9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
مولانا جاوید حیدر زیدی
مغفرت اور نورانی شب آگئی جس کا انتظار ہر مسلمان کو ہوتا ہے، وہ شب اپنی فضیلتوں اور نعمتوں کے ساتھ آگئی جس شب کے بارے میں اللہ فرشتوں سے کہہ رہا ہے کہ جاو اور ندا دو کہ کیا کوئی حاجت مند، مشکلات میں گرفتار، گناہوں میں شرابور، غم کا مارا، زمانہ کا ٹھکرایا بندا ہے جسے اس شب کی عظمت و برکت کے طفیل میں بخش دیا جائے۔
شب قدر وہ رات ہے کہ جو ہزار مہینوں سے افضل ہے اور فرشتے اس رات میں اللہ کے اذن سے زمین پر نازل ہوتے ہیں اور بندوں کے سارے سال کے مقدورات کو معین کرتے ہیں ۔ اس رات کا ماہ مبارک میں موجود ہونا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت پر بہت بڑا اللہ کا لطف اور احسان ہے۔ جسکا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔
انسان کے سال بھر کے مقدرات (انسان کی موت و حیات اور رزق وغیرہ) اس کی صلاحیت کی بنا پر تحریر کئے جاتے ہیں۔ اس رات انسان تفکر اور تدبر کے ذریعے اپنے آپ میں تبدیلی لا سکتا ہے، سال بھر کے اپنے اعمال کا وزن کرتا ہے اور مناسب مقدمات فراہم کرکے اپنی سرنوشت کو بہترین صورت میں ڈھال سکتا ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشادِ گرامی ہیں، ماہ رمضان کی انیسویں کی رات کو انسان کی تقدیر، اکیسویں رات کو اس کو محکم کیا جاتا ہے اور تئیسویں کی رات کو اس تقدیر پر دستخط ہوتے ہیں۔
جس طرح شب قدر کا ادراک مشکل ہے اسی طرح اس کی منزلت کو سمجھنا بھی دشوار امر ہے جس کی حقیقت کو صرف وہی لو گ بیان کر سکتے ہیں جنہیں اس شب کا ادراک ہو چکا ہو ، کیوں کہ قرآن پیغمبر اکرم (ص) کو مخاطب کر کے فرماتا ہے : “وما ادراک ما لیلۃ القدر ” اے پیغمبر! آپ کو کیا معلوم شب قدر کیا ہے ؟
اس کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ رات “ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ” ھزار مہینہ تریاسی سال بنتے ہیں یعنی ایک رات کی عبادت تریاسی سالوں کی عبادت سے افضل ہے اس کے علاوہ بھی اس کی دیگر فضیلتیں ہیں جن میں سے چند فضیلتیں مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ قرآن کا نزول
جب ہم قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر پہنچتے ہیں ” شہر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن “ (بقرہ۔ ۱۸۵) تو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ پورا قرآن اسی ماہ میں نازل ہوا ہے ۔
اور اسی طرح سورہ قدر کی آیت سے بھی واضح ہوا : ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا “۔ (انّآ انزلناہ فی لیلة القدر)
یہ الگ بات ہے کہ اس آیت میں صراحت کے ساتھ قرآن کا نام ذکر نہیں ہوا ، لیکن یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ ” انّا انزلناہ“ کی ضمیر قرآن کی طرف لوٹتی ہے اور اس کا ظاہری ابہام اس کی عظمت اور اہمیت کے بیان کے لیے ہے ۔
” انّا انزلناہ“ ( ہم نے اسے نازل کیا ہے ) کی تعبیر بھی اس عظیم آسمانی کتاب کی عظمت کی طرف ایک اور اشارہ ہے جس کے نزول کی خدا نے اپنی طرف نسبت دی ہے مخصوصاً صیغہ متکلم مع الغیر کے ساتھ جو جمع کامفہوم رکھتا ہے ، اور یہ عظمت کی دلیل ہے ۔
اس کا شب” قدر“ میں نزول وہی شب جس میں انسانوں کی سر نوشت اور مقدرات کی تعین ہوتی ہے ۔ یہ اس عظیم آسمانی کتاب کے سرنوشت ساز ہونے کی ایک اور دلیل ہے۔
اس آیت کو سورہ بقرہ کی آیت کے ساتھ ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شب قدر ماہ مبارک رمضان میں ہے ، لیکن وہ کون سی رات ہے قرآن سے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا۔
یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا یے اور وہ یہ ہے کہ تاریخی لحاظ سے بھی اور قرآن کے مضمون کے پیغمبر اکرم کی زندگی سے ارتباط کے لحاظ سے بھی یہ مسلم ہے کہ یہ آسمانی کتاب تدریجی طور پر اور ۲۳ / سال کے عرصہ میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ بات اوپر والی آیات سے جو یہ کہتی ہیںکہ ماہ رمضان میں اور شب قدر میں نازل ہوئی، کس طرح ساز گار ہوگی؟
اس سوال کا جواب:۔ جیسا کہ بہت محققین نے کہا ہے ۔ “کہ قرآن کے دو نزول ہیں ۔”
۱۔ نزول دفعی : جو ایک ہی رات میں سارے کا ساراپیغمبراکرم کے پاس قلب پریا بیت المعمور پر یا لوح محفوظ سے نچلے آسمان پر نازل ہوا۔
۲۔ نزول تدریجی : جو تیئس سال کے عرصہ میں نبوت کے دوران انجام پایا ۔ ( ہم سورہ دُخان کی آیہ ۳ جلد ۱۲ تفسیر نمونہ ص ۲۶سے آگے اس مطلب کی تشریح کے چکے ہیں )۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آغازِنزول ِ قرآن شب قدر میں ہواتھا، نہ کہ سارا قرآن ، لیکن یہ چیز آیت کے ظاہر کے خلاف ہے ، جو کہتی ہے کہ ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن کے نازل ہونے کے سلسلے میں بعض آیات میں ” انزال“ اور بعض میں ” تنزیل“ تعبیر ہوئی ہے ۔ اور لغت کے کچھ متنوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ” تنزیل “ کا لفظ عام طور پر وہاں بولا جاتا ہے جہاں کوئی چیز تدریجاًنازل ہو لیکن ” انزال “ زیادہ وسیع مفہوم رکھتا ہے جو نزول دفعی کو بھی شامل ہوتا ہے ۔
۲۔ تقدیر کا معین ہونا
امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: “التقدیر فی لیلۃ القدر تسعۃ عشر والابرام فی لیلۃ احدیٰ و عشرین والامضاء فی لیلۃ ثلاث و عشرین “انیسویں شب میں تقدیر لکھی جاتی ہے ،اکیسویں شب میں اس کی دوبارہ تائید کی جاتی ہے اور تیئیسویں شب میں اس پر مہر اور دستخط لگائی جاتی ہے۔
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: ” شب قدر میں جو بھی سال میں واقع ہونے والا ہے سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے نیکی،برائی، نفع و نقصان رزق اور موت اسی لئے اس رات کو لیلۃ القدر کہا جاتا ہے۔”
اللہ نے انسان کو اپنی تقدیر بنانے یا بگاڑنے کا اختیار خود انسان کے ہاتھ دیا ہے وہ سعادت کی زندگی حاصل کرنا چاہے گا اسے مل جائے گی وہ شقاوت کی زندگی چاہے گا اسے حاصل ہو جائے گی۔
اللہ سے اپنے خطاؤں کے بارے میں دعا اور راز و نیاز کےذریعہ معافی مانگے گا یقینا اس کی تقدیر بدل جائے گی اور امام زماں (ارواحنا فداہ) اس تقدیر کی تائید کریں گے، اور جو کوئی شقاوت کی زندگی چاہے وہ شب قدر میں توبہ کرنے کے بجائے گناہ کرے، یا توبہ کرنے سے پرھیز کرے، تلاوت قرآن، دعا اور نماز کو اھمیت نہیں دے گا، اسطرح اس کے نامہ اعمال سیاہ ہوں گے اور یقینا امام زماں (ارواحنا فداہ) اسکی تقدیر کی تائید کریں گے۔
جو کوئی عمر بھر شب قدر میں سال بھر کے لئے سعادت اور خوشبختی کی تقدیر طلب کرنے میں کامیاب ہوا ہوگا وہ اسکی حفاظت اور اس میں اپنے لئے بلند درجات حاصل کرنے میں قدم بڑھائے گا اور جس نے شقاوت اور بد بختی کی تقدیر کو اختیار کیا ہوا وہ توبہ نہ کرکے بدبختی کی زندگی میں اضافہ کرے گا۔
شب قدر کے بارے میں اللہ نے تریاسی سالوں سے افضل ہونے کے ساتھ ساتھ اس رات کو سلامتی اور خیر برکت کی رات قرار دیا ہے۔ ” سلام ھی حتی مطلع الفجر” اس رات میں صبح ہونے تک سلامتی ہی سلامتی ہے اس لئے اس رات میں انسان اپنے لئے دنیا اور آخرت کے لئے خیر و برکت طلب کرسکتا ہے۔
اگر دل کو شب قدر کی عظمت اور بزرگی کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
جس شب کے بارے میں اللہ ملائکہ سے کہہ رہا ہے کہ جاو اور فریاد کرو کہ کیا کوئی حاجت مند، مشکلات میں مبتلا، گناہوں میں گرفتار بندہ ہے جسے اس شب کے طفیل بخش دیا جائے ؟ اگر اس نقطے کی طرف توجہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ یہ رات ایک عمر بھر کی مخلصانہ عمل سے افضل ہے،اس بات کو نہیں بھولتے ہیں کہ یہ رات تقدیر لکھنے کی رات ہے، یہی وہ رات ہے جس میں بندہ اللہ کی نظر رحمت کو اپنی طرف جلب کرکے سعادت دنیا اور آخرت حاصل کرسکتا ہے تو یقینا ہمیں شب قدر کے ثواب حاصل ہوں گے، اس لئے ہمیں چاہیئے فراخدلی کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں تمام عالم کے لئے دعا کریں کہ اے اللہ تم اسے بھی عطا کرتے ہو جو تمہیں مانتا ہے اور اسے بھی عطا کرتا ہے جو تمہیں انکار کرتا ہے اس شب کے طفیل ہم سب کو صراط المستقیم کی طرف ھدایت فرما۔
۳ ۔ لیلۃ القدر دلیل امامت
شب قدر کو شب امامت اور ولایت بھی کہا جاتا ہے کیونکہ خود قرآن کہتا ہےکہ اس رات میں فرشتے، ملائکہ اور ملائکہ سے اعظم ملک روح بھی نازل ہوتے ہیں۔ اس نقطے کو سمجھنا ضروری ہے کہ نازل ہوتے ہیں، نازل ہوئے نہیں۔
کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے : “تنزّل الملائکۃ والروح فیھا” تنزل فعل مضارع ہے، یعنی نازل ہوتے ہیں نازل ہوئے نہیں کہا گیا ہے، تو یہ جاننا ضروری ہے کہ کس پر نازل ہوتے ہیں۔ پیغمبر(اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں تو آنحضرت پر نازل ہوتے تھے آنحضرت کے بعد کس پر نازل ہوتے ہیں؟
ظاھر سی بات ہے اس پر نازل ہوں گے جو پیغمبر کے بعد پیغمبر کا جانشین – امام ہی ہوگا، جو معصوم ہوگا، جو صاحب ولایت ہو گا، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام پر نازل ہوتے تھے اور حضرت علی علیہ السلام کے بعد حضرت حسن مجتبی اور آپ کے بعد حضرت حسین اور آپ کے بعدحضرت علی زین العابدین اور آپ کے بعد حضرت محمد باقر اور آپ کے بعد حضرت جعفر صادق اور آپ کے بعد حضرت موسی کاظم اور آپ کے بعد حضرت علی الرضا اور آپ بعد حضرت محمد جواد اور آپ کے بعد علی النقی اور آپ کے بعد حسن عسکری علیہم السلام اور آپ کے بعد قطب عالم امکان مھدی آخر الزمان (ارواحنافداہ) کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، اور انسانوں کے سال بھر کے مقدرات بیان کرتے ہیں۔
شب قدر امامت اور اس کی بقاء اور جاودانگی پر سب سے بڑی دلیل ہے، متعدد روایات میں وارد ہوا ہے کہ شب قدر ہر زمانے میں امام کے وجود پر بہترین دلیل ہے اس لئے سورہ قدر کو اہلبیت(ع) کی پہچان کہا جاتا ہے،جیسا کہ بعض روایات میں بھی وارد ہوا ہے۔
علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ در حقیقت شب قدر ہر سال آتی ہے اور امر خدا ہر سال نازل ہوتا ہے اور اس امر کے لئے صاحب الامر بھی موجود ہے۔
جب آپ سے دریافت کیا گیا کہ وہ صاحب الامر کون ہے تو آپ (ع) نے فرمایا : ” انا و احد عشر من صلبی ائمۃ محدثون ” (میں اور میرے صلب سے گیارہ دیگر ائمہ جو محدث ہیں) محدِّث یعنی ملائکہ کو آنکھوں سے نہیں دیکھتے لیکن ان کی آواز سنتے ہیں ۔
اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ شب قدر شب ولایت اور امامت ہے اور جن روایات میں شب قدر کی تفسیر فاطمہ زہرا(س) سے کی گئی ہے ان کا بھی معنیٰ واضح ہے کہ شب قدر ولایت اور امامت کی شب ہے اور امامت و ولایت کی حقیقت فاطمہ زہرا (س) کی ذات گرامی ہے۔
۴۔ گناہوں کی بخشش
اس رات کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں گناہگاروں کی بخشش ہوتی ہے لہذا کوشش کریں کہ اس عظیم شب کے فیض سے محروم نہ رہیں، وائے ہو ایسے شخص پر جو اس رات میں بھی مغفرت و رحمت الٰہی سے محروم رہ جائے جیسا کہ رسول اکرم کا ارشاد گرامی ہے : “من ادرک لیلۃ القدر فلم یغفر لہ فابعدہ اللہ” جو شخص شب قدر کو درک کرے اور اس کے گناہ نہ بخشے جائیں اسے خداوند عالم اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے ۔
7524883093
ضضض