9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
شکیل رشید
سڑکوں پر گہرا سنّاٹا پسرا ہوا ہے !
اکادُکا موٹر گاڑیاں اور چلتے پھرتے کچھ لوگ اس سنّاٹے کا حصہ بنے ہوئے ہیں ۔ ممبئی سمیت سارے مہاراشٹر میں دو دن کے لاک ڈاؤن کی شروعات ہوچکی ہے ۔لاک ڈاؤن جمعہ کی شب ۸ بجے سے شروع ہوا ہے ۔ یہ سنیچر اور اتوار کو رات اور دن جاری رہے گا ، اور پیر کی صبح ۸ بجے ختم ہوگا ۔۔۔ کہنے کوتو یہ دو دن کا لاک ڈاؤن ہے لیکن جیسا کہ مہاراشٹر کے وزیرصحت راجیش ٹوپے کا انتباہ ہے ، اور جیسے کہ خود وزیراعلیٰ مہاراشٹر ادھوٹھاکرے نے کہا ہے ، اگر حالات نہ سدھرے تو مکمل لاک ڈاؤن کو 30 اپریل تک بڑھایا جاسکتا ہے ۔ اور حالات تو سدھرنے کا نام نہیں لے رہے ہیں! پھر اس سرکار کا کیا بھروسہ، یہ کہتی کچھ ہے اور کرتی کچھ ہے ۔ جب 30 اپریل تک ’ منی لاک ڈاؤن‘ کا اعلان کیاگیا تھا تب ایک گنجلک سی ’ گائیڈ لائن‘ سامنے لائی گئی تھی ، حکومت کی طرف سے یہ اعلان ہوا تھا کہ سنیچر اور اتوار کو مکمل لاک ڈاؤن ہوگا ، باقی کے دنوں میں ’ سختی برتی جائے گی‘ لیکن ہوا یہ کہ باقی کے دنوں میں سختی کے نام پر تمام ہی دکا نوں اور تجارتی مراکز بند کردیئے گئے، یہاں تک کہ سبزیوں کی دکانیں بھی جبراً بند کرادی گئیں ۔ ممبئی میں جگہ جگہ مظاہرے ہوئے اور اب ادھو سرکار نے یہ وعدہ کیا ہے کہ پیر سے ’آسانیاں‘ فراہم کی جائیں گی ، لیکن کسی کو یقین نہیں آرہا ہے کہ ’ آسانیاں‘ فراہم ہوں گی ،کیونکہ اعلیٰ سرکاری افسران ،پولس کے ذمے داران اور خود وزیر صحت راجیش ٹوپے ،دیگر سیاست دان اور سیاسی پارٹیاں ’ مکمل لاک ڈاؤن‘‘ کا ’ انتباہ‘ دے رہی ہیں ۔
چونکہ اندیشہ یہی ہے کہ عروس البلاد ممبئی میں ’ مکمل لاک ڈاؤن‘ لگ جائے گا اس لئے اپنے ہی ملک میں ’مہاجر‘ کہلانے والے دوسری ریاستوں کے مزدور ، کاریگر، ٹیکسی اور اولا واوبیر چلانے والے ڈرائیور، چھوٹا موٹا دھندا کرنے والے نوجوان سرپر پیر رکھ کر ممبئی چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں ۔ عاشق علی کی مثال لے لیں ، اس نوجوان نے چند مہنے پہلے ہی ڈرائیونگ سیکھی تھی اور لائسنس پانے کے بعد ’اولا‘ چلانے لگا تھا، جس سے اسے کچھ نہ کچھ بچت ہوجاتی تھی، رات میں وہ ریڈی میڈ کپڑوں کے ایک کارخانے میں سوجاتا تھا۔لیکن جب کارخانے کے کاریگر ’لاک ڈاؤن‘ کے خوف سے وطن کوچ کرنے لگے تو اس نے بھی واپسی کا قصد کیا اور لمبی لائن لگاکر ایک گاڑی میں بیٹھ کر یوپی کے باندا ضلع ، جہاں اس کا گھر ہے ، روانہ ہوگیا ۔ روزے سرپر ہیں اس لئے مسلم مزدور اور کاریگر کوئی خطرہ مول لیے بغیر اپنے اپنے ٹھکانوں کو بھاگ رہے ہیں ۔ بہار کے ذوالقرنین کی مثال لے لیں ، کرافورڈ مارکیٹ میں وہ کرایہ پر ایک دکان چلاتا تھا، پہلے تو دھندا مندا ہوا ، پھر ’ منی لاک ڈاؤن‘ نے دھندے کو چوپٹ کردیا۔ اب اگر وہ دکان پر رہتا ہے تو چاہے کچھ کمائے یا نہ کمائے اسے مہینے کا کرایہ جوکئی ہزار روپئے ہے، بھرنا پڑے گا ، لہٰذا اس نے یہ طے کیا کہ وہ رمضان شروع ہونے سے پہلے گھر چلاجائے گا ۔۔۔
مرکزی اور ریاستی سرکاروں نے ’ تاریخ‘ سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے ۔کورونا 2020 میں اپنے پیچھے تباہی وبربادی کی ایک المناک داستان چھوڑ گیا ہے ۔ ہم نے لاکھوں کی تعددا میں ’ مہاجر مزدوروں‘ کو ہزاروں کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرتے ، راستے میں حادثوں میں مرتے ، بھوک اور پیاس سے ہلاک ہوتے دیکھا ہے ۔ ریل کی پٹریوں پر لوگ مرے ہیں ۔ ہم کورونا کی ایک لہر سے گزرچکے ہیں ، ہمارے پاس تجربہ ہے ، ڈاکٹرو ںاور نرسوں نے بہت کچھ سیکھا ہے ، لیکن 2020 کے گزرنے کے بعد مرکزی اور ریاستی سرکاریں کورونا کی پہلی لہر کے تجربات کی بنیاد پر دوسری لہر سے نمٹنے کے لئے کوئی پیش بندی کرنے کی بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی ہیں ۔ مرکز کی مودی سرکار نے ہر الیکشن میں فرقہ پرستی کے جِن کو بوتل سے باہر نکالنے کے سوا کچھ نہیں کیا ہے ۔۔۔ پہلی لہر کے دوران معیشت تباہ ہوگئی تھی اور اب تک سنبھلی نہیں ہے ، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ درست ہوگا کہ معیشت مزید تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے ، مگر مرکزی سرکار نے معیشت کو سدھارنے کے لئے عملی اقدامات نہیں کیے ہیں ۔ جومہاجر پہلی لہر میں لُٹے پٹے اپنے گھروں کو پہنچے تھے ان کی بازآبادکاری اور امداد کے نام پر وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے نہ جانے کتنے ہزار کروڑ کی رقم کا اعلان کیا تھا ، جو بس اعلان ہی تھا۔۔۔ اب دوسری لہر نے ’مہاجر مزدوروں‘ کے لئے حالات بے حد سنگین کردیئے ہیں ۔ انگریزی ہفت روزہ ’ انڈیا ٹوڈے‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق پونے میں ہوٹلوں ، بیئرباروں اور ریستورانوں کے بند ہونے کے سبب 50 فیصد ’ مہاجر مزدور‘ اپنے اپنے وطن لوٹ رہے ہیں ۔
سرکاری ونیم سرکاری دفاتر میں 50فیصد افراد کام کررہے ہیں ، پرائیویٹ دفاتر اکثر بند کردیے گیے ہیں اور جو بند نہیں ہیں انہوں نے اپنے یہاں کام کرنے والوں سے کہہ دیا ہے کہ فی الحال گاؤں چلے جائیں جب دفتر اور کام کھلے گا تب بلالیں گے ۔۔۔ بہار کا 18 سالہ بلرام کمار ایسے ہی ایک دفتر میں کام کرتا تھا، اب وہ وطن واپس لوٹ رہا ہے۔۔۔ ممبئی میںچھترپتی شیواجی مہاراج ٹرمنس ، لوکمانیہ تلک ٹرمینس اور باندرہ ٹرمینس پر وطن واپس لوٹنے والوں کا ہجوم لگا ہوا ہے ۔ انہیں گذشتہ سال کی تباہی وبربادی اور اپنی بے بسی خوب یاد ہے ، جب یہ ’لاک ڈاؤن ‘ کی وجہ سے پھنس گئے تھے اور نہ ان کے پا س کھانے کے لیے کچھ تھا اور نہ ہی سرچھپانے کے لیے کوئی ٹھکانہ ۔ بہت سے ایسے تھے جو دس دس ہزار روپئے بھرکر ٹرکوں کے ذریعے اپنے وطن واپس لوٹے تھے ۔ ویسے محکمہ ریلوے نے شمال کی جانب سے جانے والی ٹرینوں کی تعداد بڑھادی ہے ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ جو واپس ہورہے ہیں ، ابھی ابھی حالات کچھ ٹھیک ہونے کے بعد واپس لوٹے تھے ، یہ اتنا کما بھی نہیں سکے ہیں کہ واپسی کا کچھ بندوبست کرسکیں ۔ لوگ بیمار پڑرہے ہیں ، دواخانوں اور کلینکوں پر قطاریں لگ رہی ہیں اور ڈاکٹر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔ انسانیت جیسے مرچکی ہے ۔ رمضان سے پہلے مالس اور بازار وغیرہ پر لوگ ماسک لگا کراور لائن میں لگ کر خریداری کررہے ہیں ۔ کھانے پینے کی اشیاء کے دام بڑھ گئے ہیں۔ پولس اور میونسپل اہلکاران کورونا ضوابط کے نام پر عوام کی جیبیں کاٹ رہے ہیں ۔۔۔ ہر طرف افراتفری کا عالم ہے ۔ لوگوں میں شدید ترین غصہ ہے ۔ کئی سوال اٹھتے ہیں ۔ کیا مرکزکی مودی سرکار کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ کورونا کی دوسری لہر آسکتی ہے اور دوبارہ ’ مہاجر مزدوروں‘ کی ہجرت شروع ہوسکتی ہے ؟ اگر اندازہ نہیں تھا تو مودی سرکار ناکام ہے ،اور اگر اندازہ تھا تو اس نے کیوں ایسے اقدامات نہیں کیے کہ لوگوں کی روزی روٹی پر ’ منی لاک ڈاؤن‘ یا ’ مکمل لاک ڈاؤن‘ اثر انداز نہ ہوسکے اور لوگ پھر بڑے پیمانے پر ہجرت پر مجبور نہ ہوسکیں؟ کیا ’ لاک ڈاؤن‘ کورونا وائرس سے لڑنے کا موثر ہتھیار ہے ؟ شاید نہیں ، کیونکہ اس سے معیشت تباہ ہوتی ہے اور لوگوں میں مایوسی پھیلتی ہے ۔ مزید یہ سوال اٹھ رہا ہیکہ کیا ریاستی انتخابات پر کورونا کے اثرات نہیں پڑتے ؟ تمل ناڈو اور کیرالہ میں ’ سخت لاک ڈاؤن‘ کا اعلان ہوا ہے مگر ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن ہونے کے بعد! مغربی بنگال کی انتخابی ریلیوں میں کورونا ضوابطہ کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں ۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ بغیر ماسک کے انتخابی ریلیوں سے خطاب کرتے رہے ہیں اور تمام لوگوں کو ماسک نہ پہننے پر جرمانے لگ رہے ہیں ! یہ کورونا سے جنگ کاکون سا طریقہ ہے ؟ کورونا کرفیواگر لگایا گیا ہے تو اس پر سختی سے عمل سب کو کرنا چاہیئے۔ لیکن اس کرفیو کا کیا مطلب ہے ، یہ اگر ایک جانب ’ مہاجر مزدوروں‘ کو بھاگنے پر مجبور کرے گا تو دوسری جانب چھوٹے بڑے کاروباریوں اور تاجروں کی کمر توڑ کر رکھ دے گا ، کیا ملک اس کا متحمل ہوسکتا ہے ؟ ایک سوال مزید ، اگر الیکشن ریلیوں میں ہزاروں افراد شریک ہوسکتے ہیں تو عبادت گاہوں پر پابندی کا کیا مطلب ہے ؟ پانچ وقت کی ، کورونا ضوابطہ پر عمل کے ساتھ ، نمازیں کیوں خطرہ ہیں ، بھجن کیرتن یا گرجا گھروں میں ’ ماس‘ میں کیا قباحت ہے ؟ سچ یہ ہے کہ نہ مرکزکی مودی سرکار نے کورونا کی دوسری ممکنہ لہر کے پیش نظر کوئی پیش بندی اور منصوبہ بندی کررکھی تھی اور نہ ہی ریاستی سرکاروں نے ۔ افسوس کہ کورونا ویکسین تک کی قلّت ہے ۔ مہاراشٹر میں بس ایک دوروز کی ہی ویکسین بچی ہوئی ہے ۔ مہاراشٹر کی بات کریں تو یہاں دواؤں کی قلت ہے ، طبّی سہولیات کوجدید سے جدید تر نہیں کیا گیا ہے ،اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور نرسوں کی کمی ہے ، آکسیجن کے سلنڈروں کی قلّت ہے ۔ ادھوٹھاکرے کی سرکار کو ان مسائل کو بہت پہلے حل کرلینا چاہیئے تھا ۔ لیکن ہوا یہ ہے کہ شیوسینا اور بی جے پی کی جنگ میں ریاست کی عوام پس رہی ہے ۔ مرکز کی مودی سرکار کی طرف سے ادھوسرکار کو کوئی مدد حاصل نہیں ہے ۔ اور مودی سرکار ہے کہ جیسے اسے سارے ملک میں کورونا کی روک تھام کے اقدامات سے کوئی غرض نہیں ہے ۔۔۔ اب عوام جھیلے ، اسی نے تو ایسے لوگو ںکو اپنے سرپر حکمراں بناکر بیٹھا لیا ہے ۔
٭٭٭