9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
ایک طرف پور ی دنیا جہاں کورونا وبا کی مہاماری سے پریشان ہے،پوری دنیا میں کروڑوں لوگ اس مرض کی چپیٹ میں ہیں اور ایک بڑی تعداد کو کورونا نے موت کے منہ میں پہونچا دیا ہے۔ساری دنیا تقریبا نو دس ماہ لاک ڈاؤن کی پریشانی جھیل کر سکون کی سانس لینا ہی چاہتی تھی کہ کرونا کی دوسری لہر نے ایک بار پھر دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ہندوستان بھی اس مہاماری سے جوجھ رہا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ابھی تک کورونا کی ماہیت اور حقیقت پوری طرح کھل نہیں سکی ہے۔کہا جا رہا تھا کہ چین کے ووہان شہر سے اس وائرس کی شروعات ہوئی اور وہیں سے یہ ساری دنیا میں پھیلا۔عالمی ادارہ صحت کی ٹیم نے ووہان کا دورہ کیا اور اپنی رپورٹ میں واضح کیا کہ اسے اس بات کے حتمی ثبوت اور شواہد نہیں مل سکے ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ کورونا وائرس چین کے شہر ووہان سے پھیلا۔اس رپورٹ کو امریکا سمیت کئی ملکوں نے رد تو نہیں کیا لیکن اس پر خدشات اور سوالات قائم کئے اور اس رپورٹ کو پوری طرح سچ ماننے سے ایک طر ح سے انکار کر دیا۔
کہا یہ بھی جا رہا تھا کہ کورونا کی ویکسین آتے ہیں اس وبا پر پوری طرح کنٹرول کر لیا جائے گا اور ویکسین آ بھی گئی ۔اور سب سے پہلے اس کا ستعمال صحت کے شعبہ میں کام کرنے والے افراد و اشخاص پر کیا جانا شروع کیا گیا۔ہندوستان اور بالخصوص اتر پردیش میں کورونا ویکسینیشن کے عمل نے ایک ریکارڈ قائم کیا۔لیکن اب ایسی رپورٹیں مل رہی ہیں کہ جن لوگوں کو کورونا ویکسینیشن کیا گیا انھیں بھی کورونا کی دوسری لہر اپنی چپیٹ میں لے رہی ہے۔لکھنؤ میں میڈیکل یونیورسٹی اور پی جی آئی کے اسٹاف کی ایک بڑی تعداد کورونا سے متاثر ہے جس سے عوام میں یہ پیغام جا رہا ہے کہ کورونا ویکسی نیشن کی کامیابی کا فیصد اطمینان بخش نہیں ہے۔
کورونا کے پورے دور کا اگر جائزہ لیا جائے تو بھی بہت سے شکوک اور شبہات ذہن میں ایسے اٹھتے ہیں جن کا اطمینان بخش جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ایک برس گذر جانے کے بعد رات دن کی تحقیق کے نتیجہ کچھ برآمد نہیں ہو سکا ہے۔جن علاقوں میں الیکشن ہو رہے ہیں وہاں کھلے عام ریلیاں اور جلسے جلوس ہو رہے ہیں۔ارباب اقتدار اور حزب اختلاب دونوں طرف کے لوگ الیکشن کی کاروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔نہ حکومت روک رہیئ ہے اور نہ عدالت اس میں کوئی دخل اندازی کر رہی ہے۔اخبارات میں تصاویر بھی شائع ہو رہی ہیں جن میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ کووڈ پروٹوکل کی کھلے عام دھجیاں صرف عوام ہی نہیں بلکہ خواص بھی اڑا رہے ہیں۔
ایسے ماحول میں اٹلی کے ڈاکٹرون نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا ایک وائرس نہیں بلکہ ایک بیکٹیریا ہے۔انھوں نے اس کا علاج بھی تجویز کیا ہے۔سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی نیوز کے مطابق اٹلی دنیا کا پہلا وہ ملک ہے جس نے کرونا سے مرنے والے مریض کا پوسٹ مارٹم کر کورونا کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔(حالانکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق کرونا سے مرنے والےکا پوسٹ مارٹم نہیں کیا جا سکتا)یہ بھی سمجھ میں نہ آنے والا نکتہ ہے کہ آخر کیوں پوسٹ مارٹم نہیں کیاجا سکتا۔کہیں ایسا تو نہیں کہ پوسٹ مارٹم سے حقیقت کھل جانے کا خدشہ ہو کہ یہ ایک وائرس نہیں ہے۔بہر حال اٹلی نے پوسٹ مارٹم کے بعدکی تحقیق میں واضح کیا ہے کہ وائرس کے روپ میں کورونا کا وجود نہیں ہے۔بلکہ عالمی سطح پر کھیلا گیا ایک بہت بڑا گھوٹالا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ لو گ اصل میں “ایمپلی فائڈ گلوبل 5 جی الیکترانک ریڈئیشن”(زہر) سے مر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس زہر سے انسان کی رگوں میں خون جم کر گانٹھ کی شکل اختیار کر لیتا ہے یعنی اس بیکٹیریا(جرثومہ) کی وجہ سے خون نسوں میں جم جاتا ہے جس کی وجہ سے دماغ ، دل اور پھیپروں کو آکسیجن نہیں مل پاتی اور یہی مریض کی موت کا سب بنتا ہے۔اتنا ہی نہیں اٹلی نے اس کا علاج بھی بتایا ہے جس میں antibiotics tablets, anti inflamentry ant asprin لینے سے یہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔اسی کے ساتھ اٹلی کے ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں وینٹیلیٹرس اور آئی سی یو کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ اس کی چپیٹ مین آ جائیں انھیں پیرا سیٹا مول 650 ایم جی،ایسپرین 100 ایم جی لینا چاہئے،۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی خبر کے مطابق اٹلی نے اپنے یہاں کورونا کے مریضوں کو یہ دوائیں دی تو انکے مریض ٹھیک ہونے لگے۔ اور ان کی صحت میں اطمینان بخش سدھار نظر آنے لگا۔ہندوستان میں کرونا سے متاثر کی تعداد بنہت زیادہ ہے لیکن ریکوری ریٹ بھی سی طر ح سے نمایاں ہے۔سوال یہ ہے کہ جب کورونا کی دوا نہیں ہے تو یہ ریکوری ریٹ اتنا عمدہ کیوں ہے اور انھیں کون س دوائیں دی جارہی ہیں جن سے مریض ٹھیک ہو رہے ہیں۔