پھول کھلتے ہیں تو تم آتی ہو یادجام بھرتے ہیں تو بھر آتی ہیں
آنکھیں پہلے
تم نے جاتے ہوئے سوچا نہ کبھی
تم چلی جائو تو کیا دل سے چلی جائو گی
اور یادیں بھی لیے جائو گی
یہ بہاریں تو اسی طرح سے
پھر آئیںگی
ہر طرف پھول کھلیںگے
یہ زمیں
پھر سے دلہن بن کے بصد ناز و ادا
اپنے سامان جراحت لیے پھر آئے گی
اور ڈھونڈے گی تمہیں
اور پوچھے گی تمہیں
کچھ تو کہہ جاتیں کہ کیا دیںگے جواب
کوئی اچھا سا بہانا ہی بتادیتیں تم
دیکھو پھر باد صبا آئی ہے کچھ کہنے کو
دے کے دستک یونہی واپس نہ چلی جائے کہیں
بند ہے کب سے
نہ جانے در میخانہ
کوئی آتا بھی نہیں
کیا ہوا
کیسی اُداسی ہے یہاں
… لائو بربط ہے کہاں
پھرکوئی نغمہ چھیڑیں
اور نیا گیت لکھیں
پھر اسے گائیں مل کر
تم یہیں ہوگی کہیں
نکہت گل میں
شفق شام کے رنگوں میں نہاں
ڈھونڈ کر لائیں تمہیں
اور پھر آج کی شام
پھر سے پیمانے بھریں آنکھیں کے
اور اک جشن منائیں مل کر
٭٭٭
(پروفیسر شا رب ردولوی)
جشن :شمیم نکہت کے نام
Also read