امام حسین (ع) کی خصوصیات- Characteristics of Imam Hussain (AS)

0
446

 

 

Characteristics of Imam Hussain (AS)آیت اللہ فاضل لنکرانی
۱: پروردگار عالم نے امام حسین (ع) کےلیے ایک خصوصی حساب و کتاب رکھا ہے جو کسی نبی یا معصوم کے لیے نہیں رکھا۔
کیوں اور کیسے امام حسین (ع) نے اتنا بڑاانعام جیتا ہے؟ اس کا جواب آپ کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے۔
حضرت امام حسین (ع) نہ صرف شیعوں کے دلوں میں مقام و منزلت رکھتے ہیں بلکہ تما م مذاہب اسلامی اور غیر اسلامی آپ کو ایک مرد آزاد کے عنوان سے پہچانتے ہیں۔اور آپ کے لیے کچھ خاص خصوصیات کے قائل ہیں۔ ہم یہاں پر بعض غیر اسلامی دانشوروں اور مورخین کے اقوال امام حسین (ع) سلسلے میں نقل کرتے ہیں:
ع۔ ل۔ پویڈ لکھتے ہیں:
“امام حسین (ع) نے یہ درس دیا ہے کہ دنیا میں بعض دائمی اصول جیسے عدالت، رحم، محبت وغیرہ پائے جاتے ہیں کہ جو قابل تغییر نہیں ہیں۔ اور اسی طریقے سے جب بھی کوئی برائی رواج پھیل جائے اور انسان اس کے مقابلے میں قیام کرے تو وہ دنیامیں ایک ثابت اصول کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ گذشتہ صدیوں میں کچھ افراد ہمیشہ جرأت ،غیرت اور عظمت انسانی کو دوست رکھتے رہے ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ آزادی اور عدالت، ظلم و فساد کے سامنے نہیں جھکی ہے ۔امام حسین بھی ان افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے عدالت اور آزادی کو زندہ رکھا۔ میں خوشی کا احساس کر رہا ہوں کہ میں اس دن ان لوگوں کے ساتھ جن کی جانثاری اور فداکاری بے مثال تھی شریک ہوا ہوں اگرچہ ۱۳ سو سال اس تاریخ کو گزر چکے ہیں۔
امریکہ کا مشہور ومعروف مورخ اپرونیک، واشنگٹن سے لکھتا ہے:
“امام حسین(ع) کے لیے ممکن تھا کہ یزید کے آگے جھک کر اپنی زندگی کو بچا لیتے۔ لیکن امامت کی ذمہ داری اجازت نہیں دی رہی تھی کہ آپ یزید کو ایک خلیفۃ المسلمین کے عنوان سے قبول کریں انہوں نے اسلام کو بنی امیہ کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ہر طرح کی مشکل کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیا۔ دھوپ کی شدت تمازت میں جلتی ہوئی ریتی پر حسین نے حیات ابدی کا سودا کر لیا ، اے مرد مجاہد، اے شجاعت کے علمبردار، اور اے شہسور، اے میرے حسین”۔
۲:امام حسین (ع) کی ولادت سے پہلے اور ولادت کے بعد شہادت تک تمام موجودات عالم نے آپ پر گریہ کیا ہے۔ اور شہادت کے بعد قیامت تک گریہ کرتے رہے گے ایسا حادثہ کسی کے لیے نہ پیش آیا ہے اور نہ پیش آ ئےگا۔ ہاں حضرت یحیی (ع) کے لیے بھی آسمان نے گریہ کیا تھا۔ تفسیر مجمع البیان میں اس آیت ” فما بکت علیھم السماء وا لارض ” کے ضمن میں مرحوم طبرسی نے فرمایا: دو آدمیوں جناب یحیی اور حضرت امام حسین (ع) کے لیے آسمانوں اور فرشتوں نے چالیس دن تک گریہ کیا ہے۔ اور اسی تفسیر میں آیا ہے: سورج طلوع اور غروب کے وقت چالیس دن تک سرخ حالت میں رہا ہے ۔ ابن شہر آشوب کے مناقب میں یوں آیا ہے:
بکت السماء علی الحسین (ع) اربعین یوماً۔( تفسیر صافی ، سورہ دخان)۔
۳: امام حسین (ع) تمام کمالات اور فضائل میں تمام انسانوں سے برتر تھے۔ کیوں آپ کی کنیت ابا عبدا للہ ہے ۔ کیا یہ ایک معمولی سی کنیت ہے؟ بظاہر اس کنیت کے اندر ایک ایسی خصوصیت ہے جو آپ کو تمام کمالات کا محور اور مرکز قرار دیتی ہے۔
ابو عبد اللہ یعنی اللہ کے بندے کا باپ۔ باپ کا ایک خاندان میں بنیادی رول ہوتا ہے۔وہ اس خاندان کے لیے نمونہ ہوتا ہے۔ باپ ایک مربی ہوتا ہے۔ پس امام حسین (ع) بھی تمام اللہ کے بندوں کے باپ ہیں یعنی تمام عبادتگذار کمالات کو حاصل کرنے کے لیے آپ کے در پہ آتے ہیں ۔ وہ ہر کمال کا نمونہ ہیں اور ہر کمال آپ میں خلاصہ ہوتا ہے۔
۴: امام حسین (ع) کی زیارت حج اور عمرہ کے مترادف ہے۔ بہت ساری روایات میں آیا ہے کہ اگر کسی دن ایسا ہو کہ خانہ خدا حجاج سے خالی ہو جائے تو اس وقت تمام مسلمانوں پر واجب کفائی ہو جاتا ہے کہ بیت اللہ کی زیارت کرنے جائیں۔ اگر چہ مستطیع نہ بھی ہوں یا حج واجب ادا کر چکے ہوں۔ مرحوم صدوق رضوان اللہ علیہ نے یہی بات امام حسین (ع) کے روضے کے بارے میں لکھی ہے۔ اگر کبھی ایسا ہو امام حسین (ع) کا روضہ زائرین سے خالی ہو جائے تو تمام شیعوں پر واجب کفائی ہو جائے گا کہ امام کی زیارت کرنے جائیں۔ امام کی زیارت زائرین سے خالی نہیں رہنا چاہیے۔( نقل از آیت اللہ مرعشی نجفی)
کیا امام حسین (ع) کی زیارت عرفہ کے دن خانہ خدا کی زیارت کے برابر ہے؟
یا یہ کہا جائے کہ امام کی زیارت کا ثواب خانہ خدا کی زیارت سے زیادہ ہے یا برابر ہے؟۔ سب سے بڑی دلیل اس سلسلے میں یہ ہے : اس میں کوئی شک نہیں کہ خانہ خدا جو مکہ مکرمہ میں واقع ہے اس کی عظمت، حرمت، اور اس کا احترام جناب ابراہیم کی وجہ سے ہے کہ انہوں نے اس کو تعمیر کیا ہے۔ اور یہی ابراہیم جب حکم خدا سے اپنے فرزند اسماعیل کو ذبح کرنے لگتے ہیں آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں لیکن امام حسین (ع) اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے کئی اسماعیل راہ خدا میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن آنکھوں پر پٹی نہیں باندھتے۔ پس زمین کربلا کہ جو فخر اسماعیل علی اکبر اور علی اصغر اور فخر ابراہیم امام حسین(ع) کو اپنی آغوش میں سلائے ہوئے ہے اس کی زیارت خانہ خدا کی زیارت سے اگر زیادہ ثواب نہیں رکھتی تو کسی قیمت پر کم بھی نہیں رکھتی۔
۵: امام حسین (ع) اپنے والد بزرگوارمولاے متقیان(ع) کی طرح رات کی تاریکی میں اپنے دوش پر اناج حمل کرتے تھے اور فقراء کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔ حتیٰ آپ کی شہادت کے بعد بھی آپ کی پشت پر کچھ ایسے زخم تھے جو نہ تلوار کے زخم تھے اور نہ نیزہ کے بلکہ اناج کی بوریاں اٹھانے کی وجہ سے یہ زخم پڑے تھے۔ لہذا جب امام زین العابدین (ع) سے پوچھا گیا فرماٰیا: یہ زخم فقراء اور مساکین کے گھروں تک غذا پہنچانے کے ہیں۔ اس حدیث کو دوسروں نے بھی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ جیسے ابن جوزی نے کتاب تذکرۃ الخواص اور ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء میں۔
امام حسین (ع) اور دینی حکومت
الٰہی نمائندوں اورآسمانی راہنماؤں نے دینی حکومت قائم کرنے کی آخری سانسوں تک کوشش کی ہے۔ اورظلم و ستم سے بشریت کو نجات دلانے کے لیے کچھ قوانین مقرر کیے ہیں ۔ امام علی (ع) کی شہادت کے بعد بنی امیہ کے بر سر اقتدار آنے سے اسلامی حکومت استعماری حکومت میں تبدیل ہو گئی۔ حکام نے اسلامی خلیفہ کے عنوان سے اسلام کو کھلونہ بنا لیا۔
سماج میں طبقہ بندی شروع گئی حضرت علی(ع) کے چاہنے والوں کو تمام اسلامی اور سماجی حقوق سے محروم رکھا جانے لگا۔ شعیوں پر زندگی نہات تنگ کر دی گئی۔ علی (ع) اور ان کے خاندان سے محبت عظیم جرم شمار ہونے لگا کہ جو شیعوں کی محرومیت کا سبب بن گیا۔ امیر شام اور اسکے تمام اہلکاروں کو قتل و غارت کے سوا کوئی کام نہیں تھا۔ مختصر یہ کہ اسلام کومکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازش رچائی گیئ۔
بعض لوگ اشکال کرتے ہیں کہ کیوں امام حسین (ع) نے زندگی کو خطرے میں ڈال دیا اور حکومت کے ساتھ صلح نہیں کی؟
مگر چین کی زندگی کیاہے؟ راحت کی زندگی الٰہی رہبروں کے نزدیک یہ ہے کہ معاشرہ چین سے زندگی گذارے۔ لوگ اپنی زندگی پر راضی ہوں۔ آزادی ہو ظلم وستم نہ ہو۔ قومی اور طبقاتی تعصب نہ پایا جاتا ہو۔
امام حسین (ع) اس وقت آرام کی زندگی گذار سکتے ہیں کہ لوگوں کے حقوق پامال نہ ہوں اور لوگ اپنے مذہب پر آزادی سے عمل پیرا ہو سکیں نہ یہ کہ لوگوں کے حقوق کو پامال کیا جائے اور وہ تنگ ماحول میں زندگی گذار رہے ہوں ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ ایک گروہ دوسروں کے حقوق مار کر شان و شوکت کی زندگی جی رہا ہو اور خوشیوں سے مزے اڑا رہا ہو اور دوسرا گروہ ایک لقمہ نان کے لیے ترس رہا ہو۔
حسین (ع) اس کا بیٹا ہے جسے ہمیشہ بے کسوں اور بے بسوں کی فکر لاحق رہتی تھی۔ اور محروم اور مظلوم لوگوں کوظالموں اور ستمگروں سے نجات دلانے میں کوشاں رہتا تھا۔ راتوں کو اناج اپنے کاندھوں پر حمل کرتا تھا اور فقراء کے گھروں تک پہنچاتا تھا اور کبھی بھی ایک ساتھ دوقسم کی غذا تناول نہیں کی۔اور فرماتے تھے: میں کیسے نیا لباس پہنوں اور پیٹ بھر کے کھانا کھاؤں حالانکہ ممکن ہے اسلامی ممالک میں کوئی بھوکا اور برہنہ ہو۔
امام حسین (ع) اور آزادی
حریت اور آزادی ہر نظام کی بقاء کے لیے ایک بنیادی اصل اور اساسی رکن ہے۔ آزادی پیغمبروں کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف تھا۔ وہ آئے تاکہ بشریت کو آزادی دلائیں۔ انسانی سماج کو سپر پاور اور ڈکٹیٹر شپ سے نجات دلائیں۔ آزادی ایسی چیز ہے جسے دنیا کا ہر انسان چاہتا ہے حتیٰ حیوانات اور دیگر موجودات بھی آزادی کو دوست رکھتے ہیں۔
امام حسین (ع) دنیائے اسلام پر ایک گہری نگاہ ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ بنی امیہ کے اقتدار سنبھالنے اور دین اسلام کو کھلواڑ بنانے سے اسلام کا نام ونشان بھی مٹ رہا ہے۔ اسلامی احکام اور قوانین انحراف کا شکار ہو گئے ہیں شیعہ جو اسلام کے واقعی ماننے والے تھے محرومیت کی زندگی گذار رہے ہیں۔
اس حالت کودیکھ کر فرزند علی (ع) جگر گوشہ بتول (س) اپنے آپ کو اجازت نہیں دیتا کہ خاموشی سے بیٹھ جائے اور تماشہ دیکھتا رہے۔ وہ علی (ع) کا لال ہے اسے میدان میں نکلنا پڑے گا اور طاغوت اور یزدیت کو صفحہ ہستی سے نابود کرنا پڑے گا۔
آپ بار بار یہ کہتے ہوئے جارے رہے تھے: اذا بلیت الامۃ علی مثل یزید بن معاویہ فعلی الاسلام السلام۔ یعنی جب بھی امت اسلامی یزید جیسے ملعون کے ہاتھوں گرفتار ہو گی تو اس وقت اس اسلام پر فاتحہ پڑھنی پڑے گی۔ لہذا امام حسین (ع) نے امت اسلام کی آزادی کی خاطرقیام کر کے ایک عظیم انقلاب رونما کر دیا۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here