تین افسران مزید بری۔۔۔۔تو کیا عشرت جہاں کی کہانی ختم ہوگئی؟ – Three more officers are bad … so is Ishrat Jahan’s story over?

0
101

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


شکیل رشید
تو کیا عشرت جہاں کی کہانی ختم ہو گئی ہے؟
ان تمام پولیس والوں کے ، جو عشرت جہاں کے انکاؤنٹر میں ملوث تھے ، بری ہونے کے بعد بظاہر تو یہی لگتا ہے ۔ تو کیا پھر یہ مان لیا جائے کہ عشرت جہاں ایک دہشت گرد تھی اور اس وقت کے وزیراعلیٰ گجرات ، آج کے وزیراعظم ، نریندر مودی کو قتل کرنے کے ارادے سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ احمدآباد میں داخل ہوئی تھی؟ کوئی مانے نہ مانے پولیس اور عدلیہ تو یہی منوانا چاہتی ہے ۔ پہلے سوال کے جواب میں ، میں نے لفظ بظاہر لکھا ہے کیونکہ بھلے عدلیہ یہ کہتی رہے کہ پولیس والوں نے عشرت جہاں اور اس کے ساتھیوں کو مار کر اپنے فرائض کی ادائیگی کی ہے ، لیکن یہ سچ تو ساری دنیا کے سامنے ہے کہ جسے فرائض کی ادائیگی کہا جا رہا ہے وہ انتہائی بے رحمی سے کیا گیا فیک انکاؤنٹر تھا ۔ لہٰذا جب بھی اِن بری ہونے والے افسران کا ذکر ہوگا عشرت جہاں کی کہانی تازہ ہوگی ، ختم نہیں ہو گی ۔ رہی بات عشرت جہاں کے دہشت گرد ہونے یا نہ ہونے کی تو سی بی آئی کی عدالت کے ذریعے دہشت گرد مان لیے جانے کے باوجود یہ ثابت نہیں کیا جا سکا ہے کہ عشرت جہاں واقعی دہشت گرد تھی ۔ پولیس کی کہانی میں بہت سارے جھول اور خامیاں ہیں ۔ افسوس کہ حکومت گجرات نے کسی بھی پولیس افسر پر مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں دی لہٰذا عدالت کو یہ مان لینا پڑا کہ پولیس والوں نے جو کیا وہ ان کے فرائض میں شامل تھا ۔ پولیس والوں نے معاملہ ختم کرنے کی درخواست دے رکھی تھی اس لیے معاملہ ختم کرنا پڑا ۔
عشرت جہاں کی کہانی 15 جون 2004 کو شروع ہوئی تھی ۔ میں ممبئی کے مضافات میں ممبرا کے مسلم اکثریتی علاقے میں اس وقت موجود تھا جب عشرت جہاں کی لاش احمد آباد سے لائی گئی اور مقامی قبرستان میں مٹی کے حوالے کی گئی تھی ۔ اس وقت یوں لگ رہا تھا گویا خالصہ کالج کی 19 سالہ طالبہ کو انصاف دلانے کے لیے ہر نفس بے چین ہے ، لیکن بعد کے دنوں میں یہ ذمہ داری تنِ تنہا غمزدہ ماں شمیمہ کوثر کے سر آ گئی ۔ سی بی آئی کی عدالت سے اس معاملے کے باقی ماندہ تین پولیس افسران جی ایس سنگھل، ترون باروٹ اور انَجو چودھری کے بری ہونے کے بعد شمیم کوثر نے سچ ہی کہا ہے کہ ابتدا ہی سے اس معاملے کی سماعت یکطرفہ تھی ۔ اِن تینوں کے بری کیے جانے سے پہلے جب عشرت جہاں فیک انکاؤنٹر میں ملوث دوسرے افسران بری کیے گیے تھے تب میں نے اپنی ایک تحریر کا آغاز اس طرح کیا تھا ، عشرت جہاں کے ملزم ایک ایک کرکے چھوٹ رہے ہیں ۔
اور یہ ملزم عام آدمی نہیں ہیں ، یہ انتہائی طاقتور اور بااثر سیاست داں ہیں ۔ بی جے پی کے آج کے نمبر دو کے لیڈر امیت شاہ کو اس معاملے میں ایک مہینے تک سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑا تھا ۔ ملزمین میں گجرات پولس ک اعلیٰ ترین افسران اور آئی بی افسران شامل تھے ۔ یہ وہ تھے جن پر عشرت جہاں کے اغوا ، غیر قانونی حراست اور قتل کی سازش رچنے اور قتل کے عمل میں شامل رہنے کے الزامات لگے تھے ۔ دنیش امین پہلے ہی باہر آگیے ہیں ، ڈی جی ونجارا بھی سلاخوں کے پیچھے نہیں ہیں اور جی ایل سنگھل کو بھی سلاخیں نہیں روک سکی ہیں ۔ سابق ڈی جی پی گجرات پی پی پانڈے آئی پی ایس کی بھی پہلے ہی گلوخلاصی ہوگئی ہے ۔ سی بی آئی کی عدالت نے پانڈے کو یہ کہتے ہوئے بری کردیا تھا کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے ۔۔ چھٹکارا پانے کے بعد پانڈے اپنی ‘ بے گناہی کا ڈھنڈورا لمبے عرصے تک پیٹتے رہے ہیں ۔ اور ڈھنڈورا بھی ایسا کہ اپنا موازنہ انہوں نے مجاہد آزادی منگل پانڈے سے کرڈالا تھا ۔ سب جانتے ہیں کہ پی پی پانڈے کے دامن پر صرف عشرت جہاں فرضی مڈبھیڑ ہی کا داغ نہیں لگا تھا بلکہ 2002ء کے گجرات فسادات کے دوران ‘ فسادیوں کو ‘نظرانداز کرنے کا داغ بھی لگا ہے ۔ مگر ان داغوں کے باوجود نہ انہیں بے داغ دامن والے مجاہد آزادی منگل پانڈے کا نام لیتے ہوئے شرم آئی اور نہ یہ کہتے ہوئے کہ ’’ میں تو منگل پانڈے کی طرح پھانسی چڑھنے کوتیار تھا۔‘‘
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ 15 جون 2004ء کے روز جب گجرات پولس نے احمد آباد کے مضافات میں عشرت جہاں سمیت چار افراد کو ‘ فرضی مڈبھیڑ میں ‘ قتل کیا تب پی پی پانڈے ریاستی کرائم برانچ کے سربراہ تھے ۔۔۔ عشرت جہاں ، جاوید غلام شیخ ، امجد علی رانا اور ذیشان جوہر کو ‘قتل کرنے والا پولس کا دستہ احمد آباد سٹی کرائم برانچ کے افسران پر مشتمل تھا یعنی سب کے سب پی پی پانڈے کو ہی جوابدہ تھے ۔ جو حقائق سامنے آئے ہیں ان کے مطابق عشرت جہاں اور باقی کے تین افراد کو دہشت گرد قرار دے کر ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ دہشت گردوں کا یہ دستہ نریندر دامودرمودی ۔۔۔۔ اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ ۔۔۔ کو قتل کرنے کے ارادے سے احمد آباد میں داخل ہوا تھا ۔ گواہوں کے بیانات اور سی بی آئی کی تفتیش سے یہ سچ بھی سامنے آچکا ہے کہ پی پی پانڈے اس میٹنگ میں موجود تھے جس میں ‘مڈبھیڑکی منصوبہ بندی کی گئی تھی ۔ الزام ہے کہ ‘ مڈبھیڑ کا مقصداسلامی آتنک واد کے نام پردہشت پھیلانا اور مودی کو ‘ ہندوہردیۂ سمراٹ کے منصب پر فائز کرنا تھا ۔۔۔۔ شمیمہ کوثر کی ، جو اپنی بے قصور بیٹی کے ‘ قتل کی عدالتی لڑائی پوری تندہی سے لڑتی رہی ہیں ، لڑائی اسی روز شروع ہوگئی تھی جب احمد آباد میں عشرت جہاں کو مزید تین افراد کے ہمراہ فرضی مڈبھیڑ میں مارگرایا گیا تھا۔۔۔ 15جون 2004 کو ۔ ا ‘مڈبھیڑ کی واردات کے بعد یہ سوال اٹھا تھا کہ عشرت جہاں کیوں جاوید شیخ کے ساتھ گجرات گئی تھی ، اس سوال کا جواب اس کے گھر والوں کی طرف سے یہ ملا تھا کہ اسے گجرات میں ایک ملازمت کی پیشکش ہوئی تھی ۔ ‘مڈبھیڑ کی واردات علی الصبح انجام پائی تھی ۔ پولس ٹیم کی قیات ڈی جی ونجارا کے ہاتھوں میں تھی ۔ پولس کا یہ دعویٰ تھا کہ محکمہ ٔ انٹیلی جنس (آئی بی) نے مودی کو نشانے بنانے کے لیے آنے والے ممکنہ قاتلوں کے تعلق سے الرٹ جاری کیا تھا۔ پولس نے مارے گئے ‘دہشت گردوں کے قبضے سے برآمد اسلحہ جات کا ذخیرہ بطور ثبوت پیش کیا تھا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اپنی موت کے وقت بھی عشرت جہاں اپنے گلے میں کالج کا شناختی کارڈ ڈالے ہوئے تھی ! پولس کی کہانی معمول کے عین مطابق تھی اور میڈیا نے اسے معمول کے عین مطابق قبول بھی کرلیا تھا! مگر عشرت جہاں کی والدہ شمیمہ کوثر اور بہن مسرت نے اس کہانی کو ‘ سچ ماننے سے انکار کرتے ہوئے عشرت جہاں کی موت کو ‘فرضی مڈبھیڑ قرار دیا تھا اور آج بھی وہ اسے فیک انکاؤنٹر ہی کہتی ہیں ۔ گجرات کے ایک مجسٹریٹ تمنگ کی رپورٹ نے عشرت جہاں کی ہلاکت کے ‘ فرضی مڈبھیڑ ہونے پر مہر ثبت کردی تھی ۔ مجسٹریٹ تمنگ نے اپنی رپورٹ میں عشرت جہاں کی موت کو اس وقت سے جو پولس نے بتایا ، بہت پہلے ہونا قرار دیا تھا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مارے گئے افراد پولس سے ‘مقابلہ آرائی کرتے نظر نہیں آتے کیونکہ ان سب کو انتہائی قریب سے گولیاں ماری گئی ہیں ۔ تمنگ نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ مارے گئے افراد جب بیٹھے ہوئے تھے تب ان پر انہیں مارنے کے لیے گولیاں داغی گئی تھیں ۔ تمنگ نے اپنی رپورٹ میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ اگر یہ پولس سے مقابلہ آرائی کررہے تھے تو پولس والوں کو کیوں نقصان نہیں پہنچا ۔۔۔ ان کے مطابق لاشوں کے پاس جو اسلحے پائے گیے تھے وہ بغیر لائسنس کے تھے اور وہاں ‘ پلانٹ کئے گئے تھے تاکہ مڈبھیڑ کے منظر کو حقیقی بنایا جاسکے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مرنے والوں کے ہاتھوں کی جانچ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہاتھوں میں کوئی ہتھیار نہیں تھے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن دوافراد کو پاکستانی کہا گیا ہے ان کے شناختی کارڈ میں فرضی نام تھے وہ بھی انگریزی میں جبکہ پاکستان کی زبان اردو ہے ۔ مجسٹریٹ تمنگ نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ تحریر کیا تھا کہ’’مارے جانے والوں کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا تھا اور پھر بے رحمی کے ساتھ انہیں منصوبہ بندی سے گولیاں ماردی گئیں ، عشرت اور جاوید کا تعلق لشکر طیبہ سے تھا اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے ۔ ‘‘
تمنگ کی رپورٹ نے اس وقت کی گجرات کی مودی سرکار کے پیروں تلے سے زمین سرکا دی تھی ۔ تمنگ رپورٹ کو بہت دبانے کی کوشش کی گئی تھی مگر اسے دبایا نہیں جاسکا ۔ بعد کی چھان بین نے ‘ فرضی مڈبھیڑ کی پرتیں مزید کھول دیں ۔ ‘سفید داڑھی اور ‘کالی داڑھی کی بات سامنے آئی ۔ گجرات کے اعلیٰ پولس افسران کی ملی بھگت سامنے آئی ۔ نریندر مودی اور امیت شاہ کی طرف انگلیاں اٹھیں ، حالانکہ مودی اور امیت شاہ پر عدالتی شکنجہ نہیں کسا مگر آج بھی ‘سفید داڑھی اور ‘ کالی داڑھی کا سوال برقرار ہے ۔۔۔ یہ بات سامنے آئی تھی کہ پولس والوں نے بالخصوص ونجارا نے ان ‘ دوداڑھیوں سے ‘ فرضی مڈبھیڑ کی اجازت طلب کی تھی ۔ ان دنوں امیت شاہ گجرات کے وزیر داخلہ تھے اس لیے ان کے کردار پر سب سے زیادہ انگلیاں اٹھی تھیں ۔ پی پی پانڈے کے بری کیے جانے کے بعد عشرت جہاں کے ایک وکیل ایڈوکیٹ شمشادپٹھان نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ’’ سی بی آئی عدالت کا فیصلہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف جاتا ہے کہ ‘مڈبھیڑ فرضی تھا ۔ ہم ہائی کورٹ میں پانڈے کو بری کئے جانے کے فیصلے کو چیلنج کریں گے ۔ مجسٹریٹ کے سامنے گواہان کے بیانات سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والے ثبوت ہیں اور گواہوں نے عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے یہ بیان دیا ہے کہ پانڈے اس میٹنگ میں جہاں ‘مڈبھیڑ کی سازش رچی گئی ، موجود تھے‘‘ ـــ۔ ایڈوکیٹ ورنداگرور نے بھی پی پی پانڈے کی ‘گلوخلاصی کو افسوس ناک قرار دیا تھا ۔ انہوں نے بھی گواہوں کے ذریعے سامنے لائے گئے ‘اہم سچ ‘ کو اجاگر کیا تھا کہ پی پی پانڈے کھوڈیار کے فارم ہاؤس گئے تھے جہاں اغوا کے بعد عشرت جہاں اور دوسروں کو رکھا گیا تھا اور وہیں ان کی موجودگی میں ‘مڈبھیڑ کی منصوبہ بندی کی گئی تھی ۔ عشرت جہاں فرضی مڈبھیڑ معاملے کا افسوس ناک پہلو صرف یہ ہی نہیں ہے کہ وہ افسران جن کے دامن داغدار ہیں بری ہوئے ہیں بلکہ ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ممبرا کی اس ۱۹؍ سالہ طالبہ کو ایک نہیں تین بار دہشت گردی کے الزام سے بری قرار دیا جاچکا ہے مگر پولس اورتفتیشی ایجنسیاں اور وہ سیاست داں جو اس طالبہ کے فرضی مڈبھیڑ میں کسی نہ کسی طور پر ملوث ہیں گھوم پھر کر عشرت جہاں پر دہشت گردی کا ‘داغ ‘ لگادیتے اور پھر یہ شور مچانا شروع کردیتے ہیں کہ ‘ دیکھئے ہم کہتے تھے نہ کہ عشرت جہاں بے قصور نہیں دہشت گرد ہے ! چند سال قبل عشرت جہاں کے تعلق سے امریکہ میں قید ممبئی کے 26/11 حملوں کے ایک ملزم ڈیوڈ کولمن ہیڈلی کے ایک ایسے ‘انکشاف کو بنیاد بناکر جسے ‘انکشاف کہنا ‘ انکشاف کا خون ہوگا ، عشرت جہاں کو دہشت گردوں کے کٹگھرے میں پھر لاکرکھڑا کردیا گیا تھا۔۔۔ ہیڈلی نے 26/11 کے حملوں کے سلسلے میں گواہی دیتے ہوئے سرکاری وکیل اجول نکم کے ایک سوال کے جواب میں ، ان ہی کے پیش کردہ تین ناموں میں سے عشرت جہاں کے نام کو ممنوعہ دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کا کارکن بتاکر فرضی مڈبھیڑ کی ساری بحث کو ازسرنوزندہ کردیا تھا۔۔۔ انگریزی کی معروف صحافی رعنا ایواب نے اس ‘ انکشاف کو فرضی مڈبھیڑ کے بارہ سال بعد عشرت جہاں کے ‘ سیاسی قتل سے تعبیر کیاتھا۔
اس سارے معاملے کا تشوشناک پہلو یہ ہے کہ اِن پولس افسران، ڈی جی ونجارا، ترون باروت ، جی کے سنگھل، پی پی پانڈے ، این کے امین ، کے ایم واگھیلا اور جے پی پرمار پر 2002 ء اور 2006ء کے درمیان مزید کئی ‘ فرضی مڈبھیڑطز کے الزامات لگے ہیں ۔ 22؍ اکتوبر 2002ء کو سمیر خان پٹھان کو ‘ فرضی مڈبھیڑ میں مارا گیا ، ڈی جی ونجارا ، ترون باروت ، جے جی پرمار اور کے ایم واگھیلا پر انگلیاں اٹھیں ۔ 13جنوری 2003 کے روز صادق جمال کا ‘ فرضی مڈبھیڑ ہوا ، مذکورہ چاروں ہی افسران کے نام اس میں بھی سامنے آئے ۔ عشرت جہاں سمیت چار افراد کے ‘ فرضی مڈبھیڑ کے الزامات جن پولس افسران پر لگے ان میں مذکورہ چاروں افسران کے ساتھ تین نام مزید شامل تھے ، این کے امین جی ایل سنگھل اور پی پی پانڈے ۔ سہراب الدین شیخ کو 26 نومبر 2005ء کے روز فرضی مڈبھیڑ میں قتل کیا گیا ، اس کا الزام ڈی جی ونجارا اور این کے امین پرلگا ۔ تلسی رام پرجا پتی کو 28؍دسمبر 2006 کے روز ‘فرضی مڈبھیڑ میں ہلاک کیا گیا ، اس معاملے میں پی پی پانڈے کے ساتھ وپل اگروال اور ڈی جی ونجارا کے نام سامنے آئے ۔ آج یہ تمام افسران بری ہیں ۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں لوگوں کو ۔۔۔۔ بالخصوص مسلمانوں اور پچھڑوں کو ۔۔۔۔ قتل کرکے پولس آسانی کے ساتھ اسی طرح سے چھٹکارہ پاتی رہے گی ؟ اس سوال کا جواب شاید ہاں ہے ۔ ویسے ابھی عشرت جہاں کے معاملہ میں اعلٰی عدالتوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ، سی بی آئی کی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن اکیلے ایک غمزدہ ماں کب تک حکومت سے لڑ سکے گی !
٭٭٭

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here