کیرالہ میں حکمرانی کابھاجپا کا خواب کیا پوراہوگا؟- Will BJP’s dream of ruling Kerala come true?

0
127

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


Will BJP's dream of ruling Kerala come true?

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔ لیکن بی جے پی مغربی بنگال کے بعد کیرالہ میں سب سے زیادہ سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔ کیرالہ میں اپنا اثر بڑھانے کیلئے بی جے پی نے میٹرو مین ای سری دھرن پر داؤ پر لگا دیا ہے۔ وہ پلکڑ اسمبلی سیٹ سے بی جے پی کے امیدوار ہیں۔ اس سیٹ پر 2016 کے الیکشن میں پارٹی کی امیدوار سوبھا سریندرن 29.08 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھیں۔ بی جے پی کے بڑے لیڈران دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس بار کیرالہ میں ان کی سرکار بنے گی، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہاں سیدھا مقابلہ ایل ڈی ایف اور یو ڈی ایف کے بیچ ہونے والا ہے۔ اب سے پہلے ایل ڈی ایف اور یو ڈی ایف کیرالہ میں باری باری حکومت کرتے رہے ہیں، لیکن اس بار حالات بدلے ہوئے ہیں۔ مختلف عمر، علاقہ اور سماجی طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ ایل ڈی ایف کے خلاف عام لوگوں میں ناراضگی نہیں ہے۔ جس کا ایل ڈی ایف کو آنے والے انتخاب میں فائدہ مل سکتا ہے۔
مہاراشٹر کے بعد کورونا کا سب سے زیادہ اثر کیرالہ میں دیکھا گیا تھا۔ نظر نہ آنے والے اس وائرس کو کیرالہ حکومت نے کنٹرول کر کے سب سے پہلے اپنے عوام کو راحت دلائی تھی۔ اس دوران ریاستی حکومت کا کام مثالی رہا۔ کسانوں کے مسائل کو دھیان میں رکھ کر ان کی فصلوں، سبزیوں اور پھلوں کے واجب دام دلانے کی بھی ریاست نے پہل کی۔ ایل ڈی ایف نے اپنے 2021 کے انتخابی منشور میں کسانوں کی آمدنی پچاس فیصد بڑھانے کی بات کہی ہے۔ ساتھ ہی ربر کی بنیادی قیمت کو دھیرے دھیرے بڑھا کر 250 روپے کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ منشور میں گھریلو خواتین کو پنشن دینے اور سماجی تحفظ پنشن کو 1600 سے بڑھا کر 2500 روپے کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ انتخابی منشور جاری کرتے ہوئے مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے ریاستی سکریٹری وجے راگھون نے کہا کہ ہم نے 2016 میں 600 وعدے کئے تھے جن میں سے 580 پورے کر دیئے ہیں۔ 40 لاکھ روزگار پیدا کرنے، 1500 اسٹارٹ اپ کے ذریعہ ایک لاکھ لوگوں کو نوکری دینے، خواتین کے خلاف جرائم کو بالکل ختم کرنے اور سمندری ساحل کے کٹاؤ کو روکنے اور ڈولپ کرنے کے لئے پانچ ہزار کروڑ روپے کے پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس موقع پر بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری اور دیگر لیڈران بھی موجود تھے۔
ایل ڈی ایف کی مد مقابل کانگریس نے اپنے انتخابی منشور کو ’پبلک مینی فیسٹو‘ کہا ہے۔ اس میں غریبوں کے ساتھ خواتین کو لبھانے پر دھیان دیا گیا ہے۔ سبھی سفید کارڈ رکھنے والوں کو مفت پانچ کلو چاول، 40 سے 60 سال کی غیر نوکری پیشہ خواتین کو 2000 روپے ماہانہ پنشن، ماؤں کو نوکری کے امتحان میں دو سال کی چھوٹ دینے، کم از کم آمدنی کی گارنٹی اسکیم کو لاگو کرنے اور سبری مالا مندر کی روایت کی حفاظت کیلئے قانون بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ راجستھان کی طرز پر خیر سگالی شعبہ بنانے کی بھی بات کی گئی ہے۔ جبکہ بی جے پی کے انتخابی منشور میں بی پی ایل خاندانوں کو سال میں چھ گیس سلنڈر دینے، ہائی اسکول کے طلبہ کو لیپ ٹاپ، ایس سی، ایس ٹی کو پانچ ایکڑ زمین دینے اور ریاست کو بھوک سے آزاد کرنے کے وعدے کے ساتھ سبری مالا، لو جہاد پر قانون بنانے جیسی باتیں شامل ہیں۔ واضح رہے کہ کیرالہ میں بی ڈی جی ایس، اے آئی ڈی ایم کے، جے آر ایس اور کامراج کانگریس این ڈی اے کا حصہ ہے۔ اسمبلی کی 140 سیٹوں میں سے 115 پر بی جے پی اور 25 پر اس کی اتحادی جماعتیں الیکشن لڑ رہی ہیں۔
ترویندرم کا نیمم انتخابی حلقہ بی جے پی کیلئے عزت کی لڑائی بن گیا ہے۔ کیرالہ کی اسی اکلوتی سیٹ سے 2016 میں بی جے پی کے او راج گوپال کامیاب ہوئے تھے۔ 93 سال کے راج گوپال اس بار الیکشن نہیں لڑ رہے لیکن وہ انتخابی تشہیر میں سرگرم ہیں۔ راج گوپال نے اپنے انٹرویو میں بی بی سی کو بتایا کہ یہاں لگاتار الیکشن لڑنے کی وجہ سے ان کی پہچان بن گئی تھی۔ لوگوں نے سوچا کہ کئی بار الیکشن لڑ چکا ہے ،چلو اس بار اسے جتا دیتے ہیں۔ اس مرتبہ نیمم کے نتیجے کا اثر بی جے پی کے مستقبل پر پڑے گا۔ یہ حلقہ فیصلہ کرے گا کہ ریاست میں پارٹی کا پھیلاؤ کتنا ممکن ہے۔ اس لئے مخالف جماعتوں کی کوشش ہے کہ اس بار یہاں کمل نہ کھلنے پائے۔ کانگریس نے اپنے مضبوط رکن کے مرلی دھرن کو نیمم سے اپنا امیدوار بنایا ہے۔ مرلی دھرن ریاست کے سابق وزیراعلیٰ کے کرونا کرن کے بیٹے ہیں۔ ان کا شمار بھیڑ جٹانے والے نیتاؤں میں ہوتا ہے۔ ایل ڈی ایف نے سیون کٹی کو میدان میں اتارا ہے۔ وہ 2011 میں نیمم کی اسمبلی میں نمائندگی کر چکے ہیں مگر 2016 میں او راج گوپال سے ہار گئے تھے۔
بی جے پی کی مرکزی قیادت جو بھی دعویٰ کرے لیکن مقامی لیڈران زمینی حقیقت سے واقف ہیں۔ راج گوپال کے مطابق پارٹی دہائی کا آنکڑا پار کر سکتی ہے۔ مگر جانکاروں کا ماننا ہے کہ بی جے پی کو اس بار سیٹیں ملنا مشکل لگتا ہے لیکن اس کے ووٹ فیصد میں اضافہ ہوگا۔ پچھلے الیکشن میں پارٹی کو 9 سیٹوں پر 30 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ گزشتہ سال ہوئے لوکل باڈی انتخابات میں بی جے پی کا مظاہرہ اچھا رہا تھا۔ 18 پنچایتوں میں اسے کامیابی ملی تھی اور دو نگر نگم میں اس کا راج ہے۔ پارٹی نے چناؤ جیتنے کیلئے سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے۔ عیسائی طبقہ کی حمایت حاصل کرنے کیلئے وزیراعظم اور وزیر داخلہ خود عیسائیوں کے مذہبی رہنماؤں سے ملے ہیں۔ کیرالہ میں 55 فیصد ہندو اور 45 فیصد اقلیتی ووٹ ہیں۔ پارٹی ووٹوں کو پولرائز کرنے کے منصوبہ پر بھی کام کر رہی ہے۔ اس لئے بی جے پی کے مقامی ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ہمارا ووٹ فیصد بڑھ کر 15 سے 18 فیصد ہو گیا ہے۔ اس بار پارٹی اچھا کرے گی اور ریاست میں فیصلہ کن طاقت بنے گی۔
ریاست میں بی جے پی کتنی آگے جائے گی، یہ تو اسمبلی انتخاب کے نتیجہ پر منحصر ہے۔ مگر یہ انتخاب لیفٹ سے زیادہ یو ڈی ایف کیلئے اہم ہے۔ اگر اس بار کانگریس یہاں ہار جاتی ہے تو جو کچھ ملک یا دوسری ریاستوں میں اس کے ساتھ ہو رہا ہے، یعنی رائے دہندگان اور کانگریس کے کارکنان کا بی جے پی کی طرف جھکاؤ، وہ کیرالہ میں بھی ہو سکتا ہے۔ کانگریس کے درمیانی اور کچھ بڑے لیڈران بھی سنگھ کے نظریہ سے جڑ جائیں گے۔ اس کا اندازہ 2016 کے اسمبلی انتخاب کے نتیجہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ این ڈی اے کو اس چناؤ میں کل 14.65 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس چناؤ میں بی جے پی کو 8.58 فیصد کا فائدہ ہوا تھا۔ مرکز میں حکومت ہونے کی وجہ سے پارٹی 7.09 فیصد یو ڈی ایف کے اور 1.57 فیصد ایل ڈی الف کے ووٹوں کو اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ اس بار بی جے پی کا زور ووٹ فیصد بڑھانے اور کچھ سیٹیں حاصل کرنے پر ہوگا۔
کیرالہ میں کانگریس کی ناکامی بی جے پی کے حق میں ہے۔ اس لئے بھاجپا کی کوشش ہوگی کہ موجودہ ریاستی انتخاب میں کانگریس ناکام ہو جائے۔ کانگریس کے آپسی اختلافات اور عین انتخاب کے وقت پارٹی میں گروپ بندی بی جے پی کے منصوبہ کو کامیاب کر سکتی ہے۔ کانگریس کی مرکزی قیادت کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تمام کوششوں کے باوجود کیرالہ میں بی جے پی کو متوقع کامیابی نہیں مل پا رہی ہے۔ اس کی وجہ او راج گوپال کے نزدیک لوگوں کا سو فیصد پڑھا لکھا ہونا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر مدے پر پڑھے لکھے لوگ سوچتے ہیں۔ اس کے بعد ہی وہ کوئی فیصلہ لیتے ہیں۔ کیرالہ میں بہ ظاہر ایل ڈی ایف کو عوام کی حمایت حاصل ہے لیکن ایل ڈی ایف، یو ڈی ایف اور بی جے پی کو لے کر اصل میں عام آدمی کے دل میں کیا ہے یہ دو مئی کے نتیجوں سے ہی سامنے آئے گا۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here