افغانستان قیام امن کانفرنس ثمر آور ثابت ہوگی ..! – Afghanistan Peace Conference will be fruitful ..!

0
96
Afghanistan Peace Conference will be fruitful ..!
محمد عباس دھالیوال 9855259650

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ افغانستان لمبے عرصے سے جنگ کا میدان بنا چلا آرہا ہے دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں اتنی دہائیوں تک خونریزیاں ہوئی ہوں. مختلف ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے اپنے خود غرضانہ حصول کیلئے افغانستان کو اکثر جنگ میں دھکیلا جاتا رہا ہے. اب اس افغانستان میں قیامِ امن کے لیے روس کی میزبانی میں 18 مارچ کو افغان کانفرنس کا اہتمام کیا جا رہا ہے. اس کانفرنس میں افغان حکومت، طالبان، امریکہ، چین اور پاکستان کے نمائندوں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
میر تقی میر نے کہا تھا کہ
نا حق مجبوروں پہ یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا.
ادھر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کانفرنس ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکہ کی نئی انتظامیہ بھی افغان تنازع کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ کے تحت افغان امن کانفرنس بلانے پر زور دے رہی ہے۔
یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ دراصل یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں منعقد ہونے جا رہی ہے جب افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ادھر مذکورہ کانفرنس کے ضمن میں افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب کا کہنا ہے کہ افغان حکومت ماسکو اور ترکی میں منعقد ہونے والی اس کانفرنسوں میں شرکت کرے گی۔
جبکہ ابھی تک طالبان کی جانب سے اس کانفرنس میں شرکت سے متعلق کوئی حتمی بیان سامنے نہیں آیا ہے. لیکن وہیں ذرائع کے مطابق دوحہ میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر سے کچھ اراکین ماسکو کانفرنس میں شرکت کریں گے۔
جبکہ اس سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے ایک مراسلے میں افغان صدر اشرف غنی پر واضح کیا تھا کہ امریکہ یکم مئی تک افغانستان سے فوج کے مکمل انخلا کے علاوہ دیگر آپشنز بشمول عبوری حکومت کے قیام پر بھی غور و خوض کر رہا ہے۔
ادھر اشرف غنی کے سابق ترجمان اور تجزیہ نگار نجیب اللہ آزاد اینٹنی بلنکن کے خط کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور آمرانہ تجویز قرار دیا ہے ۔ایک نیوز رپورٹ میں ان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ افغان حکومت یہ سمجھتی ہے کہ باہر سے مسلط کیا ہوا امن معاہدہ کبھی بھی پائیدار نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ صدر اشرف غنی سمجھتے ہیں کہ اس معاہدے میں افغان حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور آئین کے مطابق انتخابات کے بغیر کسی بھی دوسرے طریقے سے اقتدار منتقل نہیں ہو سکتا
جبکہ دوسری طرف افغانستان کی اعلیٰ کونسل برائے قومی مصالحت کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ امریکی تجویز کے حق میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ماسکو میں ہونے والی کانفرنس افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ایک ٹیسٹ کے مانند ہے۔ اس ضمن میں افغان امور کے تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کے مطابق اس کانفرنس کا بنیادی مقصد دراصل افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے بیچ افہام و تفہیم پیدا کرنا ہے۔اس حوالے سے انکا مذید کہنا ہے کہ اگر ماسکو کانفرنس میں فریقین جنگ بندی اور عبوری حکومت کے قیام پر متفق ہو جاتے ہیں تو پھر اپریل میں ہونے والی استنبول کانفرنس میں مزید پیش رفت کی امید کی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ افغان مفاہمت عمل کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی سرتوڑ کوشش ہو گی کہ تمام فریقوں کو افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے عبوری حکومت کے قیام پر متفق کیا جاسکے اور دو ڈھائی سال کے ہوم ورک کے بعد نئے انتخابات کا انعقاد کر کے افغانستان کے مستقبل کی راہ ہموار کی جائے۔ انھوں نے مزید کہنا تھا کہ 18 مارچ کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں ہونے والی کانفرنس ایک لحاظ سے استنبول کانفرنس کی ریہرسل ہو گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر طالبان عبوری حکومت کے قیام اور تشدد میں کمی جیسی شقوں پر آمادگی ظاہر کرتے ہیں تو امریکہ کے لیے افغان صدر اشرف غنی پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالنے میں آسانی ہو گی۔
جبکہ لامار یونیورسٹی میں شعبہ صحافت سے جڑے امریکی امور کے تجزیہ کار پروفیسر اویس سلیم کا کہنا ہے کہ اینٹنی بلنکن کے خط کو محتاط طریقے سے ‘ڈرافٹ’ کیا گیا۔ اس حوالے سے انکا مذید کہنا ہے کہ ایک جانب اس میں تمام امور بشمول امریکی فوج کے یکم مئی تک انخلا سے متعلق دوحہ امن معاہدے کے حوالے سے بات کی گئی ہے تو دوسری جانب سابق صدر ٹرمپ کی جانب سے کیے گئے معاہدے پر نظرِ ثانی کے بارے میں بھی عندیہ دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق اس خط میں افغانستان کے مستقبل اور استحکام کے حوالے سے افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر ممالک کو بھی شامل کرنے کی بات کی گئی ہے۔
اویس سلیم کا ماننا ہے کہ عبوری عمل کا فارمولہ شاید طالبانی کو پسند نہ ہو کیوں کہ طالبان کا ہمیشہ سے یہی چاہتے رہے ہیں کہ انھیں شرائط کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ قابل قبول نہیں ہوگا. انھوں نے مزید کہا کہ طالبان کی یہی خواہش ہوگی کہ مستقبل میں افغانستان کی باگ ڈور طالبان کے حوالے کی جائے۔
وہیں اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی یہ خواہش ہوگی کہ اس کے فوجیوں کی افغانستان سے واپسی ہو اور اسی لیے بائیڈن انتظامیہ نے زلمے خلیل زاد کو فعال کردار جاری رکھنے کو کہا ہے تاکہ زیادہ وقت ضائع نہ ہو۔
یہاں قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے دوحہ امن معاہدے میں یکم مئی تک امریکہ اور نیٹو کی افواج کا افغانستان سے انخلا ہونا طے پایا تھا ۔
ادھر مذکورہ عالمی کاوشوں پر طالبان کے ردِعمل کی بات کریں تو طالبان کے دوحہ میں قائم سیاسی دفتر کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم کے مطابق افغانستان کے مسائل کا افہام و تفہیم سے حل اسی میں ہے کہ دوحہ امن معاہدے پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کیا جائے۔
اس ضمن میں ان کے حوالے سے ایک نیوز رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے واضح کیا کہ دوحہ معاہدے میں غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بارے میں واضح طور پر لکھا گیا ہے۔ جس کی نہ صرف امریکہ بلکہ اقوامِ متحدہ اور دیگر ممالک نے بھی تائید کی ہے۔
دریں اثناء اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں افغانستان میں بڑھتے ہوئے حملوں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مذمت کی گئی ہے۔ مذکورہ بیان میں کہا گیا ہے کہ 12 ستمبر 2020 کے بعد سے حملوں میں نمایاں طور پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔
وہیں اویس سلیم کا خیال ہے کہ امریکہ اور اتحادی افواج کے افغانستان سے نکل جانے کی صورت میں نہ صرف سیکیورٹی بلکہ افغانستان کی معیشت پر بھی بُرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق امریکی حکام کو بھی یہ ادراک ہے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد امن و امان کی صورتِ حال اور افغان معیشت پر بھی اثرات پڑ سکتے ہیں۔
جبکہ ڈاکٹر اشرف غنی کے سابق ترجمان نجیب اللہ آزاد کا کہنا ہے کہ اگرچہ صدر اشرف غنی افغانستان میں عبوری حکومت کی تجویز سے متفق نہیں ہیں تاہم ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔
جنگ کے خلاف ساحر لدھیانوی کی ” اے شریف انسانو” سے بہتر شاید ہی کوئی نظم ہو.
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امنِ عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں، کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
کل ملا کر اگر افغانستان میں دائمی طور پر امن کا قیام ہوتا ہے تو یقیناً اس کے خطے پر مثبت آثار پڑنے کے قوی امکانات ہیں.

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here