پروفیسرعبدالستار ردلوی
غالبؔ اردو اور فارسی شاعری کے ایک بلند مینار ہیں ۔ اردو اور فارسی شاعری ہی نہیں بلکہ عالمی ادب میں ان کو جو درجہ حاصل ہے وہ قابل رشک ہے، اور اس کا معترف مشرق ومغرب دونوں ہیں ۔ انھوں نے نہ صرف اپنے فلسفیانہ افکار سے اردو شاعری کو اعلیٰ وقار بخشا بلکہ شاعری کے ساتھ اپنی نثر کے ذریعے اردو زبان کو ایک اعلیٰ اور وقیع درجے پر فائز کیا۔ یہ تو ان کی اپنی انفرادی خدمت ہے۔
غالبؔ نے صرف اپنی شاعری اور نثر کو ہی زبان وادب کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز نہیں کیا بلکہ اپنے ایک وسیع حلقۂ احباب کی شعروادب میں ذہنی تربیت کی۔ اُن کے کثیر شاگردوں میں میر مجروح، غلام مصطفی خاں شیفتہؔ، ہرگوپال تفتہؔ اور حالیؔ جیسے شاگردوں کی ایک کہکشاں جگمگارہی ہے ۔ یہ سب اردو شاعری کے فروغ اور اس کے اعلیٰ معیار کی ضمانت ہیں۔ ایسے کئی شاگرد اور بھی ہوں گے جو ابھی پردہ خفا میں ہیں۔
نہایت خوشی کی بات ہے کہ اردو کے مشہور افسانہ نگار اورمعروف ناقد پروفیسر صغیرافراہیم نے غالبؔ کے نامعلوم کرم فرما، دیوان محمدعلی کا شجرۂ نسب دریافت کیا ہے جو اودھ کے رہنے والے تھے، اور باندہ میں تعینات تھے۔ تلاش و تفحّص سے اُن اطلاعات اور مکمل معلومات کو نہایت سلیقے سے یکجا کرنا جو پہلے سے دستیاب نہیں تھیں، ایک دقت طلب کام ہے لیکن صغیر صاحب قابل مبارک باد ہیں کہ انھوں نے شجرۂ نسب کے ساتھ ادبی نوادرات کو دریافت کرکے غالبؔ کے قارئین کے سامنے پیش کیے بلکہ اپنی اِس بے مثل تحقیق میں یہ بھی ثابت کیا کہ دونوں میں بے پناہ اپنائیت اور قربت تھی۔ شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ غالبؔ اپنی چھوٹی چھوٹی خوشی ورنج کی خبر سے دیوان محمدعلی کو مطلع کرتے اور اُن کے مشوروں پر عمل بھی کرتے تھے۔
صغیر افراہیم نے اس کی بھی وضاحت کی ہے کہ دیوان محمدعلی جنھیں مولوی محمدعلی خاں (صدر امین باندہ) کہہ کر مخاطب کیاگیا ہے وہ انگریزی سرکار کی جانب سے معمور عہدوں پر ترقی کرتے ہوئے دیوان یعنی وزیر کے منصب تک پہنچے۔ اس لیے سرکاری ریکارڈ میںاُن کے نام کے ساتھ دیوان درج ہے۔ حسب ونسب سے اِس جانب بھی نشاندہی کی کہ اُن کے والد سید اور والدہ شیخ تھیں۔ اکلوتی بیٹی فاطمہ کا نکا ح اودھ کے معروف زماں خاندان کے شیخ شفیع الزماں سے ہوا۔ صغیر افراہیم نے اِس زاویہ کو بھی اُجاگر کیا ہے کہ غالبؔ نے موصوف کو جو۳۷؍خطوط لکھے ہیں وہ ہماری تہذیبی اور ثقافتی زندگی کے بھی عکاس ہیں۔
پروفیسر صغیر افراہیم کا یہ نودریافت ’’غالبؔ ، باندہ اور دیوان محمدعلی‘‘ ایک بڑا کام ہی نہیں بلکہ قابل قدر کارنامہ ہے۔ اُن کی یہ بازیافت انھیں افسانوی دنیا سے نکال کر ایک حقیقی دنیا میں لے جاتی ہے اور یہ بڑی سعادت کی بات ہے جس کے لیے وہ دلی مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ تحقیق کے خارزار سے کامیابی سے نکلنے پر اردو تحقیق اور تنقید دونوں میں ان کو جو استناد حاصل ہوا ہے وہ لائق صدآفرین ہے۔
پروفیسرعبدالستار ردلوی
باندرہ، ممبئی
موبائل:8454845552