ کسی قسم کا تناؤ پیدا ہو۔ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہمارے سادھو سنتوں اور سنگھ پریوار کے کاغذی پہلوانوں کو ٹکراؤ سے بچنے کا خیال آیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مودی جی اپنے بھاجپا کے خدائی فوجداروں کو بھی اسی نصیحت پر عمل کرنے کی ہدایت دیں۔ مگر شنکراچاریہ کو ابھی تک منایا نہیں جاسکا ہے اور وہ 21فروری کو مندر تعمیر کرنے پر بضد ہیں۔ ان کی اس ضد نے ہندو سماج کو دوحصوں میں بانٹ دیا ہے!
نہ ستم کی ہے شکایت نہ کرم کی خواہش
دیکھ تو ہم بھی ہیں کیا صبر وقناعت والے

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here