ڈاکٹر اسلم جمشید پوری ایک ہمہ جہت شخصیت

0
640

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

(محمد علیم اسماعیل،ناندورہ،مہاراشٹر)

اردو ادب سے والہانہ محبت میں خادمِ ادب اپنے قلم کو برابر گھسا رہے ہیں۔ لیکن ان میں سے کتنے وہ خوش نصیب ہوں گے جو اپنی حیثیت منوا کر تاریخ ادب اردو میں حیات ابدی حاصل کریں گے۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن یہ بات بھی پورے وثیق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان میں ایک نام ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کا بھی ہوگا۔موصوف چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میرٹھ میں صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔اسلم جمشید پوری ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ بہترین تنقید نگار ، اچھے افسانہ نگار،افسانچہ نگار،سماجی سیاسی مضمون نگار ہونے کے ساتھ ساتھ انھوں نے بچوں کے لیے کہانیاں اور ہندی زبان میں بھی افسانے لکھے ہیں۔ ادب کو اپنا لہو پلا کر خون جگر سے سینچنے والوں میںوہ پیش پیش ہیں۔انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو ادب کے فروع کی خاظر وقف کر رکھا ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ اردو کے ہر چھوٹے بڑے پروگرام میں شرکت فرما کر محفل کی رونق بڑھا دیتے ہیں۔ اپنی علمی ادبی کارکردگیوں میں پیش پیش رہنے کے باوجود وہ ایک اچھے استادبھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’میرا مشن نئی نسل کو آگے بڑھانا ہے۔‘‘ تعلیم میں وہ ایسے نصاب کے خواہش مند ہیں جس سے طلبہ میں پیشہ ورانہ قابلیت پیدا ہو، انھیں روزگار سے جوڑا جا سکے ، بے ر وزگاری دور ہواور تعلیم مکمل کرنے کے بعد خاطرخواہ نتائج حاصل ہو۔ اب تک(جون ۲۰۱۸) ان کی تقریبا 29کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ اور قلم و قرطاس کا سفر اب بھی اپنی رفتار سے جاری ہے۔

کسی فن پارے کو پرکھنے اس کے محاسن و معائب کا پتا لگانے کو تنقید کہتے ہیں۔ تنقید نگار کسی ادب پارے کی خوبیوں اور خرابیوں کا پتا لگانے کے لیے صراحت، تشریح و ترجمانی اور تجزیے سے کام لیتا ہے۔ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری ہمارے عہد کے ایک قدآور نقاد کی شکل میں ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ تنقید کے میدان میں قدم رکھے انھیں زیادہ عرصہ نہیں ہوا لیکن اس مختصر عرصے میں انھوں نے جو لکھا ہے، خوب لکھا ہے۔ زبان وہی استعمال کرتے ہیں جو تنقید کے لیے موزوں ہے اور بات کو واضح مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں۔ایک پختہ تنقیدی شعور رکھتے ہیں اور زیادہ تر تجزیہ و تحلیل سے کام لیتے ہیں۔ نثر واضح شفاف اور سلجھی ہوئی ہے۔ وہ تجزیے بڑے کمال کے کرتے ہیں۔ تخلیق سے ایک ایک اقتباس اٹھا کر ہر زاویے سے اسے دیکھتے ہیں، گہرائی میں جاکر باریکیوں کو کھنگالتے ہیں اور فن کار کے ذہن میں اترتے چلے جاتے ہیں جس سے فن کار کو اور اس کے فن کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
تنقید نگاری کے میدان میں ڈاکٹر گوپی چندنارنگ اور شمس الرحمن فاروقی کے بعد کوئی بڑا مستند نام نظر نہیں آتا۔ ایسے وقت میں ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے ا س کام کی کمان اپنے ہاتھوں میں سنبھالی ہے۔ جس طرح افسانے کی تنقید وقار عظیم کا خاص موضوع ہے اسی طرح فکشن کی تنقید ڈاکٹرا سلم جمشیدپوری کا خاص موضوع ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ افسانے پر بھی انھوں نے کافی کام کیا ہے۔اب تک ان کی نصف درجن سے زیادہ تنقیدی کتابیں منظر عام پر آچکی ہے۔
جدید اردو افسانہ بدلتی قدریں (ترتیب و تزئین)جدیدیت اور اردو افسانہ(تحقیق و تنقید) 2001، ترقی پسند اردو افسانہ اور اہم افسانہ نگار(تحقیق و تنقید) 2002، اردو افسانہ: تعبیر وتنقید (تحقیق و تنقید) 2006،اردو فکشن : تنقید و تجزیہ 2012،اردو فکشن کے پانچ رنگ(تحقیق و تنقید) 2017،عصمت شناسی(ترتیب) 2018، تجزیے (تنقید) 2018ان کی تنقیدی تصانیف ہیں جو تنقیدی میدان میں دستاویزی حیثیت کی حامل ہیں۔

ان کے تین افسانوی مجموعے افق کی مسکراہٹ 7 199، لینڈرا 2009، عیدگاہ سے واپسی 2015 منظرعام پر آکر علمی و ادبی حلقوں میں شرف قبولیت حاصل کر چکے ہیں۔جس طرح رشید احمد صدیقی نے پریم چند کو چلتا پھرتا گاؤں کہا ہے اسی طرح ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کو جیتا جاگتا گائوں کہا جا سکتا ہے۔ان کی افسانہ نگاری پر بھی پریم چند کی طرح گاؤں کی زندگی اور حقیقت نگاری کے نظریات جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ان کا بچپن گاؤں میں ہی گزرا اس وجہ سے ان کے افسانوں پر وہی فضا چھائی ملتی ہے۔دلچسپ اسلوب ، موضوعات میں تنوع، موثر زبان اور کرداروں کی خارجی و داخلی کشمکش ان کے افسانوں کی خصوصیات ہیں۔ لینڈرا،عیدگاہ سے واپسی،افق کی مسکراہٹ، دھوپ کا سایہ، وہم کے سائے، شبراتی، بند آنکھوں کا سفر، موت کا کنواں، پینٹھ، ترکیب، جاگتی آنکھوں کا خواب ،یہ ہے دلی میری جان، تم چپ رہو بیر پال ،مجھے معاف کرنا رام سنگھ وغیرہ ان کی نمائندہ و زندہ جاوید کہانیاں ہیں۔

یوں تو ان کے پاس متعدد اچھی کہانیاں موجود ہیں۔ لیکن جو شہرت ان کی کہانی لینڈرا کو ملی وہ دوسری کہانیوں کے نصیب میں نہیں آئی۔ افسانہ لینڈرا ان کے تین دہائیوں کے ادبی سفر کا حاصل ہے۔ یوپی کے کچھ علاقوں میں جو بچے اپنی ماں کی دوسری شادی کے بعد سوتیلے باپ کے گھر رہتے ہیں انھیں طنزیہ طور پر ’’لینڈرا‘‘ کہا جاتا ہے۔ افسانہ ’’لینڈرا‘‘ کا مرکزی کردار فقیر محمد ہے۔ باپ کی موت کے بعد اس کی ماں کی دوسری شادی ہوتی ہے ۔اسے اپنے سوتیلے باپ کے گھر جانا پڑتا ہے۔وہاں لوگ اُ سے طنزیہ انداز میں ’’لینڈرا‘‘کہتے ہیں۔ اس کے چھوٹے سوتیلے بھا ئیوں کی شا دی کر دی جاتی ہے۔ اور اسے شادی کے لائق سمجھا نہیں جاتا ۔کیوں کہ لینڈرا اتنا شریف ہے کہ کسی لڑکی پر نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ اس لیے سب اسے نا مرد سمجھتے ہیں۔ پھر ایک دن اس کا چھوٹا بھائی اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے تو یہ سوچ کر کہ لینڈرا تو نا مرد ہے اس کے ساتھ نکاح کر دیا جاتا ہے۔ جس سے عزت بھی بچ جائے گی اور حلا لہ بھی ہو جائے گا۔ تب لینڈرا یہ سوچتا ہے کہ وہ زمانے کو بتا دے گا کہ وہ مرد ہے۔ اس کی شرافت کا سبھی نے غلط فائدہ اٹھایا اور اس کے ساتھ حقارت بھرا برتاؤ کیا۔ پھر اس رات وہ بے فکر سو ئی دلہن کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
افسانہ’’ عیدگاہ سے واپسی‘‘ پریم چند کی مقبول کہانی ’عید گاہ ‘کے کردار حامد کی زندگی کو آج کے ماحول کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔جس میں ننھا حامید 70 سال کا بوڑھا بن جاتا ہے۔ افسانوی مجموعہ ’عیدگاہ سے واپسی‘ کو بہار اردو اکیڈمی اور مغربی بنگال اردو اکادمی نے انعامات سے سرفراز کیا ہے۔
افسانہ ’’شبراتی‘‘ اندھے عقائد کے منہ پر گہری چوٹ کرتا ہوا ایک طما نچہ ہے۔ ایک بیماری کے تحت گاؤں کے جانور مرنے لگتے ہیں۔ تب گاؤں کے لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ گائوں میں دُکھ گھس آیا ہے۔ دکھ نکالنے کے لیے دکھ کی ہانڈی شبراتی کو دے کر گاؤں سے باہر گاڑنے کے لیے بھیجتے ہیں۔ لیکن برساتی رات میں طوفان کی چپیٹ میں آکرشبراتی اپنے پیچھے چیختی بیوی اور بلکتے دو بچوں کو چھوڑ کر اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ تب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب شبراتی کے گھر میں گھس آئے دکھ کو کون نکالے گا۔
افسانہ’ ’تیری سادگی کے پیچھے‘ ‘(حصہ اول اور حصہ دوم) یہ عنوان مشہور قوال مجید شعلہ کی قوالی کے ایک مکھڑے سے مستعار ہے۔جس میں سادگی کا ڈھونگ رچا ئے ایک فکشن نگار کی دوہری زندگی کو دکھایا گیا ہے۔ساتھ ہی جھوٹے مقدمات میں بے قصور مسلمانوں کی زندگی سلاخوں کے پیچھے برباد کرنے اور اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرنے ہر منحصر کہانی ہے۔اس افسانے کا مرکزی کردار ثانیہ کو دہشت گردوں کا ساتھی سمجھ کر گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ 7 سال جیل میں گزارنے کے بعد اس بے قصور کی رہائی ہوتی ہے۔ وہ اپنا مذہب تبدیل کرکے ثانیہ سے سونیا بن جاتی ہے۔ پھر آشرم کی زندگی کا حصہ بن کر وہاں کی برائیوں کے خلاف احتجاج کرتی ہے۔
پینٹھ یعنی بڑا بازار جو ہفتے میں ایک مقررہ دن کو لگتا ہے۔ جہاں چیزوں کی بولیاں لگائی جاتی ہیں اور خرید و فروخت ہوتی ہے۔ افسانہ ’’پینٹھ‘‘ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ،خوددار، خود اعتماد، شریف لڑکی کی کہانی ہے۔ جب بھی اسے رشتہ والے دیکھنے کے لیے آتے ہیں تو ان کے برتاؤ سے اسے ایسا لگتا ہے جیسے وہ لوگ کسی قربانی کا جانور دیکھنے کے لیے آئے ہو۔ غرور و تکبر میں ڈوبے لڑکے کے سوالات جب اس کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیتے ہیں تب وہ ان سے کہتی ہے ’’آپ غلط پینٹھ میں آگئے ہیں۔‘‘
افسانہ’ ’بنتے مٹتے دائرے‘‘ دلتو ں پر ہونے والے مظالم کی داستان ہے۔ ساتھ ہی ساتھ دلتوں میں پیدا ہونے والی سماجی و سیاسی بیداری کو بھی دکھایا گیا ہے۔

ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کی تنقید کو کسی ایک نظریے سے منسوب کردینا مشکل ہے۔ ان کی تنقید میں بیک وقت سماجیاتی، تاثراتی اور سائنٹفک عناصر ملتے ہیں۔ اردو کے ناقدین اپنے آپ کو کسی ایک مخصوص دبستان یا نظریے تک محدود نہیں رکھ سکے۔ چنانچہ اکثر نقادوں کی مختلف تحریروں میں مختلف تنقیدی نظریے کے عناصر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مثلاً: فراق گورکھپوری بیک وقت تاثراتی، جمالیاتی اور رومانی نقاد ہیں۔ لیکن سید احتشام حسین ایک ایسے نقاد ہیں جنھوں نے ایک بار مارکسزم کے راستے کا انتخاب کیا تو ساری زندگی اس پر قائم رہے۔
ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کے الفاظ میں ’’میں سمجھتا ہوں کہ آج تنقید کو زندگی آمیز ہونا چاہئے۔ موضوع سے بلاواسطہ بحث کرنی چاہیے۔ اصل میں لفظ کی قرات اور پھر قرات سے پیدا ہونے والے معنی کا آپسی انسلاک بہت ضروری ہے۔ ناقد کو یہی سمجھنا اور سمجھانا ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے لفظوں کو ان کے صحیح پس منظر اور مفہوم میں استعمال کیا ہے یا نہیں، تخلیق کار نے کن سماجی عوامل کا استعمال کیا اور کن کو متاثر کیا ہے۔ آج فن پارے کو فنکارکے نام کے حوالے سے پرکھا جاتا ہے۔ نئے لکھنے والے اس تنقیدی بددیانتی کے شکار ہو جاتے ہیں۔ جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔‘‘
اہل ادب بھی ان کے فن کا لوہا مانتے ہیں۔ چلیے اب چند اہل ادب کی نظر سے ان کے فن کا جائزہ لیتے ہیں۔
نورالحسنین ۔۔۔ ’ ’اسلم جمشید پوری کی افسانہ نگاری کا کینوس محدود نہیں ہے۔ دیہی مسائل ہوں یا شہری ماحول ان کا قلم نہایت دیانتداری سے اپنی بات پیش کردیتا ہے۔ ان کا مشاہدہ اور مطالعہ کافی وسیع ہے۔ وہ جہاں انسانی روئیوں پر گرفت کرتے ہیں وہیں ان کے مسائل اور ماحول کی بھی خوبصورت عکاسی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب منظر کاغذ کی سطح سے آنکھوں تک پہنچتا ہے تو حقیقت نگاری دل و دماغ کو مطمعین کر جاتی ہے۔‘‘
پروفیسر صغیر افراہیم ۔۔۔ ’’فکشن کی تنقید پر انھوں نے مختلف زاویوں سے کام کیا ہے۔ ان کی تنقید اور تخلیق کو پڑھنے اور سمجھنے والوں کا دائرہ اس لیے بھی پھیلا ہوا ہے کہ وہ افسانے کی ترکیب اور تشکیل کے بنیادی عناصر کی پاسداری کا خیال رکھتے ہوئے افسانے کو دلچسپ اور دلفریب بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
رفیق جعفر (پونے )۔۔۔ ’’اسلم کا تخلیقی عمل مجھے کچھ اس طرح کا معلوم ہوتا ہے کہ کہانی جب ان کے پاس آتی ہے تو ان کے رگ و پے میں سرایت کرجاتی ہے، ان کی سوچ کا حصہ بن کر قرطاس کی منزل پر پہنچ کر ہی دم لیتی ہے۔ قرطاس جب اسے قاری کے حوالے کردیتا ہے تو اسلم کا کرب مسرت کی چاشنی سے آشنا ہوتا ہے۔‘‘
’’کہانی ندی‘‘ 2012 کے عنوان سے ان کے تین افسانے اور تین افسانچوں کا ایک آڈیو البم بھی ریلیز ہوا جس کو خاصا پسند کیا گیا۔اردو کے ساتھ ساتھ انھوں نے ہندی میں بھی کہانیاں لکھی ہیں۔ ان کے ہندی افسانوی مجموعوں میں جاگتی آنکھوں کا خواب 2004،اور دکھ نکلوا 2013 شامل ہیں۔ افسانچے کے فروغ میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا ہیں۔ 2013 میں ان کے افسانچوں کا مجموعہ ’کولاژ‘ کی اشاعت ہوئی۔ جس میں اشتہار، آٹوگراف، نیا فلسفہ وغیرہ زندہ یادگار افسانچے ہیں۔اسی کے ساتھ ’’ اسلم جمشید پوری کے دیہی افسانے ‘‘ (ڈاکٹر فرقان سنبھلی)، ’’اسلم جمشید پوری کے دس نمائندہ افسانے‘‘ (پریم گوپال متل)اور ’’اسلم جمشید پوری بحیثیت افسانہ نگار‘‘(ڈاکٹر تسنیم فاطمہ)شائع ہوئی ہیں۔بطور افسانہ نگار اور فکشن ناقد انھوں نے اپنی حیثیت کو مستحکم کیا ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here