خوش آمدید ! اے شہرِ رمضان- Welcome ! O city of Ramadan!

0
402

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


Welcome ! O city of Ramadan!

ڈاکٹر محمد ظفر حیدری
وہ دور بہت دور آسمانوں کے اس طرف سے اپنے دامن میں گل و ہلال،رحمت و مہلت اور تحریر و تقدیر کا سرمایا لئے آرہا تھا۔اس لئے ملائکہ کی عظیم فوج سے گذرتے ہوئے عرش کے بلند ستونوں کو طے کیا اور آسمانوں کا سینہ چاک اور اپنے ہلال ماہ بے شمار درخشاں ستاروں کی آغوش میں رکھ دیا اور خود آہستہ آہستہ شہر کے چھوٹے بڑے گھروں میں داخل ہوگیا اور سارے شہر کو گل بدامان کردیا۔
رمضان المبارک کا مہینہ پہنچتے ہی اسکے مشتاقوں کا چہرہ خوشی سے کھلِ اٹھتا ہے اور اس کے عارفوں کے دلوں میں جشنِ دعا کا آغاز ہوتا ہے۔روزہ کے لاتعداد جسمانی ،نفسیاتی اور روحانی فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ روزہ دار کی خود اعتمادی کو تقویت بخشتا ہے۔ اسکے باطن میں چھپے روحانی طاقت کے خزانے کو آشکار کردیتا ہے۔ چنانچہ جب ایک مسلمان ماہِ رمضان کے دوران مختلف موسموں میں مختلف تکالیف برداشت کرکے صبرو رضا کی انمول نعمت سے آشنا ہوتا ہے، توآشنائی اسے روحانی قوت درک کرنے اور اسکاصحیح استعمال کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہوتی ہے۔جون جولائی کی گرمی میں جب چندگھڑیوں بعد ہی انسان کو پانی کی طلب محسوس ہوتی ہے۔ روزہ دار دن بھر پیاس کی شدت کو برداشت کرکے گویا بزبان ِحال کہتا ہے کہ زندگی کا سفر رضائے الہٰی کے تحت طے کر سکتا ہوں خو اہ سحرائے زیست میں پیاسا بھی رہناپڑے۔ کڑاکے کی سردی میں جب دیر تک بستر سے باہر آنے کو جی نہیں چاہتا ہے روزہ دار سحر کو ہی اٹھ کربادِ سحر گاہی کے سرد جھونکوں سے ایک طرف اپنے دل میں روشن ایمانی شعلوں کو تیز ترکردیتا ہے۔ اور دوسری طرف ہوائے خزاں سے عبدیت کے چمنستان میں عبادت کے پھولوں کومہکانے کے لیئے بادِ نوبہار کا کام لیتا ہے۔ الغرض جتنے بھی صبرآزمامراحل سامنے آجاتے ہیں۔ روزہ دار کی خوداعتمادی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
خود اعتمادی انسانی حیات کا لازمی جز ہے بغیر اسکے زندگی میں پیش آنے والے امتحانوں اور آزمائشوں کا سامنا کرنا نا ممکن ہے۔ زندگی کے ہر گام پر خود اعتمادی کا ساتھ ناگزیر ہے اسی سے انسان کی عمومی اور مخصوص صلاحیتوںمیںنکھارآجاتا ہے۔خوداعتمادکادارومداردوعناصرپرہے (۱)خارجی امداد (۲)ذاتی صلاحیت و محنت ! مادی اور روحانی ترقی کی حصولیابی کے لیئے انسان ذاتی طور ناقص ہے۔ نظام حیات کو چلانے اور اسمیں توازن برقراار رکھنے پر عقل انسانی پوری طرح قادر ہوتی ۔ تو خدا وند کریم کو عالم ِ انسانیت کی رہنمائی کی خاطر انبیاء و مرسلین ؑ مبعوث فرمانے کی ضرورت ہی کیاتھی؟ واضح ہوا کہ کوئی بھی عمل صالح اپنی کوشش اور خدا کے توفیق کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ماہِ رمضان میں ایک روزہ دار ذاتی استعداد کے مطابق جہاں صبح و شام نیک اعمال میں محو اور مشغول رہتا ہے۔ وہاں بیرونی امداد کے بطور اُسے اپنے معبود کی جانب سے کچھ اس طرح کا روح پرور ماحول نصیب ہوتا ہے کہ جسمیں تمام شیاطین قید کرلیئے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کرلیئے جاتے ہیں۔ جنت کے تمام دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے۔ فضاء میں مسلسل یہ صدائی گونجتی رہتی ہیں۔ کہ ہے کوئی مانگنے والا جسکو عطاکروں، ہے کوئی توبہ کرنے والا جسکی توبہ میں قبول کروں، ہے کوئی مغفرت چاہنے والا جسکی مغفرت کروں۔
کہا جاتا ہے کہ’’اگر تم سے کہا جائے کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑکر دوسری جگہ پر آگیا اس پر یقین کرو برعکس اس کے کہ کسی نے اپنی عادت ترک کردی”بری عادت کو ترک کرنا کچھ زیادہ ہی مشکل ہے۔ یہ روزہ ہی ہے جو روزہ دار کی خود اعتمادی کو اس حد تک لے جاتا ہے کہ وہ اپنی روزمرہ کی عادتوں کو ترک کرکے صرف حکمِ الٰہی کا پابند ہوکر رہ جاتا ہے۔عادت کو ترک کرنے کیلئے مستحکم ارادے کی ضرورت ہوتی ہے رمضان المبارک میں ارادوں کے استحکام کی مشق ہوتی ہے جسے ایک روزہ دار مسلسل تیس روزتک گزرتا ہے اپنے معمولات میں یکسر تبدیلی لانا اور پھر اس پر ایک ماہ تک لگاتار ڈٹے رہنا عزم بالجزم کا متقاضی ہے اور اس تقاضے کو جو مرد مومن بخوبی پورا کرے اس کے لئے بہت ہی آسان ہے کہ وہ اپنی غیر مستحسن عادتوں کو مستقلاً ترک کر دے ۔
تقدیر کے پابند ہیں جمادات و بناتات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
(علامہ اقبالؒ)
حضرت رسولؐ اور ائمہؑ سے منقول ماہ رمضان کے نئے چاند کے بارے میں دعائیں اس مہینے کی عظمت،اسکے پہنچنے پر اظہار مسرّت اور اس عظیم مہینے میں صحیح و سلامت رہنے کی درخواست کو ظاہر کرتی ہیں۔جیسا کہ حضرت امام جعفر صادقؑ ہلال ماہ رمضان دیکھ کر فرماتے ہیں:
الٰھم اھلہ علینا یا لا من والا یمان والسلامۃ والااسلام
اے خدا!رمضان کے مہینے کو سلامتی،ایمان، تندرستی اور اسلام کے ساتھ ہم پر آشکار فرما۔
سعید بن سالم فرماتے ہیں:حضرت امام باقرؑ کے حضور میں تھے اور رمضان کے بارے میں باتیں ہو رہی تھیں۔حضرت نے فرمایا:
’’مت کہو کہ یہ رمضان اور مت کہو کہ رمضان آیا اور چلا گیا،کیونکہ رمضان خدائے تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے،جو نہ آتا ہے اور نہ جاتا ہے،آنے اور جانے والی چیززایل اور نابود ہونے والی ہے۔بلکہ کہو ماہ رمضان ،کیوں کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں خدا وند تعالیٰ نے قرآن کو نازل فرمایا اور اسکو اپنے اولیأ کے لئے عید اور مسرّت قرار دیا ہے۔‘‘
امام سجادؑ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے ،کہ خدا وند تعالیٰ نے ماہ رمضان کو دوسرے مہینوں پر فضیلت کیوں بخشی فرماتے ہیں:
’’فأبان فضیلۃ علی سائر الشھور بما جعل لہ۔۔۔۔۔
’’اس کی فضیلت کو دوسرے مہینوں پر اس طرح آشکار کیا کہ جو کچھ دوسرے مہینوں میں حلال ہے اسے اس مہینے میں حرام قرار دیا اور اس کے لئے ایک معین اور خاص وقت مقرر کیا اور وہ اسے جائز نہیں سمجھتا کہ یہ وقت مقدم یا مؤخر ہو اور نیز اس مہینے کی راتوں میں سے ایک رات کو ہزار مہینوں پر فضیلت دی ہے اور اس کو شبِ قدر کا نام دیا ہے۔‘‘
حضرت رسولؐ سے ایک حدیث روایت کی جاتی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:’’رمضان کے مہینے کا نام اس لئے رمضان رکھا گیا ہے کہ رمضان ’’یرمض الذنوب‘‘ہے یعنی گناہوں کو جلاڈالتا ہے’’بخش دیتا ہے۔‘‘لفظ ’’رمض‘‘کے استعمال میں ایک خاص اہتمام ہے کیونکہ آگ کی فطرت میں تیزی سے نکلنا اور نابود کردینا ہے۔اس مہینے میں خطائیں بھی بخشش الٰہی کی آگ میں جل جاتی ہیں۔‘‘
حضرت رسولؐ اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس ماہِ مبارک میں جس کا اخلاق درست رہے گا وہ پُلِ صراط پر آسانی سے گذر جائے گا،جبکہ اس دن ہر ایک کے قدم ڈگمگاتے رہیں گے۔ لوگوں کو چاہئے کہ جھوٹ ، غیبت، چغلخوری، جھوٹی قسم، نگاہِ شہوت، حسد ، مباشرت، غصّہ و غضب، لڑائی، بد کلامی و دل آزاری، شقاوت و ظلم اور ترش روی سے پرہیز کر کے خاموشی و برد باری، صبر و استقامت کو اپنا شعار بنانا چاہئے۔ اہلِ شر سے دوری، گانے بجانے، بدظنی سے اجتناب کرو۔آخرت کی فکر اللہ سے ملاقات کرواتی ہے۔بعض جاہل اور کم فہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رسولؐ کا ارشاد صرف رمضان المبارک پر صادق آتا ہے ۔لیکن یہ اُن کی سراسر کم علمی اور کم عقلی ہے کہ وہ اس طرح سوچتے ہیں۔ جیسا کہ ہم اوپر کہہ چکے ہیں کہ رمضان المبار ک کا مہینہ ایک ٹرینگ کی حیثیت رکھتا ہے اور ٹرینگ کے دوران ایک ٹرینی کو مختلف مراہل اور کئی نشیب و فراز سے گذر نا پڑتا ہے۔ حضرت امام جعفر صادقؑ نے فرمایا کہ روزہ صرف کھانے پینے سے اجتناب کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے کان، زبان، آنکھ، نگاہ اور دیگر اعضأ جسم و باطنی کو بھی روزہ دار بنانا چاہئے۔ ظاہری و باطنی اعضأ و جوارع کو خشوع و خصوع کے ساتھ اپنے مالکِ حقیقی کے سامنے ایسے حاضری دو جیسے ایک خطا کار و خوف زدہ غلام اپنے آقا کے حضور میں حاضری دیتا ہے۔ روزہ دار کو چاہئے کہ جملہ عیوب سے پاک و صاف اور جسم پرکسی قسم کی گندگی و غلاظت سے صاف ہو کر غیر اللہ سے برأت کرکے اللہ سے محبت کا ثبوت دے۔ اور یاد رہے کہ پوشیدہ اور علانیہ کسی صورت میں بھی گناہ تم سے سر زد ہونے نہ پائیں، تب سمجھو کہ تم صحیح معنوں میں روزہ دار ہو اور اللہ کی پیروی کی ہے۔
روزہ انسان کی صحت کا بھی ضامن ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ:روزہ رکھو تا کہ تم صحت مند ہوجائو،روزہ معبود سے عبد کی دائمی ارتباط کا عہد و پیمان ہے۔روزہ اخلاقی فضائل و نفسیاتی محاسن کی تربیت گاہ ہے۔روزہ قوّت ارادی میں استحکام لاتا ہے۔روزہ صبر و برداشت کی قوّت اور بھوک اور پیاس سہنے کی ہمت بخشتا ہے۔روزہ شہوتوں پر غالب آنے کا مادّہ عطا کرتا ہے۔روزہ عملی و فکری جمود کو ختم کر کے بیداری و خود اعتمادی کی دولت سے مالامال کرتا ہے ۔روزہ دار اپنے عزم و ارادے کا مالک و مختار ہوتا ہے۔ روزہ اعضائے جسم کے افعال میں تحرک اعتدال لاتا ہے اور اعضأ کو آرام بخشتا ہے۔روزہ جسمانی طاقت برقرار رکھنے کے لئے بدن کی فطری طاقت و قوّت کو ضیاع سے محفوظ رکھتا ہے۔
اگر چہ روزے کے کافی جسمانی و روحانی فوائد سے ہم سب واقف ہیں، لیکن بعض افراد ،روزہ کا نام سنتے ہی ہزار بہانے تراشنہ شروع کر دیتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لئے مولانامرزا محمد اشفاق شوقؔ لکھنوی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
کیا خوب مصیبت میں گرفتار ہوئے
خود اپنے لئے باعث آزار ہوئے
تھے اچھے بھلے آخرِ شعباں تک شوقؔ
ماہِ رمضان آیا تو بیمار ہوئے
ان دعائیہ کلمات کے ساتھ ہم اپنی بات تمام کرتے ہیں کہ
خدایا! رمضان کا مہینا تیرا مہینہ ہے،ہم تیرے مہمان ہیں، ہمیں توفیق عنایت فرما کہ اس مہینے میں ہم تمام اچھے کام انجام دیں ،تیرے قریب آئیں اور گناہوں سے دور رہیں۔
خدایا!تونے خود فرمایا ہے کہ سائل اور محتاج کو خالی ہاتھ نہیں لوٹانا چاہئیے۔میں بھی تیری درگاہ کا ایک سائل ہوں ،مجھے بھی خالی ہاتھ مت لوٹا!
خدایا!میری تجھ سے درخواست ہے کہ ہلال ماہ رمضان کو میرے لئے نیکی،برکت اور پاکی کا ایک ایسا ہلالی بنادے جس کو گناہ داغدار نہ بنا سکے اور جس کو گذشت ایام گھٹا نہ سکیں۔
رابطہ:9596267110

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here