9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
شہاب اللہ خان
گھر کے آنگن سے آنے والی آوازوں کی رفتار اور معیار میں عروج دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ کسی منصوبہ کو عملی جا مہ پہنا نے کے لئے کچھ اقدامی قدم بروئے کا رلا ئے جا رہے ہیں۔ہر طرف فکری شو ر و غل اور اور فرائض سے بھری ہو ئی باتیں کی جا رہی ہیں ۔ بڑے اپنے رعب اور بڑائی کو بر قرا ر رکھتے ہو ئے ہر چیز کو درست کرنے کا حکم دے رہے ہیں ۔اور چھو ٹے اس حکم کو عمل میں لا نے کی غیر معمو لی کا وشوں میں مبتلا ہیں ۔ ارے کیا ہو ا حلوائی آیا کے نہیں؟میرے والد نے اپنے رعب بھری آواز میں میری والدہ سے پو چھا ۔مجھ سے کیا پوچھتے ہیں ؟ میرے سر پر اور بھی کام ہیں والدہ نے اپنا پلو جھاڑتے ہوئے جواب دیا ۔
ارے اس بار پہلے سے زیا دہ خد مت گزاری سے کام لینا ہے سنا ہے لڑکے گھر والے نوا بی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ میرے والد نے اپنے فرائض کی اہمیت کو اپنی فکر کے شباب سے گزارتے ہوئے کہا ۔
آج کے روز ہما را چا ر دیواری والا نامی مکان بھی لب مسکرا ہٹ سے مزین تھا ۔اس پر لگی لائٹ اور جھا لریں اس کے اس عیب کو چھپا رہیں تھیں جو کہ عر صہ دراز سے اس پر رنگ روگن نہ ہو نے کی وجہ سے ابھر آئے تھے اور اس کے خستہ ہو نے پر ہما رے اوپر لگے ہوئے غریبی الزامات کوصادق بیٹھا رہے تھے ۔
بیکار کے اس گھر مین جس میں مکھیا ن اور مچھر بھی آنے سے گریز کر تے تھے آج یہاں پر انسان نامی جا نداربھی مو جو د تھے ویسے تو ہما رے حالات ابتر ہو نے کی وجہ سے ہما رے ساتھ نہ تو ہما رے رشتہ دار ملنا پسند کر تے تھے اور نہ ہی پڑوسی پتا نہیں اس دن سب کو کیا ہوا تھا نہ جانے سب کس لالچ اور حرص کی ٖغرض ایک دوسرے کی مدد واستعانت میں لگے تھے ۔بچے کھیل کود میں مشغول تھے اور گھر کے شوروغل بڑھا نے میں سب سے بڑا کردار ادا کر رہے تھے ۔گھر مین سبھی اپنی حیثیت اور بسا ط کے مطا بق اپنے ماخوذہ کا موں میں مبتلا تھے اور مسرت کے ساتھ ان کا موںکو انجام دینے کی کا وشوں میں مبتلاتھے ۔ گھر کے ایک کو نے میں گیت بھی گائے جا رہے تھے جس مین کہیں نہ کہیں اس بات کو اہمیت دی جا رہی تھی کہ آنے والا وقت مسرت اور شا دمانی کا ہے ۔نیز گھر کی ہر شئے مستقبل میں آنے والی خوشی کی پیشن گوئی کر رہی تھی ۔
کیا ہوا جیـ ابھی تک مہمان نہیں آئے کا فی دیر ہو گئی ہے میری والدہ نے میرے والدکو کام کر تے ہوئے پو چھا ۔ہاں دیر تو کا فی ہو چکی ہے میری بات ہوئی تو تھی جا وید (بچولیہ)سے اس نے شام پانچ بجے کا وقت دیا تھالیکن ابھی تو ۶بجنے کو آئے والدہ نے اپنی فکر کو جملہ سے منسلک کر تے ہوئے کہا ۔ روکو میں جا وید کو فون کرتا ہوں اور معلوم کرتا ہوںکے تاخیر کیوں ہو رہی ہے۔
یہ سارے مذاکرات میری نظروں کے سامنے ہو رہے تھے اور مجھے فکر ہو رہی تھی کہ اس بار بھی کہیں اونچ نیچ ہوئی تو میرے والد کی ساری محنت اور منت سما جات غرق ہو جائیگی اورآئندہ سے انکو کوئی ادھار نہ دیگا ۔
ہما ری معا شی حا لات اس لائق بھی نہیںہیں کہ ان کو معاش کے نام سے مو سوم کیا جائے میرے بابا کچھ وقت پہلے پھیری کیا کر تے تھے اور کبا ڑا جمع کر کے اس سے رختہ سفر کے ما نند لایا کر تے تھے جو کہ اونٹ کے منھ میں ذیرہ کے مانند ہو پا تا تھا۔اور کبھی خدا پر بھروسہ کر کے فا قہ کر لیتے تھے اس امید سے کہ آج اگر خدا فا قہ کرا رہا ہے تو ہو سکتا ہے کل کچھ غلطی سے اچھا میسر ہو جائے ورنہ تو دال کے پانی کو سالن اور پاپڑ کے نام کو روٹی سمجھ کر اس سے زیادہ نہ تو کبھی جانا تھا اور نہ ہی سمجھا تھا ۔
بہر کیف کسی طرح سے زندگی کی گاڑی نہ جانے کن پہیوں پر چلتی آرہی تھی اور ہر دم ایسا لگتا تھا کہ اب مزید جی نہیں پا ئنگے اور بھوک و پیاس سے مرجائنگے۔ لیکن خدا پیدا کرنے والے کے ساتھ ساتھ کھلانے والا بھی ہے۔
ان سارے مصائبی لمحات سے دو چار ہوہی رہی تھی کہ اچا نک سے میرے ضمیر نے مجھے دستک دی اور جھنجھوڑ کر کہنے لگا ۔ارے بد بخت کب تک لڑکی بن کر دیکھا تی رہی گی اور کب تک دوسروں ک لئے موم کا پتلا بنی رہی گی اب تجھے بنو سنگار زیب نہیں دیتا۔ اب تجھے تیری حقیقت پر بھی شرم آتی ہے ؟آج تجھے تیری حقیقی شکل پسند نہیں ؟توکیوں حقیقی حسن پر مجا زی حسن کو فوقیت دیتی ہے ؟ میں یہ ساری باتوں کو سوچتے ہوئے ایک مجسمہ کی مانند بیٹھی تھی جس پر بولنا اور ہلنا ممنوع تھا اور جس کو نمائش کے لئے تیار کیا گیا تھا ان لو گوں کے لئے جن کے پاس وہ الزا می حقوق تھے جو کہ وہ بغیرکسی دلیل اور پختگی کے اس مجسمہ پر عائد کر سکتے تھے ۔
انھی سب باتوںکو سوچتے ہوئے کا فی وقت نکل گیا جیسے ہی خیا لی دنیا سے بھر آئی تو احساس ہوا کہ گھر کے ما حول اور حا لات میںغیر معمولی تبدیلی آچکی ہے ۔سب ایک دوسرے سے مخا طب ہو کر خا موشی سے کام لے رہے ہیںایسا لگ رہا تھا کہ گو یا ان کو ایک دوسرے سے سوال کر نے مجبور
کیا گیا ہو ۔ہر چیز گھر میں متا نت اور سنجیدگی کے ساتھ پڑی ہوئی تھی اور سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ گھڑی کی ٹک ٹک بھی شور و غل کی مترادف تھی ۔ایسا لگتا تھا کہ گھر میں چا روں طرف عذاب خا موشی نا زل ہوا ہو۔گھر کے اس ویران ماحول نے میری فکر کو ڈر میں تبدیل کر دیا تھامیرے سینہ میں محصور فکر ابا لے لے رہی تھی اور اس مصنو عی خلعت سے با ہر آنے کی کو شش کر رہی تھی جس کوزما نے نے اس کے عورت ہونے پر اس پر تھوپ دیا تھا۔لیکن افسوس زما نہ کی وہ فر سودہ روایا ت ہمیشہ کی طرح مجھ پر غالب رہیںاور بار بار اس طعنہ کے ساتھ مجھ کو قیدی بنا تی گئیںکہ تو عورت ہے تجھ پر صبر و استقا مت کا دامن فرض ہے اس سے با ہر نکلنا تیری حیثیت اور بسا ط میں نہیں۔
ہر وہ چیز جو گھر کی رنگینیاں بڑھا نے اور عیب کو چھپا نے کے لئے گھرمیں مو جو د تھی وہ سب کی سب مجھ پر ہنس رہی تھی اور مجھے میری لا چار گی اور کم ظرفی پرطعنہ دے رہی تھیں۔
ایک بار پھر انھیں رسوما ت اور فرسودہ خیا لات کی جیت ہو ئی جن کو زما نہ نگا ہ الفت سے سر شا کرتا ہے ۔
میں اپنے دل میں دعائیں ، دماغ میںٖفکراور آنکھوں میں انتظار لئے بیٹھی رہی اور سوچتی رہی کہ اس دنیا میں انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ کیوں دیا گیا ؟ کیا صرف اس لئے کہ وہ سر زمین پر سب سے خوبصورت جا ندار ہے یا صرف اس لئے اس سے زیا دہ چالاک اور خود غرض کوئی نہیں ۔۔۔بہر حال ایسی گفتگو کا سلسلہ میرے لئے کوئی خا ص بات نہیں تھی کیونکہ اکثر جب مین پریشان رہتی تھی تو اپنے ضمیر
اور کردار کو معیوب جان کر اپنے غصہ سے نجا ت پا لیتی تھی ۔ بہر حال ایک بار پھر میرا گمان میری پیشن گوئی پر صا دق آیا اور اس کی تصدیق میرے والد کے اس جملہ کے بعد ہوئی جب کہ میں نے انہیں دھیمی آواز میں میری والدہ سے کھتے ہوئے سنا کہ لڑکے والوں کو پانچ لاکھ روپئے چاھئیں۔
( نزد بھمولہ پو لس چوکی سول لائن علیگڑھ)
9058676937