‘
ڈاکٹر عابد الرحمن ( چاندور بسوہ)
لیجئے جہیز کی مانگ کو لے کر ابھی ہما ری ایک بیٹی عائشہ کی خود کشی کی وجہ سے دل پر لگا زخم بھرنا شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ اتر پردیش کے بدایوں میں ایک دوسری بیٹی نے خود کشی کر کے اس زخم کو مزید گہرا کردیا ۔ خبر کے مطابق بدایوں کی بیٹی کی ابھی شادی کو صرف چار روز باقی تھے کہ منگیتر نے شادی کے لئے بائک اور دیگر سامان کی شرط رکھ دی ، معاملہ پنچایت تک پہنچا اور پنچایت بھی اسے حل نہ کرپائی ایک بیوہ ماں کی بیٹی کو خود کشی کے سوا کوئی راستہ نہ سوجھا اور اس نے پھندے سے لٹک کر اس دنیا کو ہی خیر باد کہہ دیا جو جہیز کی لالچ میں انسانیت کی حد سے بھی گرچکی ہے ۔جہیز کا معاملہ یہ ہے کہ سماج میں کوئی بھی اسے اچھا نہیں سمجھتا ،اس لعنت کے سد باب کے لئے لمبی چوڑی باتیں تو سبھی کرتے ہیں لیکن عملی اقدام بہت کم ہوتے ہیں ، تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے کچھ لوگ جہیز کی اس قبیح رسم کو بھی اسلام کے مطابق ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیںکچھ elite مہذب اور اسلامی شناخت رکھنے والے لوگ بھی جہیز کے خلاف اقدامات اس بات پر ختم کر دیتے ہیں کہ سسرال ( لڑ کے والوں ) کی طرف سے کسی قسم کی کوئی مانگ یا دباؤ نہ ہو،یعنی لڑ کی کے والدین نے ’اپنی خوشی سے اپنی بیٹی کو جو کچھ دے دیا وہ جائز!! اب یہ’ اپنی خوشی‘ والا معاملہ بڑا پیچیدہ ہے ، امیر طبقہ اپنی اس خوشی کے لئے پانی کی طرح پیسہ خرچ کرتا ہے اور اپنی بیٹی کو دنیا کی تمام انمول ترین چیزیں دینے کی کوشش کرتا ہے اور تقریباََ ہر جگہ اس کی نمائش بھی کی جاتی ہے اور یہ نمائش امیروں کی اس خوشی اور اپنی بیٹی کو دئے گئے تحا ئف کو سماج کے تما م طبقات کے لئے ضروری بنا دیتی ہے، لڑکے والوں کوا س چاہ میں مبتلاکردیتی ہے کہ انہیں اسی طرح تحائف ملیں اور لڑکی والوں کو یہ خوف لاحق کردیتی ہے کہ اگر اتنا نہیں دیا توسسرال میں لڑکی کو تکلیف ہو سکتی ہے طعن و تشنیع اور اس سے آگے بڑھ کر گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور یہ صورت حال غریبوں کے لئے بڑی کٹھن ہے کہ وہ’ کوئی مانگ ‘نہ ہونے کی صورت میںبھی جہیز کی خواہش پوری طرح پوری نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنی بیٹی کی شادی سے انکار کر سکتے ہیں ۔امیروں کی طرح جہیز دینے کے لئے ان کے پاس ایک ہی راہ بچتی ہے کسی پراپرٹی کی فروخت یا قرض ،پراپرٹی کی فروخت میں بھی اکثر قریبی لوگ مجبوری کا فائدہ اٹھا کر کم قیمت پر خرید لیتے ہیں اورقرض تو وہ بھی آج کل سود کے بغیر نہیں ملتا جس کی ادائیگی میں والدین کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔جہیز ہمارے سماج کا ناسور ہے کہ دکھائی بھلے نہ دے اندر جوں کا توں باقی رہتا ہے اور ہم اس وقت اس کے متعلق سوچنے لگتے ہیں جب ہماری کوئی بیٹی یا تو اس کی بھینٹ چڑھادی جاتی ہے یا اتنی مجبور کردی جاتی ہے کہ وہ خود انتہائی اقدام کر بیٹھتی ہے ۔لیکن اس وقت بھی ہم لوگ جہیز کی اس لعنت کو ختم کرنے کے عملی اقدامات سوچنے اور میدان عمل میں کودنے کے بجائے خود کشی کرنے والے مجبوروں کو ہی درس دینا شروع کردیتے ہیں۔
جہیز کی یہ لعنت محض تقاریر و جلالی بیانات اور ہماری طرح اخبارات کے صفحات سیاہ کرنے سے ختم نہیں ہونے والی اس کے لئے عملی اقدامات ضروری ہیںجو سب سے پہلے علم و فضل والے ان ذی شعور لوگوںاور امیروں یا صاحب ثروت لوگوں کی ذمہ داری ہے سماج جن کے ا عمال کو قابل تقلید سمجھتا ہے ۔ ایسے لوگوں نے جہیز کی اس مذموم رسم کو بالکل خیر باد کہہ کر معاشرے میں ایک مثال قائم کر نی چاہئے ۔ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ جن کو اللہ نے مال نہیں دیا وہ مال والوں کی نقل میں اصراف نہ کریں‘ ٹھیک ہے یہ بات بھی صحیح ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ آ ج کا معاشرہ ایسا ہو گیا ہے کہ کئی مسلم لڑ کیوں کو ’ کم جہیز لانے کے عوض سسرال میں طعن و تشنیع بر داشت کر نی پڑتی ہے ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ جہیز کی وجہ سے ہماری کئی بہنوں کو قتل بھی کیا گیا اور کئی بہنوں کو خود کشی کے لئے بھی مجبور کردیا گیا ۔ایسے حالات میں ہم لڑ کیوں کو جہیز نہ دینے یا کم دینے کی وکالت کس طرح کر سکتے ہیں ،کوئی بھی باپ یا بھائی چاہے غریب ہو، یہ بالکل نہیں چاہے گا کہ اس کی بیٹی یا بہن کو سسرال میں کوئی تکلیف ہو ۔ اس کی سب سے بڑی ذمہ داری امیروں پر ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادیاں سادہ کریں تاکہ غرباء کے لئے شادیاں خود بہ خود سادہ اور آ سان ہو جائیں ۔
امیروں کے بعدجہیز کی اس لعنت کے سدباب کی ذمہ داری لڑ کے والوں پر ہے اگر لڑ کے والے جہیز لینے سے بالکل اور سختی سے انکار کردیں تو اس قبیح رسم کا سدباب ہو سکتا ہے ، لیکن یہاں بھی یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ جہیز لینے سے انکار کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ نکاح کے بعد ساری زندگی اس بات کو نباہنا بھی اشد ضروری ہے ، زندگی میں کبھی بھی آ پکی زبان پر اپنے جہیز نہ لینے (یا لڑ کی ولوں کے نہ دینے )کی بات نہیں آ نی چاہئے ، جس دن آپ کی طرف سے یہ بات ہو گئی سمجھ لیجئے اس دن آپ کا سب کیا کرایا اکارت ہو گیا بلکہ یہ بات بھی جہیز کا جواز بنائی جا سکتی ہے کہ جہیز نہیں لینے والے بھی اس کا طعنہ ضرور دیتے ہیں،اور جہیز کے معاملہ میںزیادہ تر لین دین جو ہوتا ہے وہ اسی طعنہ کو رو کنے کے لئے ہو تا ہے۔ الحمد للہ ہمارے نوجوان جہیز کے خلاف آ گے آ رہے ہیں اور خود عمل کر کے لوگوں کے لئے مثال بھی بن رہے ہیں گوکہ ایسے لوگوں کی تعداد ابھی اتنی زیادہ نہیں ہوئی کہ معاشرہ میں بڑے پیمانے پر اس کا اثر دکھائی دے۔ لیکن اب’ بغیر جہیز کی شا دیوں ‘ میں ایک نئی رسم بھی دکھائی دے رہی ہے کہ ایسی شادیوں میں جہیز تو نہیں لیا یا دیا جاتا لیکن سونا معمول سے زیادہ دیا جا رہا ہے یعنی لڑکے والوں کے منع کرنے کی وجہ سے جہیز نہ دینے سے جو رقم بچ رہی ہے اس سے زیادہ سونے میں خرچ کی جارہی ہے یعنی آسمان سے گرے کو کھجور میں اٹکایا جا رہا ہے اگر جہیز کی لعنت کی جگہ اس نئی رسم نے لے لی تو خدشہ ہے کہ یہ جہیز سے بھی زیادہ ہلاکت خیز ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے بہت سے لوگ سوشل میڈیا میں اس کی حمایت بھی کررہے ہیں کہ جو مولوی حضرات ہم پر احسان جتاتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کی زندگی ان کے بغیر ادھوری ہے ہمیں پیدائش کی ازان سے لے کر نماز جنازہ تک ان کی ضرورت ہے وہ سب ایک ساتھ بلا کسی تفریق مسلک و جماعت آگے بڑھیں اورہم پر ایک احسان اور کریں کہ ہر ہر شادی میں نہ صرف یہ کہ جہیز کی لعنت کے خلاف کھل کر اور جم کر بولیں بلکہ ایسی شادیوں کا بائیکاٹ بھی کریں جن میں جہیز کا لین دین ہو ۔ نکاح نہ ہوسکے گا تو شادی ہی کیا ہوگی۔اسی طرح اجتماعی طور پر محلہ اور گاؤں کی سطح پر ذمہ دار لوگوں نے شادی کے فریقین کو جہیز کی رسم ترک کرنے کے حق میں سمجھانا اور ابھارنا بھی چاہئے ۔ اجتماعی طور پر اس رسم کو ختم کرنے کا ایک متبادل یہ بھی ہے جسے ہمارے علاقے کے کچھ لوگوں نے شادیوں میں بینڈ باجے کو ختم کرنے کے لئے اپنایا ہے کہ وہ ہر اس بارات پر پتھراؤ شروع کردیتے ہیں جو بینڈ باجے کے ساتھ نکلتی ہے۔ ایسا پتھراؤ موثر ہونے کے باوجود ٹھیک نہیں بلکہ فتنہ پرور بھی ہو سکتا ہے لیکن جہیز والی شادیوں کا صرف اجتماعی بائیکاٹ ہی کیا جائے تو بھی اس کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور ہماری بہن بیٹیاں اس آگ میں جلنے سے اور انتہائی اقدام کر نے سے محفوظ کی جا سکتی ہیں۔
[email protected]