اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر: قلی قطب شاہ

0
3785

[email protected] 

9807694588(موسی رضا۔)

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندوی

محمد قلی قطب شاہ نہ صرف اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعرتھا بلکہ شہر حیدرآباد اور اس کی عظیم تر گنگا جمنی تہذیب کا بھی بانی ہے۔ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر، ابوالمظہرمحمد قلی قطب شاہ کی ولادت 14 اپریل 1565ء بروز جمعہ ہوئی، جو گولکنڈہ کا پانچواں تاجدار گزرا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ، محمد ابراہیم قطب شاہ کا تیسرا فرزند تھا۔ اس کی والدہ کا نام رانی بھاگ رتی بائی تھا۔ مؤرخین کا اس امر پر عمومی اتفاق ہے کہ اس کا دور نہایت امن و امان، خوشحالی اور دولت و ثروت کی فراوانی کا دور تھا۔ گولکنڈہ کے حدود سلطنت میں واقع سونے اور ہیرے کی کانیں دولت اُگل رہی تھیں اور ہر لحاظ سے قطب شاہی سلطنت کی عظمت اپنے انتہائی عروج پر تھی۔ محمد قلی قطب شاہ کو فن تعمیر سے غیر معمولی دِلچسپی تھی اور وہ شہری منصوبہ بندی اور عظیم عمارتیں بنانے کا زبردست شوق رکھتا تھا۔ اس کے والد نے اپنی زندگی میں موسیٰ ندی کے کنارے ایک نیا شہر بسانے کا اِرادہ کیا تھا اور اس ندی پر ایک پل بھی تعمیر کرایا تھا، لیکن موت نے اسے مہلت نہ دی اور اس تاریخی کام کی انجام دہی اس کے عظیم اور شوقین فرزند کے حصہ میں آئی۔ ایک روایت یہ ہے کہ محمد قلی قطب شاہ نے بھاگ متی نامی ایک رقاصہ کی محبت میں ’بھاگیہ نگر‘ آباد کیا اور جب اسے ’حیدر محل‘ کا خطاب دیا گیا تو اسی مناسبت سے شہر کا نام بھی ’’حیدرآباد‘‘ رکھ دیا گیا اور دوسری روایت یہ ہے کہ محمد قلی قطب شاہ نے حضرت علی ؓ سے اپنی عقیدت کی بناء پر شہر کا نام حیدرآباد رکھا۔ چارمینار، دولت خانہ عالی، خداداد محل، محل کوہ طور، سجن محل، حیدر محل، حنا محل اور جامع مسجد جیسی عمارتیں بھی اسی حکمراں کے دور کی یادگاریں ہیں۔دور رس سیاسی نتیجہ خیزی کے اعتبار سے محمد قلی قطب شاہ کے دور کا ایک اہم واقعہ تو یہ ہے کہ بیجاپور کے ابراہیم عادل شاہ اور محمد قلی قطب شاہ کی بہن کے درمیان رشتہ مناکحت قائم ہوا اور دوسرا تاریخی واقعہ یہ ہے کہ 1611ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے پہلی بار مسولی پٹنم میں اپنی ’ایجنسی‘ قائم کی۔ محمد قلی قطب شاہ کااور 11 جنوری 1612ء موافق 17 ذی قعدہ 1020ھ میں انتقال کیا۔
اردو میں قصید نگاری کی ابتداء دکن سے ہوئی۔ بہمنی سلطنت کے بعد خصوصیت سے عادل شاہی اور قطب شاہی سلاطین نے خود اس ضمن میں دلچسپی لی دبستان گولکنڈہ کی ابتدائی مثنویوں میں مدحیہ اشعار ملتے ہیں۔احمد گجراتی کی مثنوی’’ یوسف زلیخا ‘‘ میں سلطان محمد قلی قطب شاہ کی مدح ملتی ہے۔ خود سلطان محمدقلی قطب شاہ صاحب دیوان شاعر تھا اس کے کلیات میں غزل کے علاوہ ریختی ، رباعی اور بزرگان دین کی شان میں مدحیہ کلام بھی ملتا ہے۔ باغ محمد شاہی اور بسنت کے موضوع پر بھی اس کی دو مدحیہ نظمیں ملتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سلطان قلی قطب شاہ کی مدحیہ نظمیں قصیدے کی تعریف پر پوری نہیں اترتیں ان میں صرف تشبیب کا انداز ہے۔ کلیات محمد قلی کی پہلی مدحیہ نظم عید میلادالنبی ؐ سے متعلق ہے اس میں نبی کریم ؐاور حضرت علیؓ سے جذباتِ عقیدت کا اظہار ہوا ہے۔
محمد قلی قطب شاہ نے دانستہ اور شعوری طور پر قصیدے کے موضوع کو بڑی خوبی اور چابک دستی سے برتا ہے اور بڑی دلکش اور موثر تصویریں پیش کی ہیں۔جیسا کہ کہا گیا مذہبی موضوعات کے قطع نظر محمد قلی نے باغ محمد شاہی اور بسنت میں بڑے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے۔قلی قطب شاہ کے زمانے میں باغ محمد شاہی کی تزئین ، دلکشی اور اس کے فرحت بخش ماحول کی بڑی شہرت تھی۔ خود اسے یہ باغ بہت پسند تھا اس لیے اپنی نظم میں اس کی بہت تعریف کی ہے۔ بہر حال محمد قلی قطب شاہ ایک خوش مزاج عیش پرست بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع النظر ، روادار اور رعایا کی بہبودی اور خوش حالی ان کے تہواروں میں خود کو شریک کرنے میں خوشی محسوس کرنے والا حکمران تھا اس نے اپنے کلام میں عوام پسندی موضوعات کو بھی جگہ دی۔ اس کے ذریعے اپنی ہندو رعایا کو بھی اپنے سے قریب کرتا ہے۔
محمد قلی کی غزلوں میں ایک طرف انداز بیان کی سادگی، سلاست، روانی اور برجستگی نظر آتی ہے تو دوسری طرف ہندوستانی رسم و رواج ، مقامی ماحول مقامی طرز معاشرت اور ہندوستانی تہذیب وتمدن کی عکاسی و تر جمانی بھی نظر آتی ہے۔ اردو شاعری پر عموماً اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہمارے شعرا ء ہندوستان میں بیٹھ کرشیراز و اصفہان کے راگ الاپتے ہیں۔ یہ اعتراض شمالی ہند میں نشوونما پانے والی شاعری کے لیے کسی حد تک درست ہوسکتا ہے لیکن محمد قلی اور دکنی کے دیگر شعرا اس سے بری ہیں کیونکہ محمد قلی کی شاعری میں عرب و ایران کے لالہ زاروں، وہاں کے دریاؤں، پہاڑوں یاقصوں کے حوالوں کے بجائے ہندوستانی موسموں نظاروں، پھولوں، پھلوں پرندوں، جانوروں، رسوم ورواج، مقامی اقدار روایات اور رجحانات سے اثر پذیری اور ان کی ترجمانی ملتی ہے۔ان کے کلام میں حب الوطنی اور قوم پرستی کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے ساتھ ہی ہندوستانی اورخصوصی دکنی کلچرکی بہترین نمائندگی ملتی ہے۔ان کے موضوعات سے ہی ہمیں ہندوستانی کلچرکے عناصر کی نشاندہی ہوتی ہے ساتھ ہی تہذیبی پس منظر بھی اجاگر ہوتاہے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ دکنی زبان سے عمومی عدم واقفیت کے اس دور میں دکنی زبان کے ماہرین محمد قلی قطب شاہ کے دکنی کلام کا آسان اردو میں ترجمہ کریں یا اس کے موضوعات کو مضامین کی شکل میں پیش کریں تو محمد قلی کے کلام میں موجود تہذیبی روایات اور ورثے کا تحفظ ہوسکتا ہے اور دکنی زبان سے عدم واقف نئی ہندوستانی نسل اس کام سے محمد قلی کے پیغام کو سمجھ سکتی ہے۔ آج ضرورت ہے کہ ہم محمد قلی قطب شاہ کی چھوڑی ہوئی مذہبی رواداری اور گنگا جمنی تہذیب کی عظیم تر روایات کو پروان چڑھائیں۔

رابطہ نمبر8175818019

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here