9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
ڈاکٹر سلیم خان
یوروپ میں یہودیوں کا تاجرانہ مزاج مشہور ہے اس لیے ان سےاحتیاط کے ساتھ معاملہ کیا جاتا ہے لیکن ہندوستان میں نیتن یاہو کا پالہ ایک ایسے وزیر اعظم سے پڑ گیا جو دن رات ’آپدا میں اوسر‘یعنی مشکلات میں مواقع کا منتر جپتا رہتا ہے۔ مودی جی کو اسرائیل کی مشکل میں مسلم ممالک کا دل جیتنے کا موقع نظر آیا اور انہوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ اس کی بنیادی وجہ ہندو عرب تجارتی تعلقات ہیں ۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2017-2016 مںا عربوں کے ساتھ ہندوستان کی تجارت کا تخمینہ 121 ارب ڈالر تھا جو جملہ بن الاقوامی تجارت کا تقریباً .2518 فصدل بنتا ہے۔ اس کے برعکس ہندوستان کی اسرائلہ کے ساتھ تجارت 5 ارب ڈالر کی تھی جو مجموعی تجارت کا ایک فصدم بھی نہں6 ہے۔ مودی جی اس خلیج کو محض بھگتوں کی خوشنودی کے لیے نظر انداز کرنے غلطی کیسے کرسکتے ہیں ؟ اس کے علاوہ عرب ممالک میں بر سرِ روزگار افراد کے ذریعہ حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ کی ان دیکھی بھی خودکشی کے مترادف ہے۔ ان ٹھوس حقائق کو نظر انداز کرنے کی غلطی اور بیجا توقعات نے نیتن یاہوکو مایوسی سے دوچارکیا۔
اس تنازع کے دوران حکومت ہند کے وزارتِ خارجہ نے اول تو کوئی سرکاری بابن جاری کرنے کی ضرورت نہںو محسوس کی تاہم اقوامِ متحدہ مںن ملک کے مستقل مندوب ٹی ایس تریمورتی نے 12؍ مئی کو سلامتی کونسل کے اجلاس مںا کہا کہ ‘ہندوستان تشدد، بالخصوص غزہ سے ہونے والے راکٹ حملوں کی مذمت کرتا ہے۔ بیان کا یہ حصہ اسرائیل کے حق میں ضرور تھا مگر ساتھ ہی تشدد کے خاتمے اور تناؤ مںا کمی کی فوری ضرورت پر زور دے دیا گیا۔ یہ بات اسرائیل کے خلاف چلی گئی کیونکہ وہ جنگ کو طول دینا چاہتا ہے۔ دو قومی نظریہ کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل در آمد بھی اسرائیل کے لیے ناقابلِ قبول ہے اس لیے اسرائیل کا ناراض ہونا فطری بات ہے۔ ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دسمبر 2017 مںی جب ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائلا کا دارالحکومت تسلمو کرتے ہوئے سفارتخانہ منتقل کا7 تو اس وقت بھی ہندوستان نے اسرائیل کی مخالفت کی تھی ۔
ہندوستان میں مسلم مخالف دائںک بازو کے افراد بغض معاویہ میں اسرائیل کی پذیرائی کرتے رہتے ہیں ۔ ہندوستان کے اندر #IStandWithIsrael کے ہش ٹگز پر بی جے پی کے کئی بڑے رہنماؤں مثلاً بہار کے ریاستی صدر ڈاکٹر سنجے جسوdال اپنی حمایت درج کروا چکے ہںS۔اس کے برعکس کانگریس کے دلت ونگ نے لکھا کہ ‘انڈیا مںے اندھ بھکت روزانہ اسرائیل کی حمایت میں سنکڑ وں ٹویٹس کر رہے ہںر مگر اسرائیان وزیرِ اعظم نے اُن کی حمایت کی جانب توجہ ہی نہںت دی۔ اس سے ‘بگاانی شادی میںعبداللہ دیوانہ جی ہ صورتحال پیدا ہوگئی۔ یہ اشاریہ نتن یاہو کے اس ٹویٹ کی جانب تھا جس میں انہوں نے البانہئ ، آسٹریا، کولمباہ، قبرص، جارجای، ہنگری، سلوویارا اور یوکرین کے علاوہ آسٹریلیا ، برازیل، کینیڈا، جرمنی اور اٹلی جیسے 25 ممالک کا پرچم لگاکر لکھا:’آپ سب کا شکریہ کہ آپ نے ہمارے حقِ دفاع کی حمایت کی اور اسرائلہ کے ساتھ قدم ملا کر کھڑے ہوئے‘۔ اس فہرست میں ہندوستان کو غائب دیکھ کر زعفرانی بھکت جس بے حیائی کے ساتھ بن مانگے اپنی حمایت کے ٹویٹ کرنے لگے تو اسے دیکھ کر غالب کا یہ شعر یاد آگی
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
ماضی میں صہیونیت کے سب سے بڑے حامی امریکہ کے اوینجلک عیسائی ہوا کرتے تھے لیکن اب ان کی جگہ ہندوستان کے ہندوتواودیوں نے لے لی ہے۔ ان درندوں کو اسرائیل کی بربریت نے باغ باغ کردیا ۔ اس لیے وہ ٹوئٹر پر وہ #IndiaStandWithIsrael کے تحت اپنی خوشی کا اظہار کرنے لگے لیکن درمیان میں نتن یاہو نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ اس سے یہ احمق اسرائیل سے ناراض ہونے کے بجائے اپنی ہی حکومت پر چڑھ گئے۔ پرکاش گرگ نے یاہو کے ٹویٹ کو ٹیگ کرکے سوال کیا کہ ’’ہندوستان کہاں ہے؟ ‘‘ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے مشترکہ ہم نام امیت مودی نے یہ لکھ کر دونوں کی توہین کردی کہ ’’سر پلیز ہندوستان کے پرچم کو بھی شامل کریں کیونکہ انڈیا اسرائیل کی حمایت کرتا ہے‘‘۔ اس معلومات کے اضافے پر نتن یاہو کو ہنسی آئی یا غصہ اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے؟ ایک صاحب جو اپنا نام بھگوادھاری راشٹر وادی (زعفرانی قوم پرست) کہتے ہیں نے لکھا ’’ سر ہم ہندوستانی آپ کے ساتھ ہیں ۔ برائے کرم ہمارا پرچم بھی ڈالیں اور اس کا ذکر بھی کریں کہ ہندوستان کے قوم پرست ہندو ہر موسم میں اور ہر وقت اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں ‘‘۔ اس طرح مسلم دشمنی میں یہ نام نہاد بھگواداری بالکل برہنہ ہوگیا مگر اس کا یہ ننگا ناچ بھی اسرائیل کا دل پسیج نہیں سکا۔ اس ٹویٹ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کسی گڑ گڑا کر بھیک مانگنے والے بھکاری کو یہودی سیٹھ دھتکار رہا ہے۔
اب آئیے کچھ قلبی جذبات کے اظہار کی جانب سنتوش جوشی نے اپنائیت جتاتے ہوئے گہار لگائی ’’ سر ہندوستان کو بھی شامل فرمائیں ۔ ہم ایک خاندان ہیں‘‘۔ تعجب کی بات تو یہ ہے یاہو کوان مان نہ مان میں تیرا مہمان قسم کے اپنے اہل خانہ کے بارے بتانا پڑ رہا ہے ۔ ونود گوسوامی نے لکھا ’’ اسرائیل ہمارا دوسرا گھر (وطن) ہے ہم اس کے لیے سانس(جان) دے سکتے ہیں‘‘۔ وہ لوگ جو اپنے ہم وطنوں کو کندھا تک نہیں دیتے اور لاشوں کو گنگا میں بہا دیتے ہیں ان کی زبان پر یہ الفاظ زیب نہیں دیتے ۔ بیچاری دیپیکا نے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے لکھا ’’ مجھے پتہ ہے کہ ہندوستان نے (حمایت) کا سرکاری اعلان نہیں کیا لیکن ہم شہری جانتے ہیں اور کہنا چاہتے ہیں ہندوستان اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے‘‘۔ یہ تو چائے سے گرم کیتلی والی بات ہوگئی۔ شیلندر چودھری نے لکھا’’میں بے حد شرمسار ہوں کہ ہندوستانی پرچم نہیں ہے۔ اس نے میرا دل توڑ دیا مگر یقین رکھیں کہ میں بذات خود اور کئی ہندوستانی اسرائیل کی حامی ہیں ۔ ہم آپ سے محبت کرتے ہیں اور ہر دن آپ کی سلامتی اور فیصلہ کن فتح کے لیے دعا گو ہیں‘‘۔
اس یکطرفہ محبت کی بھی دلچسپ ٹریجڈی ہے کہ اسرائیل تو پلٹ کر نہیں دیکھتا لیکن یہ تڑپ تڑپ کر ٖال دل سنائے جارہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس کی ضرورت اور حاصل کیا ہے۔ وقت نے ثابت کردیا کہ ان کی ساری مناجات اکارت گئی کیونکہ اسرائیل نہ کوئی کامیابی حاصل کرسکا اور نہ محفوظ ہوا۔ ایک صاحب جن کا نام ٹوئٹری نام ’ہم زعفرانی ایجنٹ‘ ہے نے جھنجھلا کر لکھ دیا ’’ہندوستان کی حمایت کا اعتراف نہیں کرنے کے لیے آپ کا شکریہ ۔ اب اسرائیل کے ساتھ اس یکطرفہ محبت کا خاتمہ ہوجانا چاہیے‘‘۔ آگے وہ اپنا تعارف کرواتے ہوئے لکھتا ہے میں دائیں بازو کا ہندو ہوں ۔ ہرشت نے عقل کا استعمال کرتے ہوے لکھا کہ ’’ ہندوستان کا جھنڈا اس لیے موجود نہیں ہے کیونکہ ہندوستان کے لوگ تو اسرائیل کی حامی ہیں مگر حکومت نہیں ہے۔ حکومت ہند اگر اسرائیل کی حمایت شروع کردے توپرامن قوم (یہودی) ہندوستان میں امن قائم کرنے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے‘‘۔ اسرائیل کس قدر پر امن ہے اس کا نمونہ توغرب اردن اور غزہ میں ساری دنیا نے دیکھ ہی لیا ہے لیکن جس آنکھوں پر پٹہ چڑھی ہو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
ان احمقانہ ٹوئٹس کے برعکس علی ناصر نے ان کے جواب میں تمسخر اڑاتے ہوئے آنسو بہانے اور سونے والے ایموجی بنانے کے بعد طنز کرتے ہوئے لکھا ’’ پلیز سر ، مینٹلوں (پاگلوں) انڈیا پلیز ۰۰۰۰ہم اسرائیل کی عظیم قوم سے محبت کرتے ہیں۔ اسرائیل زندہ باد‘‘۔ اس طرح اسرائیل کے دیگرمخالفین نے بھی اپنا موقف رکھا۔ فیضان خان نے لکھا ’’عظیم گاندھی کا ہندوستان ہمیشہ فلسطین کے ساتھ ہے۔ انہوں نے گاندھی جی کا1938میں لکھا جانا والا یہ اقتباس بھی پیش کیا کہ ’’ فلسطین اسی طرح عربوں کا ہے جیسے انگلینڈ انگریزوں کا فرانس فرانسیسیوں کا ہے‘‘۔ اس طرح ٹوئٹر کی اس مضحکہ خیز جنگ میں یہ صورتحال بن گئی کہ اسرائیل نے حکومت ہند کو فلسطین کی حامی بتایا ۔ اس کے باوجود اسرائیل کے زعفرانی بھکت حامی حکومت ہند کی بھی حمایت کرتے رہے ۔ یہ ایک غیر عقلی حرکت ہے لیکن اندھی عقیدت میں جہاں عقل کا استعمال ممنوع ہو یہی سب ہوتا ہے ۔ اس تنازع نے پھر ایک بار یہ حقیقت کو اجاگر کردی ۔ویسے ہند اسرائیلی تعلقات میں اب کی بار جو دراڑ پڑی ہے اس میں پہلے جیسی گرمجوشی بڑی مشکل آئے گی ۔ ہندو احیاء پرستوں اور اسرائیلی رہنماوں کی حالتِ زار پر فی الحال امداد امام اثر کا یہ شعر صادق آتا ہے
دوستی کی تم نے دشمن سے عجب تم دوست ہو
میں تمہاری دوستی میں مہرباں مارا گیا