خان محبوب طرزی :لکھنؤ کا ایک مقبول ناول نگار

0
757
Owais Sambhali

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں

محمد اویس سنبھلی

خان محبوب طرزی (۱۹۱۰۔۱۹۶۰)کا شمار اردو کے ان ناول نگاروںمیں ہوتا ہے جو نہ صرف بہت مشہور تھے بلکہ انھوں نے سیکڑوں ناول لکھے ۔ایک عرصہ تک وہ نسیم بک ڈ پو ، لکھنؤسے وابستہ رہے نیزکچھ برس ادارہ فروغ اردو ،لکھنؤسے ان کی وابستگی رہی ۔انھوں نے تاریخی ،جاسوسی،مہماتی اور سائنسی موضوعات پر ناول تحریر کیے ۔طرزی کو سائنس فکشن کا موجد کہا جاتا ہے ۔ان کا پہلا سائنسی ناول ’سفر زہرہ‘ ہے جو ماہنامہ ’سرپنچ‘ میں قسط وار شائع ہوا تھا ۔ان جملہ خصوصیات کی بناپر ڈاکٹر عمیر منظر کی کتاب’خان محبوب طرزی: لکھنؤ کا ایک مقبول ناول نگار‘ دیکھ کر نہایت مسرت ہوئی ہے کہ طرزی جو کہ اردو فکشن میں لکھنؤ کی آبرو کہے جاسکتے ہیں انھیں یاد کرنے والے لوگ موجود ہیں ۔
یہ کتاب طرزی کی زندگی اور ان کے فن پر خوب صورت احاطہ ہے ۔ساٹھ کی دہائی کے وہ قلم کار جو طرزی کے دوست بھی تھے اور اہم ناول نگار بھی ان تمام کے مضامین کو یکجا اور ان کی درجہ بندی کرکے مختلف ابواب میں تقسیم کردیا گیا ہے ۔اس سے جہاں طرزی کی شخصیت اور ان کی زندگی پر روشنی پڑتی ہے وہیں ان کے فکر و فن کا بھی احاطہ ہوجاتا ہے ۔طرزی کے بعض ناولوں کا تجزیہ بھی بعض مضامین میں شامل ہے ۔ان کی صحافتی زندگی اور دوستداری کے قصے بھی ان صفحات میں آگئے ہیں ۔اس کے علاوہ ناول اور فن سے متعلق طرزی کی تحریروں کو ایک باب میں جمع کردیا گیا ہے ۔ جنگ آزادی اور لکھنؤ،محکمہ ڈاک کی ابتدا اور لکھنؤ کی ریزیڈنسی جسے موضوعات پر طرزی کی تحقیقی تحریروں پر مشتمل ایک باب ہے ۔اس کے علاوہ ناول’ سفر زہرہ‘ اورافسانہ’ زینب خطیبہ‘ بھی شامل کتاب ہیں ۔چونکہ عام طور پر طرزی کے ناول دستیاب نہیں ہیں اور انھیں سائنس فکشن کا بانی کہاجاتا ہے اس لیے ناول کے اس انتخاب سے قاری پر خوش گوار اثرات مرتب ہوں گے اور طرزی کے اسلوب سے براہ راست واقف ہوجائیں گے ۔
فکشن کے علاوہ ان کی بعض دیگر تحریریں بھی بطور نمونہ دی گئی ہیں چونکہ یہ تحریریں کمیاب نہیں بلکہ نایاب کے درجے میں ہیں اس لیے کتاب میں آجانے سے یہ محفوظ ہوجائیں گی ۔

کتاب کامقدمہ بہت اہم اور تحقیقی ہے ۔فاضل مرتب نے مطالعہ کے بعد طرزی کی سوانح اور شخصیت پر جہاں قلم اٹھایا ہے وہیں ان کی ابتدائی ادبی زندگی اور ناول نگاری کے حوالے سے بھی بہت کار آمد باتیں لکھ دی ہیں ۔پروفیسر سید احتشام حسین اور پروفیسر شارب ردلوی اور جناب حفیظ نعمانی کے مضامین ایک طرح سے دریافت کادرجہ رکھتے ہیں ۔اول الذکر دونوں مضامین ان ادیبوں کی کسی بھی کتاب میں شامل نہیں ہیں اس تلاش کے لیے بلا شبہ فاضل مرتب مبارک باد کے مستحق ہیں ۔مختلف اداروں سے طرزی کی وابستگی اور ان کے ناولوں کی تعداد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔
لکھنؤ کا عام ذکر شاعری کے حوالے سے کیا جاتا ہے اور یہی اس کی شناخت بھی ہے مگر اس کتاب کے مطالعے سے یہ باور کرنا پڑے گاکہ افسانوی ادب میں بھی دبستان لکھنؤ کی نمایاں خدمات رہی ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ اب تک کسی نے اس حوالے سے خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے ۔
اودھ اور لکھنؤ کے حوالے سے الگ الگ انداز سے یوں تو بہت سے کام ہوچکے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں لیکن اس کام میں ایک شخص کو بنیاد بنا کر ان کی خدمات کا اس طرح احاطہ کیا گیا ہے کہ اس میں خان محبوب طرزی کی شخصیت، ان کا فن اور ان کی ادبی خدمات پوری طرح اجاگر ہورہی ہے۔ اس لہٰذ سے عمیر منظر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے یہ کام اس قدر منظم طریقہ سے کیا ہے کہ پڑھنے والا اپنی پسند کے لحاظ سے کتاب کے جس حصہ سے چاہے شروع کرسکتا ہے۔ عموماً شخصیت اور فن کے حوالے سے کام کرنے کے دوران تعریف اور مدح سرائی کا پہلو زیادہ حاوی رہتا ہے یا اسے زیادہ بڑا بناکر پیش کیا جاتا ہے لیکن اس کتاب میں معاصرین کی آراء یا ان کے مضامین کے ساتھ ساتھ طرزی کی تحرریں بھی شامل ہیں جس سے قاری اپنی رائے کے لیے آزاد ہے۔
عمیر منظر نے کئی بروسوں کی محنت اور کوشش کے بعد اس کام کو مکمل کیا ہے اس کااندازہ کتاب کے مطالعہ سے بھی ہوتا ہے اورادیب شہیر شمس الرحمٰن فاروقی نے پیش لفظ میں بہت واضح انداز میں اس طرف اشارہ کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’میں سمجھتا تھا کہ طرزی صاحب کو آج کوئی نہیں جانتا۔اور مجھے اس کا رنج بھی تھا کہ اس زمانے میں اردو نے کئی مقبول ناول نگار دنیا کو دئیے تھے۔رشید اختر ندوی، رئیس احمد جعفری،قیسی رامپوری،اے۔آر۔خاتون، اور ان سے ذرا پہلے منشی فیاض علی اور ایم۔اسلم۔ان میں کوئی ایسا نہ تھا جو خان محبوب طرزی کی طرح کا ابداع اور تنوع رکھتا ہو۔
ہم سب کو عمیر منظر کا شکر گذار ہونا چاہیے کہ انھوں نے خان محبوب طرزی کی تحریروں کو یکجا کرنے کا شائع کرنے کا بیڑا اٹھایا۔اس طرح ماضی قریب کا ایک قیمتی سرمایہ محفوظ ہو گیا اور شایداس طرح خان محبوب صاحب کے کارناموں سے دنیا دوبارہ واقف ہو سکے۔عمیر منظر نے یہ کام کئی برس کی تلاش اور محنت سے انجام دیا ہے۔ان کا دیباچہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔‘‘
فاروقی صاحب کو اس کتاب کی اشاعت کا شدت سے انتظار تھا۔ افسوس ! کتاب کی اشاعت سے قبل فاروقی صاحب بھی دار آخرت کو کوچ کرگئے۔
ہم کتاب کی اشاعت پر ڈاکٹر عمیر منظر کو دلی مبارکبادپیش کرتے ہیں۔ غالباً ۲۰۱۷ء سے ڈاکٹر عمیر منظر طرزی پر کام کرہے تھے۔ تقریباً ۴؍برس کی محنت کے بعد یہ کتاب منظر عام پر آئی ۔ مجھے امید ہی نہیں یقین کامل ہے کہ ادبی حلقوں میں کتاب کو پذیرائی حاصل ہوگی ۔ خان محبوب طرزی لکھنؤ کے ایک مقبول ناول نگار تھے۔ اہل لکھنؤ کی طرف سے ڈاکٹر عمیر منظر نے فرض کفایہ ادا کیا ہے۔کتاب ’پاریکھ بکڈپو، ندوہ روڈ، لکھنؤ(رابطہ:9839456786)سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
٭٭٭
رابطہ:9794593055

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here