اسد مرزا
جمعہ21مئی کی صبح امریکی ثالثی کوششوں کے بعد ہونے والے جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ہی گذشتہ گیارہ دنوںسے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری تصادم کے ختم ہونے کی خبرنے مسلم امہ کو تقویت بخشی ہے۔ گیارہ دن چلی ان جھڑپوں میں 232فلسطینی شہید ہوگئے جن میں 65بچے بھی شامل ہیں، دوسری جانب دو بچوں سمیت 12اسرائیلی فوجی بھی حماس کی جانب سے کیے گئے حملوں میں مارے گئے۔یہ بدترین کشیدگی ماہِ رمضان کے مبارک مہینے کے وسط میں شروع ہوئی تھی اور اس میں دونوں فریقین کے درمیان مسجد اقصیٰ کے آس پاس بھی خونی تصادم دیکھنے کو آیا۔
موجودہ بحران کے مضمرات
یروشلم کے پرانے شہر میں اس وقت سے تناؤ پیدا ہوا جب گذشتہ پیر 10)مئی ) کو مختلف واقعات کا سلسلہ اپنے عروج پر پہنچ گیااور کئی واقعات ایک ساتھ پیش آئے۔ ایک جانب فلسطینی عوام نیم خودمختار فلسطینی اتھارٹی کے 85 سالہ قائد محمود عباس کے فیصلوں سے نالاں ہیں جنہوں نے حال ہی میں اتھارٹی کے انتخابات ملتوی کردیئے تھے ۔ فلسطینی اتھارٹی کے پارلیمانی انتخابات آخری مرتبہ 2006میں ہوئے تھے۔ دوسری جانب اسرائیل میں مارچ میں منعقدہ انتخابات کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہودیوں کی سخت گیر قوم پرست پارٹی نے اقتدار میں آنے کے لئے وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو کی مدد کی۔اس کے ساتھ ہی مقدس ماہ رمضان کے آغاز سے اسرائیلی پولیس کی جانب سے غیرضروری رکاوٹوں اور پابندیوں کی شکایات فلسطینی عوام کی جانب سے بڑھتی جارہی تھیں۔ اسرائیلی پولیس فلسطینی عوام کو پرانے شہر کے دمشق دروازے کے قریب جمع ہونے سے روک رہی تھی۔روایت کے مطابق ماہ رمضان کے دوران فلسطینی مغرب کی نماز کے بعد عبادتوں کے لیے مسجدِ اقصیٰ کے ارد گرد جمع ہوتے تھے۔ بڑھتے تناؤ کے درمیان سوشیل میڈیا پر یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان ہوئے تصادم کے چند ویڈیوز نے کشیدگی میں اور بھی اضافہ کیا۔ اپریل کے آخر میں یہ تصادم اس وقت ہوا جب شدت پسند یہودیوں نے شہر میں ایک مارچ نکالا اور ’’عرب مردہ باد‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے فلسطینیوں سے متصادم ہوئے۔موجودہ بحران میںجس عمل نے سب سے زیادہ فلسطینیوں کی برہمی میں اضافہ کیا، وہ 10 مئی کو متوقع ایک اسرائیلی عدالت کی جانب سے عرب اکثریتی مشرقی یروشلم کی بستی شیخ جراح سے درجنوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالے جانے کے فیصلے تعلق رکھتا تھا جس کے ذریعے ان کے مکان یہودیوں کے قبضہ میں دیئے جانے والے تھے۔
تاریخی پس منظر
یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ شیخ جراح ان کاآبائی مسکن تھاجس سے انہیں 1948ء کی جنگ کے دوران بے دخل کردیاگیاتھا۔ اسرائیل نے 1967 ء کی جنگ میں مشرقی یروشلم پر دوبارہ قبضہ کرلیا جو اردن کے قبضہ میں تھا۔اسرائیلی قانون کے مطابق یہودی جو 1948 ء سے پہلے جن بستیوں میں رہتے تھے ان جائیدادوں پر اپنا دعویٰ پیش کرسکتے ہیں جب کہ فلسطینیوں کے لئے ایسا کوئی قانون نہیں بنایا گیا جو مغربی یروشلم میں اپنے مکانوں سے پہلے بھی محروم ہوگئے تھے۔
یروشلم تصادم کا مرکز کیوں ہے ؟
یروشلم ہمیشہ سے اسرائیل -فلسطین تنازعہ کامرکز رہا ہے۔ یہاں کئی مقدس مقامات پر یہودی،عیسائی اور مسلمان دعویٰ پیش کرتے ہیں۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ پورا یروشلم یہودی مملکت کا دارالحکومت ہے جب کہ فلسطینی مشرقی حصہ کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتیہیں۔
مسجد اقصیٰ پرانے شہر کے جنوب مشرقی کونے میں واقع ہے جو 35 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ 1967ء کی 6 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے مسجداقصی پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔اس قبضہ کو بین الاقوامی سطح پر کبھی بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ مسلمان اس علاقہ کو حرم شریف سے موسوم کرتے ہیں۔ اس کے احاطہ میں مشہور گنبدصخرا موجود ہے جو 7 ویں صدی عیسوی میں بنایا گیا تھا۔ اس مقام پر وہ پتھر ہے جہاں سے حضور اکرمؐ نے معراج کا سفر شروع کیا تھا۔ مسجداقصیٰ کو مسلمان قبلہ اول بھی مانتے ہیں۔ کعبۃ اللہ کو قبلہ قرار دیے جانے سے قبل مسلمان مسجدِ اقصیٰ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے۔
مسجداقصیٰ کو مکہ اور مدینہ منورہ کے بعد تیسرے مقدس مقام کا درجہ حاصل ہے۔ یہودی بھی اس مقام کو مقدس مانتے ہیں کیوں کہ یہاں ان کی پہلی اور دوسری عبادت گاہ موجود رہی ہیں۔ عبرانی میں اسے ’ہرہابیت‘ کہا جاتا ہے جو ٹیمپل ماؤنٹ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہودیوں کو حرم شریف کے علاقہ میں داخلہ کی اجازت ہے تاہم مسلمانوں کے ساتھ تصادم کے خدشہ کی وجہ سے ان پر وہاں عبادت کرنے پر بھی پابندی ہے۔
اسرائیل نے یروشلم پر قبضہ کرنے اور اس پر عالمی موقف تبدیل کرانے کی کئی مرتبہ کوشش کی ہے۔ 1996ء میں اس نے مسجدِ اقصیٰ کے مغربی حصہ میں ایک نیا باب الداخلہ تعمیرکرنے کا فیصلہ کیاجس پر بدترین تصادم ہوا اور تین دن میں 80 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 2000ء میں اس وقت کے دائیں بازو کے اپوزیشن لیڈر ایریل شارون کے مسجداقصیٰ کے متنازعہ دورہ کی وجہ سے دوسرا فلسطینی انتفادہ شروع ہوا جو 2000ء سے 2005ء تک جاری رہا۔ جولائی 2017ء میں اس احاطہ کو عارضی طور پر اس وقت بند کردیا گیا تھا جب تینہتھیار بند افراد نے اسرائیلی پولیس پر فائرنگ کرتے ہوئے 2 لوگوںکو ہلاک کردیا تھا۔ انہوںنے مسجداقصیٰ کے احاطہ میں پناہ لی جنہیں سکیورٹی فورسس نے گولی مارکر ہلاک کردیا۔ 2020ء میں مقدس ماہ رمضان کے دوران کووڈ 19- کا بہانہ بناتے ہوئے مسجداقصیٰ کے احاطہ کو بند کردیا گیا تھا۔ بعد میں عبادت گزاروں کی تعداد کو محدود کرتے ہوئے سخت صفائی کی شرائط کے ساتھ اسے دوبارہ کھولا گیا۔
عرب ممالک کا ردعمل
جیسا کہ تاریخ گواہ ہے ان معاملات پر عرب ممالک کا ردِعمل اور جواب ہمیشہ سے ایک جیسا ہی رہا ہے جوکہ کھوکھلے بیانات جاری کرنے تک محدود رہا ہے۔ ایک دوسرے سے ٹیلی فون پر صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے اور بیان جاری کردیاجاتا ہے۔اقوام متحدہ بھی صرف ناراضگی ظاہرکرنے کو ہی اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے حالیہ اسرائیل-فلسطین تنازعہ پر خبردار کیا کہ یہ ایک انسانی بحران کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی عرب ممالک کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم یا اسرائیلی جارحیت کی مذمت نہیں کی گئی، کیوں کہ حالیہ عرصہ میں کئی عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرلئے ہیں۔ اور اسرائیل کے خلاف کوئی بھی کارروائی ان کے تجارتی اور معاشی مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ تاہم عرب قائدین کے برخلاف عرب ممالک کے عوام مسلسل اپنے فلسطینی بھائیوں کے لئے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
ہندوستانی موقف
ہندوستانی مسلمان اور بڑی حد تک ہندوستانی سیاست داں بھی گذشتہ 70 برسوں سے فلسطینی کاز کی تائید کرتے آئے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انہیں بھی انگریزوں کے ہاتھوں مظالم کا سامنا کرنا پڑا اور ہندوستان کی تقسیم کی وجہ سے کئی مشکلات سے گذرنا پڑا۔ یہی برطانیہ فلسطین کی تقسیم کابھی ذمہ دار ہے۔ برطانیہ نے مشرقِ وسطیٰ اور برصغیر ہندوستان میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے دو مستقل تنازعات کو جنم دیا جس کے اثرات آج بھی برقرار ہیں۔ علاوہ ازیں ہندوستان غیرجانبدار تحریک کا مستقل رکن ہے اور اس کے قائدین کے فلسطینی قائدین کے ساتھ ہمیشہ اچھے اور مضبوط تعلقات رہے ہیں۔یہاں تک کہ جنتاپارٹی کی مخلوط حکومت کی قیادت کرنے والے اٹل بہاری واجپائی نے بھی ان تعلقات کی مضبوطی کو برقرار رکھا تھا اور فلسطینی موقف کی حمایت کی تھی۔
جنگ بندی کے اعلان کے بعد یہ امید کی جاسکتی ہے کہ فی الوقت اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری تناؤ میں کمی آئے گی تاہم ساتھ ہی یہ وقت ہمیں یہ سوچنے کا موقع دیتا ہے کہ ہم سے غلطی کہاں ہورہی ہے ۔ہمیں سوچنا چاہیے کہ وہ نافرمان قوم جس کی اللہ نے بھی قرآن میں تذلیل کی ہے (سورہ بقرہ اور سورہ بنی اسرائیل)وہ قوم دنیا کی سب سے طاقتور قوم کیسے بن گئی ہے؟ صرف تعلیم، تنظیم، حکمت، منصوبہ بندی اور مضبوط سیاسی رہ نماؤں کے ذریعے،دوسری جانب ان سب عناصر کا مسلم قوم میں فقدان پایا جاتا ہے۔ نہ تعلیم ہے نہ منصوبہ بندی اور نہ مستقبل کے لیے کوئی حکمت۔ اگر ہم بحیثیت مسلم امہ اپنی فکر اور عمل کو ایک منظم طریقے سے آگے لے کر چلیں تو اس تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے عرب ممالک کی جانب سے کوئی بھی منصوبہ یا اقدام کبھی بھی فیل نہیں ہوسکتا۔ہم صرف اس تنازعہ کے پائیدار حل کے لیے اور ایک مضبوط مسلم امہ کے بہتر مستقبل کی دعا کرسکتے ہیں۔
[email protected]