حفیظ نعمانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اس معاملہ میں پروردگار کا شکر ادا کرتے تھے کہ ہمارے عالموں اور مدرِّسوں کے اوپر ایسا کوئی الزام نہیں ہے جیسا ملک کے مختلف شہروں میں اپنے کو بابا اور بھگوان کہلانے والوں پر لگ رہا ہے۔ اور میڈیا اس کی تفصیل مزہ لے لے کر سنا رہا ہے اور دکھا رہا ہے کہ بابا کون ہیں کس عمر کے ہیں آشرم کیسا ہے اور وہاں کس کس عمر کی عورتیں اور لڑکیاں ہیں جن کے بیانات سے مذہب کے پابند لوگ کیسے شرمندہ ہورہے ہیں؟
آج کے اخباروں میں لکھنؤ کے محلہ یاسین گنج میں واقع ایک لڑکیوں کے دینی مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ للبنات کے بارے میں شرمسار کرنے والی وہ خبر آہی گئی جس کے بارے میں سنجیدہ مسلمان اس لئے فکرمند رہتے تھے کہ شہر میں لڑکیوں کے دینی مدرسے جگہ جگہ کھل رہے ہیں اور وہ بھی مدرسہ والوں کی آمدنی کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
شاید پچاس سال پہلے کی بات ہے کہ مالے گائوں سے ایک خبر آئی تھی کہ مولانا عبدالحمید نعمانی نے لڑکیوں کا ایک دینی مدرسہ کھولا ہے جس میں درس نظامیہ کا وہی نصاب پڑھایا جائے گا جو عربی مدرسوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ یہ تو یاد نہیں کہ کب لکھنؤ کے ہومیو پیتھک ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ مہپت مئو میں ایک لڑکیوں کا دینی مدرسہ مالے گائوں کے طرز پر کھول رہے ہیں۔ کسی نے یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کی ایک صاحبزادی مالے گائوں میں تعلیم پاکر آئی ہیں اور وہی مدرسہ کی نگراں ہوں گی۔ مدرسہ اس وقت سے اب تک ہے اور شمالی ہندوستان میں وہی پہلا مدرسہ ہے۔ وہاں سے جب لڑکیاں عالمہ بن کر نکلیں تو جو جہاں کی تھی وہاں مدرسہ کسی نے کھولا اور شہر شہر لڑکیوں کے مدرسے کھل گئے۔ جن میں وہ بھی تھے جو دینی تعلیم اور لڑکیوں کو دینی علم سے واقف کرانا چاہتے تھے اور وہ بھی تھے جو اسے کاروبار کی طرح چلاتے تھے۔
اب تک یہ کہیں سے خبر نہیں آئی تھی کہ کسی مدرسہ میں نگراں یا ذمہ دار مرد بھی ہیں۔ مردوں کا تعلق ہوتا تھا لیکن وہ مدرسہ کی عمارت اور لڑکیوں کی بورڈنگ سے دور دور ہوتا تھا یہ خبر پہلی بار سامنے آئی کہ قاری طیب ضیا اشرفی لڑکیوں سے پائوں دبانے کی فرمائش کرتے تھے اور یہ سید جیلانی اشرف صاحب کون ہیں جنہوں نے مدرسہ کے لئے زمین دی اور مدرسہ بنایا اور قاری طیب ضیا کے اس طرح سپرد کردیا کہ ان کا نہ کسی سے پردہ رہا اور نہ اس کا لحاظ کہ مدرسہ دین کی تعلیم کے لئے ہے؟
اُترپردیش حکومت کا عربی فارسی بورڈ انگریزوں کے زمانہ سے چل رہا ہے ملک کی آزادی کے بعد جب سنسکرت کے لئے فنڈ دیا گیا تو ووٹ کی خاطر عربی فارسی بورڈ کو بھی روپیہ دیا گیا اور پورے اُترپردیش میں مدرسوں کا جال بچھ گیا جس میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کہاں دین کی تعلیم دی جاتی ہے اور کتنے مدرسے ہیں جو پڑھانے والوں کو سرکاری معیار کی تنخواہیں، پڑھنے والوں کا راشن اور وظیفہ اور نہ جانے کیا کیا حکومت سے ملنے لگا۔ لڑکوں کے مدرسوں کو دیکھ کر شاطر لوگوں نے لڑکیوں کے بھی عربی فارسی مدرسے کھول دیئے اور حکومت سے وہ سب لینے لگے جو لڑکوں کے مدرسوں کو ملتا ہے۔ اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ جب حرام بیج بویا جائے گا حرام کھاد اور حرام پانی ڈالا جائے گا تو پھر حرام ممبر کیوں نہیں آئیں گے؟
ہم کیسے کہہ دیں کہ حقیقت کیا ہے محلہ کے لوگوں نے جب کہا کہ لڑکیاں پرچے لکھ کر پھینک رہی تھیں تو کیوں یقین نہ کیا جائے۔ اور اگر پائوں دبوانے اور چھیڑچھاڑ کا الزام غلط بھی ہو تو دس پندرہ سال کی لڑکیوں کے درمیان کوئی بھی مرد چاہے وہ استاذ ہو یا چپراسی وہ اندر کیوں ہے؟ اور وہ نگراں خواتین کہاں ہیں جو اُن کو پڑھانے اور ان کی ہر ضرورت اور پریشانی دور کرنے کیلئے زنانہ مدرسوں میں رکھی جاتی ہیں؟ یہ مسلمان محلے والوں کا فرض ہے کہ اگر ان کے محلے میں کوئی اسکول ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں اور اگر کوئی دینی مدرسہ وہ بھی لڑکیوں کا ہو تو شرعی ذمہ داری سمجھیں اور کوئی غلطی دیکھیں تو اسے بند کرادیں۔
برسوں پہلے الہ آباد کے کریلی کالونی میں لڑکیوں کے ایک مدرسہ پر مسلمان بدمعاشوں کے ایک گروہ نے چڑھائی کردی تھی شہرت کی حد تک معاملہ دو برادریوں کا تھا لڑکوں کا ارادہ بعد میں معلوم ہوا کہ صرف ایک برادری پر دبائو بنانا تھا الہ آباد کے مسلمانوں نے وہ کیا جو ہر مسلمان کو کرنا چاہئے۔ گرفتاریاں ہوئیں سزا ہوئی اور پوری طرح فسادی لڑکوں کو توڑ دیا گیا۔
ڈاکٹر قریشی صاحب کے مدرسہ کو چالیس برس کے قریب ہوگئے ہوں گے یا ہونے والے ہوں گے اس مدرسہ میں سنبھل کی ہماری عزیز بچیاں بھی پڑھ کر عالمہ ہوکر نکلیں کسی نے یہ نہیں کہا کہ مدرسہ کی عمارت کے اندر کبھی انہوں نے کسی مرد کو دیکھا۔ اب برسوں سے اس کی نگرانی ڈاکٹر محمد شعیب کررہے ہیں اور انہوں نے نیک نامی پر داغ نہیں لگنے دیا ہے۔ اور نہ انہوں نے اپنے مدرسہ کا عربی فارسی بورڈ سے الحاق کرایا ہے۔
مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ للبنات کی شکایت قاری کہے جانے والے کی گرفتاری اور یرغمال بنانے کی خبر پر حیرت ہے کہ جن لڑکیوں کے ماں باپ نے انہیں داخل کرایا تھا وہ پڑھنے کیلئے تھا بابا کے آشرم میں روحانی مدارج طے کرنے کیلئے نہیں بھیجا تھا۔ مدرسوں کی لڑکیاں نہ آزاد ہوتی ہیں اور نہ ایسی پابند کہ وہ اپنے گھر سے رابطہ نہ کرسکیں وہ اپنے محرم رشتہ دار کے ساتھ جاسکتی ہیں اور شہر میں رشتہ دار ہیں اور ماں باپ کی اجازت ہے تو چھٹیوں میں وہاں جاسکتی ہیں یرغمال بنانے کی یہ پہلی خبر ہے جو کسی مدرسہ سے آئی ہے اس پر حکومت اپنی سختی دکھائے اور مسلمانوں کو اپنا فرض ادا کرنا چاہئے۔ اور ذمہ دار مسلمانوں کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ یہ مدرسہ پر قبضہ کا تنازعہ تو نہیں ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس مسئلہ کو صاف کردینا چاہئے تاکہ دینی ادارے پر داغ نہ لگے۔