علامتی قربانی قیادت اور مسلمان- Symbolic sacrifice of leadership and Muslims

0
122

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

شکیل رشید
کیا ہے یہ علامتی قربانی؟
اس سوال پر گذشتہ سال بھی عیدالاضحی کے موقع پر بڑا غور کیا تھا لیکن اس کا جواب مِل نہیں سکا تھا۔ شاید علامتی قربانی کا مطلب یہ ہے کہ قربانی کروانے والا مسلمان کسی بکرے کی تصویر سامنے رکھے اور اس تصویر والے بکرے کی گردن پر چھری پھیردے! یا پھر اس کا ایک مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ہاتھ میں چھری لے کر بکرے کا تصور کرے اور اُسے قربان کردے ! یا پھر شاید یہ کہ لوگوں سے کہتا پھرے کہ ’ میں نےمن ہی من میں قربانی کردی ہے ‘۔۔۔!!اب اس سال عیدالاضحی سے قبل علامتی قربانی کا معاملہ اس لیے پھر سے گرم ہے کہ مہاراشٹر کی ’ مہاوکاس اگھاڑی‘ کی سرکار نے ، جسے ادھو ٹھاکرے کی سرکار بھی کہا جاتا ہے ،عیدالاضحی سے متعلق گائیڈ لائن جاری کردی ہے ۔ گائیڈلائن سے مراد ، وہ ہدائتیں ہیں جن پر ، کورونا وباء کے اس دور میں عملدرآمد لازمی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ سمجھ لیں کہ شیوسینا کانگریس اور این سی پی کی ملی جلی سرکار نے مسلمانوں کے لیے یہ ہدایت جاری کی ہے کہ وہ بقرعید کا تہوار تو منائیں ،لیکن اُس طرح جس طرح سے سرکار انہیں ، اسے منانے کی اجازت دے ۔۔۔ اپنی مرضی قطعیٔ طور پر نہ چلائیں ۔ گائیڈلائن کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:’’ کورونا کے سبب ساری ریاست میں ، تمام ہی مذہبی تہواروں پر پابندی عائد کی گئی ہے ، اس لیے مسلمان بقرعید کی نماز کی ادائیگی مساجد اور عیدگاہوں کی بجائے اپنے اپنے گھروں میں کریں ، اور چونکہ جانوروں کے بازار بند رہیں گے ، اس لیے اگر لوگوں کو جانوروں کی خریداری کرنی ہے تو وہ آن لائن یابذریعہ فون خریداری کریں ، اور اگر لوگوں کے لیے ممکن ہوتو وہ علامتی قربانی کریں۔‘‘
مذکورہ ’’گائیڈلائن‘‘ پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے ، سوائے اس کے کہ ادھو سرکار نے اس میں یہ وضاحت نہیں کی ہے کہ آن لائن یابذریعہ فون جانوروں یعنی بکروں اور پاڑوں کی خریداری کس طرح سے کی جاسکتی ہے ؟ قربانی کے لیے یہ ضروری ہے کہ جانور بیمار نہ ہوں اورعیوب سے پاک ہوں ، یعنی نہ لولے ہوں نہ لنگڑے اور نہ ہی کسی اور طرح کے جسمانی عیب ان میں پائے جاتے ہوں ۔۔۔ ظاہر ہیکہ آن لائن یا بذریعہ فون خریداری کرنے پر خریدار کو ، جسے کہ قربانی کرانی ہے ، جانور یا جانوروں کے عیوب کا نہ پتہ چل سکتا ہے اور نہ ہی اندازہ ہوسکتا ہے ۔ اور اگر ویڈیوپر جانور دکھا بھی دیئے گئے تو یہ ضروری نہیں کہ جانور کے عیوب سامنے آسکیں۔ اور یہ بھی تو ممکن ہے کہ بیوپاری خریدار کے ساتھ دھوکہ دھڑی کردے ۔ دکھائے ایک جانور اور بھیج دے دوسرا جانور ۔۔۔پھر یہ بھی پتہ نہیں کہ بیوپاری اپنے جانور کیسے بھیجے گا ؟ بازار بند ہیں ، چیک ناکوں سے جانوروں سے لدے ٹرکوں کو شہر کے اندر آنے کی اجازت نہیں ہے ۔ سرکاری اہلکاران ایک جانب بیوپاریوں کو حیران پریشان کرتے اور ان سے رشوت لے کر جیبیں بھرتے نظر آتے ہیں ، اور دوسری جانب گئورکھشایا جانور رکھشا کے نام پر سرگرم تنظیمیں انہیں پریشان کرتی پھرتی ہیں ۔ ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ بکرو ںسے بھرے ٹرک درمیان میں روک کر سارے جانور ٹرک سے اُتارکرجنگل کی طرف کھدیڑ دیئے گئے ہیں ۔ اور ایسا بھی ہوا ہے کہ جا نور لدے لدے ٹرکوں میں مرگئے ہیں ۔ سال ِگذشتہ بیوپاریوں پر جو گزری ہے اس سے سب ہی واقف ہیں ۔ لاکھوں روپئے ان کے ڈوب گیے تھے ۔۔۔ اور سالِ رواں میں بھی صورت حال ویسی ہی ہے ۔۔ ۔ رہی بات گھرو ںمیں نماز عیدالاضحی کی ادائیگی کی ، تو ٹھیک ہے سالِ گذشتہ مسلمانوں نے ایسا کیا تھا ، امسال بھی کرلیں گے ۔ مسلمان یہ بالکل نہیں چاہتا کہ اس پر کورونا پھیلانے کا کوئی الزام لگایا جائے ۔۔۔ اور یہ ایک سچ ہے کہ کورونا مسلمانوں نے نہیں پھیلایا ، اسے پھیلانے والے اقتدار کی مسندوں پر متمکن ہیں ۔ ہمارے وزیراعظم نے کورونا کو ہندوستان میں اپنے پیر جمانے کی اس وقت تک بالکل آزادی دے رکھی تھی جب تک انہوں نے احمدآباد میں امریکہ کے اس وقت کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا استقبال نہیں کرلیا تھا۔ اور جب تک مدھیہ پردیش میں انہوں نے کمل ناتھ کی حکومت کا تختہ نہیں پلٹ دیا تھا۔۔۔ اور لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ ہندوؤں کے سارے مذہبی تہوار ، جیسے ہوا کرتے تھے اسی طرح سے ہوئے ۔ اور ابھی جو کنبھ کا میلہ لگا تھا اس نےاو رمغربی بنگال وغیرہ کی الیکشن ریلیوں نے ، جس میں امیت شاہ بغیر ماسک لگائےگھوم رہے تھے ، تو کورونا کی وباء کو کچھ اس طرح سے پر لگادیئے کہ شمشان اور قبرستان لاشوں سے پٹ گیے اور ندیوں میں سیکڑوں لاشیں تیرتی نظر آنے لگیں۔ اور وہ لاشیں جو ندیوں کے تٹ پر دبائی گئی تھیں اب پھر سے اُبل پڑی ہیں ۔ یہ سب مسلمانوں نے نہیں کیا ، حالانکہ بیچارے ’ کورونا جہاد‘ کے نام پر مارے پیٹے گئے ، ماب لنچنگ کے شکار ہوئے اور معاشی پابندی کا عذاب بھی سہا ۔ تو مسلمان کسی بھی طو رپر یہ نہیں چاہتا کہ دوسروں کے گناہ کا بوجھ اپنے سر پر ڈھوے ،وہ گھر میں بقرعید کی نماز پڑھ لے گا ، لیکن یہ علامتی قربانی کی جو شق لگادی گئی ہے ، یہ سمجھ سے باہر ہے ۔ کیا ادھو ٹھاکرے سرکار اس بار گنپتی کاتہوار بھی علامتی ہی منوائے گی؟ کم از کم اس سے یہ پتہ تو چل جائے گا کہ ’ علامتی تہوار‘ کیسے منایا جاتا ہے ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ مسلمان ’علامت‘ سے دور بھاگتا ہے کیونکہ ’ علامت‘ میں ’ غیر‘ کا ایک تصور پایا جاتا ہے ۔ اور عیدالاضحی کا تہوار ، تمام ہی مسلم تہواروں کی طرح ’غیر‘ کے تصور سے پاک ہے ، لہٰذا اگر علامتی قربانی کا مطلب کسی ’غیر‘ پر کسی طرح کا چڑھاوا ہے ،تو مسلمانوں کو تو معاف ہی کردیں ، کہ نہ تو یہ قربانی ہی جائز ہوگی او رنہ ہی کوئی مسلمان ایسی قربانی کرنا چاہے گا ۔ ممکن ہے کہ شیوسینک ، کانگریسی اور این سی پی کے مسلمان ’ علامتی قربانی‘ کرلیں کہ ان کے لیے یہ زمینی آقا، اوپر والے کے مقابلے زیادہ اہم ہیں ، اور یہ ان کی کوئی بھی بات ، حکم یا ہدایت ٹھکرانا گوارہ نہیں کرتے ۔۔۔ تو یہ سرکاری مسلمان ہیں ، یہ جو چاہیں کرلیں ، کہ ان سے کوئی امید ہے بھی نہیں ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ سال گذشتہ بھی علامتی قربانی کی بات کہی گئی تھی مگر وہ مسلمان جو مہاوکاس اگھاڑی کی سرکار میں شامل ہیں ، جو وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے سے قربت رکھتے ہیں ، جو کانگریس میں شامل ہیں اور جو این سی پی اور اس کے سربراہ شردپوار کی ناک کے بال بنے ہوئے ہیں ، انہیں یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وزیراعلیٰ ادھوٹھاکرے کو ، نائب وزیراعلیٰ اجیت دادا پوار کو اور کانگریس کے اعلیٰ لیڈران اشوک چوان اور بالا صاحب تھورات کو ، یہ سمجھا سکتے کہ عیدالاضحی کے تہوار پر علامتی قربانی ممکن نہیں ہے کیونکہ اسلام میں علامتی قربانی جیسی کسی چیز کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ لہٰذا سال گذشتہ کہی گئی بات یوں ہی پڑی رہی اور اب پھر سے اسی بات کو سامنے لایا جارہا ہے ۔۔۔ ادھو کابینہ کے وزراء نواب ملک ، حسن مشرف، اسلم شیخ اور شیوسینا کے مسلم وزیر مملکت عبدالستار نے علامتی قربانی کے تصور کو ، نہ ادھو ٹھاکرے کے ذہن سے زائل کرنے کی کوئی کوشش کی اور نہ ہی مہاوکاس اگھاڑی سرکار کے دوسرے لیڈران کے ذہنوں سے ۔۔۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ سارے مسلم وزراء اور سارے مسلم ممبرانِ اسمبلی سرکار میں محض ایک علامت ہیں، اور انہیں علامتی مسلمان کہا جائے ؟ ابھی ابھی برطانیہ میں ، ایک پاکستانی نژاد مسلمان ساجد جاوید کو ہیلتھ سکریٹری (وزیرصحت) بنایا گیا ہے ، وہ خود کو ’ بے عمل مسلمان‘ کہتے ہیں ۔ برطانیہ میں ایک کرکٹ کھلاڑی ہوا کرتے تھے ناصر حسین ، وہ انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی بنے تھے ، وہ بھی خود کو ’بے عمل مسلمان ‘ کہا کرتے تھے ۔ ’ بے عمل مسلمان‘ یعنی ایسا مسلمان جسے شرعی اصولوں کی قطعیٔ پروا نہ ہو ، نہ وہ اسلامی عبادات سے کوئی تعلق رکھے او رنہ مذہبی روایات سے ، بس نام کا مسلمان ہو ، گویا کہ ایک ’ علامتی مسلمان‘ ۔۔۔۔ تو کیا یہ سارے مسلمان سیاست دان ، جو خود کو مسلمان کا مسیحا ، ہمدرد اور قائد قرار دینے کے لیے رات دِن ایک کیے رہتے ہیں بس’علامتی مسلمان‘ ہیںیعنی یہ بس ’علامتی قیادت ‘ہے ؟؟ شاید اس سوال کا افسوس ناک جواب ’ ہاں‘ ہی ہے ۔۔۔ افسوس اس لیے بھی کہ نہ جانے کتنے وفود جاکر وزیراعلیٰ اور وزراء سے ملے ہیں کہ عیدالاضحی پر قربانی کے مسئلے کو حل کردیں لیکن یہ مسلم لیڈران اپنی آنکھیں بند کیے بیٹھے رہے ، انہو ںنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رکھی اور زبان پر تالے لگارکھےتھے ، کہ ان کی طرف سے نہ کوئی امید دلائی گئی اور نہ ہی یہ مدد کے لیے آگے بڑھے ۔ اور رہی بات وفود کی شکل میں جانے والوں کی ، تو وہ بھی انگلی کٹواکر اپنا نام شہیدوں میں لکھوارہے تھے، وہ ’ملت‘ اور ’قوم‘ کے لیے نہیں بھاگ رہے تھے ، ان کے پیچھے گوشت کے بڑے بڑے بیوپاریوں کا ہاتھ تھا۔۔۔ یہ بھی علامت بنے ہوئے ہیں ۔ بلکہ شاید پورا مسلم سماج آج علامتی بن گیا ہے ۔ علامتی مسلمان !
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here