9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں
زندگی گر کچھ رہی تو یہ جوانی پھر کہاں
اردو زبان کے مشہور شاعر خواجہ میر درد کا مذکورہ شعر جب بھی سنتا ہوں، تو سیرو سیاحت پر نکلنے کو جی چاہتا ہے۔ آج کی ترقی یافتہ زندگی میں خود کے لیے وقت نکالنا کافی مشکل کام ہوگیا ہے، لیکن پھر بھی میں نے اپنے دو دوستوں کے ہمراہ گزشتہ دنوں (15 تا 19 مارچ) ریاست تمل ناڈو میں واقع قصبہ اوٹی کا رخ کیا۔ اس دوران ہم وہاں کے قدرتی مناظر سے بہت لطف اندوز ہوئے۔ اگر کوئی شخص گرمی کے ایام میں کہیں سیر و تفریح کے بارے میں سوچ رہا ہے تو یہ اس کے لیے ایک بہتر گائیڈ ثابت ہو سکتی ہے۔
سیر کرنا انسان کو فطرتاً اچھا لگتا ہے، لیکن آج کی مصروف ترین زندگی میں بہت کم افراد ایسے ہوں گے، جو سیر و سیاحت کے لیے اپنا خاص وقت نکالتے ہیں۔ فی الحال ہم عالمی کورونا وبا(کووڈ۔19) کے دور میں سانس لے رہے ہیں، اس وجہ سے بھی لوگ باہر نکلنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ لیکن اگر کسی نے من بنا ہی لیا ہے تو اسے ضروری ہدایات پر عمل کرتے ہوئے سیر پر نکلنا ہوگا۔
گرمی کے ایام شروع ہوچکے ہیں اگر کوئی سیاح پہاڑی مقامات کا رخ کرنا چاہے گا تو شاید اس کے ذہن میں اوٹی کا نام ضرور آئے۔ اوٹی کا نام سنتے ہی اکثر افراد کے ذہن میں پہاڑوں کا خیال آتا ہے، لیکن کیا آپ کو پتہ ہے کہ یہاں پہاڑوں کے علاوہ بھی دیگر سیاحتی مقامات موجود ہیں۔
اوٹی میں ایک سیاح پہاڑ کی چوٹی، چائے کے باغات، جھیل اور عام باغات سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ اوٹی کو سب سے خوبصورت جو چیز بناتی ہے وہ ہے گرمیوں میں یہاں کا موسم۔ جہاں بھارت کے مختلف مقامات پر مارچ تا جون شدید گرمی پڑتی ہے وہیں اوٹی میں اس دوران درجہ حرارت معتدل اور ہلکی سردی مائل رہتا ہے۔ یہاں کے ہوا کے جھونکے انسانوں کے لیے تفریح طبع کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اوٹی میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 17تا20 ڈگری اور سب سے کم 5تا12 ڈگری ہوتا ہے۔
اوٹی کی تاریخ کیا ہے؟
اوٹی ریاست تمل ناڈو میں ایک پہاڑی مقام ہے، جو ضلع نیلگری کا ایک قصبہ ہے۔ یہ ادگامنڈلم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اوٹی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اوٹی کا قیام 19 ویں صدی کے شروع میں انگریزوں نے چینئی میں اپنے دور اقتدار میں موسم گرما کے صدر مقام کے طور پر قائم کیا تھا۔
اوٹی کا سفر کیسے کریں؟
تمل ناڈو کے شہر کویمبٹور سے تقریباً 90 کیلومیٹر اور کرناٹک کے شہر میسور سے 150 کیلو میٹر کی دوری پر یہ خوبصورت قصبہ (اوٹی) واقع ہے۔ اگر کوئی سیاح اوٹی ٹرین یا ہوائی جہاز سے جانے کا قصد کرتا ہے تو اسے میسور یا کویمبٹور تک بذریعہ ٹرین و ہوائی جہاز سفر کرنا ہوگا، اس کے بعد وہ ٹیکسی، بس اور دیگر برقی سواریوں سے اوٹی پہنچ سکتا ہے۔
اوٹی کے سیاحتی مقامات:
بوٹینیکل گارڈن: یہ باغ اوٹی کے بالکل درمیان میں واقع ہے۔ 22 ایکڑ پر مشتمل اوٹی بوٹینیکل گارڈن 1847 میں بنایا گیا تھا۔ جسے تمل ناڈو حکومت نے اب تک برقرار رکھا ہے۔ ہر برس مئی میں پودوں کی نایاب نسلوں کی نمائش کے ساتھ ایک پھول شو بھی یہاں منعقد ہوتا ہے۔ باغات میں پودوں، جھاڑیوں، درختوں، جڑی بوٹیوں اور بونسائی پودوں کی ایک ہزار کے قریب نسلیں ہیں۔ جس میں غیر ملکی اور دیسی دونوں طرح کے پھولوں کے انواع و اقسام موجودہ ہیں۔ اس باغ میں 20 ملین سال پرانا جیواشم درخت بھی ایسا ایستادہ ہے کہ اس کو دیکھنے سے اس کی بزرگی اور ثابت قدمی کا بار بار احساس ہوتا ہے۔
گورنمنٹ روز گارڈن: گورنمنٹ روز گارڈن بھارت کا سب سے بڑا گلاب باغ ہے۔ یہ اوٹی قصبے کے وجیاناگرم میں ایلک ہل کے ڈھلوان پر 2200 میٹر کی اونچائی پر واقع ہے۔ آج اس باغ میں ملک میں گلابوں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جس میں 20000 سے زیادہ اقسام کے 2800 کاشتوں کے گلاب ہیں۔ اس کلیکشن میں ہائبرڈ چائے کے گلاب، چھوٹے گلاب، پولین تھاس، پاپیجینا، فلوری بونڈا، ریمبلرز، یاکیمور اور سیاہ اور سبز جیسے غیر معمولی رنگوں کے گلاب شامل ہیں۔
اوٹی جھیل: اوٹی جھیل 65 ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔ جھیل کے ساتھ ساتھ قائم کشتی مکان (بوٹ ہاؤس) سیاحوں کو بوٹنگ کی سہولیات مہیا کرتا ہے، یہ اوٹی میں سیاحوں کا ایک خاص مرکز ہے۔ مذکورہ جھیل اوٹی کے پہلے کلکٹر جان سلیوان نے 1824 میں تعمیر کرائی تھی۔ یہ جھیل اوٹی وادی کے نیچے بہنے والے پہاڑی ندیوں کے درمیان سے گذار کر تشکیل دی گئی تھی۔ موسم گرما کے دوران مئی ماہ میں جھیل پر دو دن تک کشتی ریس اور کشتیوں کی تیاری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
چائے کی فیکٹری: تقریباً ایک ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی، اوٹی ٹی فیکٹری نیلگریز کی نیلی پہاڑیوں کے درمیان واقع ہے، یہ فطرت سے محبت کرنے والوں، فوٹوگرافروں اور عشاقان چائے کے لئے اہم مقام ہے۔ سیاحوں کو پوری دنیا میں مختلف قسم کی چائے کی پتیوں کی اصل اور ہندوستان میں چائے سے وابستہ تاریخ کے بارے میں یہاں بتایا جاتا ہے۔ اس وسیع و عریض زمین میں سیاح چائے کے فارموں کا دورہ کرسکتے ہیں اور چائے کے تازہ پتے اتارنے سے لے کر اس کی پیکیجنگ تک کا طریقہ کار جان سکتے ہیں۔
یہاں دورے کے اختتام پر ہر کوئی مختلف قسم کی چائے کے ذائقے سے لطف اندوز ہوسکتا ہے اور گھر کے لیے بطور تحائف خرید سکتا ہے۔ یہاں کئی چائے کی فیکٹریاں ہیں جن میں دی ٹی فیکٹری، ڈوڈبیٹا ٹی فیکٹری اور بینچ مارک ٹی فیکٹری جیسی مشہور چائے فیکٹریاں ہیں۔
نیلگری ماؤنٹین ریلوے: نیلگری ماؤنٹین ریلوے کو انگریزوں نے سن 1908 میں تعمیر کیا تھا۔ ابتدا میں اس کا کام مدراس ریلوے کمپنی نے کیا تھا۔ ریلوے اب بھی بھاپ انجنوں کے بیڑے پر انحصار کرتا ہے۔ جولائی 2005 میں یونیسکو نے نیلگری ماؤنٹین ریلوے کو دارجلنگ ہمالیہ ریلوے کے عالمی ثقافتی ورثہ سائٹ میں توسیع کے طور پر شامل کیا، تب سے یہ سائٹ ’’ماؤنٹین ریلوے‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
ان سب کے علاوہ اوٹی کے آس پاس دو قصبے ایسے اور بھی ہیں جہاں کی سیر کرنا لازمی سمجھا جاتا ہے، اوٹی ٹرپ اس کے بنا ادھوری کہی جاتی ہے۔ پہلا ہے کونور قصبہ دوسرا میٹوپلیم۔ ان دونوں مقامات کے لیے سب سے بہترین آپشن ٹوائے ٹرین ہے، جو اوٹی میں ادگا منڈلم ریلوے اسٹیشن سے آپ کو بآسانی مل جائے گی۔
ہوٹل: اگر آپ کم قیمت پر اچھا ہوٹل چاہتے ہیں تو تھوڑی محنت کرنا پڑے گی۔ آپ کو وہاں کے کسی لوکل دکاندار یا پھر آٹو رکشہ والے سے اچھے انداز میں پوچھنا ہوگا۔ وہ آپ کو آپ کے بجٹ کے مطابق اچھا ہوٹل دلا دیں گے۔ عموماً ان دنوں لوگ اویو سے ایڈوانس بکنگ پسند کرتے ہیں، یہ سارا معاملہ آپ کی صوابدید پر منحصر ہے۔
ریسرچ اسکالربنارس ہندو یونیورسٹی 9305815492
ضض