جنگ آزادی اور علــی بــرادران

0
1165

جرار رضا جائسی

ہر شخص اپنے پیارے وطن سے محبت کرتا ہے اور اس کی آرزو یہ ہوتی ہے کہ اس کا ملک اور وہاں کی عوام کھلی فضا میں سانس لے مگر یہ عجیب بد قسمتی تھی یا قدرت کی منشا کہ وہ اسی کے ذریعہ اپنے نیک بندوں کا امتحان لے رہا تھا اور سماج پر یہ واضح کر رہا تھا کہ دیکھو اپنے ملک سے کیسے محبت کی جاتی ہے اور جو انسان خلوص د ل کے ساتھ وطن کی محبت کو اپنے سینے میں موجزن کرتا ہے اور اسی کے لیے جیتا اور مرتا ہے تو خدا بھی اس کی اس قربانی کو رائیگاں نہیں کرتا وہ بظاہر اس دنیا سے رخصت ہو جائے مگر اہل نظر کے نزدیک ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور عوام الناس ان کو خلوص کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ورنہ آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ آج ہمارے ملک کو آزاد ہوئے ۶۸برس ہو گئے مگر تمام مجاہدین آزادی آج تک زندہ ہیں اور ہر ہندوستانی ان کا احترام سے نام لیتا ہے اور جب بھی ان مجاہدوں اور آزادی کا تذکرہ ہوگا تو آنکھیں نم ہوجائیں گی
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی تذکر ہ آزادی چھڑے گا تو ان دونوں بھائیوںکا تذکرہ لبوںکی زینت اور وطن پہ مرمٹنے کا جذبہ پید اکرنے والا ہوگا جنھوںنے ایسے حالات میں آنکھیںکھولیں جب وطن پوری طرح سے غلامی کی زنجیروںمیں جکڑا ہوا تھا اور لوگ انھیںکے مطابق اپنے عمل کو بجا لانے پر مجبور تھے ۔ ان دونوں بھائیوں نے جس طرح جنگ آزادی میںاہم کر دار ادا کیا ۔ اس کو قلمبندکرنا ایک دشوار امر ہے مگر پھر بھی ان حالات میں ان بھائیوں نے سب سے پہلے تعلیمی کارواںکا جو کردار نبھایااُسے بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ ہاںان کا ایک پیغا م ضرور ہے کہ علم ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعہ ہر صاحب منصب کو اپنے آگے پست کیا جا سکتا ہے اور یہ کارنامہ علی برا دران نے کر کے بھی دکھایا ۔
علی برادران یہ دوبھائی ہیں جنھوں نے جنگ آزادی میں بہترین کردار نبھایا اور جن کے بغیر جنگ آزادی ادھوری ہے ۔ یوں تومحمد علی جوہر کے چار بھائی تھے مگر ان میںصرف اور صرف سب سے بڑے بھائی شوکت علی اور محمد علی نے بہت شہرت پائی جو بعد میں علی برادران کے نام سے مشہور ہوئے ۔ ویسےتو شوکت علی اور محمد علی دونوں نے ہی وطن کو غلامی کی زنجیروں سے چھڑانے میں بہت اہم کردار نبھایا یہی وجہ ہے کہ ایک طویل مدت گزر جانے کے بعد بھی آج تک ہندوستانی عوام انکو علی برادران کے نام سے خراج پیش کرتی ہے ۔
اب اگر ان دونوں بھائیوںمیں موازنہ کیا جائے توجو اہم رول محمد علی نے نبھایا وہ شوکت علی کے یہاںبہت کم نظر آتا ہے یہی وجہ ہےکہ محمد علی جوہرہر دل عزیز اور سر فہرست نظر آتے ہیں بہ نسبت شوکت علی کے ۔ محمد علی جوہر کی پیدائش ۱۰؍دسمبر ۱۸۷۸ء؁ کو ہوئی ۔ محمد علی نے جس وقت آنکھیں کھولیں ا س وقت پورا ملک انگریزوںکی گرفت میں تھا اور عوام اپنی کھوئی ہوئی آزادی کو پانے کی لڑائی میں مشغول تھی۔
ایسے حالات میںآنکھوں کھولنے کے بعد ابھی کھلی ہوئی فضا میںسانس لینے کی امنگ ہی بھر رہے تھے کہ آپ کے والد ماجد عبدالولی خاں نے اس دار فانی کو الوداع کہا اور آپ پونے دو سال کی عمر میں سایہ پدری سے محروم ہو گئے ۔ محمد علی کی ماں بی اماں جو ۲۷یا۲۸ برس کی عمر میں بیوہ ہوگئیں یعنی گھر کے حالات اور بگڑ گئے اب یہاں سے محمد علی خود تحریر کرتے ہیں کہ جس وقت میرے والد ماجد کا انتقال ہوا تو انھوںنے تیس یا پینتس ہزار کا قرضہ چھوڑا یعنی بی اماں کے اوپر دوہری ذمہ داری آگئی ایک تو یہ کہ بچوں کو تعلیم سے آراستہ کریں دوسرے یہ کہ اس قرض کواداکریں اور تیسرا سب سے اہم اور سخت مرحلہ یہ تھا کہ دو وقت کی روٹی کاانتظام کیسے کیا جائے بی اماں نے ان تینوں امور کو بخوبی انجام دیا ۔ پہلےقرض ادا کیا پھر بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے آما دہ کیا ۔ گھر میں معمولی لباس اور کھانے میں چٹنی روٹی سے گزاراکیا کیوں کہ بی اماں کو اپنی کم علمی کااحساس تھا اور وہ چاہتی تھیں کہ ان کے بچے اس مقام پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے پہونچیں جہاں سے ہر طویل القامت کوتاہ نظر آنے لگے ۔ اسی لئے انہوں نے عربی اور فارسی کی تعلیم گھر پر ہی دلائی جب یہاں تعلیم پور ی ہوئی اور تحصیل علم کا شوق بیچین کرنے لگا تو بریلی اسکول میںداخلہ کر ا دیا شہر بریلی میں بہت محنت او رلگن کے ساتھ تعلیم حاصل کی اور کلا س میں اول آنے کا سلسلہ جاری رہا ۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ اب یہاں بھی تعلیم مکمل ہوئی اور بریلی اسکول کو الوداع کہنے کا وقت قریب آگیا مگر تشنگی ابھی باقی رہی لہٰذا ان حالات کو دیکھتے ہوئے اور اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھنے کے لئے بریلی سے علی گڑھ کی سمت کوچ کیا تاکہ کچھ تشنگی دور ہو سکے ۔ علی گڑھ آپ تشریف لائے مگر حالات بہت ابتر تھے لہٰذا او ربچوں کی طرح نہ رہ سکے مگر پھر بھی اپنی محنت پر بھروسہ تھا اور خد اپر یقین ، ماں کی دعائوں کا سایہ او ربھائیوںکی ہمدردی کا احساس ، والد کے خوابوں کوپور اکرنےکی للک اور ملک کوآزاد کرانے کاخواب اپنے سینہ میںلئے ہوئے سر زمین علی گڑھ پر قدم رکھا اور محنت و مشقت کر کے بی ، اے کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی ۔ اس وقت علی گڑھ محمڈن اور نٹیل کالج الہٰ آباد یونیورسٹی سےملحق تھا ۔ لہٰذاآپ پوری یونیورسٹی میں اول مقام حاصل کرنےمیںکامیاب ہوئے ا سکی خبر برادرجوہر یعنی شوکت علی کو ہوئی تو پھولے نہیں سمائے ا ور اپنے بھائی کو ہدایت فرمانےلگے کہ اس کارواں کو نہ روکو او ر تم آگے بڑھتےرہو ۔ راہ میں چاہے جتنے مصیبت کے پہاڑ آئیںان کو مثل خاک کے ذروںکےہوا میں بکھیرتے چلے جائوزمانہ خود بخود تمہاے پیچھے آتا دیکھائی دیگا اس لئے شوکت علی نے بہت محنت کی اور اپنے عزیز بھائی محمد علی جوہر کے تعلیمی کار واں کو بڑھانےکےلئے خود محنت و مز دوری کرنےلگے تا کہ بھائی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب خد انے شوکت علی کی دعا قبول کی اور محمد علی کی محنت کورائگاں ہونےسے بچایا یعنی ۱۸۹۸ء؁ میں شوکت علی نے بے انتہا کاوش کر کے محمد علی کو ولایت پڑھنے بھیجا اس وقت ا ن کی عمر صرف اور صر ف ساڑھے انیس سال تھی ۔ شوکت علی نے اپنے قوت بازو کو انگلینڈآئی ، سی ، ایس کاامتحان دینےکےلئے بھیجا تاکہ اعلیٰ ملا زمت مل جائے جس کےسبب حالات پر کچھ قابو پایا جاسکے ۔ یوں تو محمد علی بہت ذہین اور بہترین صلاحیت کے مالک تھے اور مقدر ہر موڑپر ان کے ساتھ تھا مگر نہ جانے کیوں اس صف میںبہترین صلاحیت اور ذہانت کے باوجود ناکامی ہی ہاتھ لگی ۔
جس کے سبب بڑے بھائی شوکت علی کو بہت صدمہ پہونچا مگر بی اماں نے حوصلہ کو بلند رکھا اور شوکت علی کو تسلی دی کہ گھبرائو مت خدا مہربان ہے وہ رحم کرنے والا ہے ایک نہ ایک دن کامیاب کرےگا فی الحال تم محمد علی کو انگلینڈ سے بلوائواور اس کی شادی کردو چنانچہ بھائی کےاصرار اور ماںکےکہنے پہ محمد علی واپس وطن تشریف لائے او ر اپنے چچا زاد بھائی عظمت خاں کی بیٹی سے ان کا نکاح ہوا ۔
یوںتو جوہر نے ایک طویل مدت تحصیل علم میں گزار دی مگر شاید ابھی وہ تشنگی پوری نہ ہو پائی تھی جو جوہر کےاندر امنڈرہی تھی لہٰذااس کارواں کو آگے بڑھانےکےلئے ایک بار پھر ۱۹۰۲ء ؁ میںانگلینڈ کا دورہ کیا تحصیل علم کی خاطر اور آکسفورڈ یونیو سٹی میںداخلہ لیا اور محنت ومشقت کرکے بی ، اے آنرز کی سند امتیازی نمبروں کے ساتھ حاصل کی ۔ ساتھ ہی ساتھ انگیزی ادب و زبان دونوں پر عبور حاصل کیا جس کے سبب خود اہل زبان یعنی انگریزحضرات ان کے معتقد ہوگئے اور ان کو انگیزی کا بہترین اسکالر ماننےلگے۔
اب محمد علی کی آکسفورڈ کی تعلیم بھی مکمل ہو چکی تھی اور وطن کی واپسی پہ آمادہ تھے جب نواب رام پور کو پتہ چلا کہ محمد علی جوہر رام پور آچکے ہیں اور کہیںملازمت بھی نہیں کر رہے ہیں اور بہترین صلاحیت کے مالک بھی ہیں تو نواب رام پور یعنی حامدعلی خاںنے ان کی لیاقت کو دیکھتے ہوئے ریاست کا اعلیٰ تعلیمات کا افسر مقرر کیا اور اس کےساتھ ایک عہدہ اور بڑھایا کہ آپ کو رام پور ہائی اسکول کاپرنسپل بھی بنایا کچھ عرصہ تک تو محمد علی نے اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا مگر پھر طبیعت الجھنےلگی او ر اس نوکر ی اور اپنے وطن کو الوداع کہہ کے ریاست بڑودہ میں شعبہ’’ افیون ‘‘ میںافسر کی حیثیت سے تقرر ہوا مگر زیادہ عر صہ تک اس عہدہ پر کام نہ کرسکے اور آخر میںاس کو بھی چھوڑ دیا ۔ چونکہ محمد علی کا ذہن شروع ہی سے صحافت کی طرف مائل تھا اور انھوں نے اپنے بچپنے میں جبکہ وہ علی گڑھ میں طالب علم تھے اس وقت بھی ایک مضمون لکھا تھا جس کی دھوم پور ے علی گڑھ میںتھی اور وہاں کےموجودہ پرنسپل ماریسن نے محمد علی جوہر کی پیٹھ تھپتھپائی تھی اور ان کی تعریف کی تھی وہی شوق دوران ملازمت بھی رہا ۔ جس کے سبب تمام عہدوںکو چھوڑتے چلے گئے ۔ وہ ملازمت کے دور میںبھی اکثرٹائمزآف انڈیا (ممبئی ) اور دیگر اخبارات کےلئے مضمون لکھا کرتے تھے آخر یہ جنون کی حد تک مقالہ نویسی پہونچ گئی اور انھوںنے اپنے بچپن کےدوست میر محفوظ علی کے تعاون سےانگریزی زبان میں ایک ہفتہ وار اخبار کا منصوبہ تیارکیا اور ۱۴ جنوری ۱۹۱۱ء؁ کو اس منصوبہ کو عملی جامہ کلکتہ میںپہنادیا گیا او رایک ہفت روز ہ کامریڈ کا اجراء ہوا اس میںمحمد علی ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے اور پورے ہندوستان میں ا سکی دھوم مچی اور تمام ہندواور مسلمان دونوںنے مل کر اس کی خو ب تعریف کی اور اس کے مقاصد کو قبول کیا ۔
چونکہ محمدعلی کامنصوبہ اس اخبا ر کے ذریعہ ا پنی آواز کو بلند کرنا تھا ا و ر عوام کے اندر ایک جزبہ کو پید اکر ناتھا اور اسکے ذریعہ اپنے ملک کو انگریزوںسے چھٹکارہ دلاناتھا لہٰذا انگریزی حکومت کے خلاف کامریڈ خوب مضامیں چھاپتا رہااور ہندوستانی عوام کےساتھ ساتھ انگریز بھی اس اخبار کو پڑھتے رہے مگرایک مرتبہ کچھ زیادہ ہی حقیقت اس میںشائع ہوئی اور انگریزی حکومت اس کوبرداشت نہ کرسکی اورا س پر اسلئے پا بندی لگا دی گئی اور پریس پہ حکومت کا قبضہ ہوگیا ۔ کامریڈ کی ابتدا کلکتہ سے ہوئی تھی مگر جب دارالحکومت کو بدلا گیا اور کلکتہ سے دہلی منتقل کیا گیا تو ۱۲ ؍اکتوبر۱۹۱۲ء؁ کو کامریڈایک مرتبہ پھر دہلی سے شائع ہونے لگا ۔ ابھی دو سال بھی مکمل نہ ہونے پائے تھے کہ انگریزی حکومت نے ۲۶ ستمبر ۱۹۱۴ ء؁ کو اس اخبار پر روک لگا دی مگر محمد علی نے ہمت نہ ہاری او ر ملک کو آزاد کرانے میںکوشاں رہے اور اپنی آواز کو ملک کے گوشہ گوشہ تک پہو نچانے کے لئے طرح طرح کی پریشانیوںسے لڑتے رہے آخر دس برس کی طویل کوشش کے بعد کامیرڈ ۳۰ ؍اکتوبر ۱۹۲۴ء؁ کو دہلی سے شائع ہونے لگا حالانکہ محمد علی کو اس بار کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا کیوںکہ اب حالات کر وٹ لے چکے تھے اور پابندیوںکے بعد حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے جس کے نتیجہ میں محمد علی کی حالت خراب رہنےلگی آخر دو برس سے بھی کم یہ اخبار مسافت طےکر پایا او ر ۲۲جنوری ۱۹۲۶ء؁ کو اس کی اشاعت کو پھر سے بند کر دیا گیا جسکے بعد آج تک شائع نہ ہو سکا او رپھرا سی دہلی سے ۲۲فروری ۱۹۱۳ء؁ کو ’’ ہمدرد‘‘ روزنامہ جو صرف ایک ورقی تھا شائع ہونےلگا جس نے کچھ عر صہ ہی میںاپنا رنگ دیکھایا اور یکم جون ۱۹۱۳ ء؁ کو اس کے صفحات میں اضافہ کر دیا گیا جو ایک سے بڑ ھ کے چار تک پہونچ گئے اوربعد میں ہمدرد آٹھ صفحات تک پہونچا ۔ جس کے مدیر عبد الحلیم شرر بھی رہے یہ اخبار بھی کامریڈکی طرح آزادی کے متوالوں کے جوش کو بڑھاتا رہا اور اپنا پیغام سناتا رہا مگر جب محمد علی وطن کی محبت اور آزادی کے سپاہی کے جرم میں گرفتار ہوئے تو اس اخبار کو ۱۹۱۵ء؁ میں بند کر دیا گیا مگر ایک طویل جد و جہد کے بعد ۸ نومبر ۱۹۲۴ ء؁ کو ایک برپھر ہمدرد منظر عام پہ آگیا چونکہ اس کو شائع کرنے میں بہت دشواریوں کا سامنا کر نا پڑ رہا تھا اور حالات نامساعد تھے لہٰذا اس کا آخر ی پر چہ ۱۲؍اپریل ۱۹۲۹ ء؁ کو منظر عام پر آیا او رہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ۔
جب ایسے حالات پید اہوگئے تومحمد علی مایوس او راداس رہنےلگے مگر آزادی کا جوش رہ رہ کے دل میںکروٹیںلےرہا تھا اور اس بات پہ مجبور کر رہاتھا کہ کس طرح سے ان انگریزوںکو ملک سے نکالاجائے آخر محمد علی کی اس آواز کوبھی خدانے سنا اور ایک سچا محب وطن ہونےکی خاطر راستہ ہموار کیا ۔اس زمانے میں لندن میں گول میز کانفرس کا انعقاد پہلی مرتبہ ۱۹۳۰ء؁ میں ہوا اور جوہر کو اس کا دعوت نامہ موصول ہوا جب یہ سنا کہ اس کانفرنس میں انکو مدعو کیا گیا ہے تو مسکرائے مگر حالات سے جنگ لڑ رہےتھے اس لئے خاموش بیٹھ گئے پس کچھ ہی لمحہ کے بعد اس کانفرنس میںشرکت کے لئے تیارہو گئے جب کہ محمد علی کی طبیعت کافی ناساز تھی ۔ بلڈ پریشر میںکافی اضافہ ہوچکا تھا قلب کی بیماری سے دو چار تھے ذیابطیس بڑھ چکی تھی جسکی وجہ سے جسم پر ورم رہنے لگا تھا مگریہاںپر بات وطن کی آگئی تو اپنی بیماری کو بالائے طاق رکھا بچپنےکے خواب کو پورا کرنےکی سمت روانہ ہوئے ۔ اب نہ بیما ری کا خیال رہا نہ گھر کا بس ایک جنون تھا آزادی کا لہٰذا اپنی اہلیہ سےکہا کہ آپ بھی میرےہمراہ تشریف لے چلئے ۔ آخر دونوںحضرات وطن کو غلامی کی زنجیروں سے چھڑانے کے لئے روانہ ہوئے جب گول میز کانفرنس منعقد ہوئی تو محمد علی نے اپنی بات کو رکھا کہ میںیہاں سے تب ہی جائوںگا جب تم آزادی کا پروانہ میرے ہاتھوںمیںدوگے اور اگر تم ایسا نہیں کرتےہو تو تم کو ایک قبر کی زمین ضرور دینا پڑے گی محمد علی نے اپنی پوری زندگی وطن کی خدمت اور حق گوئی میں بسر کی آخر یہ آزادی کا متوالہ ۴ جنوری ۱۹۳۱ء؁ کو لندن میں صبح ۹ بجے آخری سانس لیتا ہے او ر ہمیشہ کےلئے خاموش ہوکے رہ جاتاہے محمد علی کے جسد خاکی کو بیت المقدس لایا گیا ا ور جمعہ کی نماز کے بعد وہیں سپرد خاک کردیا گیا ۔ محمد علی نے جو پیغام دنیا کودیا وہ کبھی فرامو ش نہیںکیا جاسکتا ۔ ابتدا تا انتہا اپنے وطن سے خلوص کےساتھ محبت اور اہل وطن سے ہمدردی ، ملک کو غلامی سے آزاد کرانے کی للک اورباطل کے سامنے کبھی نہ جھکنے کاسبق یہ تمام چیزیں اس ذات کے اندر موجود تھیںمگر ان تمام باتوں کے پیچھے شوکت کی تحریک کام کررہی تھی ۔ وہ اپنے بھائی کو ماںکی ہدیت کےموافق اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتےتھے اور مجاہدین آزادی میں اپنا نام درج کرنا چاہتے تھے یعنی محمد علی کی سیرت میں شوکت علی کام کر رہاتھا شاید اسی سبب سے دینا نے ان کو یکجا رکھا اور علی برادرن کے نام سے موسوم کیا۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here