امام احمد رضا:عالم اسلام کی ایک انقلابی شخصیت

0
706

محمد عارف رضا نعمانی

شجر اسلام کی آبیاری کرنے کے لیے اللہ عزوجل نے اس دنیا میں اپنے بہت سے نیک بندوں کو بھیجا جب جب باطل قوتوں نے اسلامی تعلیمات پر حملہ کرنے کی کوشش کی ان قوتوں اور ان کے ناپاک عزائم کو تہ تیغ کرنے کے لیے اللہ عزوجل انبیائے کرام صحابہ کرام اور اولیاء عظام کی مقدس جماعتوں کو اس دنیا میں بھیجتا رہاان بندگانِ خُدا میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی ذات تک الگ مقام ومرتبہ رکھتی ہے۔10شوال المکرم 1272ھ مطابق 14 جون 1856ء کو ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے مشہورشہر بریلی میں پیدا ہوئے اور 25 صفر المظفر 1340ھ، 1921ء میں اسی شہر بریلی میں وصال فرمایا۔
آپ بریلی کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ کے آباءواجداد وقت کے بڑے عالم اور عارفِ کامل تھے۔ ساتھ ہی علومِ عقلیہ و نقلیہ میں بلند مقام رکھتے تھے۔ ایسے نیک اور عارفِ کامل آباؤ اجداد کی تربیت نے امام احمد رضا کو علم و فضل وکمال کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔آپ نے محض چودہ سال کی عمر میں مروجہ علوم وفنون سے فراغت حاصل کر لی۔ بیشتر علوم اپنے والد ماجد حضرت علامہ نقی علی خاں علیہ الرحمہ (متوفی 1297ھ)سے ہی حاصل کیا، اپنے والدِ ماجد کے علاوہ اپنے زمانے کے جلیل القدر علما و فقہا سے علوم عقلیہ ونقلیہ حاصل کیا۔
امام احمد رضا نے دینی علوم کے ساتھ ساتھ دیگر علوم و فنون کی بھی تحصیل کی ۔ایسے تما م علوم وفنون کی تعداد پچاس کے قریب ہے ، جن پر امام اہل سنت نے سیکڑوں کتابیں تصنیف فرمائی ہیں ۔کون سا علم ہے جس پر اعلیٰ حضرت نے قلم نہیں اٹھایا،تفسیر و حدیث اور فقہ و فتاویٰ کے امام تو تھےہی ۔علم ریاضی،ہیات ،توقیت ،فلسفہ اور علم ہندسہ میں بھی آپ کو مہارت حاصل تھی ۔
امام اہل سنت اعلی حضرت علیہ الرحمۃ 1294ھ 1877ء میں عاشق رسول حضرت مولانا عبدالقادر بدایونی نے کے مشورے پر اپنے والد ماجد کے ساتھ حضرت سید شاہ آل رسول مارہروی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور شرف بیعت حاصل کیا اور بیعت کے ساتھ ہی اجازت و خلافت بھی عطا کر دی۔آپ کے پوتے اور خلیفہ خاص حضرت شاہ ابوالحسین احمد نوری بھی اس وقت موجود تھے۔ عرض کیا، حضور آپ کے یہاں تو بڑی ریاضت و مجاہدہ کے بعد خلافت عطا کی جاتی ہے، پھر ان کو ابھی کیسے عطا کردی گئی؟ حضرت سید شاہ آل رسول مارہروی نے جو جواب ارشاد فرمایا اس سے جہاں ان کے مقام ولایت کا پتا چلتا ہے وہیں اعلی حضرت کے روحانی مرتبہ اور شیخ کامل کی نظر میں آپ کی عزت و عظمت کا بھی پتا چلتا ہے ۔سید آلِ رسول مارہروی نے فرمایااور لوگ میلا کچیلا زنگ آلود دل لے کر آتے ہیں، اس کے تزکیہ کے لیے ریاضت و مجاہدہ کی ضرورت پڑتی ہے ،یہ مصفیٰ و مزکیٰ قلب لے کر آئے، اِنھیں ریاضت ومجاہدے کی کیا ضرورت تھی؟ صرف اتصال ِنسبت کی حاجت تھی جو بیعت کے ساتھ ہی حاصل ہوگیا۔(امام احمد رضا اور تصوف،صفحہ9، 10)
آپ کی عظمت و بلندی کا مظاہرہ عہد طفولیت سے ہی ہو رہا تھا ۔آپ کی بچپن میں یہ عادت رہی کہ اجنبی عورتیں اگر نظر آجائیں تو کُرتے کے دامن سے منہ چھپا لیتے ۔ جب کہ آپ کی عمر بہت کم ہوتی۔ حضرت ملک العلماء علیہ الرحمہ نے سوانح اعلیٰ حضرت میں اس کا ذکر کیا ہے ۔یہ تھا “الحیاء شعبۃ من الایمان “اور فطری تقویٰ کا مظاہرہ جس سے ان کا باطن بالکل صاف جھلکتا تھا ۔ایسے واقعات جا بجا آپ کے تذکرے میں ملتے ہیں۔ہمیں ان واقعات سے نصیحت حاصل کرنا چاہیے ۔کیوں کہ اللہ کے نیک بندوں کےاقوال و افعال لائق اتباع ہوتے ہیں ۔
اعلیٰ حضرت کی روزہ کشائی بڑے دھوم دھام سے ہوئی ۔سارے خاندان اور احباب کو مدع کیا گیا ۔گھر میں افطار کا اوربہت قسم کا سامان رکھا تھا ۔کھانے بنے اور افطاری کا انتطام کیا گیا ۔ایک کمرے میں فیرنی کےپیالے جمانے کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ رمضان المبارک گرمی کےموسم میں تھا ۔اعلیٰ حضرت ابھی چھوٹے تھے ، مگر آپ نے بڑی خوشی سے پہلا روزہ رکھا تھا ،ٹھیک دوپہر میں چہرہ بھوک اور پیاس کی شدت سے خشک ہو چکا تھا۔ آپ کے والد ماجد نے دیکھا تو آپ کو اس کمرےمیں لے گئے، جس میں فیرنی کے پیالے رکھے ہوئے تھے ،اوراندر سے دروازہ بند کرکے ایک پیالہ اٹھا کر دیا اور فرمایا کہ اسے کھالو۔ آپ نے کہا کہ میرا تو روزہ ہے، کیسے کھاؤں ؟والد نے کہا کہ بچوں کا روزہ ایسا ہی ہوتا ہے ،میں نے دروازہ بند کر دیا ہے ۔کوئی دیکھنے والا نہیں ہے ۔ آپ نے کہا کہ جس کا روزہ ہے، وہ تو دیکھ رہا ہے ۔یہ سنتے ہی والد کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور کمرہ کھول کر باہر لے آئے ۔
آپ نے اپنے بچپن کےاس واقعے سے ہمیں یہ درس دیا کہ اللہ عزوجل بندے کو ہر جگہ دیکھتا ہے ۔بندے کو گناہ کرتے وقت یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ دنیامیں کوئی دیکھے یا نہ دیکھے اللہ تعالیٰ توضرور دیکھتاہے۔ گناہ کرتے وقت اگر ہم اس نصیحت پر دھیان دیں گے تو بہت آسانی کے ساتھ گناہوں سے بچ جائیں گے ۔ورنہ شیطان تو ہمیں گناہوں کے گڑھے میں ڈالنے کے لیے پوری کوشش میں لگاہوا ہے۔ہمیں چاہیے کہ اس کی ناپاک کوششوں کوناکام کرکے رب عزوجل کی رضا و خوشنودی حاصل کر لیں۔اس سے ہمیں یہ بھی سبق ملتاہے کہ ہمیں بچپن سے ہی روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے ۔زیادہ چھوٹے بچے ہو ں تو مہینے میں ایک دو ہی روزہ رکھ لیں اور جب بالغ ہو جائیں تو ضرور پورا رکھیں ۔
ایک بار اعلیٰ حضرت امام احمدرضا کا پاؤں کا انگوٹھا پک گیاان کے خاص جراح( جو شہر میں سب سے زیادہ ہوشیار اور ماہر جراح تھے جن کو بعض سول سرجن بھی خطرناک آپریشن میں شریک کرتے تھے ان کا نام مولی بخش مرحوم تھا) نے اس انگوٹھے کا آپریشن کیا پٹی باندھنے کے بعد انہوں نے عرض کیا کہ حضور اگر حرکت نہ کریں گے تو یہ زخم دس بارہ روز میں خشک ہو جائے گا ورنہ زیادہ وقت لگے گا وہ یہ کہہ کر چلے گئےیہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ مسجد کی حاضری اور جماعت میں پابندی ترک کر دی جائےجب ظہر کا وقت آیا آپ نے وضو کیا کھڑے نہ ہو سکتے تھے تو بیٹھ کر باہر پھاٹک تک آگئے ،لوگوں نے کرسی پر بیٹھا کر مسجد پہنچا دیا اور اس وقت اہل محلہ اور خاندان والوں نے یہ طے کیاکہ علاوہ مغرب کے ہر اذان کے بعد ہم سب میں سے چار مضبوط آدمی کرسی لے کر گھر میں حاضرہو جایا کریں گےاور پلنگ ہی پر سے کرسی پر بیٹھا کر مسجد کے محراب کے قریب بیٹھا دیا کریں گےاور مغرب کی نماز کے وقت کے اندازے سے حاضر ہو جایا کریں گے یہ سلسلہ تقریباً ایک ماہ تک بڑی پابندی سے چلتا رہاجب زخم اچھا ہو گیا اور آپ خود چلنے کے قابل ہو گئے تو یہ سلسلہ ختم ہوا کرسی اٹھانے والے چار آدمیوں میں سے التزام کے ساتھ اکثر میں(حسنین رضا خان) بھی ہوتا تھا اس عمل کو میں اپنی بخشش کا بڑا ذریعہ سمجھتا ہوں نماز تو نماز ہے ان کی جماعت کا ترک بھی بلا عذر شرعی شاید کسی صاحب کو یاد نہ ہوگا۔ (سیرت اعلیٰ حضرت، صفحہ 44،45)
یہ تھی امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کے شب و روز کی ایک جھلک۔اللہ کا خوف، شریعت مصطفے کا پاس و لحاظ اتنا تھا کہ پیر میں شدید زخم ہونے کے باوجود نماز تو نماز جماعت کو بھی ترک نہیں کیا۔ایسی حالت میں بھی جماعت کا اہتمام کیا۔ ان واقعات سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ قرآن مجید کی آیت ” اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا” کے سچے مصداق تھے۔جیسا کہ دنیا والوں نے سر کی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ۔آپ کی زندگی میں اس قسم کے بے شمار واقعات ملتے ہیں، جس سے آپ کے شریعت کے عامل ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔مزید معلومات کے لیے “حیاتِ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ،ارباب علم و دانش کی نظر میں ،امام احمد رضا اور بدعات و منکرات کا مطالعہ کریں ۔آپ نے پوری زندگی سنت ِمصطفیٰ پر عمل کرتے ہوئے گزاری ۔آپ بہت بڑے عاشق رسول تھے ۔آپ کی شاعری عشق مصطفےٰ کی بہتریں مثال ہے ۔ مولیٰ ہمیں بھی عشقِ مصطفےٰ میں سنتِ مصطفےٰ پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرما۔آمین بجاہِ سید المرسلین

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here