نواسۂ رسولؐامام حسین ؑ کی پُر وقار شخصیت- The dignified personality of the grandson of the Holy Prophet Imam Hussain

0
95

The dignified personality of the grandson of the Holy Prophet Imam Hussain

ڈاکٹر محمد ظفر حیدری
امام حسینؑ کی شخصیت کسی طرح بھی محتاج ِتعارف نہیں ہے۔ مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی، پارسی کوئی قوم ایسی نہیں ہے جو کسی نہ کسی مقدار میں امام حسینؑ کی شخصیت سے باخبر نہ ہو۔ کم سے کم اتنا تو ہر ایک کو معلوم ہے کہ امام حسینؑ رسول اکرمؐ کے نواسے، مولائے کائنات علی ابن ابی طالبؑ کے فرزند، صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہراؐ کے نورنظر، امام حسنؑ کے بھائی اور حضرت ابوطالبؑ کے پوتے تھے اور یہ سارے رشتے وہ ہیں جو انسان کی عظمت و مرتبت کی بہترین علامت ہیں۔
رسول اکرمؐ کا نواسہ ہونا اور پھر ایسا نواسہ ہونا جسے انتہائی کمسنی کے عالم میں اسلام کی برتری قرآن کی صداقت، توحید کی حفاظت کے معرکہ میں شریک کیا جائے اور اپنے پیروں سے نہ چل سکیں تو گودی میں اٹھاکر لے جایا جائے اور دنیا پر یہ واضح کردیا جائے کہ جو اہمیت باقی بزرگوں کی بددعا کی ہے وہی اہمیت حسینؑ کی بددعا کی ہے، اور جس قدر خاندان کے بزرگ مستجاب الدعوات ہیں اسی قدر حسینؑ بھی مستجاب الدعوات ہیں اور جس قدر میدان مباہلہ کو نانا اور ماں باپ کی ضرورت ہے اسی قدر اسلام کا مستقبل اس کمسن فرزند سے وابستہ ہے اور یہ سارے حقائق اس ایک مرکزی نقطہ کی وضاحت کررہے ہیں کہ حسینؑ کا قیاس عام انسانوں پر جائز نہیں ہے۔ وہ مرسل اعظمؐ کے نواسے ہیں اور اس خصوصیت میں کائنات میں ان کے بھائی کے علاوہ کوئی ان کا شریک نہیں ہے۔
سرکاردوعالمؐ نے امت کے فرزندوں سے بڑی محبت کی ہے۔ صحابہ کرام کی اولاد کو بڑی شفقت کی نگاہ سے دیکھا ہے، اپنے کو ساری امت کا باپ کہا ہے۔ لیکن اتنی بڑی امت میں سے کسی ایک کو بھی ’’ابنائنا‘‘ کی منزل میں میدان مباہلہ میں نہیں لے گئے ہیں جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اخلاقی اعتبار سے یا فرض اطاعت کے اعتبار سے امت کو اولاد بنا لینا اور ہے اور معنویت، روحانیت، کمالات کے اعتبار سے کسی کا ابنائنا میں شامل ہوجانا اور ہے۔ یہ تنہا امام حسنؑ اور امام حسینؑ کا امتیاز ہے جس میں ساری امت میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے۔
حضرت علیؑ و فاطمہؐ کا فرزند ہونا اور ایسا فرزند ہونا جس کی وراثت میں باپ کا جہاد اور ماں کا ایثار شامل ہو اور جس نے ابتدائی دور ہی سے اپنے ماں باپ کے کردار کا مکمل مشاہدہ کیا ہو، اور انسانی نگاہ سے نہیں عرفانی، ایمانی اور منصبی نگاہ سے مشاہدہ کیا ہو اس کی عظمت کردار کی بہترین دلیل ہے کہ ایسے ماحول میں پرورش پانے والا اپنے کرداروں کا وارث اور ایسے حالات کا دیکھنے والا عام انسان بھی اچھے خاصے کردار کا حامل ہوسکتا ہے اور جس کی تربیت اسلام کی آغوش میں ہوئی ہو، جس کی رضاعت شیر ایمان سے مکمل ہوئی ہو، اور جس نے درسگاہ علام الغیوب سے علوم و کمالات حاصل کئے ہوں اور ابتدا ہی سے بزرگوں کے ساتھ مختلف مجاہدات میں شریک رہا ہو۔
حضرت ابوطالبؑ کا پوتا اور وارث ہونا بھی ایک مکمل تاریخ کی نشان دہی کرتا ہے جس میں ایثار، قربانی، جہاد، حفاظتِ دین، تحفظ ناموس رسولؐ جیسے جذبات پائے جاتے ہیں اور جس تاریخ میں اپنے بچوں کا فاقہ گوارا ہے خدا کے رسولؐ کی بھوک گوارا نہیں ہے۔ اپنے بچوں کی قربانی گوارا ہے حبیب کبریاؐ کی قربانی گوارا نہیں ہے۔
امام حسینؑ ایک ایسے خاندان کے چشم و چراغ تھے اور ایک ایسے ہی مقدس اور پاکیزہ ماحول کی ایک فرد تھے۔ امام حسینؑ کے حالات، معاملات، اخلاقیات، آداب، خیالات، رجحانات کا قیاس دنیا کے دوسرے انسانوں پر نہیں ہوسکتا ہے لہٰذا امام حسینؑ کے جہاد کا موازنہ بھی دنیا کی کسی جنگ سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔
کربلا کا واقعہ امام حسینؑ کی طرف سے حفاظت اسلام کا انتظام تھا تو یزید کی طرف سے شکست کفر کا انتقام۔ کربلا کے نتیجہ کا فیصلہ اس طرح آسان ہے کہ اگر یزید کا کفر باقی رہ گیا تو انتقام کامیاب ہوگی اور اگر امام حسینؑ کا بچایا ہوا اسلام باقی رہ گیا تو انتظام کامیاب ہوا اور انتقام دوبارہ شکست کھا گیا۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی تھا کہ عیسائیت اپنی شکست کا انتقام لینا جانتی تھی اور اس کے لئے میسونہ کو ذریعہ بنایا گیا تھا۔ امام حسینؑ نے دونوں طرح کے انتقام کا مقابلہ کیا اور یہ واضح کردیا کہ یزید دو طرف سے کفر کا وارث ہے، پدر کے اعتبار سے مشرکین کا وارث ہے اور مباہلہ کے اعتبار سے نصاریٰ نجران کا وارث ہے۔ اور میں بدر و احد کے اعتبار سے محمد مصطفیؐ اور علی مرتضیٰؑ کا وارث ہوں اور مباہلہ کے اعتبار سے جان پنجتنؑ اور عیسیٰ روح اللہ کا وارث ہوں جنھوں نے گہوارہ ہی میں اعلان کردیا تھا کہ میں بندۂ خدا ہوں فرزند خدا نہیں ہوں۔
امام حسینؑ کے اقدام کی صورت حال بھی یہی تھی کہ انھوں نے مشیت الٰہی کے مطابق وہ وقت، موقع اورمقام منتخب کیا تھا جہاں جان کی قربانی بربادی نہیں تھی بلکہ ایک عظیم تر اور وسیع تر حیات کا پیش خیمہ تھی۔ انھیں معلوم تھا کہ اس قربانی کے نتیجہ میں ظلم کے حوصلے پست ہوںگے، مظلوم کو بولنے کا موقع ملے گا، ترمیم شریعت کا راستہ بند ہوجائے گا، خلافت کے نام پر منکرات کا سلسلہ موقوف ہوجائے گا اہل دنیا کو قانون الٰہی میں دخل اندازی کا موقع نہ ملے گا۔ اور جس ماحول میں بڑے بڑے صحابہ زادوں کو بولنے کی تاب نہیں ہے اس ماحول میں ایک مرد نابینا یا مرد نصرانی بھی حاکم وقت کو ٹوکنے کا حوصلہ پیدا کرے گا اور یہ حوصلہ تحفظ دین و شریعت کے اعتبار سے بے حد مفید ہوگا۔
امام حسینؑ نے اپنی قربانی ان تمام مصالح کے پیش نظر دی ہے اور وہ سارے فوائد حاصل کرلئے ہیں جو ایک شہادت سے حاصل کئے جاسکتے تھے اسلام کو حیات جاودانی دے دی ہے۔ شریعت کو تحفظ فراہم کردیا ہے ۔ قرآن کو سربلند کردیا۔ کعبہ کی عظمت و کرامت کو بچا لیا ہے اور دین محمدیؐ کو استحکام و دوام عطا کردیا ہے۔
یہی حال خاصان خدا کی حیات کا ہے کہ اس میں زحمتیں، مصیبتیں، آفتیں سب ہیں اور حادثات کی کثرت بھی ہے۔ کوئی پتھر میں دبا دیا گیا، کوئی آرے سے چیر دیا گیا، کس پر کوڑا پھینک دیا گیا، کوئی سخت ترین مصائب کا شکار ہوگیا۔ لیکن ان تمام مصائب و آفات کو ان کی ناکامی کی علامت نہیں قرار دیا گیا بلکہ اللہ والوں کی فوج کو کامیاب اور کامرانی کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔
اہل دنیا کی نگاہ میں یہی مصائب و آلام کی علامت ہوسکتے ہیں کہ وہ خدمات سے راحت چاہتے ہیں، تبلیغات مفاد دنیوی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ والے ان مصائب کو اس وقت تک اپنی ناکامی نہیں تصور کرتے جب تک کہ ایک شخص کے بھی راہ راست پر آ جانے کا امکان ہوتا ہے کہ ان کا مقصد اس دنیا میں راحت و آرام طلبی نہیں ہے۔ وہ بندگان خدا کو راہِ خدا پر چلانے اور منزل قرب الٰہی تک پہنچانے کے لئے آئے ہیں اور جب تک یہ کام ہوتا رہے گا وہ اپنے کو کامیاب تصور کرتے رہیںگے ارو اپنے تصور میں حق بجانب رہیںگے۔
کیا یہ تاریخ کی عظیم حقیقت نہیں ہے کہ جس مرد مجاہد نے بڑے بڑے معرکے سر کئے، نام آور پہلوانوں کے گلے کاٹے، ایک ایک وار میں مرحب و مرکب کے دو ٹکڑے کئے، دو انگلیوں سے درخیبر اکھاڑ دیا، ایک ضربت سے کل کفر کا خاتمہ کردیا، ایک اکیلے دم پر سارے لشکر سے مقابلہ کرلیا وہ ان تمام مجاہدات و فتوحات کو اپنی کامیابی کے اعلان کا محل نہیں قرار دیتا اور جب سر پر ابن ملجم کی تلوار لگتی ہے تو اعلان کرتا ہے کہ ’’رب کعبہ‘‘ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔
امام حسینؑ کی اصولی کامیابی کے بعد حالات زمانہ کا جائزہ لیا جائے تو ہر دور کے حالات امام حسینؑ کی کامیابی کا ببانگ دہل اعلان کررہے تھے۔ یزید کامیاب ہوتا تو اس کی کامیابی کے اثرات ہوتے۔ لیکن آج نہ اس کی قبر کا نشان ہے نہ اس کے زائرین ہیں، نہ چند بندگانِ زر کے علاوہ کوئی اس کا نام لیوا ہے، نہ اس کی بارگاہ ہے نہ اس کا تذکرہ ہے، نہ اس کی راہ میں فداکاری ہے، نہ اس کا پرچم ہے، نہ اس کا کوئی نام و نشان ہے۔ اور اگر کوئی نام ہے بھی تو داخل دشنام ہے۔
لیکن امام حسینؑ آج بھی ہر جہت سے فاتح ہیں اورہر محرم ان کی فتح کا اعلان کرتا ہے۔ ہر گھر میں عزاخانہ انھیں کا سجایا جاتا ہے، ہر شاہراہ پر پرچم انھیں کا لہراتا ہے، ہر بزم میں تذکرہ انھیں کا ہوتا ہے، ہر پیاسے کو پانی انھیں کے نام پر پلایا جاتا ہے، ہر قانون الٰہی اور بقلم اسلام کا چرچا انھیں کی مجالس میں ہوتا ہے، ہر اخبار انھیں کا تذکرہ کرتا ہے۔ ہر رسالہ انھیں کا نمبر نکالتا ہے، ہر مسلمان انھیں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے، ہر شریف غیرمسلم انھیں کی بارگاہ میں سرنیاز جھکاتا ہے، ہر فوج انھیں کو تاریخ ساز قرار دیتا ہے، ہر انقلابی انھیں کو ہیرو تسلیم کرتا ہے، ہر مومن انھیں کو اپنا سردار تسلیم کرتا ہے، ہر سپاہی کو انھیں کے جہاد سے حوصلہ ملتا ہے، اور ہر باطل انھیں کے نام سے گھبراتا ہے۔غرض حسینؑ غریبوں کا سہارا، اسلام کا عزم جاوداں، مجاہدوں کی طاقت، شریعت کے پاسباں، اور محمدیت کے ادبی نگراں ہیں۔
علامہ اقبالؔ امام حسینؑ کو نظم میں اس طرح پیش کرتے ہیں:
امامِ عاشقان، معنی ذبحِ عظیم، راکب دوشِ ختم المرسلینؐ، ہمچو قل ہو اللہ در کتاب، صحابِ قبلہ، سرِّابراہیمؑ واسماعیلؑ، حافظ آئین مصطفی ؐ،ریگزار کربلا پر اپنے خون سے نقش الا اللہ لکھنے والا، کاروان سالار عشق، منتہائے صبر، حافظِ جمعیتِ خیرالاممؑ۔اقبالؔ آگے چل کر کہتے ہیں:’’فاطمۃ الزہراؑکا لخت جگر، امام عالی مقام اور بستان رسولؐ کا سرو آزاد، اللہ اللہ سی علوئِ مرتبت کا پدرگرامی بائے بسم اللہ یعنی قرآن مجید کی مفصل تفسیر ہے اور وہ خود آیۂ ذبحِ عظیم کی تعبیر ہے۔ یہی آیت قرآن تاریخِ اسلام کی بنیاد ہے جس کو شاعر نے اس طرح پیش کیا ہے ؎
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؑ ابتداء ہے اسماعیلؑ
اسی شہزادۂ خیرالملل کے لئے دوش ختم المرسلینؐ ’’نعم الجمل‘‘ ہے۔ عشق غیوراسی صاحبِ شکوہ کے خون سے سرخرو ہے اور اس کے خون کی سرخی اس مصرع کے مضمون کی شوخی اور دلاویزی ہے۔ امت رسولؐ میں وہ کیواں جناب ہمچو ’’قل ہو اللہ‘‘ در کتاب ہے۔ موسیٰؑ و فرعون اور شبیرؑ و یزید ایسی متحارب دو قومیں ہیں جو ہمہ وقت برسرپیکار رہتی ہیں۔ حق قوت شبیریؑ سے زندہ ہے اور باطل کی قسمت میں آخر داغِ حسرت و ناامیدی ہے۔ جب خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ منقطع کیا یعنی خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوئی تو مسلمانوں کی حریت و آزادی کا جذبہ مسموم ہوگیا۔آخر میں اپنی بات کو شاعر کے ان اشعا پر تمام کرتا ہوں کہ ؎
کسی نے مجھ سے پوچھا حسینؑ! کون حسینؑ
بتایا میں نے کہ دنیا میں ہے ایک حسینؑ
نہ اس سے پہلے کوئی تھا نہ دوسرا ہوگا
نہ کربلا کا کبھی اور واقعہ ہوگا
لکھی ہے خون سے تاریخ کربلا جس نے
نثار کردئیے احباب و اقربا جس نے
اسی حسینؑ کا ہم ذکر آج کرتے ہیں
اسی کی فکر زمانے میں عام کرتے ہیں
(9596267110)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here