ضلع میرٹھ کے شعراء – Poets of Meerut district

0
846
Poets of Meerut district
انجینئر منظر زیدی

میرٹھ ایک قدیم شہر ہے۔کورو پانڈوں کے زمانے میں بھی یہ آباد تھا۔ ہستناپور انکی جائے پیدائش تھی۔میرٹھ میں بالمیکی نے بسیرا کیا اور رامائن جیسی کتاب وجود میں آئی۔اسی شہر میں روحانیت کے علمبردار حضرت شاہ پیر پیدا ہوئے۔اسی سر زمین میں حضرت گنج علم اور حضرت شاہ نتھّن آرام فرما رہے ہیں۔میرٹھ ہند وستان کے ان چند شہروں میں سے ہے جو اپنی تاریخی قدامت کے لہاظ سے صفِ اوّل میں آتے ہیں۔میرٹھ انقلاب کا پہلا نقیب اور جنگ آزادی کی پہلی آواز تھاجہاں سے ۱۰ مئی ۱۸۵۷ء کو جدو جہد آزادی کے لئے جنگ کا آغاز ہوا اور تحریک آزادی کی پہلی کرن پھوٹی۔میرٹھ کے جوانوں نے ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز حرّیت اور صدائے احتجاج بلند کی۔یہ وہ تاریخی جدوجہد ہے جسے اُس وقت غدر کا نام دیا گیاتھااور اب جنگ آزادی کہا جاتا ہے۔میرٹھ سے ہی معروف رہنما سبھاش چندر بوس کو آزاد ہند فوج کے لئے سر فروش مجاہد دستیاب ہوئے۔ اسی شہر کے بہادر جنرل شاہ نواز نے کورٹ ماشل کی کاروائی کے دوران لال قلع کے ایوان میں اپنے نعرہ حق سے لرزاں پیدا کیا تھا۔سبھاش چندر بوس کو آزاد ہند فوج کے لئے ’جے ہند‘ کا نعرہ پیش کرنے والے آزاد ہند فوج کے سپاہی عابد حسین سر زمین میرٹھ کے فرزند تھے۔اس نعرہ کو سبھاش چندر بوس اور فوج کے دوسرے افسران نے بہت پسند کیا تھا۔یہی نعرہ آج ہندوستان کی روح ہے جسے ملک کے سبھی رہنما اور باشندے بڑے فخر سے دہراتے ہیں۔کھیل سے متعلق سامان بنانے کے لئے بھی میرٹھ شہر مشہور ہے۔ ملک کے ہر کونے میں کھیل کے سامان کی تجارت میرٹھ سے ہوتی ہے۔میرٹھ کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ میرٹھ کے حریت پسندوں نے نہ صرف حصول آزادی کی جنگ میں حصہ لیا بلکہ اردو زبان کے آغاز ‘ نشود نما اور فروغ میں بھی میرٹھ والوں کا بڑا حصہ ہے۔اوم پرکاش آزادؔ نے میرٹھ کے بارے میں لکھا ہے ۔

یہ ستّاون کے ویروں کی زمیں عزّت کے قابل ہے
یہ آزادی کی دولت کی امیں عزّت کے قابل ہے
جو رہ رہ کے ابھرتی ہے صدا ذہنِ مورّخ میں
یہ میرٹھ عرضِ دل نشیں عزت کے قابل ہے
میرٹھ کی دبستانِ شاعری کی جن شعرائے کرام نے آبیاری کی اورآج بھی کر رہے ہیں ان کا تذکرہ یہاں کیا جارہا ہے۔ اسکے لئے شعراء کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ایک قدیمی یعنی دور ماضی کے شعراء دوسرے دور حاضر کے شعراء
دورِ ماضی کے شعراء
میرٹھ کے شعراء کو اپنے معاصرین میں ممتاز حیثیت حاصل رہی ہے۔جعفرزٹلی ‘ افضل جھنجھانوی اور منوّر خان دلمیر کے بعد سر زمین میرٹھ نے بڑی تعدا میں علمی شخصیات پیدا کیں جنہوں نے ۱۹ویں اور ۲۰ویں صدی میں ادب کو وسعت دیکر میرٹھ کے نام کو شہرت بخشی جن میں صرف شعراء کی تعدا تقریباً ایک ہزار ہے۔ تمام شعراء کا تذکرہ کرنے کے لئے چند صفحات پر مشتمل مضمون نا کافی ہے لہٰذا چند مشہور شعراء کے نام اور اُن میں سے چند شعراء کا مختصر تعارف اور نموعہ کلام پیش کیا جا رہا ہے۔میرٹھ کے ادبی افق پر جو نام نمایاں ہوئے ان میں مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی‘مرزا رحیم بیگ ‘ مرتضیٰ بیاں یزدانی‘ جمیل جالبی‘ مولانا شوکت میرٹھی‘شیام موہن لال جگر‘ حامداللہ افسر‘ سیّد معشوق حسین اطہر‘ لچھمی نارائن سخا‘ اندرجیت شرما‘ غلام محی الدین عشق و مبتلا‘ سیّد فضل الرحمٰن افضل‘ نواب مصطفیٰ خان شیفتہ‘سیّد احمد‘ مولانا عبدالباری آسی‘ احمد حسن انصاری‘پیارے لال شرما‘ حکیم فصیح الدین رنج و طبیب‘ حکیم غلام مولا قلق‘ احسان دانش‘ محمد احمد ہمدانی‘سیّد محمد احمد راجہ‘ اختر عالم صدیقی‘اقبال عظیم‘ اقتدار حسین‘ سیّد مقصود زاہدی‘ انجم جمالی‘ ہرونش لال مہتہ دیپک قمر‘ رفعت سروش‘ روش صدیقی‘ساغر نظامی‘ سیّد آل نبی زیدی‘ ریاض ا لحسن زیدی‘ شمیم جے پوری‘ حفیظ میرٹھی‘ تسکین قریشی میرٹھی‘سیّد حامد علی نقوی‘ حیراں کاشمیری‘ وجیندر سنگھ پرواز‘ شیر خان بوم‘ ڈاکٹرسیّد اقبال حسین صفوی‘ اسحاق اطہر صدیقی‘ اختر انصاری‘ زاہدہ زیدی‘ ساجدہ زیدی‘ ڈاکٹرسعدیہ نسیم‘ شائستہ زیدی‘ نور تقی نور‘ محمد احمد فرقانی‘ صمد یار خان‘ چراغ علی‘ ندرت میرٹھی‘ یحیٰ تنہا‘ انوار رضوی‘ حبیب ا لرحمٰن خان شیروانی‘انور حسین‘ نواب سر محمد یامین خان‘ امیر ا للہ شاہین‘ پنڈت امر ناتھ امر‘ ظ۔انصاری‘ خواجہ احمد فاروقی‘ ڈاکٹر سلیم اختر‘ انتظار حسین‘ اختر حمید خان‘ ڈاکٹر مسعود حسن‘ ڈاکٹر نجم ا لاسلام ،حکیم احمد شجاع‘ امداد حسین زبیری‘ جسیم الدین ہم دم‘ حکیم محمد نذیر احمد‘ نور احمد میرٹھی اورمولوی عبدالحق وغیرہ وغیرہ
مولوی عبدالحق ۔ میرٹھ کے شعراء کا تذکرہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ میرٹھ کے حوالے سے مولوی عبدالحق کا ذکر کیا جائے۔ بر صغیر کے ہر حصّہ میں انہیں بابائے اردو کہا گیا ہے۔یہ اردو زبان کی خدمت کے حوالے سے ایک نہایت ہی معتبر اور قابل احترام شخصیت ہیں۔انکی پیدائش ۲۰ اپریل ۱۸۷۰ء کو ہوئی۔ ۱۸۹۴ء میں محمڈن انگلو اورینٹل کالج علیگڑھ سے( جسکی بنیاد سر سیّد احمد خان کے ذریعہ رکھی گئی تھی) بی۔اے۔ کیا۔علیگڑھ میں ان کا ساتھ شبلی نعمانی‘ سر سیّد احمد‘ راس مسعود‘ محسن ا لملک اور سیّد محمود وغیرہ کے ساتھ رہا۔سر سیّد احمد نے ۱۸۸۶ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی تھی جسکے سیکریٹری عبدالحق مقرر ہوئے تھے۔ ۱۹۴۸ء میںیہ پاکستان چلے گئے جہاں انہوں نے اردویونیورسٹی قائم کی۔مولوی عبدالحق پر مقالات لکھکرمسلم یونیورسٹی علیگڑھ کے شہاب الدین ثاقب نے ایم۔فِل۔ ‘ سیّد معراج نیر نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ڈاکٹریٹ اور مسرّت فردوس نے بابا صاحب امبیڈکر یونیورسٹی اورنگ آباد سے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ ۱۶ اگست ۱۹۶۱ء کو پاکستان میں انکا انتقال ہو گیا۔
نور احمد میرٹھی۔ شعرا کی فہرست میں انکا نام نہیں آتا ہے مگر انہوں نے میرٹھ کے حوالے سے اردوشاعری کی جو خدمات کی ہیں وہ قابل تحسین ہیں۔ ملک آزاد ہونے سے چند ماہ قبل انکی پیدائش ہوئی۔ تقسیم ملک کے بعد انکے والدین پاکستان چلے گئے تھے مگر یہ اپنے نانا کے ساتھ میرٹھ میں رہے۔دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد ۱۹۶۲ء میں یہ بھی نانا کے ساتھ کراچی چلے گئے۔حالانکہ صرف ۱۵ برس کی عمر تک میرٹھ میں رہے مگر میرٹھ سے انکی محبت‘اہل میرٹھ سے انکی انسیت او رشعری ادب سے لگاؤ کا بہت بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے کراچی میں رہتے ہوئے میرٹھ کے تمام شعراء کے کلام کو حاصل کیا اور ’ تذکرہ شعرائے میرٹھ‘ کے نام سے ۹۹۲ صفحات پر مشتمل ذخیم کتاب ۲۰۰۳ء میں کراچی سے شائع کی۔اسکے علاوہ ۳۳۶ غیر مسلم شعراء کا نعتیہ کلام یکجا کرکے ’ بہرِ زماں بہرِ زباں‘ کے نام سے شائع کرایا۔
’بوستانِ عقیدت‘ کے نام سے ۱۲۰ غیر مسلم شعراء کا رثائی کلام یکجا کرکے ۲۰۰۷ میں شائع کرایا۔ اسکے علاوہ کئی مشہور شعراء کے شعری مجموعے بھی مرّتب کر کے شائع کرائے۔انکی ادبی خدمات کے لئے انہیں حکومت پاکستان اور مختلف ادبی اداروں کی جانب سے اعزازات سے بھی نوازہ گیا ہے۔جنوری ۲۰۱۵ میں انکا انتقال ہو گیا۔
مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی۔ انکی پیدائش ۱۲ نومبر ۱۸۴۴ کو ہوئی۔مرزا رحیم بیگ سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ شروع میں غزلیں لکھیں لیکن بعد میں نظمیں کہیں۔ انکی قابلیت اور خدمات کو دیکھتے ہوئے سرکار نے انہیں خان بہادر کا خطاب عطا کیا تھا۔ انہوں نے بچّوں کے لئے نہایت آسان زبان میں نظمیں اور کتابیں لکھیں۔ اسکے علاوہ غزل‘ قصیدہ‘ مثنوی‘ رباعی اور جدید شاعری میں بھی لکھاہے۔انہیں سہارنپور اور پھر آگرہ میں فارسی کا استاد مقرر کیا گیا۔ یکم نومبر ۱۹۱۷ء کو انکا انتقال ہو گیا۔خلیل الرحمٰن سیفی پریمی نے ’ حیاتِ اسمٰعیل‘ کے عنوان سے مقالہ لکھکر ۱۹۶۹ء میں دہلی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔انکی مشہور کتابیں ۔ عجیب چڑیا‘ اسلم کی بلّی‘ ایک بچّہ اور جگنو‘ ایک گدھا شیر بنا‘ کچھوا اور خرگوش ( بچّوں کی نظمیں) اردو کی پہلی کتاب ( پہلی سے پانچویں کلاس تک)۔نمونہ کلام پیش ہے۔
اس انجمن میں جائیں اب کس امید پر
ہم بیٹھنے نہ پائے کہ وہ بد گماں اٹھا
کبھی بھول کرکسی سے نہ کرو سلوک ایسا
کہ جو تم سے کوئی کرتا ‘تمہیں نا گوار ہوتا
جو بات کہو صاف ہو ستھری ہو بھلی ہو
کڑوی نہ ہو‘ کھٹّی نہ ہو ‘ مصری کی ڈلی ہو
چھری کا‘ تیر کا‘ تلوار کا تو گھاؤ بھرا
لگا جو زخم زباں کا رہا ہمیشہ ہرا
میر جعفر زٹلی۔ انکا سنِ ولادت ۱۶۵۸ء اور سنِ وفات ۱۷۱۳ء ہے۔جعفر زٹلی وہ شاعر ہیں جنکی مزاحیہ شاعری سے اردو ادب میں طنز و مزاح کی روایت کا آغاز ہوا۔ان کی شاعری کا زمانہ مغل بادشاہ اورنگ زیب کا دور تھا۔ان کے والدین کے انتقال کے بعد انکے ماموں نے انکی پرورش کی۔مکتب کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد شہزادہ کام بخش کی فوج میں ملازم ہو گئے۔ان کی مقبولیت اس حد تک بڑھی کہ شہزادی زیب ا لنسا ء نے انکو زٹلی کا خطاب دیا۔شہزادہ فرّخ سیر نے انہیں قتل کرا دیا تھا۔نمونہ کلام پیش ہے۔
گیا اخلاص عالم سے عجب یہ دور آیا ہے
ڈرے سب خلق ظالم سے عجب یہ دور آیا ہے
نہ یاروں میں رہی یاری نہ بھائیوں میں وفاداری
محبت اٹھ گئی ساری عجب یہ دور آیا ہے
شیام موہن لال جگرؔ۔ ان کی ولادت یکم نومبر ۱۸۹۰ ء کو ہوئی۔ انگریزی‘ فارسی اور فلسفہ مضامین میں بی۔اے۔ کیا۔ انکے والد میشی کنہیّا لال بھی شاعر تھے اور ’دِل ‘تخلّص کرتے تھے۔ انکے نانا گنگا پرساد بھی اردو کے شاعر تھے اور اوجؔ تخلص کر تے تھے۔۴ مارچ ۱۹۷۶ کو انکا انتقال ہوا۔نمونہ کلام پیش ہے۔
در د ہو دکھ ہو تو دوا کیجئے
پھٹ پڑے آسمان تو کیا کیجئے
تم نے پوچھا تو دل بھر آیا
کچھ کہہ نہ سکے تو رو دئے ہم
مر مر کے کٹی ہے زندگانی
یوں تو کہنے کو ہاں جئے ہم
حامد اللہ افسرؔ۔ انکی تاریخ پیدائش ۲۹ نومبر ۱۸۹۵ء ہے۔میرٹھ کے مشہور مفتی خاندان سے انکا تعلق ہے۔میرٹھ کالج سے ۱۹۳۰ء میں بی۔اے۔ کیا ۔گورنمینٹ جوبلی کالج لکھنؤ میں اردو پڑھانے پر تقرر ہوا۔ان کی ادب سے دلچسپی کے باعث کالج کے بہت سے شاگردوں کو ادب سے لگاؤ پیدا ہوا اور بعد میں وہ معروف ادیب ہوئے جن میںڈاکٹر نور الحسن ہاشمی‘ حیات اللہ انصاری‘ علی جواد زیدی اورر ڈاکٹر ولی حق انصاری قابل ذکر ہیں۔جدید نظم اور جدید افسانے کی تحریک کے علمبردار رہے۔نظم گوئی کی حیثیت سے انکا نمایا مقام ہے۔ ڈاکٹر مقصود حسین نے اپنے مقالہ’ حامد اللہ افسر ،حیات ،شخصیت اور کارنامے‘ پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹ اپریل۱۹۷۴ء کو انکا انتقال ہوا۔
گرمی کی بہار (نظم) کا ایک بندپیش ہے۔
جب ذرہ ذرہ جلتا ہو ، تب دیکھ بہاریں گرمی کی
رگ رگ سے پسینہ ڈھلتا ہو تب دیکھ بہاریں گرمی کی
جب لوُ کا جھگڑ چلتا ہو تب دیکھ بہاریں گرمی کی
پتھر تک آگ اگلتا ہو تب دیکھ بہاریں گرمی کی
جب خون بدن میں ابلتا ہو تب دیکھ بہاریں گرمی کی
سیّد معشوق حسین اطہرؔ۔انکی ولادت ۳ اکتوبر ۱۸۷۳ء کو ہوئی۔عربی اور فارسی زبانوں میں اچھی استعداد رکھتے تھے۔وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔جے پور میں ۱۹۲۵ء میں منصف ہو گئے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے گئے۔۲۵ فروری ۱۹۵۷ء کو کراچی میں انتقال ہو گیا۔
شوق پیدا کر دیا ارمان پیدا کر دیا
زندگی نے موت کا سامان پیدا کر دیا
بت پرستی حق پرستی بن گئی اطہر مری
انتہائے کفر نے ایمان پیدا کر دیا
آنکھیں بچھا رہا ہوں قیامت کی راہ میں
اللہ رے انتظار ترے روز دید کا
شیر خان‘ بومؔ میرٹھی۔ ان کا سنِ پیدائش ۱۸۸۱ء بتایا جاتا ہے۔ہاپوڑ تحصیل میں چپراسی تھے ۔تحصیلدار سے متعلق ایک مسدّس ’چماری نامہ‘ کے عنوان سے لکھنے کی وجہ سے ملازمت سے سبکدوش کر دئے گئے۔مزاحیہ شاعری میں انکا خاص مقام ہے۔سیّد اعجاز الدین پاپولر میرٹھی نے انکے کلام کویکجا کرکے۱۹۸۰ میں ’انتخاب کلام بوم‘ کے نام سے شائع کرایا ہے جسے کچھ اضافہ کے ساتھ انہوں نے ۲۰۱۶ میں دوبارہ شائع کرایا۔نمونہ کلام پیش ہے۔
آتشِ حسن بھری ہے ترے رخساروں میں
کون منہ مارے دہکتے ہوئے انگاروں میں
بوسے ملتے تھے کبھی وہ عشق کا آغاز تھا
جوتیاں کھاتے ہیں اب یہ عشق کا انجام ہے
جو کہا کر تے تھے پہلے شیر خاں ‘ اب بوم کہتے ہیں
یہ سچ ہے عشق میں صورت بدل جاتی ہے انساں کی
سیّد فضل ا لرحمٰن ، فضلؔ۔ یہ ۱۸۸۵ء میں پیدا ہوئے۔حکماء کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔سیّد معشوق حسین اطہر کے شاگرد تھے۔تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے گئے جہاں انہیں حالات کی نا سازگاریوں اور اپنوں کی بے اعتنائیوں سے دو چار ہونا پڑا۔انہوں نے تمام اصناف سخن میں اپنے جوہر دکھائے ہیں۔انکے کلام کے چند اشعار پیش ہیں۔
تم نے سب کچھ کہہ لیا میں نے سب کچھ سُن لیا
میں ہی ناداں ہوں چلو مجھ سے ہی نادانی ہوئی
برق میں اتنی کہاں رعنائیاں
حسن نے لی ہیں کہیں انگڑائیاں
جوش حسن شباب ارے توبہ
اور پھر بے نقاب ارے توبہ
فرش کیا عرش بھی لرز جائے
قلب کا اضطراب ارے توبہ
(جاری)

بیاں و یزدانی۔ یہ ۱۸۵۰ء میں پیدا ہوئے تھے۔اردو مین بیان اور فارسی میں یزدانی تخلص کرتے تھے۔عالموں میں جیّد عالم اور ادیبوں میں بلند پایہ ادیب مانے جاتے تھے۔صحافت سے گہرا تعلق رکھتے تھے۔پہلے اخبار ’جلوہ ٔ طور ‘کے ایڈیٹر رہے پھر اپنا اخبار’ طوطیٔ ہند‘ جاری کیا۔ پھر رسالہ’ لسان الملک‘ اور ’ طوفان‘ نکالا۔۱۳ مارچ ۱۹۰۰ء کو انکا انتقال ہو گیا۔ نمونۂ کلام پیش ہے۔
حیا ٹوٹی،حجاب اٹھا،نقاب الٹا، قبا اتری
مچل کر کوئی ارماں اب نکل آئے تو کیا ہو
نہ کھولی آنکھ وقت نزع بیمار محبت نے
کسی کا پردہ رکھنا تھا،کوئی آنکھوں میں پنہاں تھا
بیاںؔ ہر شعرِ تر بحرِ سخن کا درّ ِیکتا ہے
نزاکت میں، لطافت میں، فضاحت میں، بلاغت میں

حکیم فصیح الدین،رنج و طبیب۔ یہ خاندان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے۔عہد مغلیہ میں اس خاندان کے افراد ممتاز عہدوں پر فائز تھے۔انکی ولادت ۱۸۳۶ء میں ہوئی۔طب کی کتابیں مشہور طبیب سعادت علی خاں سے پڑھیں۔ شاعری میں ممتاز شاعر غالب کے شاگرد رہے۔یہ شاعر کے ساتھ تذکرہ نگار کی حیثیت سے بھی مشہور ہیں۔انہوں نے اردو شاعرات کا پہلا تذکرہ ’بہارستانِ ناز‘ ترتیب دیا جو ۱۸۶۴ء میں میرٹھ سے شائع ہوا۔ ان پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹر راحت ابرار نے اودھ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔نمونہ کلام۔۔
وائے قسمت وہ بھی ان کے عاشقوں میں ہو گیا۔جو مری قسمت سے میرا نامہ بر پیدا ہوا
ایک بار اور میری عیادت کو آئیے۔ اچھی طرح سے میں ابھی اچھا نہیں ہوا
عشق میں ہم نے کیا اپنوں کو غیر۔تم نے کیوں کر غیر کو اپنا کیا
دیکھو تم اپنے پہلوئے دل میں جگہ نہ دو۔ کہتے ہیں جسکو رنج وہ میرا ہی نام ہے
شاہد عزیز، روشؔ صدیقی۔انکی پیدائش ۱۰ جولائی ۱۹۰۷ء کو سہارنپور میں ہوئی۔بعد میں یہ میرٹھ آگئے۔ان کے والد طفیل احمد بھی شاعر تھے۔شروع میں غزل کہتے تھے بعد میں نظم کی طرف متوجہ ہوئے اور کامیاب نظم نگار کے طور پر مشہور ہوئے۔ان پر ڈاکٹرنسیم اختر نے
۶
پی۔ایچ۔ ڈی۔ کیا۔ ۲۲ جنوری ۱۹۷۱ء کو شاہجہاں پور مشاعرے میں کلام سناتے وقت انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہیں انتقال ہو گیا۔
زمانہ چیں بہ چیں ہے بات کیا ہے روشؔ۔ ہم اس عتاب پہ کچھ اور مسکر لیں گے
’وادیٔ سندھ‘ نظم کے چند اشعار
دشت ہے منزلِ خوباں دلِ حیراں کی طرح۔ چاک ہے دامنِ اشراق گریباں کی طرح
صبحِ زریں کے اجالے میں گھنیرے سائے۔ ہر طرف ہیں نگراں چشمِ غزالاں کی طرح
گنگناتی ہوئی موجوں نے اٹھایا ہے رباب۔ کسی آشفتہ و بد مست غزل خواں کی طرح
ذوقِ نظارہ‘ بصد شوق کشادہ آغوش ۔ وادیٔ سندھ ‘ کسی خوابِ گریزاں کی طرح
فہیم الحسن‘شمیم جے پوری۔ان کی ولادت ۱۹۲۸ ء میں ہوئی۔۱۹۵۱ء میں اپنے وطن سے میرٹھ آگئے۔ میرٹھ میں تسکین قریشی کے شاگرد ہوئے۔ان کے کلام کی بڑی خصوصیت اسکی سادگی ‘ صفائی‘ روانی ‘بے تکلفی‘ شستگی وشگفتگی ہے۔ انہوں نے نازک اور سبک الفاظ کا استعمال کرکے غزل کی نفاست اور نزاکت کو بر قرار رکھا ہے۔فلموں میں بھی انکے کئی گانے بہت مشہور ہوئے۔ جیسے۔۔اکیلے ہیں چلے آؤ‘ جہاں ہو‘ کہاں آواز دیں تمکو‘ کہاں ہو۔ مجھ کو اس رات کی تنہائی میں آواز نہ دو۔ ۳۱ مئی ۱۹۹۹ کو انکا انتقال ہو گیا۔نمونہ کلام۔
وہ الٹنے بھی نہ پائے تھے ابھی رخ سے نقاب۔بجلیوں کی ایسی اک دنیا نظر آئی کہ بس
یوں تو مدّت تک نہں آیا کبھی انکا خیال۔اور جب آئی تو انکی ایسی یاد آئی کہ بس
وہی زمیں ہے‘ وہی آسماں‘ وہی ہو تم۔ سوال یہ ہے زمانہ بدل گیا کیسے
سخت ہے عشق کی رہ گزر ‘ چلنے والے ذرا دیکھ کر
تجھ سے بڑھ کر حسیں کون ہے‘ کس کو دیکھوں تجھے دیکھ کر
حفیظ الرحمٰن حفیظؔ میرٹھی۔ انکی ولادت ۱۰ جنوری ۱۹۲۲ء کو ہوئی۔ پرئیویٹ طور پر انٹر کا امتحان پاس کیا۔فیض عام انٹر کالج میں بطور کلرک ملازم ہو گئے۔وہ جماعت اسلامی کے رکن تھے۔ ملک میں ایمرجنسی کے دوران ۱۹۷۵ میں انکے باغی تیور دیکھ کر انہیں گرفتار کر لیا گیاتھا۔ملک کے بہت سے مشہور ناقدوں نے انکے کلام کو سراہا ہے۔ڈاکٹرشفیق عالم نے انکی زندگی میں ان پر پی۔ایچ۔ڈی۔ کیا ہے۔ ۷ جنوری ۲۰۰۰ء کو انکا انتقال ہو گیا۔نمونہ کلام پیش ہے۔
آج کچھ ایسا طے پایا ہے حق کے اجارہ داروں میں
ہم پر جو ایمان نہ لائیں چنوادو دیواروں میں
ہر ظالم سے ٹکّر لی ہے سچّے فنکاروں نے حفیظؔ
ہم وہ نہیں جو ڈر کر کہہ دیں’ ہم ہیں تا بعداروں میں‘
۷
توُ جوہری ہے تو زیبا نہیں تجھے یہ گریز۔ مجھے پرکھ مری شہرت کا انتظار نہ کر
شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے۔دل ٹوٹے آواز نہ آئے
نیاز و ناز کی لذت حفیظؔ سے پوچھو۔ خدا شناس بھی ہے وہ خود شناس بھی ہے
نور تقی‘ نورؔ میرٹھی ۔ ان کی ولادت ۱۹ جنوری ۱۹۱۹ء کو ہوئی۔انہوں نے مختلف اصناف میں اپنے جوہر دکھلائے۔زلف و رُخ کی بحر کاری آپ کے کلام کا حصہ ہیںاور زندگی کے خدوخال بھی شعروں میں ڈھل گئے ہیں۔انہوں نے طنز و مزاح میں بھی شعر کہے ہیں ۔انکے شعری مجموعے ’نگاراں ، شہرِ خوشبو، چراغ ِشام، جانِ من، روشنی اے روشنی، اور پھول بولتے ہیںاردو میں شائع ہوئے ہیں۔انکے کئی شعری مجموعے ہندی میںبھی شائع ہوئے ہیں۔نمونہ کلام پیش ہے۔
ہم نفاست پسند انسان ہیں۔ چاہے پتھر ہی دے، سجاکر دے
غزل عورتوں تک نہیں ہے میاں۔ غزل میں زمانے کے حالات لا
سدا کاغذوں پر نہ اشعار لکھ۔ کبھی روح تک یہ حکایات لا
وہ خوبیاں جو مجھ میں نہیں تھیں برائے نام
جب دن پھرے تو ساری مرے نام ہو گئیں
گزر گیا، چلو اچھا ہوا ،اکیلا تھا۔ وہ اپنے گھر میں مسافر کی طرح رہتا تھا
محترمہ ساجدہ زیدی۔ انکی ولادت ۱۹۲۷ء میںمیرٹھ میں سیّد مستحسن زیدی کے گھر ہوئی۔آپکی والدہ مولانا حالی کے بیٹے خواجہ اخلاق حسین کی نواسی تھیں۔چھوٹی بہن زاہدہ زیدی بھی مشہور شاعرہ تھیں۔گھر میں ادبی ماحول تھا۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ تعلیم میں پرفیسر رہیں۔آپکے تین شعری مجموعے،جوئے نغمہ،آتشِ سیّال اور سیلِ وجود شائع ہوئے۔اگرچہ ادبی سفر کا آغاز شاعری سے ہو مگرانہوں نے مضامین، ڈرامے اور ناول بھی لکھے ہیں۔نمونہ کلام پیش ہے
رات جب ڈھل چکی، تب دئے طاق پر
صبح دم جس نے روشن کئے، کون ہے
ہم تو اٹھ آئے ہیں بزم سے اب کہو
ہنس کے جو زہرِ ہستی پئے، کون ہے
سرِ بزم دوستاں بھی نہ کھلی زباں ہماری
ارے رنجِ نا رسائی تجھے کیسے عام کرتے
حکیم مسعود احمد عبّاسی، مبصّرؔ۔حکیم صاحب کی پیدائش ۱۴ جنوری ۱۹۳۴ء کو ہوئی۔آپ میرٹھ میں میونسپل بورڈ کے یونانی اسپتال میں
میڈیکل آفیسر تھے۔حکیم صاحب میرٹھ کی ادبی محفلوں میں خوب حصّہ لیتے تھے۔ہندوستان کے مشہور شعراء جیسے مجروح سلطان پوری، حق بنارسی، بشیر فاروقی، شمیم جے پوری وغیرہ سے اچھے مراسم تھے جو آپکے گھر کی نشستوں میں بھی حصّہ لیتے تھے۔ ۱۹۹۶ میں آپ حج کا فریضہ انجام دینے سعودی عرب گئے تھے جہاں ۱۷ اپریل ۱۹۹۶ء کو آپکا انتقال ہو گیا۔نمونہ کلام پیش ہے۔
جستجو شرط ہے انساں کی بلندی کے لئے۔ میں جہاں آج نہ پہنچا وہاں کل جاؤنگا
یاد آئیگا مرے بعد مرا نام بہت۔ تذکرہ وہ بھی کرینگے سحر و شام بہت
وہ دن کہ جب مرے چاروں طرف اندھیرا تھا۔ مجھے بتا کے گئے ہیں کہ کون میرا تھا
آگ کے شعلوں کو دیتی ہے جو شبنم کا مزاج۔وہ زباں صرف محبت کی زباں ہوتی ہے
جز قطرۂ خوںکچھ بھی نہیں دل کی حقیقت۔ طوفان اٹھانے کی مگر بات کرے ہے
دور حاضر کے شعراء
جو شعرائے اکرام آجکل میرٹھ کے دبستانِ شاعری کی زینت ہیں انکی بھی ایک طویل فہرست ہے۔بقول پاپولر میرٹھی۔ ہمارے شہر میں ہیں پاپولرؔ بہت شاعر۔ سب ٓائیں تو کئی دن کا مشاعرہ ہوگا۔یہاں ان چند شعراء کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو اپنی شاعری سے میرٹھ کا نام ادبی دنیا میں روشن کر رہے ہیں۔ ان میں ڈاکٹربشیر بدر، ڈاکٹر سیّد اعجازالدین پاپولر،محمد علی زیدی طالب،ابھے کمار ،ڈاکٹرشبیہ احسن کاظمی، ڈاکٹر رونق زیدی، عرفان اعظمی، سراج نقوی،راجیو موہن شاداب، ڈاکٹر محمد یونس غازی، دنیش کمار شباب،طاہر تنویر، فاروق بخشی،احمد علوی، واجد میرٹھی، ارشاد بیتاب،اسلام الدین اسلام،ظہر الدین ظہیر، نظیر میرٹھی، شعیب گُل، محترمہ پروین، طاہر میرٹھی، نسیم میرٹھی، فخری میرٹھی۔ڈاکٹر اروند کمار نادان،نصیر الدین پروانہ،انور ظہیر انور،انوار الحق شاداں،کشن کمار بیدل،اسرار کٹھوڑوی،کشن سروپ،رام گوپال بھاٹیا،اسرار الحق اسرار، تابش فریدی، ڈاکٹر مکرّم احمد ادنا، وارث وارسی،اظہر اقبال، او م کار ناتھ گلشن، جمال پپو،شاکر تسلیم، صغیر سنبھلی، مہدی زیدی میرٹھی اور ہمدم نوری وغیرہ
ان شعرا میں غیر مسلم شعراء کی تعداد بھی کافی ہے۔ہندوستان میں آزادی سے پہلے اردو میں شاعری کرنے والے غیر مسلم شعراء کی کثیر تعداد ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں کیوںکہ اُس وقت اردو اور فارسی اسکولوں میں نصاب میں شامل تھی۔مگر آزادی کے بعد جبکہ اردو دن بہ دن سمٹتی جا رہی ہے غیر مسلوں کا اردومیں شاعری کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو کو مذہب سے جوڑ کر مسلمانوں کی زبان کہنا نا انصافی ہے۔ غیر مسلم نہ صرف اردو میں شاعری کر رہے ہیں بلکہ باقائدہ اردو کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔اگر اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہوتی تو سعودی عرب، ایران، عراق،ٹرکی اور دنیا میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا میں بولی جا رہی ہوتی جبکہ اردو پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی مکمل طور پر نہیں بولی جاتی ہے۔
ڈاکٹر بشیر بدر۔ان کی پیددائش ۱۵ فرسری ۱۹۲۵ء میں کانپور میں ہوئی۔انہوں نے پولس محکمہ کی ملازمت میںرہتے ہوئے پڑھائی کا
سلسلہ جاری رکھا۔انہوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو میں ایم۔اے۔ اور پھر پی۔ایچ۔ڈی۔ کیا۔انہوں نے ایم۔اے۔ میں فرسٹ پوزیشن لانے پر گولڈ میڈل اور سارے مضامین میں ٹاپ کرنے پر رادھا کرشنن پرائز حاصل کیا اور پھر میرٹھ کالج کے شعبہ اردو سے منسلک ہو گئے۔ انکے پانچ شعری مجموعے،اکائی، امیج،آمد، آسمان اور آہٹ شائع ہوئے ہیں۔بشیر بدر نئی لفظیات کے تخلیقی استعمال میں مشہور ہیں۔آپ مشاعروں کے کامیاب شاعررہے ہیں۔ نمونہ کلام پیش ہے
پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے۔ خود راہ بنا لیگا بہتا ہوا پانی ہے
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائیگا جو گلے ملوگے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
عجیب شخص ہے ناراض ہو کے ہنستا ہے
میں چاہتا ہوں خفا ہو تو وہ خفا ہی لگے
خوبصورت، اداس، خودزدہ۔ وہ بھی ہے بیسویں صدی کی طرح
بچھڑتے وقت کوئی بدگمانی دل میں آجاتی
اُسے بھی غم نہیں ہوتا مجھے بھی غم نہیں ہوتا
ڈاکٹر اعجاز الدین شاہ پاپولر میرٹھی۔ یہ ۹ اگست ۱۹۵۶ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔انہوں نے میرٹھ کالج سے اردو میں ایم۔اے۔ اور پھر پی۔ایچ۔ ڈی ۔کیا۔انکے والد سیّد نظام الدین میرٹھ میں نظام پارک میں مشاعرے کراتے تھے۔یہی ادبی محفلیں انکی اولین ادبی درسگاہ ہیں۔شروع میں سنجیدہ تخلیقات کی طرف بڑھے مگر جلد ہی انہیں احسا ہو گیا کہ ان کے لئے مزاح نگاری موضوع ہے۔ ۱۹۷۶ سے ریڈیو اور ٹی۔وی۔ پر انکا کلام نشر ہونے لگا۔ملک و بیرون ممالک میں زبردست شہرت پائی۔ منفرد لہجہ رکھتے ہیںغالب اور دوسرے مشہور شعراء کے مصرعوں پر انکی تضمین انکی صلاحیتوں کا ثبوت ہے ۔دلاور فگار کے پاکستان چلے جانے کے بعد پاپولر میرٹھی نے انکی کمی کو پورا کیا اور انکی روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے اس میں خوبصورت اضافے کئے۔اگست ۱۹۹۷ میں انکا پہلا مجموعہ’ ہنس کر گزاردے‘ شائع ہوا۔اسکے بعد اردو اور ہندی میں انکے کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ نمونہ کلام پیش ہے۔
محبوب وعدہ کرکے بھی آیا نہ دوستو۔ کیا کیا نہ کیا ہم نے دیکھو اسکے پیار میں
مرغے چراکے لائے تھے جو چار پاپولر۔’ دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں ‘
شکر ہے چھیڑ چھاڑ کی تہمت۔ اب اسکے سر نہیں جاتی
کیسا سرمہ لگا لیا اسنے۔ ’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘
وقت نکاح ہم جو تھے دولہا بنے ہوئے
بلوایا عورتوں نے سلامی کے واسطے
ہم رخصتی کے وقت یہی کہہ کے چل پڑے
’ لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے‘
اس مرتبہ بھی آئے ہیں نمبر ترے تو کم
رسوائیوں کا کیا مری دفتر بنے گا توُ
بیٹے کے سر پہ دے کے چپت باپ نے کہا
پھر فیل ہو گیا ہے منسٹر بنے گا توُ
محمد علی زیدی طالب۔ انکی ولادت ۱۹۴۴ میں میرٹھ میں ہوئی۔ علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انکے دادا خان بہادر محمد شوقؔ تھے جنکو غالب کی ہم عصری کا شرف حاصل تھا۔مشہور شاعرات ساجدہ زیدی اور زاہدہ زیدی انکی تایا زاد بہنیں تھیں۔انہیں نظم و غزل دونوں پر عبور حاصل ہے۔۱۹۷۸ میں نثری نظموں پر مشتمل مجموعہ ’پہلا پتھر‘ شائع ہو چکا ہے۔نمونہ کلام پیش ہے
ہم اپنے آپ کو یوں چاہتے ہیں۔ ہمیں اک شخص نے چاہا بہت ہے
بظاہر جس میں شاخیں ہیں نہ پتّے۔ ہمیں اس پیڑ کا سایہ بہت ہے
میں اکثر سوگیاہوں پڑھتے پڑھتے ۔ ترے خط میرے کام آئے بہت ہیں
غموں کی دھوپ کتنی بھی کڑی ہو۔ تمہاری یاد کے سائے بہت ہیں
ابھے کمار ابھے۔انکی پیدائش ۱۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو ہوئی۔۱۹۷۳ میں میرٹھ آکر اردو سیکھی اور مشاعروں میں شامل ہونے لگے۔روائتی شاعری کے دلدادہ ہیں۔کلام میں مشاہداتی کیفیت نمایاں ہے ۔نمونہ کلام۔
تری تلاش میں نکلے تو خود تک آ پہونچے
کہ جستجو کا تری سلسلہ ہی ایسا ہے
میں تاجر ہوں مرے اجداد تاجر تھے مگر
چلن بازار کا آیا نہ بازاری حساب آیا
مسل کر پھول دل کا پھینک دیگا۔ ابھےؔ اس شوخ میں بچپن بہت ہے
محترمہ ڈاکٹر رونق زیدی۔ انہوں نے میرٹھ یونیورسٹی سے تاریخ اور اردو میں ایم۔اے۔ کیا۔علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے ’ رشید احمد
صدّیقی، فن اور شخصیت‘ مقالہ پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔آپکے مضامین، منظومات و کہانیاں ہند و پاک کے مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔انہیں ہریانہ اردو اکیڈمی کی جانب سے ’ صابر دت ایوارڈ‘ سے بھی نوازہ گیا ہے۔کچھ عرصے انہوں نے میرٹھ کالج کے شعبہ اردو میں پڑھایا ہے۔انہوں نے ۱۹۷۲ میں میرٹھ سے ادبی ماہ نامہ ’روشی‘ بھی جاری کیا تھا۔آپ کا کلام آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس سے بھی نشر ہوتا رہا ہے۔ نمونہ کلام پیش ہے
تمام رات وہ سائے قریب رہتے ہیں
میں جن سے دن کے اجالے میں روٹھ جاتی ہوں
ہر تمنّا دھواں بن کے اڑنے لگی۔ جب سے دیکھی ہیں اوروں کی رسوائیاں
پہنچ سکے گی نہ رونقؔ تری صدا اس تک۔ ڈھکا ہے اس کا مکاں برف کی رداؤں سے
اسر الحق اسرار کٹھوروی۔ انکی پیدائش یکم اگست ۱۹۴۹ء کو میرٹھ کے قصبہ کٹھور میں ہوئی۔ اردو ادب میں ایم۔اے۔ کیا۔انکی مختلف مو ضوعات پر کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔آپ با صلاحیت اور پختہ گو شاعر کے ساتھ ساتھ اردو ادب کی با معنی شخصیت ہیں۔
سجا رکھا ہے کب سے اک تبسّم اپنے ہوٹوں پر
مگر اب ہم سے ہنسنے کی اداکاری نہیں ہوتی
سبھی کے ظاہر و باطن پر ہے گہری نظر میری
نہیں ہوتی تو اپنی ہی نگہدار ی نہیں ہوتی
جسے دیکھو وہی ڈوبا ہوا ہے اپنے خوابوں میں
کھلی آنکھوں میں بھی اسرارؔ بیداری نہیں ہوتی
دنیش کمار شباب۔ میرٹھ کی ادبی محفلوں میں انکا کلام بہت پسند کیا جاتا رہاہے۔انہوں نے فلموں میں گیت اور ٹائٹل سونگ بھی لکھے ہیں۔ انکے دو مجموعۂ کلام منظر عام پر آ چکے ہیں۔انکا یہ شعر بہت مشہور ہے۔
میرے چھپّر کے برابر آٹھ منزل کا مکاں۔ تم مرے حصہّ کی شاید دھوپ بھی کھا جاؤگے
اسلام الدین اسلام۔ ۱۹۵۰ میں میرٹھ میں پیدا ہوئے۔با صلاحیت شاعر ہیں۔ مختلف جرائد میں کلام شائع ہوتے رہے ہیں۔شعری نشستوں میں حصہ لیتے ہیں۔ نمونہ کلام۔
سوال یہ ہے اگر وہ مجھے خراش کرے۔بدن کی شاخ سے پہلے لہو تلاش کرے
اداس چہرے میں خوشبو ذرا بکھر آئے۔ دیارِ شب میں کوئی روشنی نظر آئے
راجیو موہن شادابؔ۔۷ اپریل ۱۹۵۵ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے ہیں اس لئے اردو میں بھی ایم۔اے کیا۔عربی، فارسی پر بھی دسترس حاصل ہے۔اردو کی ترقّی کے لئے آگے آگے رہتے ہیں۔اپنے پر کشش کلام اور مخصوص طرز کلام سے سامعین کے قلوب کو مسخّر کر لیتے ہیں۔نمو نہ کلام پیش ہے۔
لفظ ہونٹوں پہ تولتے ہیں ہم۔ تب کہیں جاکے بولتے ہیں ہم
ہم ہیں اردو زبان کے شیدائی۔ بات میں شہد گھولتے ہیں ہم
میں تجھے دیکھ لوں توُ مجھے دیکھ لے۔ میں ترا آئینہ توُ مرا آئینہ
ایسے میں تو کشتی کو بس اللہ بچائے۔ملاّح کے ہاتھوں میں بھی پتوار نہیں ہے
ڈاکٹر شبیہ احسن کاظمی۔ انکی پیداائش ۱۲ فروری ۱۹۶۳ء کو ہوئی۔آپ کے برادر مولانا شرافت حسین شہرت یافتہ ذاکرِ اہلِ بیت تھے۔ مولوی، منشی، عالم و فاضل جیسے امتحانات پاس کرنے کے بعد ۱۹۸۵ میں اردو میں ایم۔اے۔ کیا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔آپکا کلام ریڈیو اور ٹی۔وی۔ پرنشر ہوتا رہا ہے۔ان کی شاعری میں احساس، کرب، درد اور سماج کی آواز ہے۔ اپنے انفردی زاویہ فکر سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔فی ا لوقت خود بھی اچھے خطیب اہل بیت ہیں اور اس سلسلے میں مختلف ملکوں کا سفر کر چکے ہیں۔نمو کلام پیش ہے
تمام شہر کے چندے سے جلنے والا چراغ
ہمارے گھر کے اجالوں میں عیب ڈھونڈتا ہے
سادات نذرِ گردشِ حالات ہو گئے۔حالات جنکے سدھرے وہ سادات ہو گئے
میں اندھیروں سے پریشاں ہوں مگر اتنا بھی نہیں
ایک کم ظرف سے کہدوں کہ اجالے دیدے
وہ جس کے خون میں شامل ہیں روٹیاں میری
وہ شخص میرے نوالوں میں عیب ڈھونڈتا ہے
ضرورتیں بھی کہاں سے کہاں لے آئیں
کہ اک کمینے کو عالی جناب کہنا پڑا
ظہیر الدین ظہیرؔ۔ انکی پیدائش ۲۰ جنوری ۱۹۶۳ء کو ہوئی۔میرٹھ میں مدرسہ یتیم خانہ میں سیکریٹری کے عہدے پر رہکر یتیموں کی خدمات انجام دیں۔اکثر مشاعروں میں شرکت کرتے رہتے ہیں۔ نمونہ کلام پیش ہے
پہلے زخمِ جگر پر نظر کیجئے، پھر کہیں شکوہ چارہ گر کیجئے
گفتگو لمترانی کی اچھی نہیں، بات کیجئے مگرمختصر کیجئے
تم نے ایک ٹھوکر میں پاش پاش کر ڈالا
اک عمر گزری تھی دل کو دل بنانے میں
محمد شعیب انصاری، گُل میرٹھی۔انکی پیدائش ۲۰ مارچ ۱۹۸۲ء کو میرٹھ میں ہوئی۔شاعری میں اسلم موانوی اور ادنیٰ میرٹھی سے شرف تلمند رکھتے تھے۔نمونہ کلام پیش ہے۔
بھیڑ میں دوست بھی تھے دشمن بھی۔ تیر کس کا لگا پتہ تو کرو
تم سے آخر کون کہتا ہے جفا کرتا ہوں میں
سچ تو یہ ہے دشمنوں سے بھی وفا کرتا ہوں میں
زندگی نے ریزہ ریزہ کر دیا پہلے ہمیں
موت تیرے واسطے پھر جو بچا لے آئے ہیں
9450931862

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here