معصوم مرادآبادی
سپریم کورٹ نے گزشتہ جمعہ کوعبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے مرکز سے جواب طلب کیا ہے۔ یہ عرضی بی جے پی کے ایک لیڈر کی طرف سے داخل کی گئی ہے، جو سپریم کورٹ میں وکیل کی حیثیت سے پریکٹس بھی کرتے ہیں۔اس لیے اس کے پس منظر کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق جس خصوصی ایکٹ مجریہ 1991کو اس میں چیلنج کیا گیا ہے، وہ آنجہانی وزیراعظم نرسمہاراؤ کے دور حکومت میں بنایا گیا تھا اور اس کا مقصد مستقبل میں بابری مسجد جیسے تنازعات کو پیدا ہونے سے روکنا تھا۔اس ایکٹ کی روسے ملک کی آزادی کے وقت یعنی 15 اگست 1947 کو جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی، وہ اسی حالت میں برقراررہے گی اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔جس وقت یہ ایکٹ بنایا گیا تھا، اس وقت بابری مسجد کا تنازعہ اپنے عروج پر تھا اور معاملہ عدالت میں زیر سماعت تھا،اس لیے اس میں بابری مسجد کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ بننے کے بعد یہ اطمینان ہوچلا تھا کہ اب وہ تمام مسجدیں محفوظ ہوجا ئیں گی جن پر وشوہندو پریشد کی بری نظر ہے۔لیکن یہ خیال دیرپا ثابت نہیں ہوا کیونکہ سپریم کورٹ سے رام مندر کا مقدمہ جیتنے کے بعد فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کے حوصلے آسمان کو چھونے لگے اور انھوں نے ملک کی دیگر تاریخی مسجدوں پربھی دعوے پیش کرنے شروع کردئیے۔ سپریم کورٹ میں بی جے پی لیڈراشونی اپادھیائے نے جو عرضی داخل کی ہے‘ اس پر مسلمانوں کی کیا حکمت عملی ہونی چاہئے، اس موضوع پر ہم آگے چل کر بحث کریں گے اور اس سلسلہ میں مسلم قیادت، علمائے کرام اور مسلم عوام سے بھی ایک عاجزانہ اپیل کرنا چاہیں گے، لیکن اس سے پہلے آئیے اس مسئلہ کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 90 کی دہائی میں وشوہندو پریشد نے بابری مسجد کا تالا کھلوانے کے لیے جو انتہائی شرانگیز مہم شروع کی تھی، وہ پوری طرح سیاسی مقاصد سے لبریز تھی۔اس کا مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان گہری خلیج پیدا کرکے ہندتو کے ایجنڈے کو فروغ دینا تھا۔ اس مہم کے نعرے انتہائی خطرناک اور مسلم دشمن تھے۔ اسی دوران مسلمانوں کو دباؤ میں لینے کے لیے ایسی تین ہزار مسجدوں کی فہرست پیش کی گئی جو وشو ہندو پریشدکے خیال میں مندروں کو توڑ کر بنائی گئی ہیں۔اس میں ایودھیا کی بابری مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ اور بنارس کی گیان واپی مسجدیں سرفہرست تھیں۔ اس دوران نعرے لگائے جاتے تھے کہ ”یہ تو ابھی جھانکی ہے۔ کاشی متھرا باقی ہے۔“ اس قسم کے اشتعال انگیز نعروں کا مقصد مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے علاوہ ان کے اندر دویم درجے کے شہری ہونے کا احساس پیدا کرنا تھا۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ مسجدوں کو مندروں میں بدلنے کی یہ خطرناک تحریک پوری طرح سیاسی مقاصد سے لبریز تھی اور اس کا مقصد بی جے پی کو اقتدار میں لانا تھا۔ اس تحریک میں بشمول بی جے پی پورا سنگھ شامل تھا۔ وشو ہندو پریشد کی نائب صدر وجے راجے سندھیا بیک وقت بی جے پی کی بھی نائب صدر تھیں۔اس دوران لال کرشن اڈوانی نے سومناتھ سے ایودھیا تک کی رتھ یاترا بابری مسجد تنازعہ پرآخری درجے کی اشتعال انگیزی اور مسلمانوں میں خوف وہراس پھیلانے کے لیے ہی نکالی تھی۔اس یاترا نے قومی یکجہتی کو جو نقصان پہنچایا، اس کی تلافی آج تک نہیں ہوپائی ہے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج مزید گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ بی جے پی نے جو کچھ بھی سیاسی طاقت حاصل کی ہے، وہ ایودھیا تنازعہ کی دین ہے۔ یہ پوری طرح منصوبہ بند آندولن تھا جس کے نتیجے میں بابری مسجد کی شہادت اور ہزاروں بے گناہ انسانوں کی موت ہوئی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب بابری مسجد کا مقدمہ سپریم کورٹ میں آخری مراحل میں تھا تو اسے بات چیت کی میز پر حل کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں۔ ہندو فریق کا کہنا یہ تھا کہ اگر مسلمان بابری مسجد کی ملکیت سے دستبردار ہوجائیں تو ہندو باقی مسجدوں پر دعویٰ نہیں کریں گے اور یہ معاملہ یہیں پر ختم ہوجائے گا۔ ظاہر ہے یہ سودے بازی کرنے کا ایک طریقہ تھا ۔ دوراندیش لوگ اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ شر پھیلانے والے اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے، اس لیے بابری مسجد طشتری میں سجاکر پیش نہیں کی گئی۔سپریم کورٹ نے ہندوفریق کے حق میں فیصلہ سناکر اپنا موقف واضح کردیا۔ اس فیصلے کے بعد فرقہ پرست اور فسطائی عناصر کے حوصلے آسمان کو چھونے لگے اور کچھ عرصہ بعد ہی سادھوؤں کی ایک تنظیم نے لکھنؤ کی عدالت میں کاشی اور متھرا کی مسجدوں پر دعویٰ پیش کرتے ہوئے عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ کو چیلنج کردیا۔یہ معاملہ ابھی زیر سماعت ہے کہ اس دوران گزشتہ ہفتہ بی جے پی کے وکیل اشونی اپادھیائے نے سپریم کورٹ میں اس ایکٹ کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کو کیا رخ اختیار کرنا چاہئے۔ پہلا اور آسان راستہ تو یہی ہے کہ مسلمان بابری مسجد کی طرح اس مسئلہ پر بھی ایک عوامی تحریک شروع کردیں اور اس طرح فرقہ پرستوں کی بن آئے اور کچھ نئے ” مسلم لیڈر” پیدا ہوجائیں ۔جبکہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ اس بار مسلمان بابری مسجد کے تنازعہ سے سبق حاصل کرکے دوراندیشی پر مبنی حکمت عملی اختیار کریں اورفرقہ پرست عناصر کی سازش کو ناکام بنادیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یکم فروری 1986 کو بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو اس مسئلہ پر عوامی تحریک کے حق میں نہیں تھا۔ اس طبقے کا خیال تھا کہ اس معاملے کو سڑکوں پر لانے سے ان طاقتوں کا مقصد پورا ہوگا جو ہندوؤں اور مسلمانوں کو آمنے سامنے کرکے ملک میں فرقہ واریت پھیلانا چاہتی ہیں۔بابری مسجد کا مسئلہ بنیادی طور پر قانون کا مسئلہ تھا اور یہ برسوں سے عدالت میں زیر سماعت تھا۔ بابری مسجد کو عام پوجا پاٹ کے لیے کھولنے کا فیصلہ یقینا مسلمانوں کے جذبات چھلنی کرنے والا تھامگر اس مسئلہ کو سڑکوں پر لانے کا تمام تر فائدہ ان طاقتوں نے اٹھایا جنھوں نے ایک منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت اس مسئلہ کو سیاسی اقتدار کے حصول کا ذریعہ بنایاتھا۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ مسلمانوں کو اس تحریک سے کیافائدہ حاصل ہوا تو جواب صفر میں ہوگا، کیونکہ اس تحریک کے دوران مسلمانوں کو زبردست جانی، مالی اور سیاسی نقصان اٹھانا پڑا جبکہ فریق مخالف نے اس تنازعہ سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی جوحکمت عملی وضع کی تھی، وہ اس میں پوری طرح کامیاب رہااور مرکز کے اقتدار پر مکمل قبضہ کرنے کا خواب بھی پورا ہوا۔
مسلمانوں کو ایک بار پھر اپنے جال میں پھانسنے اور حالات کا چارہ بنانے کے لیے فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں میدان میں ہیں۔ وہ کاشی اور متھرا کی مسجدوں کے معاملے میں بھی مسلمانوں کو ایسے ہی پھنسانا چاہتی ہیں جیسا کہ انھوں نے بابری مسجد کے معاملے میں انھیں پھنسایا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان ایک بار پھر فرقہ پرستوں کے جال میں پھنس جائیں گے یا پھر دوراندیشی اور حکمت کے ساتھ ان کی سازش کو ناکام بنائیں گے۔قابل غور بات یہ ہے کہ بنارس کی گیان واپی مسجد اورمتھرا کی شاہی عیدگاہ کو آرایس ایس بھی بیرونی جارحیت اور غلامی کی علامت قرار دے رہی ہے۔ آرایس ایس کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس پر عوامی سطح پر بحث شروع کی جائے۔ حالانکہ آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اس مسئلہ پر تحمل سے کام لینے کو کہا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی آرایس ایس کے ایک رکن نے کہا ہے کہ”اس مسئلہ پر بحث ہونی چاہئے جس میں میڈیا اہم رول ادا کرسکتا ہے۔“
اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ آرایس ایس اس مسئلہ کو بھی بابری مسجد کی طرح عوامی بحث اور تکرار کا موضوع بنانا چاہتا ہے تاکہ اس کا مقصد پورا ہو، لیکن دانش مندی کا تقا ضہ یہ ہے کہ مسلمان اس معاملے میں مکمل خاموشی اختیار کریں اور گیند مرکزی حکومت کے پالے میں رہنے دیں، کیونکہ یہ ایکٹ مرکزی حکومت نے بنایا تھا اورسپریم کورٹ میں اس ایکٹ کو چیلنج کرنے کاکام بی جے پی کے ہی ایک لیڈر نے کیا ہے۔ مسلمان اس میں نہ تو پارٹی بنیں اورنہ ہی اس پر احتجاج کی راہ اختیار کریں۔ مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی قیادت سے مودبانہ گزارش ہے کہ وہ مسلمانوں کو آنے والی تباہی سے بچائیں۔یہی وقت کا تقاضہ ہے۔٭٭٭