9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
ڈاکٹر سلیم خان
ہیرین من سکھ کا قتل آج کل ذرائع ابلاغ پر چھایا ہوا ہے لیکن عشرت جہاں کی بات کوئی نہیں کرتاحالانکہ قومی تفتیشی ایجنسی کے مطابق دونوں ک معاملات میں ہلاکت کے لیے پولس قصور وار ہے۔ یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ گجرات کے رہنے والے من سکھ کا قتل مہاراشٹر میں ہوا اور مہاراشٹر کی رہنے والے عشرت جہاں کو اس کے چار ساتھیوں سمیت گجرات میں قتل کیا گیا۔ مہاراشٹر کے اندرجو بی جے پی من سکھ کے قاتل سچن وزے کو سزا دلانے کے لیے بے چین ہے گجرات کے اندر وہی پارٹی عشرت جہاں کے قاتلوں جی ایل سنگھل، انجو چوہدری اور ترون باروت کو بچا رہی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ عشرت جہاں مسلمان اور من سکھ ہندو ہے کیونکہ پرجاپتی کے قاتلوں کو بھی گجرات کی حکومت نے اسی طرح بچایا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ قتل و غارتگری گجرات کی سابقہ ریاستی حکومت کے ایماء پر کی گئی تھی جس کے سربراہ موجودہ وزیر اعظم تھے۔ مرکزی حکومت کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اب وہ اپنے آدمیوں کو بچار ہے اور مہاراشٹر میں مخالفین کی حکومت کو گرانے کے لیے من سکھ کے قاتل پکڑا جارہا ہے۔
عشرت جہاں کا معاملہ فی الحال سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے پاس ہے۔ یہ ادارہ مرکز کی بی جے پی حکومت یعنی وزیر داخلہ امیت شاہ کے تحت کام کرتا ہے ۔ سی بی آئی اس کے تین ملزمان آئی پی ایس افسر جی ایل سنگھل، اسٹیٹ ریزرو پولیس کمانڈو انجو چوہدری اور ریٹائرڈ ڈائریکٹر جنرل پولیس ترون باروت پر مقدمہ چلانا چاہتی تھی ۔ اس کے لیے گجرات کی حکومت سے توثیق لینا ضروری تھا ۔ مرکزی تفتیشی ایجنسی اگر مقدمہ چلانے کی خواہشمند تو ریاستی حکومت کو اس میں روڑہ اٹکانے کے بجائے اس کا تعاون کرنا چاہیے۔ وہ اگر ایسا نہیں کرتی ہے تو مرکز کو وزیر اعلیٰ پر ملزمین کو بچانے کے الزام لگا کرکارروائی کرتے ہوئے برخواست کردینا چاہیے لیکن گزشتہ دنوں گجرات کے وزیر اعلیٰ نے اس کی اجازت دینے سے انکار کردیا اورا میت شاہ سمیت پوری بی جے پی خاموش رہی ۔ مہاراشٹر میں من سکھ کے قتل پر ریاستی وزیر داخلہ کا استعفیٰ مانگنے والوں نے ایوان پارلیمان میں ہنگامہ تو کیا مگر گجرات میں عشرت جہاں کے قاتلوں کو بچانے والوں کے خلاف کوئی کچھ نہ بولا یہ منا فقانہ سیاست نہیں تو اور کیا ہے؟
من سکھ کی بالمقابل عشرت کے معاملے سیاسی مفاد اور مداخلت زیادہ عیاں ہے۔ یہ بات اب تقریباً واضح ہوچکی ہے کہ سچن وزے اور ہیرین من سکھ دھماکہ خیز گاڑی لگانے کی سازش میں شریک کار تھے ۔ اس دھماکہ خیز جلیٹن کے ساتھ ڈیٹونیٹر نہیں تھا یعنی اس کو اڑانے کا ذریعہ موجود نہیں تھا اور وہ اتنی کم قوت کے تھے کہ ان اڑائے جانے سے بھی کسی بڑے نقصان کا امکان نہیں تھا۔ اس کے باوجود صوبائی بی جے پی اس کی مدد سے ریاستی حکومت کو اڑا دینا چاہتی ہے اور وزیر داخلہ کا استعفیٰ مانگ رہی ہے۔ اس کے برعکس 2004 کے اندر جس عشرت جہاں کو چار بے قصور لوگوں کے ساتھ گجرات کی پولس نے فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا تھا وہ پولس کے ساتھ کسی سازش میں شریک نہیں تھے۔ ان کا کوئی مجرمانہ پس منظر بھی نہیں تھا ۔ اس کے باوجود انہیں کشمیری دہشت گرد قرار دے کر پولس نے قتل کردیا اور یہ افواہ اڑا دی کہ وہ لوگ وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو قتل کرنے کے لیے آرہے تھے۔ اس دعویٰ میں اگرکوئی حقیقت ہوتی تو گرفتار انہیں کرکے پوری سازش کا پتہ لگایا جاتا لیکن انکاونٹر کرکے ہلاک کردینا بتاتا ہے کہ یہ ہمدردی حاصل کرنے کی ایک کوشش تھی ۔ اس معاملے پر سی بی آئی کی تفتیش کے باوجود کسی نے استعفیٰ نہیں دیا اور اب ریاستی سرکار کے ذریعہ علی الاعلان قاتلوں کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔
عشرت جہاں معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ جون 2004 میں اوراس کے ساتھ دیگر تین افراد کو احمد آباد کے مضافات میں سیکیورٹی فورسز کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا۔ ہائی کورٹ کے ذریعہ تشکیل شدہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے انکاؤنٹر کو فرضی پایا تھا۔ اس طرح ریاستی پولیس کا یہ دعوی بے بنیاد ہوگیا کہ ان چاروں کے دہشت گرد گروہوں سے تعلقات تھے اور وہ اس وقت گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو قتل کرنے کی سازش کررہے تھے۔ اس انکشاف کے بعد یہ معاملہ مرکزی تفتیشی ایجنسی کو منتقل کردیا گیا ۔ اب سی بی آئی اس انکاونٹر میں ملوث لوگوں کے خلاف مقدمہ چلانا چاہتی ہے ۔ بہت ممکن ہے عدالت انہیں بے قصور مان کر بری کردے لیکن گجرات کی ریاستی حکومت کو ایسا نہیں لگتا ۔ یہ دراصل چور کی داڑھی میں تنکہ کی مصداق ہے اس لیے کہ اگرعدالت نے سی بی آئی سے اتفاق کرلیا تو اس سے وزیر اعظم نریندر مودی پر شبیہ پر حرف آئے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ وجئے روپانی کی حکومت کوئی خطرہ مول لینے کے بجائےمقدمہ کی اجازت ہی نہیں دیتی تاکہ نہ چلے مقدمہ اور نہ ملے سزا۔ یہ انصاف کا قتل نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ عجیب بات ہے کہ عدالت کے زیر نگرانی ایس آئی ٹی اس انکاونٹر کو فرضی مانتی ہے اور سی بی آئی اس پر مقدمہ چلانا چاہتی ہے مگر گجرات حکومت کا خیال ہے کہ مبینہ انکاؤنٹر پولیس نے اپنے فرائض کو ادا کرتے ہوئے کیا تھا۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ گجرات کی صوبائی حکومت کو عدالت کے تحت کام کرنے والی ایس آئی ٹی پر اعتماد نہیں ہے اوروہ سی بی آئی کی بات بھی نہیں مانتی ۔ یہ تو سراسر ہٹ دھرمی ہے اگر اسی طرح کی من مانی مہاراشٹر کی حکومت کرے تو مجرم قرار دیا جائے اور گجرات کے اندر ہوتو وہ سنیاسی کہلائے؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ابتداء میں سی بی آئی نے اس معاملے میں سات ملزمان سنگھل، باروت، چودھری، پرمار، وانزارا، امین اور پانڈے کا نام لیا تھا ۔ اس کی تفتیش کے مطابق اس گروہ کے سب سے سفاک کمانڈو موہن کالاسووا نے نہ صرف خود گولیاں چلائیں بلکہ اپنے ساتھی کمانڈو موہن نانجی سے بھی یہی کرنے کے لیے کہا اور انکارکرنے پر اس سے اے کے 56 چھین کرخود گولیاں برسانے لگا۔ قدرت نے 3سال کے اندر اس کا حساب چکتا کردیا اور وہ سفاک قاتل 40 سال کی عمر میں کینسر سے مرگیا ۔
موہن کے علاوہ جن لوگوں کو سرکار اس دنیا میں سزا سے بچا رہی ہے انہیں بھی اللہ کی عدالت میں پیش ہوکر چار بے قصور نوجوانوں کے قتل کی سزا بھگتنی ہی پڑے گی اور ان کو بچانے والے بھی بچ نہیں سکیں گے ۔ اس انکاونٹر کے وقت سنگھل احمد آباد کرائم برانچ کے اسسٹنٹ کمشنر پولیس تھے۔ ان کو سی بی آئی نے 2013 میں گرفتار کیا تھا لیکن نئی سرکار کے اقتدار سنبھالتے ہی سنگھل کے اچھے دن آگئے اورا نہیں بھی سچن وزے کی طرح مئی 2014 میں نہ صرف بحال کر دیا گیا بلکہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل کی حیثیت سے ترقی دی گئی۔ زعفرانیوں کے منظور نظر ونزاراہ، امین اور پانڈے کو بری کردیا گیا ۔ یہ کام اسی بی جے پی نے کیا جو من سکھ کے معاملے میں گلا پھاڑ پھاڑ کر سچن وزے کو پھانسی کے تختے پر پہنچانے کا مطالبہ کررہی ہے ۔ عشرت جہاں اور اس کے بے قصور ساتھیوں کے فرضی انکاونٹر میں ملوث لوگوں کو بچانے والوں کی قلعی کھل چکی ہے ۔ ان لوگوں کے لیے من سکھ کے قاتل کو سزا دینا عدل و انصاف کا نہیں بلکہ اپنی سیاست چمکانے کا ایک وسیلہ ہے۔ ٭