غلام علی اخضر
یہ تو سب جانتے ہیں کہ حوادثِ روزگار اور تبدیلیِ حالات کے نتیجے میں انسان پر بھی اچھے اور بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں؛جو وقت کے ساتھ ساتھ جلدٹھیک بھی ہوجاتا ہے۔ مگر کسے معلوم تھا کہ آنے والے سال کی تبدیلی اس قدر خطرناک ہوگی کہ زندگی اپنی وقعت کھوبیٹھے گی، موت کاہرطرف تانڈو ہوگااور ہماری تمام ترمصنوعی اور مادی طاقتیں جن پر ہم فخر کرتے ہیں جواب دے دیں گی،جس کے نتیجے میں 2020ہمارے لیے معاشی اور معاشرتی طور پر کافی مایوس کن رہا۔ اس کے باوجود ہم 2020کی لہر سے سبق نہیں سیکھے اور نہ ہی آنے والے چیلنجزسے مقابلہ کرنے کے لیے کوئی لائحۂ عمل تیار کیے اور نہ ہی کوئی ٹھوس قدم اٹھائے، جس کا آج خمیازہ اٹھانا پررہا ہے۔ جب کہ پہلی لہر میں ہی ہمیں سائنسدانوں کی طرف سے خبردار کیا گیا تھاکہ بھارت زبردست کورونا کے چپیٹ میں آسکتا ہے،مگر اس کے باوجود ہم سوئے رہے اورجوآکسیجن پلانٹ ہم نے سرعت سے لگانے کی بات کی تھی وہ صرف کاغذ پر ہی رہ گیا یا زمینی سطح پر آیا بھی تو اس شکل میں کہ وہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے ؛جب کہ اب تک سبھی پلانٹس تیار ہوجانے تھے۔ اور پھر یہ کہ ہم نے ویکسین تیار بھی کی تو اپنے ملک کی ضرورت کو درکنار کرکے دوسرے ملکوں کے پاس فروخت کردیا۔ کورونا مدد کے نام سے خوب چندے ہوئے اور اسے ’پی ایم فنڈ کیئر‘ کانام دیا گیا جس کا نہ کوئی حساب ہے اور نہ ہی کوئی اس کے بارے میں سوال کرسکتا ہے۔ اس فنڈسے کچھ ضرور کام بھی ہورہے ہیں لیکن وہ ناکافی ہے۔ کچھ وینٹی لیٹر پی ایم فنڈسے اسپتالوں میں بھیجے گئے تو وہ بھی صرف دکھاوے کے جن کے بارے میں ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ یہ کووڈ مریض کے کام میں لانے کے لائق نہیں اور بعض جگہوں کے یہ حال ہیں کہ مشین موجود ہے لیکن اس کاآپریٹر نہیںہے کہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔موجودہ وقت کے ناسورحالات اور تمام اموات کی ذمے داری بھارت سرکار کو لینی چاہیے اور اپنی ناکامیابیوں کو قبول بھی کرنا چاہیے۔ جس طرح سسٹم فیلیئر سے اموات جاری ہیں ہم اسے نسل کشی ہی کہہ سکتے ہیں اور اس کا اگرسیاہ سہرا کسی کے سربندھتا ہے تو وہ ہمارے ناتجربہ کار وزیر اعظم ہیں۔
بچپن سے ہم اپنے مذہبی پیشوائوں سے سنتے آرہے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور پھر اسے دنیا میںکیے ہوئے اچھے بُرے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ یہ دن اس قدر نفسا نفسی کا ہوگا کہ کوئی کسی کاپرسانِ حال نہ ہوگا۔ غیر کی کیابات سارے خونی رشتے بھی منھ موڑ لیں گے حتیٰ کہ ماں باپ بھی ساتھ چھوڑ دیں گے۔ لیکن قدرت کا ہائے رے نظام اور اس کی مصلحت کی گتھی کہ حشر سے پہلے ہی حشر بپا ہے۔ کورونا کے مریض سے لوگ اس قدر ڈرکر بھاگتے ہیں جیسے کوئی شیرکھانے کے لیے آرہا ہو۔سارے رشتے اس وباکے سامنے مات کھاگئے ہیں۔ملک کی متعدد جگہوں سے یہ خبریں روز آرہی ہیں کہ گھروالے ہی مردہ کو چھوڑ دے رہے ہیں، یہاں تک کہ باپ مرنے پر اس کا بیٹا اسے ہاتھ لگانے سے انکارکر رہاہے۔ لاشوں کی بے حرمتی عام بات بن کر رہ گئی ہے۔ ابھی چندروز پہلے کی بات ہے کہ بہارکے بکسر اوریوپی کے غازی پور باڈر کی گنگامیں ڈھیر سارے لاش بہتے ملے، جسے کتے نوچ نوچ کر کھارہے تھے۔ تحقیق کے بعد معلوم چلا کہ یوپی بہار دونوںطرف سے ایمبولینس آتی ہے اور پُل کے اوپر سے ہی نیچے لاش کو پھینک دیتی ہے۔ ہائے کس قدر انسانیت مرچکی ہے کہ ہم لاشوں کو کوڑا کرکٹ کی طرح پھینک رہے ہیں۔ آسمان جو اُوندھے منھ زمین کے زیر وبم کو ابتدائے آفرینش سے دیکھ رہا ہے اس نے بھی نہ سوچا ہوگا کہ انسان اس قدر بے حس ہوجائے گا۔ موت کا ایک دن معین ہے پرواضح رہے کہ احتیاط لازم ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم موت کے ڈر سے زندہ ہونے کے تمام فرائض کو بھول جائیں اور دُبک کرتماشہ بیں بنے رہیں۔ زندہ ہیں تو زندہ دلی کاثبوت دینا ہوگا۔
اس بار کا کورونا پچھلے بار سے زیادہ خطرناک ہے مگر اس کے باوجود زمینی لڑائی عوامی سطح پر کمزور ہے۔ سرکاریں بھی صرف ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور خود کو مسیحاثابت کرنے میں جُٹ گئی ہیں۔ پچھلے بار یہ دیکھا گیا تھا کہ اس کا اثر زیادہ شہروں تک ہی تھامگر اس بار کورونا نے اپنے دائرے کو وسیع کرلیا ہے اور اس کے لپیٹ میں دیہات بھی آگئے ہیں۔ اگر دیہات کی صورت بگڑتی ہے تو ہندوستان میں بہت ہی بھیانک صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ دیہاتوں میں اموات ہورہی ہیں مگر ٹیسٹنگ نہ کراپانے کی وجہ سے انھیں معلوم ہی نہیں چل پارہا ہے کہ موت کورونا کی وجہ سے ہے یا اور کسی کے وجہ سے۔ مگریہ بات ضرور ہے کہ اکثر اموات کی وجہ کورونا کے اثرات ہی سننے میں آرہے ہیں۔ دیہات کی فکر کرنے کی ضرورت ہے اور ان میں کورونا بیداری مہم بھی چلانے کی اشد ضررت ہے۔ یہاں بداحتیاطی عام ہے، بعض جگہوں پر تو وہ ایسے ہی زندگی بسر کررہے ہیں جس طرح وہ پہلے کیا کرتے تھے۔ انھیں آج بھی لگتا ہے کہ ایسی کوئی بیماری نہیں ہے ،جس سے ہمیں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ میرے ایک دوست نے کہا تھا کہ کورونا بھی ایسا ہے کہ جس کے ساتھ یہ پیش آتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے کہ واقعی میں یہ کوئی بیماری ہے ورنہ لوگ کہاں سنبھل رہے ہیں۔
نااہل رہبروں اور سسٹم کی فیلیئر کی وجہ سے آج وشو گرو کی جو حالت ہے دنیا دیکھ رہی ہے ۔ بلا تفریق مذہب کئی ملکوں نے بھارت کی اس مشکل وقت میں مددکی ہے اور کررہی ہے۔جن میں مسلم ممالک صف اول میں کھڑے ہیں۔ شاید نفرت پھیلانے والوں کو کچھ عقل آئے کہ انسانیت زندہ آپ کے مذہب کی وجہ سے نہیں ہوتا ہے بلکہ آپ کے اچھے کرموں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لیکن اگر عقل کا استعمال آف ہوچکا ہو اوراند بھکتی چَرَمْ پر ہوتو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے آپ آخری خون کی بوند تک انسانی خدمت کرتے کرتے دم توڑدیں اس کے باوجود وہ آپ کو غیر ہی سمجھیں گے ، مگر اچھا انسان وہی ہے جو دوسروں کے لیے ہر حالت میں اچھا ہی سوچے اور بھلا ئی کرے۔ بدلا لینا کمال نہیں ہے بلکہ معاف ودرگزر کرکے کسی کے لیے اچھا کرگزرنا کمال ہے۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں جہاں بے شمار مسلمان بغیر بھید بھائو کے ہندئوں کی مدد کررہے ہیں، جہاں خود وہ اپنے لاشوں کو چھونے سے انکار کر رہے ہیں وہاں چند مسلمان مل کر ان لاشوں کو شمشان گھاٹ لے جاکر آخری رسم پوری کررہے ہیں۔لیکن نفرت کے پوجاری ایسے وقت میں بھی اپنے کام میں مگن ہیں۔ فلسطین کے دل دہلانے والے واقعات کے بعد انڈیا میں اسرائیل سپورٹ پر ٹیوٹر ٹرینڈچلتاہے۔ خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ افسوس ہے کہ ایسے وقت میںسوشل میڈیا پر نگاہ رکھنے والی تمام ایجنسیاں آنکھ بند کرلیتی ہیں۔ان کی آنکھیں تو تک کھلتی ہیں جب کوئی بات ان کے مطلب کے برخلاف ہو یاسرکار کے خلاف ہو اگرچہ ملک کے خلاف ہویا نہ ہویا اٹھانے والی باتیں ملک کے تئیں فائدہ مند ہی کیوں نہ ہوں۔ملک کو زعفرانی پالیسی ، گلابی سوچ،نفرتی سیاست اور دوخی رویے نے آج اس دہانے پر پہنچایاہے۔ شاعر نے بجا فرمایاہے:
ہمارے ملک کے رہبر نشے میں چور رہتے ہیں
اگر یہ ہوش میں ہوتے تو وطن میلا نہیں ہوتا
٭٭٭
Also read