9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
اسرائیل جس کی کوئی زمین یا بنیاد نہیں تھی اسے ایک عالمی سازش کے تحت فلسطین میں بسایاگیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ آہستہ آہستہ اسرائیل نے فلسطین میں اپنے قدم اس طرح جمائے کہ ابا اسے فلطین کا وجود بھی اکھر نے لگا ہے اور آئے دن مسجد اقصی اور فلسطینیوںپر اس کے مظآلم کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔امریکہ اور اس کے حواریوں میں دنیا بھر میں کہیں بھی ہونے والا ظلم اور زیادتی نظر آتی ہے اور وہ عالمی ٹھیکیدار بن کر وہاں پہونچ جاتا ہے اور تباہیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ،خواہ وہ افغانستان کا مسئلہ ہو ،عراق کا مسئلہ ہو۔لیبیا کا مسئلہ ہو یا شام کا مسئلہ ہو۔لیکن اگر انھیں نظر نہیں آتا تو فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم نظر نہیں آتے۔ماہ مئی 2021 میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین جو لڑآئی ہوئی اور د س روزکی تباہی کے بعد جنگ بندی کا فیصلہ ہوا۔لیکن تقریبا سبھی نے یہ لکھااور کہا تھا کہ جنگ بندی مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔خطہ میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کا کوئی حتمی حل نہیں نکالا جاتا۔اور دنیا نے پھر دیکھا کہ جنگ بندی کے بعد اسرائیل نے دو مرتبہ حملہ کیا ۔
سوال اٹھتا ہے کہ اسرائیل کے حوصلے اس قدر بلند کیوں ہیں اور کیوں وہ کسی کی نہیں سنتا۔اور اپنی من مانی کرتا رہتا ہے۔بھلے ہی سرائیل میں حکومت بدل گئی ہے لیکن حکومتیں بدلنے سے فلسطین کے تعلق سے اس کی پالیسی نہیں بدلی اس کا ثبوت اسرائیل کا حالیہ حملہ ہے۔اور اب اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز نے ایک مرتبہ ایران کے خلاف اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئےاعلان کیا ہے کہ اسرائیل خود کو نقصان سے بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔(یہ اعلان کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ ہر ملک کو یہ اختیا رحاصل ہے کہ وہ اپنی ملک کی حفاظت کے انتظامات کرے۔آخر اس کا اعلان کرنے کی ضرورت کیا ہے)ایک طرف ویانا میں ایران اور امریکہ مابین جوہری ہتھیاروں اور پابندیوں کے سلسلہ میں گفت شنید کے ادوار جاری ہیں لیکن دوسری طرف ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی اور ایک دوسرے کو برباد کرنے کی دھمکی کے درمیان اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گینٹز نے کہا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے اسرائیل جب اور جہاں ضروری ہوا، وہاں کارروائی کرے گا۔آخر اسرائیل کو اس طرح کے بیانات دینے کا کیا حق ہے ۔کیا وہ خود کو امریکہ کی طرح عالمی ٹھیکیدار سمجھنے لگا ہے ۔
خبر رساں ادارے ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق یہ بیان ایک ایسے موقع پر منظر عام پر آیا ہے جب گزشتہ ماہ ایرانی جوہری تنصیب پر حملے کے ممکنہ ردعمل کے طور پر ایران نے چند دن قبل اسرائیلی کارگو جہاز کو روک لیا تھا۔بینی گینٹز نے چینل 13 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایران کے ساتھ ہمارا تنازع چل رہا ہے، ہمیں خود اپنا دفاع کرنا ہے، ہم ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھنے کے لیے پرعزم ہیں اور خطے میں ایران کا منفی اور جارحانہ رویہ بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق اس سے قبل اتوار کو اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ایران کے حوالے سے دفاعی اور سفارتی عہدیداروں کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شرکت کی، جس میں خصوصی طور پر ایران کے جوہری منصوبے، امریکہ اور ایران کے حوالے سے چل رہی بات چیت پر گفتگو کی گئی۔
2018میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین ہونے والے جوہری معاہدے کو ختم کرتے ہوئے ایران پر سخت پابندیاں عائد کردی تھیں۔ امریکہ اور ایران کے درمیان جاری مذاکرات میں دونوں ہی فریقین کا دعویٰ ہے کہ اس حوالے سے خاصی پیشرفت ہوئی ہے، لیکن تاحال کوئی معاہدہ طے نہیں پا سکا۔ اس اجلاس کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع نے ایک مرتبہ ایران کے خلاف اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل خود کو نقصان سے بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہے۔وزیر دفاع بینی گینٹز نے کہا کہ ہم ایران کو فضا، زمین، سائبر سطح اور سمندر سمیت کہیں سے اسرائیل کو نقصان پہنچانے نہیں دیں گے اور کارروائی کریں گے، ہم ایسا اس وقت اور مقام سے کریں گے جو ہمیں مناسب معلوم ہو گا اور خطے کے استحکام اور سیکورٹی کے لیے اپنی فوجی برتری کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔ یاد رہے کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ‘موسادکے سبکدوش ہونے والے سربراہ یوسی کوہن نے عندیا دیا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام اور فوجی سائنسدان کو نشانہ بنانے والے حالیہ حملوں کے پیچھے اسرائیل تھا۔اسرائیل کودوسروں کی شہ پر اس طرح کی کھلی دھمکی دینا دور رس نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔اس طرح کی دھمکیاں یہ بھی ثابت کرتی ہیں کہ دنیا ایک مرتبہ پھر عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے اور کچھ طاقت کے نشے میں چور سرپھرے یہ نہیں سمجھ رہے ہیں کہ اب کوئی بھی ملک اتنا کمزور نہیں ہے جتنا کہ دوسری جنگ عظیم کے وقت تھا۔اگر تیسری عالمی جنگ ہوئی تو نقصان سب کا ہو گا اور سب سے بڑا نقصان انسانیت کا ہوگا ۔