9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں کورونا کی غضب ناکی کی وجہ سے نہ صرف وزیر اعلی اتر پردیش شری یوگی آدتیہ ناتھ بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ساکھ بھی داؤں پر لگ گئی ہے۔دونوں کی شہرت اور مقبولیت کا گراف بہت تیزی سے نیچے آ رہا رہا ہے۔نہ صرف ہندوستان میں بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کی مقبولیت کے گراف میں کافی گراوٹ آئی ہے۔جس سے نہ صرف بھاجپا بلکہ آرایس ایس کا تھنک ٹینک بھی پریشان ہے۔ یہاں تک کہ “اندھ بھکت”یعنی وہ لوگ جو آنکھیں موند کر مودی اور یوگی کا قصیدہ پڑھتے نہیں تھکتے تھے وہ لوگ بھی ان کی کار کردگی اور کورونا کی مہاماری سے صحیح طریقے سے نہ نمٹ پانے کی وجہ سے اب ان دونوں رہنماؤں سے سوال پوچھ رہے ہیں۔ اور کیوں نہ پوچھیں جب انسانی جانوں کو بچانے کے لئے ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہو ۔جان بچانے والی دوائوں کی کھلے عام کالا بازاری ہو رہی ہو۔آکسیجن کی قلت ہو۔اسپتالوں میں بستر نہ ملیں۔قبرستان میں ٹؤکن سسٹم نافذ کرنا پڑ جائے۔لاشوں کو جلانے کے لئے شمشان میںجگہ نہ ملے اور لاشوں کومجبورا الٹا سیدھا گنگا کنارے لوگ دفناکر چلا جائیں۔اور پھر بارش میں وہ تمام لاشیں کھل جائیں۔ندی میں تیریتی لاشوں کو چیل کوے نوچ نوچ کر کھا نے لگیں او ان سب کی تصویریں سوشل میڈیا پر عام ہو جائیں تو سوال تو اٹھیں گے ۔ریاست میں کورونا کی صورتحال کو سنبھالنے کو لے کر یوگی حکومت کی قابلیت اور صلاحیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سوال اس پر بھی اااٹھ رہے ہیں کہ کیا حکومت اتر پردیش میں ٹیسٹ اور کیسز کے اعداد و شمار واقعی صحیح بتا رہی ہے۔ کینکہ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ جو اعداد و شمار ٹیسٹ اور کیسز کے بتائے جا رہے ہیں وہ اتر پردیش کے دور دراز گاؤں اس میں شامل نہیں ہوں گےیہ اعداد و شمار شہر اور زیادہ سے زیادہ قصبات کے ہو سکتے ہیں۔پریشانی اس لئے بھی ہے کہ اگلے سال یوپی میں انتخابات ہونا ہیں۔
دوسری طرف بھاجپا کے اندر ہی اب اپنے لیڈروں کی غیر اطمینان بخش کار کردگی کی وجہ سے بی چینی اور اضطراب پیدا ہو رہا ہے۔جس کا اظہار بھی ہونے لگا ہے۔ ابھی تین دن پہلے ایک ممبر اسمبلی نے یہ بیان دیا تھا کہ اگر بولیں گے تو غداروطن کا مقدمہ درج کراکر جیل بھیج دیا جائے گا اور اب بی جے پی کے رکن اسمبلی نے ہی آکسیجن کی کمی کو لے کر ریاستی حکومت کے خلاف آواز اٹھا دی ہے۔ غازی آباد کے لونی اسمبلی حلقہ سے منتخب ایم ایل اے نندکشور گوجر نے حکومت کے انتظامی افسر (اے ڈی ایم) پر آکسیجن کی کالابازاری کا الزام عائد کرتے ہوئے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اس تعلق سے ہائی کورٹ نے ضلع مجسٹریٹ سے دو ہفتے کے اندر حلف نامہ داخل کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے اور ساتھ ہی آئندہ 7 جون کو سماعت کی تاریخ مقرر کی ہے۔دراصل رکن اسمبلی نندکشور گوجر نے یکم مئی کو اے ڈی ایم شیلندر کمار سنگھ پر الزام عائد کرتے ہوئے ان پر مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس معاملے پر وہ ایس ایس پی سے بھی ملے تھے اور جب وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ غازی آباد پہنچے تو ان سے بھی شکایت کی۔ لیکن اس معاملے میں انتظامی افسر کے خلاف کوئی جانچ نہیں ہوئی۔ اس سے مایوس ہو کر انھوں نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا ہی مناسب سمجھا۔عدالت میں نندکشور گوجر نے بتایا کہ کووڈ-19 کے دوران غازی آباد میں آکسیجن کی کمی سے لاتعداد لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ انھوں نے ان اموات کے لیے انتظامی افسران کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی جو مایوس کن ہے، اسی لیے انھیں عدالت کی پناہ میں آنا پڑا۔مشکل یہ بھی ہے کہ عدالت نے معاملے کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے نندکشور گوجر کی عرضی کو منظور کر لیا ہے دونوں فریق کی سماعت کے لیے 7 جون کی تاریخ مقرر کر دی گئی ہے۔
خبر ہے کہ اسی سلسلے میں آر ایس ایس نے دہلی میںایک ’خفیہ‘ اعلیٰ سطحی میٹنگ کی، جس میں وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا، آرایس ایس کے دتاتریہ ہوسبولے کے ساتھ یوپی بی جے پی ریاستی تنظیم کے جنرل سکریٹری سنیل بنسل بھی شامل ہوئے۔ میٹنگ میں مرکز اور یوپی کی بی جے پی حکومتوں کی تضحیک، نیز مودی اور یوگی کی بدنامی پرتشویش کا اظہار کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی میٹنگ میں طے کیا گیا ہے کہ ایک مہم چلا کرمودی اور یوگی کی بگڑتی شبیہ کو بہتر بنایا جائے۔کیونکہ یوپی میں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے ہیں لیکن کورونا کی وجہ سے تبدیل ہوئے حالات میں بی جے پی اگر سیدھے انتخابات میں اترتی ہے تو اسے بڑے نقصان کا اندیشہ ہے۔ انھیں خود بھی اس بات کا احساس ہو چلا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں کورونا منیجمنٹ کے نام پر صحیح فیصلوں کے نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو جان گنوانی پڑی ہے۔ ان میں حکومت کے وزراء کے ساتھ ساتھ کئی بڑی شخصیات بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ مودی اور یوگی پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کر رہے تھے وہی لوگ اب ان دونوں کھلے طور پر سوال پوچھ رہے ہیں۔ کئی ممبران اسمبلی اور وزراء نے بد انتظامی پر حکومت کو خط بھی لکھا ہے۔ چونکہ اب انہیں بھی عوام کے درمیان ووٹ مانگنے جانا ہے اس لئے انہیں فکرمند ہونا فطری بات ہے۔