کتب ادیانِ عالم میں قرآن مجید کی امتیازی سربلندی-Books The distinctive pride of the Holy Quran in the world religions

0
190
Books The distinctive pride of the Holy Quran in the world religions
مولانا سید قائم مہدی بارہ بنکوی

بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز حساس ترین مسلکی اختلاف کا معاملہ جو بدقسمتی سے اختلاف کی جگہ عناد و دشمنی بلکہ کبھی کبھی قتل و خونریزی کی شکل اختیار کرلیتاہے۔ قطع نظر اس کے کہ اس کے تاریخی و مصلحتی موکات و اسباب کیا ہیں۔سر دست مجھے فی الوقت کتب ادیان ِ عالم میں مکاتب اسلامیہ کے عقیدہ و ایمان کی متفق علیہ کتاب الٰہی یعنی قرآن مجید کی امتیازی سربلندی پراجمالاً کچھ عرض کرنا مقصود ہے۔ اس سلسلہ میں اولین تقابلی نام بیت المقدس کا زبان پر آتاہے۔کون نہیں جانتا کہ ہندوستان ایک کثیرالمذاہب ،مختلف العقائد ماننے والوں کا ملک ہے۔جس میں خود ساختہ اوہام پرستوں کا غلبہ و اکثریت ہے۔ اس تناظر میں جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو مثل دیگر معروف ادیان ِ عالم یعنی عیسائیت و یہودیت کی کتابیں توریت و انجیل وغیرہ کی جو سرگزشت ہے ۔
وید
بعینہ یہ صورت ہمارے ملک کی سب سے بڑی اکثریت کے دھرم کا ربانی سرچشمہ کہی جانے والی کتاب ’’وید‘‘ کی ہے جو انتہائی عبرت ناک اورلاحاصل نتیجہ پر جاکر تمام ہوجاتی ہے۔
جس طرح جناب موسیٰ  پرنازل ہونے والی الہامی کتاب توریت اور جناب عیسیٰ  پر نازل ہونے والی صحیفہ ٔ انجیل یہ دونوں الہامی صحیفے قفط ایک ایک تھے۔ لیکن انکی قوم نے اس میں خودپسند تفسیر وں ،رائج الوقت رسموں، من گڑھت نظریوں کی تومار شامل کرکے اسکی تعاد چار اور پانچ تک کردی ۔یوں ہی’’ویدمقدس‘‘ بھی چار کی تعداد میں تقسیم کردی گئی اور بالترتیب ان کے نام بھی ’’رگ ویگ، یجروید،سام وید اور اتھرب وید‘‘ رکھ دئے گئے۔
اس سلسلہ میں پہلا سوال عقلی اور فطری طور پر یہ پیداہوتاہے کہ وید مقدس اگر الہامی صحیفہ ہے تو یہ کس پرنازل ہوا؟ مگرافسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج تک یہی طے نہ ہوسکا کہ اس کا حاصل کون ہے۔ نیز یہ کہ یہ ایک کتاب ہے یا چار؟ایک عقیدے کے مطابق پرمیشور نے ’’برہما‘‘ نامی دیوتاکو اولاً پیداکیااور اُن کو ان چاروں ویدوں کا علم دیاگیا۔ جبکہ دوسرا عقیدہ یہ ہے کہ ابتداء میں دید ایک ہی صحیفہ تھا اسے برھما نے اپنے شاگردوں کوتعلیم دینے کی سہولیت کے پیش نظرچار ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ جبکہ یورپ کے دانشوراونِ ادیانِ عالم کی تحقیقی یہ ہے کہ چار دید مختلف زمانہ میں ایک کے بعد ایک مرتب کئے گئے۔ اس میں ’’رگ وید‘‘ سب سے قدیم ہے۔ اس میں سب سے دلچسپ عقیدہ یہ ہے کہ ویاس جی نے اس کو حفظ کرنے کے مقصد سے چار حصوں میں تقسیم کردیا۔ چنانچہ اسکو حفظ کرنے والے خاندان وید وں کے نام سے منسوب کرکے ’’دیدی برہمن‘‘ کہے جانے لگے۔ اس طرح دیدی یعنی ایک دید کا حافظ دُو ویدی ،یادو بے دو دیودوں کاحافظ، تیواری تین دیدکا،چوبے چارویدوں والا کہلایا۔ برہمنوں کی یہ تقسیم ابتک اسی ڈگر پرچل رہی ہے۔اور اسی نسبت سے یہ قوم اپنی ملت میں خود کو افضل ترین مانتی ہے۔مذہبی تقدس اور بالا دستی بھی انہیں کو حاصل ہے۔
اس عقیدے سے بنیادی اختلاف کرتے ہوئے۔ آریہ سماج کے بانی سوامی دیانند سرسوتی نے یہ نظریہ پیش کیا کہ یہ چاروں دید اولاً ایسے مختلف لوگوں پرنازل ہوئے جنکو ’’رِشی‘‘ کہاجاتاہے۔ اور یہ لوگ بغیر ماں باپ کے پیداہوئے۔اسی سے ملتاجلتا نظریہ ’’مہابھارت کا ’’دھارمک تہاس‘‘ نامی کتاب میں بھی موجود ہے۔ جس میں لکھا ہے کہ ’’دید کسی کتاب کانام نہیں ہے بلکہ رشیوں کی تپسیا (عبادت) کانتیجہ ہے۔ جنکو خاص اصولوں کے تحت ایک مجموعہ کانام دے دیاگیا ہے۔
سب سے بڑھ کر تو’’ رِگ وید‘‘ جوسب سے قدیم ہے اس میں پوری و ضاحت کے ساتھ لکھاہے کہ ’’وید نئے پرانے رشیوں مہارشیوں کے گیت ہیں‘‘
’’مہابارت کااتہاس‘‘ پڑھئے تو اس میں توویددوں کے مرتب کرنے والے اور اسکے مصنفین کے بارے میں یہاں تک لکھا ہے کہ دیدوں کے بنانے والے راکشش شیطانی اطوار کے ٹھگ اورچور تھے‘‘۔
قارئین خود فیصلہ کریں کہ جس کتاب میں ایسی متضاد من پسند خرافاتی تصرفات ہوں اسے کیونکہ الہامی صحیفہ تسلیم کیاجاسکتاہے۔ اور اسکی بنیاد پر کسی ’’مخصوص راشٹر‘‘ کی ہمہ گیر تشکیل کہاں تک حق بجانب ہے ؟آخر میں اس رائے کی کسی حدتک تائید میں جین دھرم کے آتمارام کاایک قول نقل کرتے ہوئے بات تمام کرتاہوں ۔اُن کا قول ہے کہ پرانے چاروں ویدجین دھرم کو تسلیم تھے لیکن جب سے برہمنوں نے اس میں ملاوٹ کردی تو وہ غیر معتبر ہوگئے۔
توریت
آگے بڑھئے تود نیا کے دو بہت معروف مذاہب یعنی یہودیت اور عیسائیت کے نام سامنے آتے ہیں۔جنکی شریعتوں کی دستواری والہامی کتب توریت اور انجیل ہیں ۔جو باالتریب جناب موسیٰ  اورحضرت عیسیٰ پیغمبروں پرنازل کی گئیں۔ لیکن اب وہ اپنی اصل شکل میں نہیں ہیں۔حضرت موسیٰ  پر نازل کی گئی توریت کی جملا سرگزشت یہ ہے کہ اس الہامی حصیفہ کی امانت دار قوم بنی اسرائیل اپنی شرارت پسند شرشت کی وجہ سے اتنی مشہور ہے کہ خود اپنی قوم کے پیغمبر جناب موسیٰ کی تعلیمات کے خلاف دوسری قوموں بالخصوص کاہنوں سے میل جول بڑھاکر اُن کے بتوں کی پوجاکرتے اور اپنی اولاد کو انہیں بتوں کی خاطر قربانی کرتے ۔انکی ان بداعمالیوں اور جناب موسیٰ کی تذلیل و نافرمانی کے سبب ان پر کئی بارب خدا کاغضب بھی نازل ہوا۔جناب موسیٰ ؑ کی رحلت کے بعد انکی باہمی خوں ریزیوں کے نتیجہ میں قوم بنی اسرائیل دو حصوں میں تقیسم ہوگئی۔ ایک جماعت نے یہودا (اولاد یعقوب پیغمبر) کی نسل سے صبعام نامی یہودی کو اپنا مذہبی پیشوا اوربادشا تسلیم کیا۔ اُس کے انتقال کے بعد خدا کی عبادت ترک کرکے بھر باطل پرستی زور وشور سے شروع ہوگئی ۔ وہ وقت بھی آیاکہ بیت المقدس کو منہدم کردیاگیا ۔خونریزی کابازار گرم ہوگیا۔ ہزاروں آدمی قتل کئے گئے۔یہودیوںکوگمراہ کرکے ایسے ایسے گندے افعال کرائے گئے جوگزشتہ باطل افعال سے بھی زیادہ بدترین تھے ۔یہیں سے یہ فیصلہ ہوجاتاہے کہ جس قوم نے موسیٰ  کی زندگی اور انکی رحلت کے بعد مسلسل ایک طویل عرصہ تک انکی تعلیمات کے خلاف اتنے تھپیڑے کھائے ہوں ۔بھلا کیوںکرممکن ہے کہ اصل توریت محفوظ رہ گئی ہوگی۔چنانچہ صدیاں گزر جانے کے بعد یہودیوں کی زندگیوں میں ایک انقلاب آیااور اپنے ماضی کی بازیافت میں یہودی علماء اور طلاب کے درمیان مباحثے ہونے لگے۔اور بالآخر طے پایا کہ توریت کے احکام ،شرحیں اورتفسیریں لکھیں جائیں ۔چنانچہ دیگر انبیا ء سے منسوب کتابوں کی کچھ باتیں ۔قوم یہود کی دلچسپی کی عادتوں اور رسموں کو جمع کرکے چھ ہزار صفحات اور ۳۶ جلدوں کاصحیفہ (مجموعہ )تیار ہوا۔ جوسطحی قسم کی متضاد باتوں اورافسانہ سازی کا ایک پلندہ ہے۔ یہودیوں کے عقیدے میں اسی کو توریت کے نام سے جاناجاتاہے۔
انجیل
اب آئیے ذراعیسائیت کی الہامی کتاب انجیل پربھی ایک نظر ڈالیں ۔مگرافسوس کے ساتھ کہناپڑتھاہے کہ اس کا بھی وہی حال ہے جو سابقہ کُتبِ ادیان کارہاہے۔ یہ صحیفۂ الٰہی بھی قوم بنی اسرائیل کے ایک دوسرے پیغمبرجناب عیسیٰ  پرنازل کیاگیا۔اورچونکہ عیسائیوں کابنی اسرائیل کے دیگر انبیاء پربھی ایمان ہے اس لئے ان کاتوریت پربھی ایمان ہے۔ لیکن رائج الوقت انجیلوں کی تعداد پانچ ہے جو بالترتیب لوقا،مرقس، متی، یوحنا اور برنابا کے نام سے معروف ہیں۔
جناب عیسیٰ  بنی اسرائیل کے جس معاشرہ میں بھیجے گئے تھے اُن کاتعارف خود عیسیٰ مسیح نے ان الفاظ میں کرایا ہے کہ ’’میں بنی اسرائیل کے گوسفندوں کی ہدایت کیلئے آیاہوں‘‘ اس سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اُس قوم نے اُن کے ساتھ اور ان کے ذریعہ پیش کئے گئے صحیفۂ ربانی کے ساتھ کیسا سلوک کیاہوگا؟
یہ اُن کے اصحاب ہی تھے جنکی سازش کے نتیجہ میں مسیح کو سولی پرچڑھیایاگیا۔ لیکن اُن کوچوتھے آسمان پر اُٹھائے جانے کے بعد مسیح کے حواریوں میں مخصوص چار اصحاب نے مل کر آپس میں بحث و مباحثہ کے بعد یہی پانچ انجیلیں مرتب کرکے رائج کردیا۔ اس میں انجیل لوقا اور انجیل یوحنا میں اپنے پیغمبر یعنی حضرت عیسیٰ  مسیح کو شرابی اور بدنسل تک کہاگیا۔اب بتایئے جب انجیل کی امت نے ا پنی دینی کتاب کی یہ درگت بنادی ہو تو بھلا کون اسے آسمانی مقدس صحیفہ تسلیم کرے گا؟
قرآن مجید
ادیانِ عالم کی مذکورہ بالا الہامی کتب کے اجمالی تعار ف کے بعد فخر کے ساتھ آیئے اور مذہب اسلام کی الہامی کتاب ِشریعت قرآن مجید کے تقدس و اعجاز کی سدابہارشان ملاحظہ فرمائیے۔
قرآن مجید زبان و بیان کی فصاحت و بلاغت کا ایسا دائمی معجزہ ہے کہ اس کے نزول سے لیکر آج تک کسی ایک چھوٹی سی آیت کا جواب لاناممکن نہ ہوسکا۔ جبکہ یہ تسلیم شدہ ہے کہ ایسی سرزمین پرنازل کیاگیا جس کے رہنے والے اپنی زبان آوری پراس حد تک ناز اں بلکہ مغرورتھے کہ وہ خود کو ’’عرب‘‘ (یعنی بولنے والا) اوربقیہ غیر عرب کو’’عجم‘‘ (یعنی گونگا) کہتے تھے۔اس سلسلہ میں پہلی بات یہ کہ قرآن مجید ان کمزوریوں سے محفوظ ہے جن کے سبب بقیہ کتب ادیان عالم میں میں خود ساختہ تصرفات کرکے اسکی حقیقی عظمت کوپامال کردیاگیا۔اس کے برعکس اُمتِ اسلامیہ میں یہ واقعہ بتادینا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ عرب مقام فخر میں اپنے ادبی شاہکار کعبہ کی دیوار پر آویزاں کرتے تھے اور پھرزبان و بیان کی فصاحت و بلاغت کی مقابلہ آرائی ہوتی تھی۔ لیکن قرآن مجید کاچھوٹاساسورہ ٔ کوثر جب آویزاں کیاگیا تواُن سب نے اپنی شکست کااعتراف کرتے ہوئے اپنے قصائد کعبہ کہ دیوار سے اُتار لئے۔ اور بیک زبان کہہ ُاٹھے ’’ماہٰذا کلام البشر‘‘ (یہ کسی بشر کا کلام نہیں ہے)جس کا سیدھا سامطلب تھا کہ یہ کلام معجزۂ ربانی ہے۔نہ اس میں کچھ گھٹایاجاسکتاہے نہ ہی بڑھایاجاسکتاہے۔اسی سلسلہ میں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ حامل قرآن حضرت رسول خد ا کے یہ مشرکین عرب دشمن تھے لیکن ان کے کردار کو اتنا سچا سمجھتے تھے کہ انہیں صادق و امین کہتے تھے اور ان کے ذریعے پیش کی گئی آیاتِ قرآنی کو اسی شکل میں تسلیم کرلیاکرتے تھے۔جیسا انکی زبان سے سنتے تھے۔
بقیہ کتب ادیان عالم کے مقابلہ میں قرآن مجید کی یہ امتیازی اعجازی شان ہی کا نتیجہ ہے کہ آج تک اس میں ایک حرف کی بھی تحریف نہ کی جاسکی۔
آخر کلام میں بات یہ کہہ کر تمام کررہاہوں کہ کیوںنہ ہو جب قرآن مجید کا نازل کرنے والا خود پورے جلال کے عالم میں کہے کہ میں نے ہی اسے نازل کیا ہے اور میں ہی اسکی حفاظت کروںگا۔ الٰہی تحفظ کی گارنٹی کاشرف کتب ادیان عالم میںقرآن مجید کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اس لئے قرآن مجید کی صحت اور تحفظ کی اعجازی شان ِ امتیاز سدابہار ہے۔ لہٰذا اسی کی بنیاد پر کسی مستحکم ومعتبر راشٹر کی تشکیل ہوسکتی ہے۔
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here