9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
شاعری خواہ عربی زبان میں ہویا عجمی زبانوں میں، تمام تر اصنافِ سخن میں صنفِ نعت کی ارزش و ارجمندی نیز ترفع و تقدس کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ربّ العالمین اپنی کتاب میں رحمۃ للعالمین سے مخاطب ہے:”ورفعنا لک ذکرک”(ہم نے آپ کے ذکر کو ارفع اور بلندکر دیا) لہٰذا جہاں جہاں جس جس پیراے میں آپ کا ذکر ہوگا، اعلیٰ ہوگا ارفع ہوگا۔نعتیہ شاعری کا آغاز سب سے پہلے عربی زبان میں ہی ہوا اور سیدنا حضرت ابو طالب (نبی کریم کے مشفق چچا)کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ انھوں نے ہی سب سے پہلے باقاعدہ سرکارِدو عالم کی شان میں نعت کہی۔اس کے بعد اصحاب کرام کا ایک بڑا لمبا سلسلہ ہے جنھوں نے نعتیں کہیں اور بعضے بہت مشہور ہوئے ۔عربی زبان کے بعد نعتیہ شاعری فارسی زبان میں ہوئی جس کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ امیرالمومنین و خلیفۃ المسلمین ثانی حضرت عمر ابن الخطاب کے عہد میں جنگِ قادسیہ کی فتح نے ایران کو اسلام کے زیرنگیں کردیا۔ جب ایران پر اسلام کا غلبہ ہواتو ارجمند ترین تہذیب و ثقافت ایرانیہ نے عربی تمدن و معاشرت کے اثرات قبول کیے اور” الناس علیٰ دین ملوکہم” کے پیش نظر عجمی تہذیب و ثقافت ایک طرح کے احساسِ کم تری کا شکار ہوتی گئی۔ اتنا ہی نہیں مؤرخوں کا اہلِ عرب و اسلام پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ فتحِ ایران کے بعد وہاں عجمی ادبیات کے ذخائر تباہ کردیے گئے۔ لہٰذا تقریباً دو سو سال تک ادبیات ایران کی نشوونما میں ایک خلا نظر آتا ہے۔
فارسی کا بڑا سرمایہ ایرانیوں کی خانہ جنگی اور پھر منگول و تیمور کے حملوں سے زیادہ تباہ و برباد ہوا ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فارسی ادب صرف سرزمین ایران ہی کا دھرو ہر نہیں، فارسی کا شعری ادب ایران سے کہیں زیادہ ہندوستان جنت نشان میں پھولا پھلا اور سرسبز و شاداب ہوا۔فارسی کے بعد اردو میںنعتیہ شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوا اور اس سلسلہ میں سب سے پہلا نام محمد قلی قطب شاہ کا ہے جو پہلے صاحب دیوان شاعرہیں (حالانکہ بعضوں کے نزدیک مہ لقا چندا بائی کواردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ کہا گیا ہے)ان کے دیوان میں نعتیہ شاعری کے قابل قدر نمونے موجود ہیں۔
نعت کہنے اور نعت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ “پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی” اور یہ سوز و گداز یہ رقت بغیر عشق رسول اور ان پر والہانہ شیفتگی و جذبہ جاں نثاری کے ممکن ہی نہیں۔ سیّد بدرالدین ہلالی نے کیا عمدہ کہا ہے:
محمد عربی آبروی ہر دوسرا ست
کسی کہ خاک درش نیست خاک بر سراو
الحاج نصیر انصاری جو ایک کہنہ مشق شاعر ہیں “سرمایۂ فکر” کے نام سے ان کا ایک بہاریہ مجموعہ منصۂ شہود پرآ چکا ہے۔ “خوشبو کا سفر “:نام سے ان کا نعتیہ مجموعہ پیش نظر ہے۔جیسا کہ اوپر کہا جا چکا ہے کہ عمدہ اور صحت مند شاعری کے لیے اچھے جذبات و پاکیزہ خیالات کی فراوانی ضروری ہے۔نصیر انصاری کو اللہ نے سفر حج کی سعادت سے بھی سرفراز فرمایا ہے اور الحمدللہ وہ صورت اور سیرت دونوں سے عاشق رسول نظر آتے ہیں۔ان کی عقیدتوں او رسول کریم سے محبتوں میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا ہے۔ان کی نعتیہ شاعری اس زمرے میں نہیں رکھی جا سکتی جہاں قول وفعل میں تضاد کارفرما ہوتا ہے۔
“کچھ اپنے بارے میں”عنوان سے نصیر انصاری نے مختصر سا مضمون قلمبند کیا ہے جس میں انھوں نے اپنی پیدائش اورخاندان کے بارے میں بتایا ہے۔کہ اانھوں نے باقاعدہ صرف تین درجوں تک ہی اردو کی تعلیم حاصل ہو سکی۔لیکن اس وقت کے شعری ماحول نے انھیں شعر گوئی کی طرف مائل کیا اور انھوں نے حضرت غنی وارثی کی سر پرستی میںاپنا شعری سفر شروع کیا۔ان کے بعد وہ عزیز بارہ بنکوی کی شاگردی میں آئے۔نصیر انصاری نے نعتیہ مجموعہ کو اپنی نجات کے سامان کے طور پر پیش کیا ہے اور اسے محض اپنی عقیدتوں کا نذرانہ ہی کہا ہے۔
کتاب کے آغاز میں چار حمدیہ کلام ہیں۔
ہوتی نہ اذاں میں جو ترے نام کی تسبیح
ہوتی نہ کشش اتنی مؤذن کی صدا میں
اللہ سے میری ہے نصیر اتنی دعا بس
وسعت ہو ابھی اور مری فکر رسا میں
یہ نصیر انصاری کا عقیدہ ہےکہ اگر اذان میں اللہ کے نام کی تسبیح نہ ہوتی تو مؤذن کی صدا میں یہ کشش پیدا نہ ہوتی۔یعنی اذان میں کشش مؤذن کی آواز کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ اس نام کی تسبیح کی وجہ سے ہے جوکائنات کا خالق ہے۔اس میں یہ نکتہ بھی موجود ہے کہ اذان خواہ کوئی بھی دے کیسی ہی آواز ہو ،کیسا ہی لہجہ ہو،کیسا ہی ترنم ہو ،کیسا ہی تلفظ ہو،ایک بندے کی نظر اس کے بجائےاس نام پر رہتی ہے جس کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
دراصل یہیں سے نصیر انصاری اپنی پوری کتاب کو دیکھنے کا ایک زاویہ بھی قاری کو عطا کر دیتے ہیں کہ اس کتاب کو بس اس نظر سے دیکھا جائے کہ اس میں اللہ اور اس کے حبیب کا ذکر ہے۔تو اس میں خوبیاں ہی خوبیاں ہی نظر آئیں گی۔اگر ناقد اسے مطمح نظر سے ہٹا تو وہ محض الفاظ و معانی ،عروضی قواعد و ضوابط اور بحر اوزان کی سطح پر ہی تیرتا رہ جائے گا اور گہرائی میں ڈوب کر اسے وہ گہر نہیں نظر آئیں گے جو ان کے نعتیہ مجموعہ میں جگہ جگہ عشق رسول سے چمک رہے ہیں اور مہک رہے ہیں۔اسی حمد کے مقطع میں اپنی کہنہ مشقی اور استادی کے پیش نظر کسی قسم کی شاعرانہ تعلی سے کام نہیں لیا بلکہ دعا کی ہے کہ ان کی فکر رسا میں مزید وسعت پیدا ہوجائے۔یہ مقطع نصیر انصاری کی اس نیت اور خلوص کو اجاگر کرنے کے لئے کافی ہے جو ان کی نعتیہ شاعری کی بنیاد ہے۔
تمام اصناف سخن میں نعتیہ شاعری کو ہی سب سے مشکل اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں دوہری ذمہ داریاں ایک شاعرپر ہوتی ہیں۔سب سے پہلےان شرعی پابندیوں کا لحاظ ضروری ہےجو ربوبیت اور رسالت کے مابین حد فاصل قرار دی گئی ہیں،پھر وہ شعری رموز جن کے بنا پر کوئی بھی شاعری ممتاز منفرد اور حد کمال کو پہنچتی ہے۔نصیر بارہ بنکوی جن کی پیدائش 1943 میں ہوئی اور انھیں کم عمری سے ہی شاعری سے لگاؤ پیدا ہو گیا تھا اور پھر غنی وارثی اور بعد میں عزیز بارہ بنکوی کی شاگردی میں ان کا شعری شعور تشکیل پایا ہے ۔ان سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ انھیں شرعی اور شعری تقاضوں کی خبر نہ ہو۔اس کے باوجود انھوں نے نعت کے میدان میں قدم رکھا ہے تو انکا استقبال کیا جانا چاہئے اور اس لئے بھی ان کا استقبال کیا جانا چاہئے کہ انھوں نے اپنی نعتیہ شاعری کے لئے کوئی دعوی نہیں کیا بلکہ “خوشبو کا سفر”کو اپنی عقیدتوں کا نذرانہ اور اپنی نجات کاذریعہ بننے کی امید کی ہے۔
اللہ غنی احمد مختار کی عظمت
قرآن بیاں کرتا ہے سرکار کی عظمت
الفاظ میرے پاس کہاں جو بیاں کروں
رونق جو ان کے شہر کے شام و سحر کی ہے
مل گیا زمانے کو راستہ ہدایت کا
جب وہ ہادئ برحق بن کے رہنما مہکے
صدیاں گذرین لیکن اب تک آقا کی
طیبہ کے گلزار سے خوشبو آتی ہے
سنت نبوی پر جو چلتے رہتے ہیں
ان کے حسیں کردار سے خوشبو آتی ہے
درود پڑھنے میں لمحے جو اپنے گزرے تھے
بروز حشر وہی بس ہمارے کام آئے
مذکورہ اشعاربلا تخصیص “خوشبو کا سفر”سے لئے گئے ہیں۔ لیکن ان اشعار سے نصیربارہ بنکوی کی نعتیہ شاعری کے رموز اور ان کے خصائص پوری طرح روشن ہو جاتے ہیں۔ان شعروں پر اگر غور کریں تو سب سے پہلے انھوں نے خود ہی واضح کر دیا ہے کہ احمد مختار نبی کریم کی عظمت کے بارے میں کیا شک و شبہ ہو سکتا ہے کہ ان کی عظمت کو قرآن بیان کرتا ہے۔کیا یہ صرف ایک دعوی ہے یاا س کی کوئی دلیل بھی ہے۔دلیل تلاش کرنے کے لئے قاری یا سامع کو قرآن سے گفتگو کرنا ہوگی اور اسی سے پوچھنا ہو گاکہ قرآن نے کہاں کہاں ان کی عظمت بیان کی ہے تو جوا ب اپنے آپ مل جائے گا۔وہ جواب کیا ہوں گے اس تفصیل کی گنجائش یہاں مختصر سی تحریر میں نہیں ہے۔لیکن قرآن تک پہنچنے اور نصیر انصاری کے شعر کو سمجھنے کے لئے کئی منزلوں سے گذرنا ہوگا جو ہر کس و ناکس کی بس کی بات نہیں ہے۔اسی کے ساتھ ہی نبی کے شہر کی بات بھی نصیر اسی انداز میں کرتے ہیں کہ جس طرح شاعر کے پاس نبی کی ذات کا احاطہ کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہوتے اسی طرح ان کے شہر” مدینہ”کے شام و سحر کی کیفیت کو بھی احاطہ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔اور اس شہر کی عظمت و رفعت کو امتداد زمانہ متاثر نہیں کر سکا ہے۔یہ حقیقت بھی ہے اور نصیر انصاری کی عقیدت بھی۔آگے نصیر انصاری کہتے ہیں کہ تاجدار انبیا کی آمد سے زمانے کو ہدایت کا راستہ مل گیا۔یہاں لفظ زمانہ غور طلب ہے۔قرآن کی زبان میں اللہ کہتا ہے کہ ہم نے تم کو(رسول کریم کو) رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا ہے۔یعنی رسول کی بعثت کسی خاص قوم یا قبیلہ کے لئے مخصوص نہیں ہے۔نصیر انصاری نے اس کے لئے “زمانہ”کا لفظ استعمال کیا ہے جو ہر زمانے پر محیط ہے۔نصیر انصاری کی محبت اور عقیدت صرف نبی کریم تک محدود نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتی۔وہ نبی کے خلفا،ان کےاصحاب اور ان کے اہل بیت سے بھی محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔اور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے اہل بیت ان سے جدا نہیں ہیں بلکہ ان کے کردار میں نبی کے کردار کی روشنی ہے اور نبی کی ہی خوشبو ہے۔(یہی ایک صاحب ایمان اور ایک سچے مومن کا عقیدہ بھی ہے) اس حوالےسے وہ کربلاکو بھی یاد کرتے ہیں۔
نبی کے اخلاص اور نبی کی سیرت کی
نبی کے چاروں یار سے خوشبو آتی ہے
ہو سکے احاطہ کیا ان کی شان وعظمت کا
جن کے خون سے اب تک ارض کربلا مہکے
وہ علی ہوں فاطمہ ہوں یا کہ حسنین اے نصیر
ہم نے تو پائی ہے ان چاروں میں ان کی روشنی
نعتیہ شاعری میں مضامین محدود ہوتے ہوئے بھی لا محدود ہیں۔جہاں نبی اور نبی کے متعلقات کا ذکر ہو گا وہ نعت میں شامل ہوگا۔اس حوالے سے حضرت جبرئیلؑ اور غارثور اور غار حرا کا بھی ذکر نعتیہ شاعری میں کثرت سے آتا ہے۔نصیر انصاری نے بھی ان کا ذکر کیا ہے۔وہ غار حرا کی عظمت کو بھی تسلیم کرتے ہیں جہاں پہلی وحی نازل ہوئی تھی۔اور لانے والے حضرت جبرئیل ؑ ہیں۔پھر معراج نبی کے حوالے سے سدرہ اور جبرئیل کی حد پرواز کا ذکر ہے۔
حاصل ہوا اعزاز جسے پہلی وحی کا
تسلیم ہمیں کیوں نہ ہو اس غار کی عظمت
سدرہ سے آگے جائیں بھی تو جائیں کس طرح
روح الامیں کو فکر پڑی اپنے پر کی ہے
یہاں لفظ “وحی”میں نصیر انصاری نے ح کو متحرک باندھا ہے۔جبکہ زیادہ تر پڑھے لکھے شعرا ح کو ساکن باندھتے ہیں ۔دوسرے شعر میں بڑی نزاکتیں ہیں اور بڑئی احتیاط سے اس مضمون کا باندھا جاتا ہے۔حضرت جبرئیل کو سدرہ سے آگے جانے کا حکم نہیں تھا اس لئے وہ نہیں گئے۔لیکن اگر وہ جاتے تو ان کے پر جل جاتے یہ محض شاعرانہ تخیل ہے اور نعتیہ شاعری میں یہ مضمون بھی کثرت سے ملتا ہے ۔نصیر انصاری نے اسی کواپنے الفاظ و پیرائے میں نقل کر دیا ہے۔ابھی تک اس کی کوئی دلیل معتبر حوالوں سے حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
الحاج نصیر انصاری کے نعتیہ مجموعہ”خوشبو کا سفر”کے مطالعہ کے بعد یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ نصیر انصاری کا مجموعہ نعت ایک عاشق رسول،عاشق اصحاب رسول اور عاشق اہل بیت کے جذبات اور اس کی عقیدتوں کا آئینہ اورسچانذرانہ ہے،جسے بڑے خلوص احترام اور محبت کے ساتھ انھوں نے پیش کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی نعتیہ شاعری میں کوئی مشکل پسندی،فنی داو پیچ اورلفظی صنعت گری کے کھیل تماشے نہیں ہیں۔انھوں نے اپنےپاکیزہ خیالات ،اپنے نیک جذبات اور اپنی سچی عقیدتوں کو سادہ زبان اور صاف اسلوب میں پیش کیا ہے تاکہ دل سے نکلی ہوئ بات براہ راست قاری کےدل تک پہونچے۔اس حوالے سے نصیر انصاری اپنی کاوش میں کامیاب ہیں۔امید ہے کہ نصیر انصاری کے اس مجموعہ کو اہل دل اور اہل محبت اپنی آنکھوں کا سرمہ بنائیں گے اور اللہ تعالی ان کے خلوص کو قبول فرمائے گا۔
9956779708
ض۔ض۔ض۔